منزل سے آگے منزل تلاش کر

منزل سے آگے منزل تلاش کر

محمد افروز رضا مصباحی 

صبح کا منظر حسین ہوتا ہے۔گزرتی رات اور برامد ہوتے صبح کی سفیدی ایک نئے دن کا پیام دیتی ہے۔قدرتی مناظر آنکھوں کو تازگی عطا کرتی ہے۔ مشرق سے ابھرتے ہوئے آفتاب کی ہلکی روشنی یہ پیغام دیتی ہے کہ ابتدا معمولی ہو تو معمولی نہ سمجھو یہ معمولی روشنی وقت گزرنے پر آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔کوئ اس سے آنکھ نہیں ملا سکتا۔

انسان کو بھی اللہ موقع دیتا ہے ابھرنے کا، چمکنے کا،پھر پوری تابانی کے ساتھ منظر عام پر آنے کا۔جس نے موقع کو سمجھا وہ ضرور کامیابی کی منزل کو پہنچا ۔اس دنیا میں ہر شخص کا حصہ موجود ہے ۔اب کون کس طرح لیتا ہے یہ اس کے ظرف کی بات ہے۔

اللہ کی یاد میں رہنے والا، اس سے مدد مانگنے والا،اس پر بھروسہ کرنے والا، اس کے رحم و کرم پر اعتماد کرنے والا مایوس نہیں ہوتا۔وہ تو پالنہار ہے ہر ایک کے رزق کا ذمہ اس نے خود اپنے اوپر لیا ہے۔کامیابی وہی دیتا ہے۔منزل تک وہی پہنچاتا ہے ۔دیر ہوسکتی ہے، تاخیر ہوسکتی ہے لیکن نامید نہیں کرے گا۔ تمہاری طلب جس شدت کی ہوگی اسی کے مطابق آسمان پر تمہارے لئے فیصلے ہوں گے۔جب فیصلہ ہوجائے گا تو اس کے بعد اس بندۂ خدا کی زندگی میں اصل خوبصورتی آجاتی ہے، اس کے ہر قول وفعل میں نکھار آجاتا ہے، اس میں امانت داری وپاکبازی کا جزبہ پیدا ہوتا ہے، اسے اپنی زندگی کا اصل اطمینان حاصل ہو جاتا ہے، اس میں اخلاقی حس بیدار ہو جاتا ہے، اس کا چلنا پھرنا نہ صرف اپنے آپ کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے خیر کا باعث بن جاتا ہے، وہ اپنا ہی نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کا بھی طالب ہو جاتا ہے، اسے ہر حیثیت سے اطمینان حاصل ہو جاتا ہے۔

انسان اپنے آپ کو پہچان لے تو خدا کی پہچان ہوجاتی ہے جسے خدا کی پہچان ہوجائے ساری خدائی اس کی ہو جاتی ہے۔

مارٹن لوتھر نے کا مشورہ بہت خوب ہے۔

اگر آپ اُڑ نہیں سکتے تو ، دوڑو۔اگر دوڑ نہیں سکتے تو، چلو۔اگر چل نہیں سکتے تو، رینگو۔لیکن آگے بڑھتے رہو۔۔۔

اپنی سوچ اور سمت درست رکھیں ، کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

ڈاکٹر اقبال کی یہ نظم منزل کے متلاشی کو حوصلہ دیتی ہے:

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر

مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر

ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے

پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر

سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئیں

دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر

ایمان تیرا لٹ گیا رہزن کے ہاتھوں سے

ایماں تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر

ہر شخص جل رہا ہے عداوت کی آگ میں

اس آگ کو بجھا دے وہ پانی تلاش کر

کرے سوار اونٹ پہ اپنے غلام کو

پیدل خود چلے جو وہ آقا تلاش کر

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی