جانشین حضور فقیہ اسلام مفتی محمد یحییٰ رضا مصباحی کے مختصر حالات
از۔۔۔۔ محمد افروز رضا مصباحی،گلبرگہ
فقیہ اسلام علیہ الرحمہ کی نرینہ اولاد میں مخدوم زادے مولانا یحییٰ رضا مصباحی کا نمبر تیسرا ہے۔اولاد میں بڑے شعیب رضا،ان کے بعد یونس رضا ہیں۔ آخری نمبر مصطفےٰ رضا کاہے۔ ایک صاحبزادی ہے۔دینی تعلیم تو سبھی بچوں نے حاصل کی لیکن عالم فاضل بننا یحییٰ رضا کے حصے میں آیا،نیابت و جانشینی کا تاج ان کے سر سجایاگیا۔
چھریرا بدن،ابھرتا قد،چہرے پر خوبصورت داڑھی،کشادہ پیشانی ہے۔لباس میں کلی دار کرتا،کلی دار پاجامہ پہنتے ہیں۔صدری کا استعمال بہت کم کرتے ہیں۔ اِدھر چند سالوں سے سفید جبہ زیب تن کرنے لگے ہیں۔بریلی ٹوپی، برکاتی ٹوپی سر پر ہوتی ہے۔عالم دین ہونے کی حیثیت سے عمامہ کبھی کبھی عمامہ باندھ لیا کرتے تھے، تحریک دعوت اسلامی کے ادارے سے وابستہ ہونے پر پہلے ہر ا عمامہ باندھا کرتے تھے۔عمامے کے کلر میں تنوع کی اجازت ملنے کے بعد کئی طرح کے عمامے سر پر سجانے لگے ہیں۔سفید کو ترجیح حاصل ہے۔
پیدائش:۔مولانا یحییٰ رضا کی پیدائش 1973ء میں ہوئی۔ بنگالی پنجہ کی رضا مسجد میں حضرت مفتی صاحب قبلہ امامت و خطابت فرماتے تھے،مولانا یحییٰ رضا نے ناظرہ قرآن یہیں ختم کیا۔اسکو ل میں ساتویں کلاس تک تعلیم حاصل کرنے کے بعددینی تعلیم کے لیے والد گرامی نے پیر بخش اللہ شاہ اشرفی علیہ الرحمہ کے قائم کردہ ادارہ جامعہ اشرفیہ اظہار العلوم برہان پور میں داخل کیا یہا ں رہ کر مفتی محبوب اشرفی صاحب کے پاس فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھی۔یہاں سے رخصت ہوکرالہ آباد پہنچے اور مفتی رحمت اللہ صاحب کے پاس رہ کر ابتدائی مفید کتابوں کا درس لیا۔دارالعلوم قادریہ بدایوں میں بھی چند کتابیں پڑھیں۔شیخ اسید الحق ازہری علیہ الرحمہ شہید بغداد آپ کے ہم سبق رہے۔ 1993ء میں اہل سنت کی مرکزی درسگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور چلے گئے۔مبارکپور میں داخلہ کیسے ہوا؟ یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ مولانا یحییٰ رضا نے بتایا: ٹیسٹ دے کر سینٹرل بلڈنگ سے آرہا تھا کہ شارح بخاری علیہ الرحمہ نے دیکھ لیا (ان کے نام والد گرامی نے خط بھیجا تھا جس کی وجہ سے وہ پہچاننے لگے تھے)مجھے قریب بلایااور کہا: جوابات لکھے ہو؟
میں نے کہا:ہاں۔ شارح بخاری علیہ الرحمہ نے سوالیہ پرچہ لے کر سوالات کیے۔میں نے جوابات دے دیے۔شارح بخاریہ علیہ الرحمہ نے کہا:جاؤ تمہارا داخلہ ہوگیا۔
اس طرح آپ کا داخلہ ہوگیا۔ چھ سالوں تک یہاں رہ کردرس نظامی کے اسباق مکمل کیے۔ 1999ء میں اکابر علمائے کرام و مشائخین عظام کے ہاتھوں دستارفضیلت سے نوازے گئے۔اسی سال چونکہ جامعہ کی تایخ میں سب سے بڑی اسٹرایک ہوئی تھی جس کی وجہ سے طلباکی تعلیم داؤ پر لگی ہوئی تھی، انجام کار تاریخ کا حصہ ہے۔ لہذا یہ آخری سال آپ کے لیے بڑا صبر آزما رہا۔ساتھیوں کا دباؤ تھا کہ تمام طلبہ نے دستخط کردیے ہیں آپ بھی کرو۔ اِدھر والد صاحب کا فرمان تھا۔چاہے کچھ ہوجائے،اساتذ ہ کے خلاف نہیں جانا، تعلیم سے زیادہ اساتذہ کی عزت و تعظیم لازم و ضروری ہے،عزت و تعظیم کو مقدم رکھتے ہوئے مدرسہ سے چھٹی لے کر ناگپور آگئے۔
تدریسی خدمات:فراغت کے بعد آپ نے جامعہ ضیائیہ فیض الرضا ددری،ضلع سیتا مڑھی بہار،دو سال تدریسی خدمات انجام دی۔یہاں کی فضا طبیعت کے موافق نہ پاکر سدی پیٹ (آندھرا پردیش)کے دینی ادارہ دارالعلوم انوار مصطفےٰ میں تدریسی منصب پر فائز ہوئے۔ سدی پیٹ سے رخصت ہوئے تو ممبئی میں تحریک ”دعوت اسلامی“ کے مرکزی ادارہ ”فیضان مدینہ“میں درس وتدریس سے وابستہ ہوئے تاحال منصب تدریس پر فائز ہیں۔ تحریک کی مجلس شوراء کے رکن بھی ہیں۔کافی مصروف زندگی گزار رہے ہیں۔
بیعت و ارادت:بچپن میں ہی نبیرہ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے مرید ہوئے۔آپ کو درج ذیل بزرگوں سے اجازت و خلافت حاصل ہے:
1۔والد گرامی حضور فقیہ اسلام مفتی عبدالحلیم رضوی اشرفی علیہ الرحمہ
2- ۔نبیرہ اعلیٰ حضرت حضور امین شریعت علامہ سبطین رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ
3- ۔شیخ الاسلام حضور سید مدنی میاں اشرفی مدظلہ العالی
4-اشرف الفقہامفتی مجیب اشرف رضوی علیہ الرحمہ
5-۔شیخ محمد عارف ضیائی مدنی
6.۔نبیرہ اعلیٰ حضرت حضور منان رضا عرف منانی میاں دام ظلہ
شادی و اولاد و امجاد:۔ان کی شادی 2003 ء میں مقصود پور ضلع مظفر پور میں الحاج محمد نسیم صاحب(مرحوم) استاد الجامعۃ القادریہ مقصود پور کی صاحبزادی سے ہوئی۔ابھی دو بچے ایک لڑکا سلمان رضا، ایک لڑکی عافیہ ہے۔سلمان رضا نے حفظ قرآن مکمل کرلیا ہے۔ ممبئی میں ہی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
خلافت و جانشینی:۔2014ء کے سالانہ جلسہ کے موقع پر جامعہ ضیائیہ فیض الرضا ددری کے اسٹیج سے حضور فقیہ اسلام علیہ الرحمہ نے آپ کی خلافت و جانشینی کا اعلان کیااور دستاربندی کی۔ تحریر ی شکل میں مولانا نیاز احمد مصباحی پنڈولوی نے پڑھ کر سنایا۔
مفتی صاحب قبلہ کی حیات میں بہت سے لوگوں نے کہا کہ مولانایحییٰ رضا کو لے کر سفر کیا کریں تاکہ علاقہ کا دورہ بھی ہوجائے گا اور لوگوں میں پہچان بھی بن جائے گی۔ آپ کے بعد جانشین ہوں گے تو حق جانشینی ادا کرنے میں سہولت ہوگی۔ لیکن والد اور بیٹے دونوں کی سوچ الگ الگ تھی۔
والدبزرگوار کا ماننا تھا کہ میں نے اپنی لیاقت و صلاحیت کی بنیاد پر اپنی جگہ بنائی ہے۔ بیک سپورٹ کچھ نہیں تھا،نہ باپ دادا کی بنی بنائی جگہ تھی جس کا مجھے فائدہ ملا ہو۔لہذا مولانا اگر صلاحیت مند ہیں، ان کے اندر یہ گُن ہے کہ لوگوں کو اپنی جانب ملتفت کرلے تو ان کی ذاتی صلاحیت ہوگی۔وہ بھی اپنی دنیا آباد کرلیں گے، اپنی فیلڈ بنالیں گے۔میرے ساتھ دورہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بیٹے کا ماننا تھا۔والد صاحب جتنا سفر کرتے ہیں یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ پیر صاحب بن کر بیٹھے رہنا تو کسی حال میں نہیں ہوگا۔ تدریس مجھے پسند ہے۔ درسگاہ میں پڑھنے والے بچے مجھے پسند ہیں، اتنا کافی ہے۔لہذا والد صاحب کی سوچ الگ، بیٹے کی سوچ الگ۔لہذا بہت کم سفر پر گئے۔جہاں اشد ضرورت رہی وہیں ساتھ گئے۔فرصت ملتے ہی درسگاہ میں حاضر ہوگئے۔
ذمہ داریاں:۔والد بزرگوار کے وصال کے بعد جامعہ ضیائیہ فیض الرضا کی تمام تر ذمہ داری آپ کے اوپر آگئی ہے۔ والد بزرگوار کی موجودگی میں بھی کام کرتے تھے لیکن والدکی موجودگی اولاد کو زیادہ سنجیدہ نہیں کرتی۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔عالمی موذی بیماری کرونا کی مہاماری نے مدارس کو سخت نقصان پہنچایاہے،ادارہ ہذا بھی اس سے منزہ نہیں ہے،نیز دیگر معاملات میں ادارے سے وابستہ سارے فیصلے لینے ہیں۔ تقسیم کار تو ضرور ہے لیکن نگرانی بہرحال ان کی ذمہ داری ہے۔ ادارہ کے فروغ میں کون سا قدم اٹھانا ہے۔ منصوبے جات کو عملی جامہ پہناناہے۔لڑکیوں کے دینی ادارہ کا قیام سرفہرست ہے۔اس کے علاوہ دیگر کام ہیں جن کو زمینی شکل دینی ہے۔
اللہ پاک ان کو صبر و استقامت کے ساتھ والدگرامی کے چمن کی آبیاری کرنے کی ہمت و طاقت دے اور مضبوط ارادوں کے ساتھ ادارہ کو رواں دواں رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت مفتی صاحب قبلہ کے مریدین کو اپنے پیر صاحب کے جانشین کا ہر گام پر ساتھ دینے کا جذبہ اورچمن حلیمی کو گل و گلزار بنانے میں پہل کرنے کا حوصلہ عطا فرمائے۔نذیر بنارسی کا شعرمفتی محمد یحییٰ رضا مصباحی کے نذر:
بڑھتا ہوا حوصلہ نہ ٹوٹے دل کا
تو دائرہ محدود نہ کر منزل کا