مفتی عبدالحلیم رضوی اشرفی علیہ الرحمہ اور اتباع سنت

 حضور فقیہ اسلام اور اتباع سنت

مناظر اسلام حضرت علامہ مفتی الشاہ عبدالحلیم رضوی اشرفی علیہ الرحمہ کی حیات کے ایک گوشہ کو اجاگر کرتی تحریر

از قلم۔۔۔۔ محمد افروز رضا مصباحی، گلبرگہ

ایک مسلمان کے لئے جہاں خداوند قدوس کے حکم کی بجاآوری ضروری ہے یونہی رسول کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری لازم و ضروری ہے۔قرآن کریم میں رب ذوالجلال کا فرمان ہے : مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہ  (سورہ نساء:80) جس نے  رسول  اللہﷺ کی اطاعت  کی اس  نے اللہ  کی اطاعت  کی ۔ دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 

يَا أَيھُّا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّہَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَکمْ(سورہ محمد:33) 

اے ایمان والو اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور اپنے عمل باطل نہ کرو

اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی احادیث مروی ہیں یہاں صرف دو حدیث نقل کی جاتی ہے۔سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی(صحيح البخاري: 7137، صحيح مسلم: 1835)

صحیح بخاری میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی نبی کریم ﷺ نے فرمایا:میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی مگر جس نے انکار کیا،تو پوچھا گیا، یا رسول اللہ ! وہ کون ہے جو انکار کرئے گا؟آپ نےفرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت مین داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے جنت میں جانے سے انکار کردیا۔(صحيح البخاري: 7280)

اتباع رسول زمان و مکان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ایک مسلمان کی زندگی اتباع سنت کی آئینہ دار ہونی چاہئے، ہر موڑ ہر قدم پر اسوہ رسول پیش نظر رہنی چاہئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و پیروی میں ہی ہماری کامیابی و کامرانی پنہا ہے ۔شاعر نے کہا؛ 

ہمیں کرنی ہے شہنشاہ بطحا کی رضا جوئی

وہ اپنے ہوگئے تو رحمت پروردگار اپنی

اطاعت ِ رسول ﷺ کے بارے میں قرآنی  آیات واحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات روز روشن کی عیاں ہوجاتی ہےکہ دین میں اتباع سنت کی حیثیت کسی فروعی مسئلہ کی سی نہیں بلکہ بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے ۔اتباع سنت کے تقاضےچند عبادات کے مسائل تک محدود نہیں بلکہ ساری زندگی پر محیط ہونی  چاہیے۔جس طر ح حقوق اللہ میں اتباع سنت مطلوب ہے  اسی طرح اخلاق وکردار ،کاروبار، حقوق العباد اور دیگر معاملات میں بھی اتباع سنت ضروری ہے۔گویا اپنی پوری زندگی  میں خواہ انفرادی ہویا اجتماعی،خلوت میں ہو یا جلوت میں، بیوی بچوں کےساتھ ہو یا دوست احباب کے ساتھ  ،ہر وقت ،ہرجگہ سنت کی پیروی مطلوب ہے ۔محض عبادات کے چند مسائل  پرتوجہ دینا اور زندگی کے باقی معاملات میں سنت کی پیروی کو نظر انداز کردینا کسی طرح بھی محمود اور پسندیدہ نہیں ۔

جو شخص متبع سنت و شریعت ہو ان سے اہل دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے ان کی زندگی دوسروں کے لئے مثالی ہوتی ہے ۔ مثالی شخصیت بننے کے لئے ہمارے لئے شریعت ایک کسوٹی ہے جو اس کے میزان پر کھرا اُترے وہ ہمارے لئے قابل فخر ہے۔قابل اتباع وہی شخص ہے جو شریعت مطہرہ کا پابند اور اتباع سنت جن زندگی کا لازمی جزو ہو، شریعت کے سانچے میں شخصیت کو پرکھاجاتا ہے، شخصیت کے اعمال کو شریعت نہیں بنایا جاتا جہاں برعکس معاملہ ہو وہاں شریعت کی پاسداری نہیں شخصیت پرستی کو بڑھاوا ملتا ہے۔

 بیسویں صدی کی ممتاز شخصیتوں میں ایک نام مناظر اہلسنت فقیہ اسلام حضرت علامہ مفتی الشاہ عبد الحلیم رضوی اشرفی رحمتہ اللہ علیہ کا ہے ۔ اکابر علمائے اہلسنت کی معیت میں جن کے شب و روز گزرے، وقت کے جید متبع سنت کو دیکھ کر جوانی میں قدم رکھا، مفتی افضل حسین مونگیر کی تربیت نے مال خام کو تراش کر آبگینہ بنایا، محدث بہار مفتی احسان صاحب فیض پوری نے جسے دینی علوم سے سیراب کیا، مفسر اعظم ہند کی نگاہ کیمیا نے جسے دینی علوم کی طرف راغب کیا، حضور مفتی اعظم ہند نے سفر و حضر میں ساتھ رکھ کر اتباع سنت کا درس دیا، مفتی عبد الرشید فتحپوری علیہ الرحمہ نے قومی خدمات سے روشناس کرایا ۔

یہ وہ عظیم شخصیات تھیں جنہیں دیکھ کر واقعی اللہ یاد آجاتا، جن کی رفتار و گفتار سے سنت نبویہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی یاد تازہ ہوجاتی، ان نفوس قدسیہ کی صحبت دین کی تعلیمات پر چلنے کا جذبہ فزوں کردیتی ۔ ان کی ہمنشینی خدا و رسول سے قربت ومحبت کا سامان پیدا کردیتی ۔"صحبت صالح ترا صالح کند" کی عملی تصویر دیکھنی ہو تو فقیہ اسلام مفتی عبد الحلیم رضوی اشرفی علیہ الرحمہ کی زندگی کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے انہیں دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کیے ۔ابھی ان کے صحبت یافتہ، ملاقات کرنے والے، ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے موجود ہیں ۔حضور فقیہ اسلام سنت و شریعت کے پابند تھے، انہوں نے زندگی کو سنت رسول کے سانچے میں ڈھالنے کی ہمیشہ کوشش کی ۔ ان کو دیکھ کر یقیناً خدا یاد آجاتا جو ایک مرد صالح ہونے کی علامت ہے ۔

حضور فقیہ اسلام نے شعور سنبھالنے کے بعد حقوق اللہ کی ہمیشہ پاسداری کی ۔مفتی یحییٰ رضا مصباحی کے مطابق ’’ابا حضور نماز کے پابند تھے، بلکہ صاحب ترتیب تھے، جس روز وصال فرمایا اس دن کی سبھی نمازیں ادا کی، انتقال کے وقت چونکہ عشاء کا وقت باقی تھا، لہذا فقہی مسئلے کے اعتبار سے اس نماز کی پرشش بھی نہیں " یونہی رمضان المبارک کے روزے پورے رکھتے، کئی رمضان میں بیمار ہوئے، مرض لاحق ہوا، ممکن حد تک روزے رکھے ۔

حقوق العباد کا بھی ہمیشہ خیال رکھا، بیماروں کی عیادت، ضرورت مندوں کی حاجت روائی، رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، مہمانوں کی مہمان نوازی کو بہت زیادہ اہمیت دی۔

آپ جب مرض الوفات میں تھے تو اپنے پوتے انس رضا ولد یونس رضا کو سینے سے لگایا اور فرمایا: اب تک ہم دونوں گھر چلایا کرتے تھے، اب تم اکیلے ہوجاؤ گے لیکن یاد رکھنا تمہارے گھر سے کوئی مہمان بھوکا نہ جائے ‘‘۔

جامعہ ضیائیہ فیض الرضا ددری آپ کی دینی خدمات کا عملی نمونہ ہے ۔ادارہ آپ کا ضرور ہے لیکن آپ نے زکوٰۃ و صدقات کی رقوم کو کبھی اپنے ذاتی مصرف میں نہیں لیا، نہ ادارے کی کوئی چیز استعمال کی ۔

یہ مشہور واقعہ ہے :آپ کھانا کھانے سے قبل سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے نمک استعمال کرتے ۔ایک مرتبہ گھر سے کھانا تو آیا لیکن نمک نہیں آیا ۔ایک طالب علم سے کہاگیا کہ نمک لے آؤ ۔طالب مدرسہ کے مطبخ سے نمک لے آیا ۔آپ نے استعمال کرلیا ۔کسی بتانے والے بتادیا نمک گھر سے نہیں مدرسہ کے مطبخ سے لایا گیا تھا،  آپ نے افسوس ظاہر کیا کہ گھر سے لانا تھا یا یہاں کے مطبخ سے؟  فوراً نمک کی قیمت مطبخ انچارج کے حوالے کردیا کہ ہم نے یہاں کا نمک کھایا ہے اس کی یہ قیمت ہے‘‘۔

لین دین میں بھی آپ بہت زیادہ محتاط تھے ۔ ناگپور میں آپ بنگالی پنجہ رضا مسجد کے امام و خطیب بھی تھے ۔الحاج عبد الستار جنتا کلاس سے آپ کے گہرے مراسم تھے ۔آپ چونکہ دعوت وتبلیغ کے لئے زیادہ تر سفر میں رہتے ۔ایک مرتبہ سفر میں نکلے تو کچھ زیادہ دن باہر رہ گئے جس سے گھر والوں کو پریشانیوں کا سامنا کر پڑ گیا ۔ایک دن ایسا بھی آیا کہ رات میں کھانا نہیں بنا، یہ بات کسی طرح حاجی عبد الستار جنتا کلاس کو معلوم ہوگیا ۔انہوں نے فوراََ کرانے کا ضروری سامان گھر بھجوا دیا۔آپ جب سفر سے واپس لوٹے تو انہوں نے شکایت کی کہ مجھے کہہ کر جاتے تو بچوں کو بھوکا نہیں سونا پڑتا ۔آپ وعدہ کریں کہ جب کبھی ضرورت ہوگی تو بلا جھجک کہہ دیں گے ۔آپ نے کہا:زندگی میں کبھی ایسا ہوا تو آپ اخراجات پورا کردیں مگر آنے کے بعد پائی پائی کا حساب ہوگا ۔حضور فقیہ اسلام نے کہا : اس کے بعد بھی ایسا ہوا حاجی صاحب نے گھر والوں سے معلومات لے کر سامان بھجوا دیا کرتے، میں آتا تو حساب برابر کردیتا ۔

درج ذیل واقعہ کے راوی محمد اسلم عطاری ہیں جو بلاسپور چھتیس گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں انہیں کی زبانی سنیے:

دوسرا واقعہ : ۔میرے آقا حضور مفتی عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا خوفِ خدا عزوجل و کمال درجے کا تقویٰ۔۔۔۔۔

یہ واقعہ جب کا ہے، جب حضرت اکیلے سفر کرتے یعنی آپ کے ساتھ سفر میں کوئی بھی ہوتا تھا اور آپ سلیپر کلاس میں بھی سفر کر لیا کرتے تھے۔

حضور مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ناگپور سے چنچنی گیورا بستی کوربا ایک جلسہ میں تشریف لا رہے تھے بلاسپور سے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ میرا ساتھ میں جانا طے تھا۔ مجھے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے لئے گھر سے ناشتا لےکر اسٹیشن جانا تھا اور آگے سفر میں حضرت کے ساتھ رہنا تھا۔

حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ ناگپور سے ٹاٹا پیسنجر سے سلیپر کلاس میں چانپا کے لئے روانہ ہوئے۔ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے کہا کی میں فجر کی نماز اور اپنے اورادو وظائف سے فارغ ہو کر میں سو جاؤں گا جب آپ آنا تو مُجھے اٹھا کر ناشتا کروا دینا۔

جب بلاسپور اسٹیشن پر گاڑی پہنچی تو میں نے دیکھا حضور مفتی صاحب رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ سوئے نہیں ہے بلکہ جاگ رہے ہیں اور کُچھ پریشان نظر آرہے ہیں۔

میں نے حضرت رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ سے عرض کیا کی آپ سوئے نہیں تو آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کی آج ایک معاملہ ہو گیا جس کی وجہ سے میں سویا بھی نہیں اور بے چین بھی رہا۔

حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بتایا کی جب گاڑی رائے پور پہنچی تو میں نے دوا ، گولی کھانے کے لیے میں نے بسکٹ لینے کے لئے پلیٹ فارم پر اُترا اور پہلے تو بسکٹ لیا پھر میری نظر کیک پر پڑھی تو میں نے بسکٹ واپس کر کے کیک لے لیا۔

لینے اور واپس کرکے کیک لینے میں اسٹال والے کے 5 روپیہ میرے پاس زیادہ آ گئے۔ جو کے میں نے دیکھا نہیں اور ٹرین چلنے لگی تو میں ٹرین میں چڑھ گیا اور جب اپنی سیٹ پر بیٹھ کر جب پیسے دیکھا تو 5 روپیہ زیادہ تھے۔

آہ !اس 5 روپیہ نے مُجھے بے چین کر دیا کہ میں اس 5 روپیہ کا قیامت میں کیسے حساب دونگا۔

میں نے عرض کیا کی اسٹال والا کیا مسلم تھا۔

حضور مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کی وہ مسلم تھا یا غیر مسلم اسکا تو علم نہیں بس اس 5 روپیہ کا حساب میں کیسے دونگا اس بات نے مجھے پریشان کر دیا، میرا چین لے لیا ہے۔

اب جب تک یہ 5 روپیہ جس کے ہیں اُسے واپس نہیں پہنچ جاتے مجھے سکون نہیں ملےگا۔

میں نے حضور مفتی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے عرض کیا کی آپ پریشان نہ ہوں میں رائے پور جاتا رہتا ہوں میں 5 روپیہ دے دوں گا۔ تو مفتی صاحب رحمۃ اللہ نے مجھ سے وعدہ لیا کی 5 روپیہ دے کر مجھے خبر ضرور کروگے میں نے وعدہ کیا تب حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ناشتا کیا۔

کوربا سے حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ناگپور واپس جانا تھا۔ کوربا میں حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ٹٹلاگر اوڈیسا سے فون آیا وہاں کُچھ مسائل ہو رہے تھے آپ۔ نے مجھ سے فرمایا کی میرا ٹکٹ۔ کینسل کر کے ٹٹلاگر کا ٹکٹ بنوا لیجئے حضرت کی خواہش پر  میں نےٹٹلاگر کے لیے اپنا ٹکٹ بنا لیا کہ وہاں سے حضرت رحمۃ اللہ علیہ ناگپور تشریف لے جائینگے اور میں بلاسپور آ جاؤں گا۔

میں بھی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ لینک ایکسپریس میں ٹٹلاگر روانہ ہوا ہماری ٹرین رائے پور ہو کر جانے والی تھی حضور مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کی بابو میری موجودگی میں ہی اُس اسٹال والے کو پیسہ دے دیجئے تاکہ مجھے سکون مل جائے۔ کیوں کے رائے پور میں انجن چینج ہوتا ہے 20 منٹ گاڑی رکتی تھی۔

گاڑی کے اسٹیشن پہنچ نے سے پہلے ہی دروازے پر چلا گیا کے فوراً دے کر واپس آجاؤں گا۔ گاڑی رکی میں تیزی سے بھاگتے ہوئے گیا تو پلیٹ فارم نمبر 5 پر 3 اسٹال نظر آئے تو میں نے حضرت کو فون کیا کی کس کو دوں آپ نے فرمایا تینوں کو دے دیجئے۔

میں نے دو اسٹال والے کو دے دیا تیسرا لینے سے انکار کر دیا جب میں نے اُس سے کہا کی میرے گرو جی کی بےچینی دور کرنے کے لیے لے لیجئے بھلے ہی آپ مجھ سے لے کر کسی اور کو دے دیجئے۔

بہر حال اُس نے مجھ سے لے لیا یہ ساری باتیں اُسکے اسٹال پر موجود ایک پنڈت  سن رہا تھا انہوں نے مجھ سے کہا آپ اور آپ کے گرو جی نے جو کیا یہ میڈیا کے ذریعے سے پوری دنیا کو دیکھنا چاہئے کی ایسے سچے اور اچھے لوگ بھی اس دنیا میں ہیں جن کی وجہ سے یہ سنسار چل رہا ہے۔

اُدھر حضرت میرا انتظار کر رہے تھے جب جاکر حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بتایا تو آپ کو سکون ملا۔۔۔

سادگی کا ایک نمونہ فکر و فن کے شہسوار

علم و تقویٰ کے تھے سنگم حضرتِ عبد الحلیم

بیماروں کی عیادت : حضور فقیہ اسلام بیماروں کی مزاج پرسی کیا کرتے تھے ۔قریبی رشتہ دار، ملاقات کرنے والے یا کسی پہچان والے کے بارے میں معلوم ہوتا تو فوراً فون لگا کر عیادت کرتے، خیریت معلوم کرتے پھر دعائیں دے کر تسلی دیتے کہ طریقہ بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ خود بیمار ہیں بستر استراحت پر ہیں لیکن کسی جان پہچان والے کے بارے میں معلوم ہوتا کہ بیمار ہیں یا ان کے گھر میں انتقال ہوگیا ہے تو فون لگواتے، حال چال پوچھتے، اور خیر و عافیت یا شفایابی کی دعا دے دیا کرتے ۔

حضور مفتی صاحب قبلہ کو اپنے مریدوں کی بھی بڑی فکر تھی خاص طورپر جو رابطہ میں رہتے ان کو ہمیشہ یاد رکھتے، بڑی راتوں میں، عید بقرعید کے موقع پر فون کرکے گھر والوں کی خیریت دریافت کرلیتے ۔

اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک ان میں موجود تھی، اس پر کاربند تھے کہ ہمیں نقوش مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق زندگی گزارنی ہے، انہوں نے گزارا بھی، دنیا سے گئے تو بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ، اس حال میں گئے کہ کلمہ طیب، استغفر اللہ، کا ورد کرتے کرتے روح کو جب تن سے جدا ہونے کا وقت آیا تو منہ سے ایک آہ نکلی اور جان جان آفریں کے سپرد کردیا ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی