حسد و کینہ کا علاج تعلیمات اعلیٰ حضرت کی روشنی میں

 

امام اہل سنت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے 103/واں عرس کے موقع پر خصوصی تحریر

از قلم۔۔۔۔محمد افروز رضا مصباحی،گلبرگہ

ہم لوگ جس دور میں سانسیں لے رہے ہیں۔یہ اختلاف اور انتشار کا دور ہے۔عدم تحمل کا دور دورہ ہے۔ حلم وبرد باری کی تعریف اور حقیقتیں کتابوں کے صفحات میں محصورہیں۔ صبر وتحمل کی مالا ہر کوئی جپتا ہے لیکن عملی دنیا تقریباً سبھی کی ویران ہے۔چہار جانب”من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو“کا سکہ رائج ہے۔خوگران حمد وثنا اپنی ہر خطاو لغزش پر پردہ ڈالنا واجب،دوسروں کی معمولی خطاکو طشت ازبام کرنا فرائض منصبی سمجھ بیٹھے۔ ہر کوئی دوسرے سے عزت کی توقع اور خود دوسروں کو بے عزت کرنا اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ جس سے اختلا ف ہوجائے اس کی سات پشتوں کے کارناموں کو کھول کررکھ دینا زندگی کا کارنامہ شمار کرتے ہیں۔منشاء صرف اتنا ہوتاہے کہ یہ کسی طرح ذلیل و خوار ہواورعوامی شہرت وعزت پر داغ لگے۔

حسد و کینہ کی گرم بازاری ہے۔ کوئی کسی کو آگے بڑھتا دیکھنا گوارہ نہیں کرتا،چاہے دنیوی جاہ و حشمت، عزت و شہرت،مال و منال، فضل و کمال ہی کیوں نہ ہو،حد تو یہ ہے کہ دینی ماحول سے وابستہ افراد میں اس مرض نے کچھ زیادہ ہی اپنی سرگرمی دکھائی۔دین و ملت کے خادمین کے ساتھ ناروا سلوک،عزت و عفت پر حملے،ان کے ذریعہ کیے گئے کاموں کو حقیرانہ نظر دیکھنا موجودہ دور کا شیوہ بن گیاہے۔ 

اختلاف امت کو حدیث پاک میں ”رحمت“ قرار دیا گیا۔لیکن ہر کوئی دوسرے سے صبر و تحمل اور بردباری کا متقاضی ہے لیکن خود دوسروں کی عزت و ناموس پر حملہ آور ہے۔ بزرگوں کی پگڑیاں سلامت نہیں۔جس کی خامی سامنے آگئی اس کی عزت نیلام کرنے میں ذرا بھی جھجک نہیں۔ عفو و درگزر کے بارے میں پڑھا ہوا سبق سب بھلاچکے۔ درس گاہوں میں پڑھی ہوئی باتیں وہیں لپیٹ کر رکھ دی گئیں۔ کسی کو سرعام رسوا کرنے کے لیے نئی نئی اصطلاحات وضع کی جاتی ہیں۔ حسد و کینہ جسے اخلاقی برائیوں میں شمار کیا گیاآج ہر دل میں اس کے لیے بڑی نرمی پائی جاتی ہے۔ کوئی دل ہے جہاں حسد و کینہ کو جگہ نہ ملی ہو؟۔ دوسروں کو کام کرتا دیکھ کر، بڑھتا پھلتا،پھولتا دیکھ کر تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ 

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے بارے میں شرک کا خوف نہیں تھا البتہ اس بات سے ضرور خوف تھا تم میرے بعد دنیا کے لالچ میں پڑ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگوگے(صحیح بخاری)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث،ولا تحسسوا و لا تجسسوا ولاتناجشوا ولاتحاسدوا ولا تباغضوا ولاتدابرووکونوا عباداللہ اخوانا۔

(بخاری و مسلم)

ترجمہ:۔نبی کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا:بدگمانی سے بچو،بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے نہ پڑو، کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹٹولو اور کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ اور حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔

سالم بن عبد اللہ بن عمر نے اپنے والد سے روایت کی۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاحسد الا علی اثنتین رجل اتاہ اللہ ھذاالکتاب فقام بہ اناہ اللیل و اناء النہار ورجل اتاہ اللہ مالا فتصدق بہ اناء اللیل و اناء النھار(صحیح مسلم)

ترجمہ:۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دو چیزوں کے علاوہ کسی چیز میں حسد (رشک) نہیں:ایک اس شخص سے متعلق جسے اللہ تعالی نے یہ کتاب عنایت فرمائی اور اس نے دن رات کی گھڑیوں میں اس کے ساتھ قیام کی اور دوسر ا وہ شخص جسے اللہ تعالی نے مال سے نوازا اور اس نے دن رات کے اوقات میں اسے صدقہ کیا۔

حدیث رسول ﷺ پڑھیں اور غور کریں ابھی ہمارے معاشرے کا کیا حال ہے۔ عوام وخوا ص سبھی اس برائی میں ملوث ہیں۔ بغض و حسد سے شاید ہی کوئی سینہ خالی ہو۔


امام عشق ومحبت دریائے فیض رحمت،شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ چودہویں صدی کے عظیم مجدد تھے۔ ان کی تعلیمات و ہدایات امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہیں۔ انہوں نے امت مسلمہ کی ہر موڑ پر رہنمائی کی۔انہوں نے پاکیزہ زندگی گزاری، پاکیزگی کو پسند کیا،سنت رسول ﷺ کے مطابق زندگی گزاری۔ زندگی کے ہر گام پر قرآن و سنت کو راہبر بنایا۔جس کی وجہ سے ان کی زندگی آنے والی نسلوں کے لیے راہ یابی کا ذریعہ بنی۔ امام عشق محبت علم و ہنر میں یگانہ، فکر و لی اللہٰی کے علم بردار تھے۔شریعت مطہر ہ پر سختی سے عامل تھے۔ مسائل فقہیہ میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ اپنے وقت کے عالم باعمل، فقاہت ان کی شان امتیاز تھی۔ان کے فتاوی کا مجموعہ ”فتاوی رضویہ“ علوم و فنون کا بحر ذخار ہے۔ دنیا حیرت زدہ ہے کہ فرد واحد نے تن تنہا کیسے اتنے علوم ومعارف کے دریا بہا دیے۔انہو ں نے اپنے دور کے ہر باطل فرقوں کا تعاقب کیا،کتابیں تحریر فرمائی،دین کے نام پر سماج و معاشرے میں پھیلے بدعات و خرافات کا قلع قمع کیا۔جدید مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں حل فرمایا۔ شعر وشاعری میں مولا عزوجل نے کمال عطا فرمایا تھا۔ ان کا نعتیہ دیوان ”حدائق بخشش“ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گنجینہ ہے۔امام اہل سنت علیہ الرحمہ نے کسی کی مدح سرائی کو دنیوی سیم و زرکے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا۔ان کا دین وہی تھا جو انہوں نے ایک شعر میں واضح کیا:

کروں مدح اہل دول رضا پڑے اس بلا میں میری بلا

میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارہ ناں نہیں 

علم و فضل میں یگانہ تھے،علمائے عرب و عجم نے انہیں چودہویں صدی کا مجدد تسلیم کیا۔ بڑے بڑے القابات سے نوازے،ان کی تحقیقات اور علمی جوابات کو آنکھوں سے لگایا مولائے قدیر نے عزت وشہرت اورناموری عطا فرمائی لیکن پھر بھی کسر نفسی سے کام لیتے رہے۔ دیگر علماء فضلا اور دین کے خدام کے کاموں کو سراہا،اچھے اچھے القابات سے نوازے۔دوسروں کے مال و منال،فضل و کمال کی وجہ سے تنگ دل نہیں ہوئے بلکہ ایسی چیزوں کی چاہت ہی نہ رہی۔اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہی سرمایہ حیات تھی۔شریعت مطہرہ کی پاسداری زندگی کا نصب العین تھا جس پر تاحیات قائم رہے۔ حسد وکینہ اور بغض وعداوت سے دور و نفور رہے۔خداوند قدوس نے ان کے سینے کو حسد و کینہ سے پاک رکھا تھا۔ایک مقام پر فرماتے ہیں۔ 

”میرے رب نے مجھے حسد سے بالکل پاک رکھا ہے۔ 

اپنے سے جسے زیادہ پایا اگر دنیا کے مال و منال میں زیادہ ہے قلب نے اندر سے اسے حقیر جانا۔ پھر حسد، کیا حقارت پر؟

اور اگر دینی شرف و افضال میں زیادہ ہے (تو) اس کی دست بوسی و قدم بوسی کو اپنا فخر جانا، پھر حسد کیا اپنے معظمِ بابرکت پر؟

اپنے میں جسے حمایتِ دین پر دیکھا اس کے نشرِ فضائل اور خلق کو اس کی طرف مائل کرنے میں تحریرًا و تقریرًا ساعی رہا، اس کے لیے عمدہ القاب وضع کر کے شائع  کیے، جس پر میری کتاب المعتمد المستند وغیرہ شاہد ہیں۔ 

حسد شہرت طلبی سے پیدا ہوتا ہے اور میرے رب کریم کے وجہِ کریم کے لیے حمد ہے کہ میں نے کبھی اس کے لیے خواہش نہ کی بلکہ ہمیشہ اس سے نفور اور گوشہ نشینی کا دلدادہ رہا“(فتاویٰ رضویہ / ج29 / ص599)

آج سید ی اعلیٰ حضرت امام احمد رضافاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی سیرت کے اس روشن گوشے سے بہت کچھ سیکھنے کی شدید ضرورت ہے۔ کم سے کم ان سے عقیدت رکھنے والے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ حسد و کینہ کے معاملے میں اپنی زندگی پر اسی منہج کو نافذ کرے۔ان کی تعلیمات پر عمل کی کوشش کرے۔ آج جبکہ اپنے امام کے 103/واں عرس منار ہے ہیں،ان کی بارگاہ میں خراج عقیدت کا بہترین طریقہ یہی ہوگا کہ نفرت و عداوت کم کیا جائے۔ محبت و الفت کو عام کیا جائے۔ مسلک اعلیٰ حضرت میں لوگوں کو داخل کے بجائے خارج پر سرگر می نہ دکھائی جائے۔شریعت پر طبیعت کو فوقیت نہ دی جائے۔اختلافی مسائل میں دیگر علماء کے آراء اور تحقیقات کو صرف نظر کرتے ہوئے مسلک اہل سنت سے خارج ہونے کا فرمان جاری نہ کیا جائے۔دین و مسلک کے کام میں مشغول خدمت گاروں کے کاموں کو سراہا جائے اپنوں کے لیے”رحماء بینھم“ اور اعداء دین و مسلک کے لیے ”اشداء علی الکفار“ کا طرز عمل ہونا چاہئے۔ موجودہ حالات میں امام اہل سنت کی بارگاہ میں یہ بہترین خراج عقیدت ہوگی۔وما توفیقی الا باللہ

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی