امام و مؤذن!یو آر انڈر سی سی ٹی وی کیمرہ(2)

 

(دوسری قسط)

موجودہ دور میں علماء کی ناقدری اور ائمہ مساجد کے نامساعد حالات کو اجاگر کرتی تحریر

از قلم:محمد افروز رضا مصباحی،گلبرگہ 

روزنامہ انقلاب دکن کے 9/اگست کے شمارے میں راقم کا مضمون بنام''امام و مؤذن! یو آر انڈر سی سی ٹی وی کیمرہ''شائع ہوا۔یہ پہلا مضمون ہے جس پر سب سے زیادہ کالس اور واٹس اپ پر پیغام آئے۔حالانکہ انقلاب دکن میں میرے مضامین وقفے وقفے سے شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن مذکورہ مضمون پر سب سے زیادہ خوشی اور ناراضگی دیکھنے کو ملی۔بعض ردعمل یہ تھا کہ جانب داری دکھائی گئی ہے۔مسجد کمیٹی کو جہاں اصلاح کی ضرورت ہے وہیں بعض امام و مؤذن کوبھی اپنے رویے اور اخلاق درست کرنے کی ضرورت ہے۔بعض نے کہہ دیا ''آجکل کے مولوی پیسوں کے لئے نماز پڑھاتے ہیں،یہ عبادت کہاں ہوئی۔ایک ''بزرگ''کا سوال غضب کا تھا۔نماز کی نیت امام و مقتدی والی کیاہے پہلے پڑھ کر سناؤ؟چونکہ پہلے مضمون کے رد عمل کے جواب میں یہ مضمون لکھاگیاہے اس لیے عنوان قدیم ہی رکھا گیاہے۔ 

9/اگست کے شمارے میں شائع مضمون میں نوٹ شامل تھا: مضمون میں جتنے سوالات ہیں وہ ان صفات سے متصف حضرات کے لیے ہیں جو اوپر بیان کیے گئے۔رہے وہ اللہ والے جو بے لوث اور ہر جزا سے بے نیاز اللہ اور اس کے رسول کے گھر کی خدمات،علماء کی قدردانی، ائمہ و مؤذنین کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں وہ ہمارے مخاطب نہیں ہیں،وہ لوگ بہترین بدلہ پانے والے ہیں۔  

سبھی کو مورد الزام کیسے ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اللہ والوں سے دنیا خالی نہیں۔آج بھی اچھے اخلاق و کردار والے مساجد و مدارس کے خدمت گار موجود ہیں جو ایک روپے اِدھر سے اُدھر نہیں ہونے دیتے۔امام و مؤذن کا ہر طرح سے خیال رکھتے، ان کی ضروریات کو اپنی ضرویات پر مقدم رکھتے ہیں۔ایسے بے لوث افراد کو محبت بھرا سلام۔اس کے ساتھ یہ بھی یاد رہے ایسے لوگوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔آخرت کے فکر سے بیگانہ لوگ مذہبی عبادت گاہوں پر قابض ہوتے جارہے ہیں۔ان کو عبادت، خدمت اور امام و مؤذن سے بس اتنا مطلب ہے جیسے دکان کے نوکر اور ملازم ہے۔تنخواہ لو اور وقت پر کام کرو۔اس کے بعد تم جیتے ہو یا مرتے ہو یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ہم نے تنخواہ دے دیا۔

زمانہ قیامت کی چال چل چکا۔آج ہر ایک کے اخلاق و کردار پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔اس میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ کی کوئی قید نہیں۔مذہبی لوگوں نے اور دین کی سمجھ رکھنے والوں نے کچھ حد تک اپنے اخلاق کے معیار کو بچا رکھا ہے ورنہ سیاست کی غلاظت اور حالات کے بدلتے رفتار نے سبھی کو ایک حمام میں بند کردیا۔ایک بوڑھا ضعیف شخص اپنے گھر میں بیوی بچوں کے سامنے زبان کھولنے کی طاقت نہیں رکھتا مگر مسجد میں سب سے تیز آواز میں بات کرتا ہے، امام و مؤذن کی ہر غلطی ناقابل معافی جرم سمجھی جاتی ہے۔یہ اخلاق کا دیوالیہ پن ہی ہے کہ برسوں سے خدمت انجام دینے والے امام کو اگلے نماز سے پہلے یہ کہہ کر نکال دیاجاتا ہے کہ ''تمہاری قرات درست نہیں،نماز پڑھانے کا ڈھنگ نہیں، تم سے پابندی نہیں ہوتی، محلے والوں کی شکایت ہے، پیسوں کے لئے نماز پڑھاتے ہو ہماری نماز خراب کرتے ہو، اِتنے سال رہ گئے اور کتنا رہوگے، ہم تم کو تنخواہ دیتے ہیں تو وہی کرو جو ہم کہتے ہیں '' اس قسم کے جملے کہہ کر مسجد سے نکال دیے جاتے ہیں بغیر یہ پرواہ کیے کہ اس تنخواہ کے علاوہ کوئی آمدنی نہیں تھی، بیوی بچوں کا کیا ہوگا۔آخر اس رویے اور جابرانہ فیصلے کو”اخلاق“ کے کس خانے میں رکھا جائے؟

امامت و مؤذنی عجیب شعبہ ہے،اس شعبے سے جڑے شخص کو شاید ہی عزت و احترام سے رخصت کیا جاتا ہو،اکثریہ ہوتا ہے کہ نکالنا چاہا لیکن کوئی عذر شرعی نہیں ہے تو الزام لگادیے،الزام بھی ایسے گھنونے کے مذہبی آدمی شرم سے پانی پانی ہوجائے،جو اس کے حاشیہ خیال میں نہیں ہوتا وہ باتیں منسوب کرکے عزت کا جنازہ نکالاجاتا ہے۔اس سے بڑا ستم بعض لوگوں کے دیے ہوئے تسلی کے الفاظ ہوتے ہیں،کوئی بات نہیں اللہ کوئی انتظام کردے گا،جانے دو کیا ہوا یہ لوگ ایسے ہی ہیں کیاکرتے رہ کے،آپ لوگوں پر اللہ مہربان رہتاہے کہیں بھی روزی دے دیگا،وغیرہ۔ان جملوں سے کیا نتیجہ اخذکرسکتے ہیں،قارئین پر چھوڑتاہوں۔

بعض کی یہ شکایت بھی موصول ہوئی کہ امام ومؤذن کا خود کوئی معیار نہیں۔بعض مساجد کے ذمہ داران کی کمائی حلال نہیں ہوتی مگر یہ لوگ اس کے ساتھ چائے نوشی کرتے ہیں، ساتھ میں کھانا پینا کرتے ہیں، ان کو بھی تنبیہ ہونی چاہئے۔پہلی بات یہ ہے کہ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے شاید ہی کوئی بچا ہو۔جو لوگ دین کے خادم ہیں وہ اپنے طور پر بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس بارے میں یہ مشاہدہ ہے کہ بعض مصلحتاً ایسا کرتے ہوں،(ممکن ہے حرام کے ساتھ کوئی دوسرا حلا ل کاروبار ہو،ان سب کے باوجود اگر کوئی امام ایسوں کے ساتھ رکھ رکھاؤ رکھتا ہو تو شرعی گرفت ہوگی)۔ اگر نہ جائیں تو دشمنی مول لی جاتی ہے۔جب کبھی معاملہ بگڑتا ہے تو یہ لوگ مخالفت میں سب سے آگے ہوتے۔

مجھے تسلیم ہے کہ امام وموذن وہ لوگ بن رہے ہیں جو یاتودوسرے کام کی استطاعت نہیں رکھتے، یا چند سورہ یاد کرکے امامت آسان لگتی ہے۔دینی علوم سے کما حقہ واقف نہیں ہیں مصلی امامت پر ٹھہرنے پر جو مل جائے ٹھیک ہے،کم تنخواہ میں بھی تیارِعمل ہوتے ہیں۔بعض دینی مزاج رکھنے والے نوجوانوں کو ”عارضی ضرورت“ کے تحت تیار کیا گیا کہ امام نہ ملنے کی صورت کبھی کام آجائے۔ان کو یہ شعبہ پسند آیااب ”لازمی ضرورت“ بن کر قوم کے امام بنے ہیں۔کم تنخواہ پر رضامندی ”ایک وبا“ کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ جو راضی ہوجائے وہی امام۔ بس مولویانہ لباس اور وضع قطع ہونا چاہئے،اس سے کوئی غرض نہیں نماز کے شرائط و واجبات اور فرائض سے واقف ہیں یا نہیں۔کوئی اہل علم کسی جگہ کو چھوڑتاہے تو کوئی معمولی خواندہ شخص کی تقرری عمل میں آتی ہے،وجہ صرف یہ ہے کہ یہ ہماری سنے گا،ہم جوکہیں گے، آمنا اور صدقنا کہے گا۔

آجکل کے مولوی پیسوں کے لئے نماز پڑھاتے ہیں،یہ عبادت کہاں ہوئی؟؟؟ اس جملے کو بار بار پڑھیے،اور سوچئے کہ اس سوچ کے لوگ کس قماش کے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے ایسی سوچ رکھنے والے وہ ہوں گے جو سرکاری ملازمت کے دوران دفتر میں بیٹھنے کی تنخواہ اور لوگوں کے کام کرنے پر موٹی”رشوت“لیتے ہوں گے۔اپنی ملازمت کے دوران کام چوری، کاہلی، دس باتیں سنے بغیر کام نہ کرنے والے ہی ایسی فکر رکھ سکتے ہیں۔ 

امام و مؤذن کی تنخواہ پر انگلی اٹھانے والے ذرا بتائیں اگر تنخواہ بند کردی جائے تو کیا کسی مسجد کے منارے سے اذان کی صدا گونجے گی؟مسجد میں وقت پر جماعت قائم ہوگی، موسم کی خرابی، طبیعت خرابی اور موسلادھار بارشوں میں بھی وقت پر اذان سنائی دے گی؟؟؟علمائے متاخرین نے بہت غور وخوض کیا، لوگوں کی دینی معاملات میں سستی کاہلی کو دیکھتے ہوئے تنخواہ کی اجازت دی تاکہ امام و مؤذن مسجد کے لیے مختص رہیں اور وقت پر اذان و جماعت ہوسکے۔ آج کوئی کام بتایاجائے جو بغیر روپے پیسے کے ہوتے ہوں؟؟؟ہر کام میں روپے پیسے خرچ کرنے میں کسی کوکوئی اعتراض نہیں،محرم کا مہینہ جاری ہے۔ دس تاریخ کو نشان علم بنا کر قوم مسلم بے تحاشا روپے پیسے خرچ کرنے والی ہے لیکن مسجد کے امام کے ساتھ جو معاندانہ رویہ اختیار کیاجاتاہے، تنخواہ دینے اور اضافہ کرنے میں جتنے بہانے بازی کرتے ہیں،ایسا لگتاہے اس قوم کوعلمااور پیشوا سے کوئی محبت نہیں،ہاں خرافات پر بے دریغ زر کثیر خرچ کرنے میں کوئی دریغ نہیں۔حق یہ ہے کہ یہ طبقہ آج بھی قناعت کے اصول پر عامل ہے۔ حرام و حلال کی تمیز رکھتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مخلص ہے۔ امت کی اصلاح و فکر و اعتقاد پر آج بھی کمر بستہ ہے۔بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے جگہ جگہ مکتب قائم کرکے انہیں کے بچوں کو کلمہ یاد کرارہے ہیں جس کو شکایت ہوتی ہے مولوی کیا کرتاہے سوائے سونے اور وقت گزاری کے۔دین کی حفاظت و صیانت اگرآج ہورہی ہے توانہیں ”کم تنخواہ“والوں کے دم قدم سے۔ورنہ لوگ دین بیچ چکے، قبروں کی چادر فروخت کرچکے،اوقاف کی جائدادمیں خرد برد کرچکے، بس نام ہے مسلمان ہونے کا۔دین کا کام الزام سے نہیں محنت خلوص اور اہل علم کی قدر سے ہوتی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس کی خبر چودہ سوسال پیشتر مخبر صادق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی

اخیر زمانے میں دین کی خدمت درم و دینا ر سے ہوگی“


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی