فکر اقبال کے تین بنیادی عناصر

 

فکر اقبال کے تین بنیادی عناصر

از ۔۔۔ محمد افروز رضا مصباحی

شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال ایک فرد کا نام نہیں ایک انجمن کا نام ہے۔ان کی حیات مانند چراغ تھی جو انسانی زندگی کے ہر گوشے کو منور کرگئی۔ان کی شعر و شاعری لاجواب، اردو فارسی کلام بے مثال،نثری مضامین بھی اپنی مثال آپ ہے۔اقبال اردو فارسی شاعری میں نمایاں مقام پر فائز ہیں ۔اقبال ایک ایسے باکمال شاعر کانام ہے جو فکر و فلسفہ کوشعر و سخن کی لڑی میں پرودیا۔شاعری کو نئی جہات سے روشناس کرایا۔ان کا شعری سرمایہ اردو ادب کا خزینہ ہے باوجود اسک کےاقبال بجائے تعلّی کے کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں:

خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میر ی

وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے!

(بال جبریل)

تمام مضموں مرےپرانے،کلام میر اخطا سراپا

ہنر کوئی دیکھتاہے مجھ میں تو عیب ہے میرے عیب جو کا

(بانگ درا)

ڈاکٹر اقبال کے کلام میں جو ثروت افکار ہےوہ عدیم المثال ہے۔شاعری کو عام طور پر لطف و لذت کا ذریعہ سمجھا جاتاہےاور بھلائی کاکام نہیں سمجھا جاتا کیونکہ شاعری کا زیادہ تر ایسے ہی عناوین پر مشتمل ہے لیکن شاعری کی ایک وہ بھی قسم ہے جو گرتوں کو سنبھالتی ہے اور خستہ حال شخص  کے دل قوی کرتی ہے ۔ انگریزی شاعر ٹینی سن نے بجاکہا ہے کہ جس شاعری سے ملت کا دل قوی ہو اور اس کی ہمتیں بلند ہوں اس کو بھلائی میں شمار کرناچاہیے۔ 

اقبال کے افکار و تاثرات کی گوناگونی اور بوقلمونی کی کوئی حد نہیں لیکن جس طرح کائنات کی کثرت میں ایک وحدت مضمر ہے اسی طرح اقبال کے افکار بھی اپنے اندر ایک وحدتِ نظر رکھتے ہیں ۔اس ثروت افکار کو ضبط میں لانےکے لیے مختلف طریقے اپنائے گئے ۔ بعض مضامین ایسے ہیں جو اقبال کے ساتھ مخصوص ہو گئے ہیں مثلا عشق کا موضوع اگر چہ حکماء اور صوفیہ کے ہاں بکثرت ملتا ہے لیکن اقبال نے اس میں جو نکات پیدا کیے ہیں وہ کسی اور کے کلام میں نہیں ملتے ۔ اسی طرح تو قیر نفس اور عرفان نفس کا مضمون اگر چہ قدیم ہے لیکن اقبال نے فلسفۂ خودی کواس زورو شور سے پیش کیا اور اتنے پہلوؤں سے اس پر نظر ڈالی کہ وہ اس کا خاص مضمون بن گیا ہے۔ اسلام کے متعلق بھی اس کا جو زاویہ نگاہ ہے وہ صوفی و ملا وحکیم سب سے جداہے ۔ قومی شاعری کی ابتدااگر چہ حالی نے کی لیکن اقبال جس طرح قومی مسائل کو اجاگر کیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔حدی خوانی حالی نے شروع کی لیکن محمل کو گراں دیکھ کر اقبال نے اس حدی خوانی کو تیز اور وجد آفریں بنا دیا۔ اقبال شرق وغرب کے بہترین اور بلند ترین افکار کا وارث ہے۔اس وراثت کوصرف پیش ہی نہیں کیا بلکہ اس میں گراں بہا اور قابل قدراضافہ بھی کیا ہے ، وہ صحیح معنوں میں آزادانہ اور محققانہ نظر رکھتا ہے ، وہ اندھا دھند کسی کی تقلید نہیں کرتا، ہر چیز کواپنی نظر سے دیکھتا ہے اس لیے حکیم یا صوفی یا فقیہہ ومفسر سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔

کسی فکرِ انسانی کے ارتقاء اور اُس کی تربیت کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہےکہ ہر دور میں ادب اور خاص طور پر شاعری نے انسانی فکری تربیت اور ذہن انسانی کے ارتقاء میں کلیدی کردار ادا کیا ہے -فکر اور عمل دونوں لازم ملزوم ہیں-فکرعمل پر مقدم ہے - دنیا کے جتنے دماغ تھے یا ہیں اُن کے پاس فکر اور سوچ ہے کسی بھی شاعر کے پاس اُس کا کل اثاثہ اُس کی فکر ہوتی ہے - اگر فکر کو عملی جامہ نہ پہنایا جائے تو وہ مجرد خیال بن کر رہ جاتا ہے اور اسی طرح اگر عمل کی پشت پر فکر نہ ہو تو ایسا عمل دیوانگی کہلاتا ہے- جب انفرادی فکر اجتماعی فکر کا روپ دھار لیتی ہے اور اجتماعی عمل بھی اُس فکر کے مطابق ہوتا ہے تو اقوام کی تقدیر تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

علامہ اقبال اردو اور فارسی زبان کے بہت بڑے شاعر ہیں- دونوں زبانوں میں بے شمار شاعر گزرے ہیں شاید جن کی حتمی تعداد کا ہمیں علم بھی نہ ہو مگر جو مقام و مرتبہ اقبال کو حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس وقت پوری دنیا میں تین مسلمان مفکرین کو سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے وہ ابنِ عربی، مولانا رومی اور اقبال ہیں۔

فکر اقبال بہت وسیع ہے- انہوںنے مشرق و مغرب کے علوم کا گہرا مطالعہ کیا۔ قرآن، اسلام، اسلامی تاریخ ، فقہ اور حدیث کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ عربی ادب، فارسی ادب، انگریزی ادب، مشرقی، مغربی فلسفہ، قانون، سیاسیاتِ عالم، عالمی تاریخ اور دیگر کئی علوم کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اُس مطالعہ کی روشنی میں فکرِ انسانی کی تربیت کے لیے لائحہ عمل تشکیل دیا-

’’ڈاکٹر اقبال کے نظام فکر میں فرد یعنی خودی کی تربیت سے لے کر جماعت یعنی بے خودی کے استحکام تک مکمل رہنمائی موجود ہے۔ ڈاکٹر اقبال خودی اور بے خودی کے ذریعہ فرد اور ملت کے علاوہ خدا، خودی اور کائنات کے باہمی تعلق کو بھی واضح کرتے ہیں۔اقبال کے افکار محدود نہیں اگر محدود اور ہنگامی ہوتے تو کچھ عرصہ بعد زمانہ انہیں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتا،لیکن اقبال کے افکار میں ایک لامتناہی صفت پائی جاتی ہے۔جو نہ صرف زمان و مکان بلکہ اس ملت کے حدود بھی وسیع تر ہیں جس کا عروج و زوال کا خاص موضوع فکر اور جس کا درد اس کے دل و جگر کا سرمایہ تھا۔ 

(فکر اقبال۔ڈاکٹرخلیفہ عبد الحکیم ۔ناشر:بزم اقبال لاہور۔ص:27)

 فکر اقبال کے ماخذ کےبارے میں غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ ان کے فکر کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔قرآن۔ حدیث اور افکار رومی ہے۔

اقبال کے مطابق ایک روز تلاوت قرآن میں مشغول تھے کہ ان کے والد شیخ نور محمد نے کہا:کبھی فرصت ملی تو میں تم کو ایک بات بتاؤں گا۔بہت دنوں بعد اقبال قرآن کی تلاوت میں مشغول تھے تو والد نے کہا:

’’جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قرآن تم پر اتر رہاہے‘‘

یعنی خدا تم سے ہمکلام ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے اس واقعہ کو اس شعر میں ڈھالاہے:


ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب 

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

فارسی اشعار بھی اسی خیال کی ترجمانی میں ہے جسے طوالت کی وجہ سے ترک کردیا ہے۔

اب جو دعوی کرے کہ وہ اقبال کی فکر سے متاثر ہے تو وہ یقیناً قرآن سے رہنمائی ضرور لے گا ،قرآن کی جانب راغب ہوگا اس کی تلاوت سے شاد کام ہوگا۔قرآنی مفاہیم میں غوطہ زن ہوگا ،اگر یہ سب نہ ہو تو سمجھیں اسے فکر اقبال کا حقیقی ادراک نہیں ،اقبال کے کلام کو لفظی طور پر قرأت سرمایہ افتخار نہیں حالانکہ کلام اقبال اور فکر اقبال کچھ اور ہے۔جب تک کلام اللہ کو نہیں سمجھیں گے ہمارے کردار میں جدت اور افکار میں ندرت پیدا نہیں ہوگی ۔ڈاکٹر اقبال نے کہا:

قرآن میںہو غوطہ زن اے مرد مسلمان 

اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

اقبال کے قرآن سے محبت کا ایک واقعہ بیان کرنا دلچسپ ہوگا۔ ایک دفعہ ایک نئے ملاقاتی اقبال سے بغرض ملاقات آئے آپسی گفت و شنید کے بعد ملاقاتی نے کہا:آپ نے مذہب، اقتصادیات،سیاسیات، تاریخ اور فلسفہ وغیرہ علوم پرکتابیں اب تک پڑھی ہیں ان میں سے بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب آپ کی نظر سے کونسی گزری ۔ڈاکٹراقبال اپنی جگہ سے اٹھے اور گھر کے اندر چلے گئے واپسی میں ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی ۔ اس کتاب کو شخص مذکور کے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے کہا ،قرآن مجید۔

فکر اقبال کی دوسری اساس محبت رسول تھی۔انہوں نے فکر کی آبیاری ارشادات نبوی کے سرچشمے سے کی ۔یہی وجہ ہے کہ بہترانسان کے لیے وہ’’ عشق مصطفیٰ ‘‘ کو ایک ناگزیر شرط قرار دیتے ہیں۔عشق رسول کی جلوہ گری تھی جس کی وجہ سے مغربی تہذیب و تمدن کی چمک دمک بھی اقبال کی آنکھوں کو خیرہ نہ کرسکی،حالانکہ ایک طویل عرصہ جلوۂ دانش فرہنگ میں گزارےلیکن مغربی تمدن سے کنارہ کش رہے  ان کے خیال میں عشق رسول ہی افراد ملت کو ایک نقطہ وحدت پر جمع کرسکتاہے اور منتشر شیرازہ قوم کو ایک لڑی میں پرو سکتاہے۔

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے 

دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے

فکر اقبال کی تیسری اساس افکار رومی ہے۔معرف الٰہی کے سلسلے میںسب سے زیادہ مولانا رومی کو پسند کرتے تھے اقبال نے معارف اور لطائف و حقائق سیکھنے کے لیے رومی کو اپنا مرشد مانا اور اپنے مثنوی اسرار خودی اور رموز بے خودی میں مولانا روم کا تتبع کیا گیاہے ، اس فیض کا اعتراف بھی کیا ہے:

پیر رومی خاک کا اکسیر کرد از غبارجلوہ ہا تعمیر کرد

(پیررومی نے خاک کو اکسیر بنادیا اور میر خاک سے کئی جلوے تعمیر کر دکھائے)

اقبال نے مولانا روم کی ملاقات عالم مثال میں کی۔ مولانا روم کو پیر رومی اور اپنے آپ کو مرید ہندی کہہ کر سلسلہ کلام چلاتے ہیں۔ آپ اردو میں سوال کرتے ہیں اور مولانا روم اس کا فارسی میں جواب دیتے ہیں۔

چشم بینا سے ہے جاری جوئے خوں

علم حاضر سے ہے دین زار و زبوں

مولانا روم اس کا جواب پورا دیتے ہیں :

علم را بر تن زنی مارے بود علم را بر دل زنی یارے بود

ہیں ان کا کوئی مجموعۂ کلام ایسا نہیں کہ جس میں علامہ موصوف نے اپنی عقیدت کے پھول مولانا روم کی بارگاہ میں پیش نہ کئے ہوں۔ ’’بال جبریل‘‘ میں فرماتے ہیں:

 نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے

وہی آب و گلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی

علامہ اقبال ؒایک اور جگہ اپنی شاعری میں مولانا روم کے فیضان کا اعتراف کرتے ہوئے کہاہے:

مقام ذکر کمالاتِ رومی و عطار مقامِ فکر مقالاتِ بو علی سینا

ارمغان حجاز میں ایک جگہ کہاہے کہ: مجھے جو کچھ فیضان ملاوہ مولانا روم ہی کا ہے،جذب وشوق، عشق و مستی سے انہوںنے آشنا کیا ہے:

وہ جگہ جگہ اس بات کا اعتراف کرتےہیں کہ رومی ان کے مرشد معنوی ہیں ۔ خیالات و افکار کے شائستہ کرنے میں ان ہی کے رہین منت ہیں۔ اقبال نے مثنوی میں اپنے ایک خواب کا ذکر کیاہے۔ عرفان و آگہی کی طلب نے جب انہیں بیقرار کیا وہ اسی عالم میںمحو خواب ہوگئے، خواب میں رومی کو دیکھتے ہیں، جو ان کو تسکین دیتے ہوئے، حقیقت سے واقف کراتے ہیں،اسرار خودی ان پر آشکار کرتے ہیں، اقبال کہتے  ہیں کہ رومی کی اس تلقین کے بعد میں نے خود کو فاش کی ہے۔

جاوید نامے میں اقبال نے رومی کے اوصاف و خصائل کی مدح سرائی کی اور پیر رومی کی رہنمائی میں عالم افلاک کی سیر کی، اسی روحانی سیر میں پیر رومی نے ان پر زندگی کے مختلف اسرار و رموز کی عقدہ کشائی کی اور اقبال کے مختلف سوالات کے جوابات دیئے۔ جاوید نامے میں اقبال پر مولانا روم کے روحانی فیوض و برکات کا اثر زیادہ نمایاں ہے۔

علامہ اقبال کا جب نام ہمارے سامنے آتا ہے تو ذہن میں یہی بات پہلے آتی ہے کہ وہ بڑے شاعر تھے۔قاری یہ حالت اس وقت تک رہتی ہے جب تک ان کی شاعری میں مکمل طور پر ڈوب نہیں جائے۔ پھر ان کے خیالات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے قاری اسے ایک مفکر کے روپ میں دیکھتاہے۔اقبال کے افکار اتنے وسیع ہیں کہ اب تک سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں ۔ہر ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی پھر بھی تشنگی کا احساس ہوتاہے ہر آنے والا کلام اقبال میں غوط زن ہوکر قیمتی آبدار نکال لاتاہے

۰۰۰


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی