ائمہ مساجد: آپ سے کچھ کہنا ہے!!!

 ائمہ مساجد: آپ سے کچھ کہنا ہے!!!

از قلم : محمد افروز رضا مصباحی

چند روز قبل مغرب کی نماز ایک مسجد میں ادا کرنے پہنچا۔ سلام پھیرتے ہی امام صاحب بآوز بلند مقتدیوں کو درود پاک پھر آیتہ الکرسی پڑھا کر دعا کی۔سنت سے فارغ ہوکر ان سے پوچھا یہ بلند آواز سے درود اور آیتہ الکرسی پڑھانا کیا ہے؟ 

کہا میں نیا ہوں مجھ سے پیشتر امام یہ طریقہ ایجاد کرکے گئے ۔کمیٹی کا کہنا ہے اسے جاری رکھو۔میں نے کہا یہ ایک طرح کی بدعت ہے۔ فرض و سنت کے درمیان مختصر دعا کی اجازت علما نے دی ہے لیکن مذکورہ امور کی کہیں صراحت نہیں ۔

امام صاحب نے مسجد میں لگے ایک بورڈ کی طرف اشارہ کرکے کہا یہاں لکھا ہے ہر نماز کے بعد آیتہ الکرسی کے وِرد سے آدمی بعد وفات جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے کہا :پڑھنا ہے،پڑھانا کہاں لکھا ہے۔انفرادی ذکر ہے اجتماعی کیسے سمجھ لیے؟؟؟

یونہی ایک مسجد میں عشا کی نماز کے لیے پہنچ گیا دو رکعت چھوٹ ہوچکی تھی سلام کے بعد مابقیہ رکعت کے لیے کھڑا ہوا ۔ معاً امام صاحب مائک میں سورہ ملک کی تلاوت شروع کی۔ سورہ ملک مجھے یاد ہے ان کے پڑھنے سے میری نماز میں خلل ہورہا تھا میری طرح اور بھی نمازی اپنی چھٹی ہوئی رکعت ادا کررہے تھے۔ممکن ہے انہیں بھی ڈسٹرب ہورہا ہو۔

بعد نماز امام صاحب سے پوچھ بیٹھا کہا میں عارضی امام ہوں امام صاحب چھٹی پر ہیں وہ سورہ کی تلاوت سلام پھیرنے کے بعد کرتے ہیں مجھے بھی ایسا کرنے کو کہا ہے۔

میں نے کہا فرض و سنت کے درمیان اتنا وقفہ نہیں ہونا چاہیے نیز جن کی رکعت چھوٹ جاتی ہے ان کو بھی ڈسٹرب ہوتا ہے۔پھر فوراً فرض نماز  کے بعد سورہ ملک کی تلاوت اجتماعی طور پر اس کا ذکر کہاں ہے؟۔ انفرادی معاملہ ہے۔ علی سبیل التنزل اگر چند کو بیٹھا کر ہی سنانا ہے تو پوری نماز مکمل ہونے کے بعد کی جائے۔کسی کو جلدی ہو یا اٹھ کر جانا ہو تو بیٹھنے والوں کی نگاہ میں مطعون ہوگا کہ دو منٹ بیٹھ نہیں سکتے!!!

کہا :پہلے کے امام صاحب شروع کرکے گئے اب اس کو باقی رکھنے پر کمیٹی کا اصرار ہے۔

یہ دو واقعہ یہاں ذکر کیا اسی طرح کے کچھ الگ انداز کے کام بعض امام صاحبان شروع کرتے ہیںان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے امام کے لیے درد سر ہوتا ہے کہ نئے رواج کو باقی رکھا جائے یا ختم کیا جائےبعض خواہی نخواہی باقی رکھتے ہیں بعض اختلاف کربیٹھے یا کرنے سے انکار کرے تو بہت جلد باہر کا راستہ دکھادیا جاتاہے۔اس پر غور کیا تو چند باتیں سمجھ میں آئیں:

۰  ماثور آیات و اذکارکی فضلیت تو معلوم ہے لیکن اصل روح سے واقفیت نہ ہونے پر انفرادی ذکر کو اجتماعی شکل دینا۔

۰  اصل مسئلہ سے ناواقفیت ایک بڑی وجہ بھی ہوتی ہے۔فضلیت پر نظر ہوتی ہے فقہی مسئلہ نظروں میں نہیں ہوتا۔

۰ بعض اپنے بھولے پن کی وجہ سے ہر چمکتی شے کو سونا سمجھ کر پیش کر دیتے ہیں بعد میں آنے والا پاریکھ اسے رد کرے تو لوگ غلط سمجھ لیتے ہیں۔

۰  بعض امام اپنی ساکھ کی مضبوطی اور علم و فن کی نمائش میں ایسی چیزوں کو خوشنما *طریقے سے پیش کرتے ہیں جسے قدیم امام نے نہ کیا ہو۔مثلاً روزانہ الگ الگ درس ہوگا تلاوت ، تفسیر، حدیث ،فقہ،تصوف ،مسائل دینیہ، مذہبی واقعات وغیرہ۔

ظاہر ہے موجد خود اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ تسلسل کےساتھ اس کو باقی رکھ سکے۔ لیکن قدیم امام کی کوتاہی طشت ازبام کرنے کے چکر میں خود ہی چکر میں آکر چند ماہ میں عاجز آکر جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔

وجہ: مقتدی خوش ہوں گے کہ یہ کام اس مسجد میں کسی نے نہیں کیا یہ امام صاحب کر رہے ہیں۔

۰  موقع محل اور حالات کی پرواہ کیے بغیر اس قسم کے ذکر و اذکار کو رواج دیدینا کہ میرے بعد کوئی دوسرا امام اس کا متحمل ہوگا یا نہیں ۔

۰ کمیٹی کو باور کرانا کہ لوگ اس طرح قریب ہوں گے اور چندہ میں اضافہ ہوگا۔

۰ فرائض کے مقابل نوافل کی فضلیت زیادہ بیان کرنا کہ لوگ فرائض سے غافل ہو کر نوافل کے انتظار میں رہیں۔ بڑی راتوں میں نوافل جماعت سے ہونے کی وجہ سے بعض ناخواندہ امام صاحب سے پوچھ بیٹھتے ہیں "١٥/ اگست کے نماز کی جماعت کب قائم ہوگی؟؟؟؟

اے زینت محراب و منبر!!!

حدیث پاک میں کہا *گیا:أَحَبُّ الأعمالِ إلى اللهِ أدْومُها و إن قَلَّ  (اللہ کے نزدیک وہ عمل پسندیدہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ کم ہوں)

۰ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے ایسی چیز کو رواج دیں تاکہ لوگ کرسکیں اور بعد میں آنے والا باقی رکھ سکے۔

۰ فی زمانہ امامت کی عمر کم ہوچکی ہے کس امام کی کب چھٹی ہوجائے اور جگہ سے برخواست کردیے جائیں، کہنا مشکل ہے۔لہذا بعد والوں کے لیے رحمت کا دروازہ کھول کر جائیں، زحمت کا نہیں ۔

۰ قدیم امام کی کوتاہیاں بیان کرنے اور خود کو بہتر ثابت کرنے کہ معاملے سے دوری بنائے رکھیں کیوں کہ آپ بھی قدیم ہونے والے ہیں،آئے دن کا مشاہدہ ہے۔بہتر سے بہتر لوگ اور کم تر سے کمتر اس میدان میں موجود ہیں۔

۰ اپنی شبیہ بہتر بنانے کے چکر میں برسوں خدمت انجام دینے والے کی لغزشوں کو مقتدیوں کے سامنے بیان کرنے سے پرہیز ضروری ہے۔بہت کچھ سہہ کر ہی برسوں گزارا ہے اس لیے"کما تدین تدان۔ جیسا کروگے ویسا بھروگے‘‘  پیش نظر رہنی چاہیے۔

۰ دینی تعلیم کم ہے تو مسائل ضروریہ کی جانکاری کے لیے انوار شریعت،قانون شریعت حصہ اول اوربہار شریعت حصہ سوم مطالعہ میں  رہنی چاہیے۔

۰ علم یا ڈگری کے مطابق ہی اپنا تعارف کرائیں۔نام کے ساتھ مولانا مفتی کے لاحقہ کا اثر ہوتا ہے پھر عمل کے میزان میں لوگ تولتے ہیں۔اگر اس کے مطابق ہیں تو ٹھیک ورنہ لاحقہ پر بات آتی ہے۔ اپنے کو حافظ/ مولانا/ مفتی/ کہیں تو اس کے آبرو کی حفاظت کریں ورنہ اصل لاحقہ والے بھی بدنام ہوجاتے ہیں۔

۰ بعض مرتبہ اہل علم / ڈگری ہولڈر مولانا کی منزل سے آگے نہیں بڑھ پاتے، اولی/ ثانیہ یا ناقص علم والے مفتی بن جاتے ہیں۔ خود ساختہ مولانا مفتی بن جائے اس پر کسی کو آزاد ملک میں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ اعتراض کی گنجائش اس وقت بن جاتی ہے جب ’’لاحقہ بڑا اور درشن چھوٹا‘‘کی مثال سامنے آتی ہے۔

اسلاف کا طریقہ پنج وقتہ نماز کی پابندی،فجر یا عصر بعد کسی کتاب سے مسائل یا دینی معلومات فراہم کرنا اورایک وقت یا بضرورت دو وقت مکتب کی تعلیم۔ اس کے علاوہ ضرورت و حاجت کے تحت تعلیم بالغاں۔میرا خیال ہے ایک امام اتنا کرسکتا ہے، اسے باقی بھی رکھ سکتا ہے۔

ساری باتوں کا حصر ممکن نہیں ہےبس اتنی گزارش ہے کہ منصب امامت پر رہتے ہوئے ایسی چیز کو رواج کو نہ دیا جائے جو فرض و واجب کے درجے میں نہ ہو اور بعد میں آنے والے امام کے لیے زحمت کا سبب بنے۔

وما علینا الاالبلاغ



ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی