دعوت و سنت کی غیر سیاسی عالم گیر تحریک دعوت اسلامی کے 40/ سال


الحاج الشاہ مفتی عبدالحلیم رضوی اشرفی ناگپوری علیہ الرحمہ کی تحریک کے لیے دی گئی قربانیوں اور احسانات کو اجاگر کرتی تحریر

از قلم:محمد افروز رضا مصباحی،گلبرگہ۔7795184574

  شمسی کیلنڈر کے اعتبار سے ستمبر 1981 میں دعوت اسلامی کی بنیاد ہند وپاک کے مؤقر علمائے کرام نے رکھی اور مولانا الیاس عطار قادری کو  کا امیر بنایا گیا۔اس وقت کے جید علمائے کرام کی دور بین نگاہوں نے جس شخص کو تحریک کا امیر منتخب کیا تھا ۔ان کی باطنی نگاہیں دیکھ رہی تھی یہی وہ شخص ہے جو اس تحریک کو بام عروج عطا کرسکتاہے۔جس وقت مولانا الیاس قادری امیر منتخب ہوئے اس وقت دعوت اسلامی کا کوئی ضابطہ اور منشور نہیں تھا۔مولاناالیاس قادری عطاری نے اپنے دوستوں کے ساتھ کام شروع کیا ۔ان کی انتھک محنت و کاوش ،جد و جہد ،جہدمسلسل اورسخت جاں بازی وجانفشانی سے ایک ایسی تحریک کو متعارف کرایا جس کا تصور اس سے قبل نہیں تھا۔پاکستان کے مختلف علاقوں میں یہ تحریک جڑ پکڑنے لگی ۔تحریک کے امیر کو ابتدا سے ہی ایسے مخلص دوست اور ساتھی ملے جو ان کا دست و بازو بن کر ہمیشہ ان کے ساتھ رہے اور دعوت وتبلیغ کی اس غیر سیاسی تحریک کو استحکام بخشنے میں سراپا مخلص رہے۔ پاکستان کی سرزمین پر پھلنے پھولنے اور برگ و بار لانے والی تحریک ۹۰ء کی دہائی میں ہندوستان میں متعارف ہوئی ۔

دعوت اسلامی کے لیے جن لوگوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی اور تحریک کے امیر جن حضرات کو ’’محسن دعوت اسلامی ‘‘کہتے ہیں ان میں ایک نام ہندکی سرزمین سے تعلق رکھنے والی متعدد خصوصیات کی حامل شخصیت پیر طریقت الحاج الشاہ مفتی عبدالحلیم رضوی اشرفی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات والا صفات ہے۔جن کی محنت و کاوش اور دفاعی محاذ کو سنبھالنے کی وجہ سے ہند کی باد مسموم فضا میں بھی بادنوبہاری کی نوید سنانے کا موقع فراہم کیا ،ان کی حمایت اور ہر مخالفت کے آگے سینہ سپر ہونے پر ہی تحریک کو جِلا ملی اور مخالفین کی زباں مہر بلب ہوئی ۔

۱۹۹۰ء میں مولانا محمد الیاس قادری عطاری کی محنت وکاوش اور جدوجہد کی عملی تصویر ایک تحریک بنام ’’ دعوت اسلامی ‘‘ ہند وستان میں متعارف ہوئی ۔اسی سال دعوت اسلامی کا ایک اجتماع بمبئی کے آزاد میدان میں رکھا گیا ۔اجتماع میں شرکت کے لیے پاکستان سے مولانا الیاس قادری اپنے رفقا کے ساتھ آئے۔ اجتماع شروع ہوا ۔ اِدھر علماکی خصوصی نشست میں چند باتوں کو لے کراختلاف ہوگیا جس نے شدت اختیار کرلی ، مولاناالیاس قادری اسٹیج تک نہ جاسکے۔ اب تک جو علمااور مبلغین دعوت اسلامی سے جڑے ہوئے تھے وہ علاحدہ ہوکر ایک نئی تحریک کی بناء ڈالنے کی راہ پر چل پڑے ۔ دعوت اسلامی ہندوستان میں نووارد تحریک تھی اس کا کوئی خاص تعارف بھی نہ ہواتھا،جو اصل کارکنان تھے علحدگی اختیار کرلی جس سے تحریک کو دھچکا لگا اور بحرانی کیفیت کا سماں چھاگیا۔ 

  مولانا الیاس قادری میمن برادری سے تعلق رکھتے ہیں ۔لہذا اس برادری کے لوگ زیادہ جڑے ہوئے تھے۔ ناگپور میں میمن براردی کی کثرت ہے جنتاگلاس فیملی ایک مضبوط اور دینی مزاج فیملی ہے۔ اس فیملی کے سربراہ الحاج عبد الستار صاحب میمن بھی اس اختلافی میٹنگ میں چند لوگوں کے ساتھ موجودتھے ،حاجی صاحب کے مفتی عبد الحلیم رضوی اشرفی صاحب قبلہ سے گہرے تعلقات تھے ۔ لہذا ناگپور سے اجتماع میں نمائندگی کرنے والوں میں مفتی صاحب بھی شامل تھے۔

دعوت اسلامی کو آپ کی تائید و حمایت :

  اختلافی میٹنگ کے بعد دعوت اسلامی مؤید علما اور کارکنان سے محروم ہوگئی قریب تھا کہ تحریک ہندوستان سے رخصت ہوجائے ، گفتارکے ساتھ کردار کی حامل تحریک اپنے نقوش ثبت کرنے سے پہلے بے نشاں ہوجائے ۔ٹھیک اسی وقت مفتی صاحب قبلہ نے تحریک کے لیے اپنی تائید وحمایت پیش کی کہ اس جیسی تحریک کی ہندوستان میں ضرورت ہے۔ تبلیغی جماعت کے دعوتی طریقہ کار کے جواب میں ہمارے پاس کوئی منظم تحریک وتنظیم نہیں جس کے توسط سے مخالف جماعت کا توڑ کیا جاسکے اور اسی انداز میں دعوت وتبلیغ کیا جاسکے۔ اب جب کہ دعوت اسلامی اپنے اندر یہ خوبیاں رکھتی ہے،مسلک اعلی حضرت اس کے منشور کا حصہ ہے تو اسے ہندوستان کی سرزمین پر فروغ پانا چائیے۔

مایوسی اور ناامیدی کے اس تاریک موڑ پر مولاناالیاس قادری کو روشنی کی کرن نظر آئی کہ ہندوستان میں ملکی سطح پر ایک قابل اور نمائندہ شخص شانہ بشانہ کھڑے ہونے کو تیار ہے اور اپنی تائید وحمایت کے ساتھ دعوت اسلامی کے فروغ کا خواہش مند ہے۔ لہذا انہیں لگا کہ ہندوستان کی مٹی تحریک کے لیے زرخیز ہے ۔ انہیںمفتی صاحب کی تائید و حمایت خزاں کے رُت میں موسم بہار کا جھونکا محسوس ہوئی۔کیونکہ مفتی صاحب قبلہ کا اپنا وزن تھا۔جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور اپنے وقت میں وسطی ہند کا ایک معتبر ادارہ تھا، وہاں کے آپ مدرس و مفتی رہ چکے تھے۔ سارے ہندوستان میں تبلیغی اسفار کی وجہ سے اپنی شناخت اور پہچان بناچکے تھے ۔ یوں کہاجائے کہ آپ اپنے میں ایک تحریک اور انجمن تھے ۔ اس انجمن نے پورے ملک میں اپنی شمع روشن کرچکے تھے ، اب ایسا شخص دعوت اسلامی کی حمایت و تائیدمیں کھڑے ہوکر اس کا ساتھ دینے کو تیار ہے تو اندھے کو کیا چائیے ؟دو آنکھ۔

دعوت اسلامی کی کامیابی کا راز:  دعوت اسلامی نے بہت کم وقتوں میں اپنی پہچان اور شناخت بنالی ۔اس کے پنپنے اور کامیابی کی منزلیں طے کرنے کی وجہ اس کی سادگی رہی ۔سادگی کولوگوں کے درمیان پیش کیا سفیدلمبا کرتا،سینے کے دونوں طرف دو بڑے جیب جس میں پین کے ساتھ مسواک رکھنے کی گنجائش رکھی ،علی گڑھی پائجامہ ۔ گنبد خضری کی نسبت سے سبز عمامہ سر پر سجایا ۔بعد میں مدنی چادر کا لباس میں اضافہ کیا گیا۔اس سادگی نے لوگوں کے دلوں پر دستک دی ،تقریر وخطابت میں انداز جارحانہ سے ہٹ کر متانت وسنجیدگی،دلوںپر دستک دینے والے پیار و محبت والے انداز کے ساتھ اپنی بات لوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کیا جس سے عوام و خواص تحریک سے قریب ہونے لگے۔

:دعوت اسلامی کے پروگرام میں شرکت

  دعوت اسلامی کے ابتدائی دور میں تحریک کی طرف سے جہاں کہیں پروگرام ہوتامفتی عبد الحلیم رضوی اشرفی علیہ الرحمہ کی حاضری لازمی ہوتی ،اس سے فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں میں گردش کرنے والا جملہ ’’دعوت اسلامی جاہلوں کی جماعت ہے‘‘ مفتی صاحب کی آمد سے پھیکا پڑجاتاکہ اگر تحریک جاہلوں کی ہوتی تو جامعہ عربیہ اسلامیہ کے سابق مفتی ،علمائے اہل سنت میں اپنی شناخت رکھنے والی اہم شخصیت اس تحریک سے وابستہ کیوں ہوتے؟ ابتداء میں مفتی صاحب کو مخالفین دعوت اسلامی کی تنقید والزامات کا سامنا رہا،تنقید والزامات لگانے والے سبھی تنقید برائے تخریب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ناواقفیت اور غلط فہمی کے شکار خواص بھی تھے۔ مگر آپ اپنی جگہ قائم رہے ۔خواص کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی اور بتایاکہ یہ تحریک مسلک اعلی حضرت کی ترجمان ہے۔ تعلیمات اعلی حضرت پر عامل ہے۔ لوگوں میں عملی طور پر کام کرتی ہے۔ اس کے امیر مولانا الیاس قادری گھر گھر اسلامی تعلیمات کی روشنی پہنچانے میں بے لوث ہیں ۔علمائے اہل سنت کی تائید و حمایت سے ہی تحریک کو آگے بڑھایا ہے۔ یہ تحریک وقت کی ضرورت اور دیوبندیوں کی ’’ تبلیغی جماعت ‘‘ کا عملی جواب ہے ،اسی کے انداز میںجواب دینے پر یقین رکھتی ہے۔ لہذا اعتراضات ، تنقیدات، منفی تبصرات سے نہ تحریک پر اثر ہوگا نہ اس کا بائیکاٹ جماعت اہل سنت کے حق میں مفید ہوسکتاہے۔

  ہندوستان کی سرزمین پر مفتی صاحب کے دعوت اسلامی میں شمولیت سے تحریک کو مضبوطی و توانائی ملی ۔ان کی سرپرستی نے مبلغین کی ڈھارس بندھائی ۔جہاں کوئی معاملہ ہوتا مفتی عبدالحلیم صاحب قبلہ سرپرست دعوت اسلامی سے رجوع ہوتے ۔ اعتراضات و جوابات میں الجھنے سے تحریک نے ہمیشہ گریز کیا جہاں بات بگڑجاتی مفتی صاحب نے تشفی بخش جوابات دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی ۔ ایک طرح سے مفتی صاحب قبلہ نے دفاعی محاذ کو سنبھالا۔ جہاں کہیں تحریک سے متعلق شکوک و شبہات ظاہر کئے گئے ،لوگوں میں بے چینیاں پیداکرنے کی کوشش کی گئی ، اعتراضات ہوئے، ناراضگی پائی گئی ، اکابرین کو غلط فہمی میں ڈالاگیا تو آپ سامنے آئے محاذ کو سنبھالا، غلط فہمیوں کو دور کرنے کی سعی کی۔ 

  دعوت اسلامی کے امیر کے خلوص ،مبلغین کے شب و روز کی محنت اور سرپرست اعلی مفتی صاحب قبلہ کی مساعی جمیلہ کی وجہ سے تحریک دنیابھر میں مضبوط وتوانا ہوچکی ہے ،دعوت وتبلیغ کے ہر میدان میں اپنا لوہامنوچکی ہے۔جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ درجنوں ممالک میں لوگوں کے درمیان اپنے اصول و ضابطے کے مطابق کام کررہی ہے۔ روز بروز نئے علاقے میں داخل ہوکر فروغ اسلام و مسلک اہل سنت کا کام بحسن و خوبی انجام دے رہی ہے۔ اس کے باوجود متشککین کے شکوے اور اعتراضات رہتے تو ان کی زندگی میں مفتی صاحب قبلہ سے رابطہ کیا جاتا۔

ہندوستان میں دعوت اسلامی کے فروغ میں مفتی صاحب کا کلیدی رول رہا، ان کی سرپرستی ہر دم ہرمحاذ پر کام آئی ۔ ایسا بھی وقت آیا کہ بعض لوگوں کوایسا لگاکہ دعوت اسلامی فلاں جگہ حالت نزع میں ہے ۔کوئی دم ہے کہ اسے شہر بدر یا گاؤں بدر کردیا جائے ۔ ناگپور کی سرزمین میں ابتدائی دور میں سب سے زیادہ حمایت ملی اور وقت نے کروٹ لی ،چند مبلغین کی ذاتی بداعمالیوںاور کام کے طریقہ کار کی وجہ سے سب سے زیادہ مخالفت بھی اسی شہر سے ہوئی،علاوہ ازیں ملکی سطح پر بھی طوفان اٹھا۔ خود آپ پر سنگین الزامات عائد کئے گئے، پیسے لے کر کام کرنے کی باتیں اڑائی گئیں ،پمفلٹ چھاپے گئے، اپنوں کو غلط فہمیوں میں مبتلاکیا گیا ، بہت سے قدیم شناسا سنی سنائی باتوں میں آکر بدظن ہوگئے۔ مگر آپ ثابت قدم رہے۔ ہر مخالفت پر آپ کا یہی کہنا تھا:

 ’’ثابت کردو کہ دعوت اسلامی مسلک اعلی حضرت اور تعلیمات اعلیٰ حضرت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک ہے ، اگر ثابت ہوجائے تو سب سے پہلے یہ فقیر اسے ٹھکرادے گا ‘‘

لیکن کسی نہج سے کوئی ثابت نہ کرسکا ،بعضوں نے کوشش کی لیکن وہ بھی غلط فہمی کا نتیجہ نکلا۔غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے جہاں کہیں ضرورت محسوس ہوئی آپ بلائے گئے ان کی باتوں کو سنا پھر اس کا جواب دیا اگر مطمئن ہوگئے تو ٹھیک ورنہ ان کے لیے دعائے خیر ۔آپ ہر پروگرام کے اختتام پر تحریک سے جڑے رہنے کی تلقین کرتے، افواہوں پر دھیان نہ دینے کا مشورہ دیتے ۔

دعوت اسلامی کا بدل پیش کرو:   ایک اعتراض بڑے زور و شور سے کیا جاتا کہ ٹھیک ہے دعوت اسلامی کام کرتی ہے تو دوسری تنظیمیں بھی تو لوگوں میں کام کررہی ہے۔توپھر دعوت اسلامی ہی کیوں؟ کسی بھی تنظیم کے بینر تلے کام کیا جاسکتاہے۔

:اس کا جواب آپ دیتے 

دیگرسنی تنظیموں کے کاموں سے انکار نہیں ۔ اپنے اپنے میدان میں جس طرح ہوسکتاہے ہر تنظیم کام کررہی ہے ،بڑی اچھی بات ہے ۔لیکن دعوت اسلامی کے طریقہ کار کے مطابق کوئی کام کررہی ہو تو بتاؤ۔وہابیہ دیابنہ کو دعوت اسلامی کے کام کے طریقے سے اپناوجود خطرے میں نظر آتاہے ۔اس کے علاوہ کوئی دوسری تنظیم بتاؤ جس کے طریقہ کار سے اغیار کو اپناوجود خطرہ میں نظر آتاہو؟سنیوں کے تنظیموں میں سے کوئی تنظیم بدل کے طور پر پیش کرو جو دعوت اسلامی کے طرز و طریقہ پر کام کرتی ہو، تبلیغی جماعت کا جواب ہو، عوام کو اپنی جانب راغب کرکے دین و سنیت کا سبق پڑھاتی ہو؟آپ کے جب سوالات ہوتے تو کوئی بھی معقول جواب دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتااورکوئی دعوت اسلامی کا بدل بھی پیش نہ کرسکا۔تحریک دعوت اسلامی پر اعتراضات کے بوچھار ہوتے رہے لیکن آپ میدان میں ڈٹے رہے۔

دعوت اسلامی مجھے پڑھاپے میں ملی:   دعوت اسلامی کے بڑھتے قدم ،ایک ملک کے بعد دوسرے ملک میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے سیکڑوں ممالک میں اپنے قدم جماچکی ہے۔اس کی کارکردگی سے ایک دنیا متاثر ہے۔ہر روز ایک نئے ملک میں اسلامی دعوت کو عام کرنے کے لیے اس کے مبلغین ایک نئے طریقے سے داخل ہورہے ہیں۔ حضور مفتی صاحب قبلہ کو جب دعوت اسلامی کی کارکردگی کی خبر دی جاتی ، مدرسۃ المدینہ ،جامعۃ المدینہ ،اسکول و کالج کے قیام کی جب خبر ہوتی تو بہت خوش ہوتے اور ایک آہ کے ساتھ فرمایاکرتے :

’’دعوت اسلامی مجھے بڑھاپے میں ملی ،جوانی میں ملی ہوتی تو اس بڑھ کر اس کے پلیٹ فارم سے کام کرتا ‘

  راقم عرض کرتاہے حضور مفتی صاحب قبلہ نے ڈھلتی عمر ،کئی بیماریوں سے نبرد آزماہوتے ہوئے جتنا انہوں نے کام کیا یہ انہیں کا حصہ تھا، جوان علماء کی جوانی عام طور پر منصوبے بنانے ،خاکے بھرنے اور تنظیم و تحریک کے قیام کے جدو جہد میں گزرجاتی ہے۔بعض وہ ہیں جو پلیٹ فارم نہ ملنے پر اپنی قابلیت و صلاحیت کا بھرپور مظاہر ہ نہیں کرپاتے ،صرف افسوس اور وقت کا رونا رو کر اپنی دنیا میں گم ہوجاتے ہیں، ایسے وقت میں حضور مفتی صاحب قبلہ جدو جہد ،مختلف پروگرام میں شرکت کے لیے ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک مسلسل سفر ،دعوت اسلامی کے کام کے علاوہ خود اپنے میدان میں سرگرم رہنا واقعی حیران کن تھا، بعض لوگ انتہائی حیران ہوجاتے تھے کہ ۸۰؍۸۵؍سالہ عمر میں اس کثرت سے کیسے سفر کرلیتے ہیں ان کا جسم کیسے برداشت کرلیتاہے۔لیکن وہ مسلسل حرکت میں رہے ۔سفر میں رہے ،سفر میں رہتے ہوئے آخری سفر پر چلے گئے۔


ایسے کئی وجوہات رہے جس کی بنا پر مفتی صاحب تحریک دعوت اسلامی سے تاعمر جڑے رہے اور دنیا بھر میں اس کی سرپرستی فرماتے رہے ۔یہ بات طے ہے مفتی صاحب قبلہ اس تحریک کی کامیابی اور ترقی کے لیے جی جان لگادیے ۔جب سے وابستہ ہوئے دفاعی محاذ سنبھال لیا۔بیگانوں سے زیادہ اپنوں کی غلط فہمیاں دور کرنے میں انہیں زیادہ محنت کرنی پڑی۔ان کے مخلصانہ کاوشوں سے دعوت اسلامی کے کارکنان کو کام کامیدان میسر آیا ،رکاوٹیں دور ہوئیں، مشکل بھری راہیں آسان ہوئیں ،جہاں گئے نقش پابناتے گئے جس جگہ دیوار کھڑی کی گئی آزمائش میں ڈالے گئے علاقے سے انخلاء کی نوبت آئی وہاں مفتی صاحب علیہ الرحمہ پہنچے اور گفت وشنید کے بعد معاملہ حل فرمایا ۔بعض مقام پر مسائل حل نہ ہو سکے تو دعوت اسلامی کے لوگ علاقہ سے دستبرار ہوگئے ۔مبلغین کے رخصت ہونے کے بعد پھر ایسا موقع بھی آیا کہ وہاں کے لوگ خود آکر دعوت دی کہ ہمارے علاقے میں آئیے تاکہ لوگوں کونماز روزہ ودیگر مسائل سیکھنے کا موقع ملے ،ہمارے ایمان و عقیدے کی حفاظت ہوسکے ۔ علاقے میں تبلیغی جماعت کا گشت بڑھ گیاہے ہمارے نوجوان ان کی طرف جارہے ہیں ۔ 

:حرف آخر

  دعوت اسلامی کی تاریخ نامکمل ہوگی جب تک مفتی صاحب کی مساعی جمیلہ اور قربانیوں کو ذکر نہ کیاجائے گا کیوں کہ ایک ذمہ دار عالم و مفتی کے ساتھ اکابر میں شمار ہونے والی شخصیت ہونے کے باوجود ہر طرح کی تنقیدات و اعتراضات بے پرواہ ہوکر دینی خدمات کو پیش نظر رکھا۔تحریک سے وابستہ ہونے کے سبب جو لوگ انکاری ہوتے یا گاؤں والے مبلغین کی آمدکو پسندنہ کرتے آپ کی وجہ سے سارے معاملات فرو ہوجاتے چہرہ دیکھ کر غیض و غضب کی آنکھیں بھی جھک جایاکرتی تھیں ۔ایک ہمدرد سمجھ کر اپنی باتیں سامنے رکھتے مفتی  صاحب حتی المقدور اسے حل کرنے کی کوشش کرتے ۔یہی وجہ ہے دعوت اسلامی ہند ان کی قربانیوں کی مرہون منت ہے ان کے ذکر اور اعتراف خدمات کے بغیر پوری تاریخ ادھور ی اور ناقص سمجھی جائے گی آنے والا مورخ لکھے گا :

’’تحریک دعوت اسلامی کو خون جگر دیکر آبیار ی کرنے والوں میں مفتی عبدالحلیم رضوی اشرفی ایک چمکتادمکتانام ہے اسی کی پشت پناہی اور ہرجگہ دفاعی محاذ سنبھالنے کی وجہ سے تحریک کو پھلنے پھولنے کا موقع ملاورنہ حالات ایسے بھی آئے جب لوگوں کو لگا تحریک دعوت اسلامی کا دم واپسیں ہے کوئی دم ہے کہ گاؤں بدر، شہربدر یاملک بدر ہوجائے مگر ان کی انتھک کاوشوں ،محنتوں اور پیہم کوششوں نے پھر سے برگ وبار لانے کا موقع فراہم کیا اور تحریک پھر سے پورے تب و تاب کے ساتھ سرگرم عمل ہوگئی لوگوں کا دل جیت لیا پھر لوگ خود ہی اس سے وابستگی میں فرحت و انبساط محسوس کرنے لگے‘‘

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی