مفتی عبد الحلیم رضوی اشرفی ناگپوری کی اہلیہ بھی داغ مفارقت دے گئی

 فقیہ اسلام حضرت مفتی عبدالحلیم رضوی اشرفی ناگپوری کی اہلیہ محترمہ بھی خالق حقیقی سے جاملیں

محمد افروز رضا مصباحی ، گلبرگہ


آج اپریل کی 30/ تاریخ ہے، رمضان المبارک کا 17/ روزہ مکمل ہوچکا ہے ۔فقیہ اسلام الحاج مفتی عبد الحلیم رضوی اشرفی رحمۃاللہ علیہ کو دنیا کو الوداع کہے  7/ واں دن ہے ۔ان کے شہزادگان و مریدین ومعتقدین ابھی ان کے غم میں نڈھال ہیں۔ جدائی کا زخم تازہ ہے، مجروح قلب وجگر کو ابھی سکون و اطمینان بھی نہیں مل پایا ،والد بزرگوار کے قبر کی مٹی سے ہاتھ بھی صاف کرسکے تھےکہ آج اچانک وحشتناک، حسرت آیات خبرملی کہ حضور مفتی صاحب قبلہ کی اہلیہ محترمہ بھی خالق حقیقی سے جاملی ۔انا للہ وإنا إلیہ راجعون ۔

مغرب کی نماز پڑھ کر کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ وجے واڑہ سے مولانا محبوب سبحانی کا کال آیا، علیک سلیک ہوئی ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی، کہنے لگے کوئی خبر ملی؟  کہا، نہیں ۔کہنے لگے : پیرانی ماں کا انتقال ہوگیا ۔ابھی پانچ منٹ ہوئے ہیں ۔انا للہ وإنا إلیہ راجعون ۔

مرد کچھ نہیں جب تک عورت ساتھ نہ دے ۔ عورت بے مثال کارنامے اسی وقت انجام دیتی ہے جب شوہر کی طرف سے پوراسپورٹ ملے۔مرد انقلابی کام اسی وقت کام انجام دے سکے گا جب گھر کی جانب سے بے فکر ہو ،دونوں کی ہم آہنگی سے ہی کاروبا ر حیات کی گاڑی چلتی ہے ۔

مفتی صاحب کی اہلیہ محترمہ سات بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی ۔بھوانی پور ضلع سیتامڑھی بہار ان کا میکہ تھا۔ کم عمری میں ہی 1954 میں شادی ہوئی جس وقت مفتی صاحب قبلہ منظر اسلام بریلی میں زیر تعلیم تھے ۔1958 میں اہلیہ محترمہ رخصت ہوکر اپنے شوہر کے  پاس آئی ۔63/ سالوں کا دونوں کا ساتھ رہا ۔مفتی صاحب قبلہ کبھی گھر پر چین سے نہیں رہے ۔پہلے تدریسی خدمات کے  لیے بریلی، چھپرہ اور ناگپور رہے ۔پھر دعوت وتبلیغ کے لئے باہر نکلے تو کب واپس آئیں گے خود  انہیں بھی نہیں معلوم رہتا تھا ۔

1968 میں فیملی کو ناگپور لے کر آئے ۔جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور میں مدرس اور نائب مفتی تھے ۔مدرسہ سے 2/ کلو میٹر کی دوری پر بنگالی پنجہ کی چھوٹی مسجد میں امام وخطیب تھے ۔یہیں پر نظام بھائی کے مکان میں کرائے سے رہے ۔بنگالی پنجہ میں ہی کئی مکان میں 1989 تک رہے۔مفتی مجیب اشرف رحمۃ اللہ علیہ کے زور اور دباؤ پر شانتی نگر میں 600/ اسکوائر فٹ زمین لے کر گھر بناکر 1990 میں اپنے مکان میں رہنے لگے ۔

مفتی صاحب قبلہ ہمیشہ سفر میں رہے ہفتہ پندرہ دن ایک ایک مہینہ باہر رہے ۔گھر کی دیکھ ریکھ، بال بچوں کی پرورش، تعلیم وتعلم سارے مسائل کا سامنا اہلیہ محترمہ کرتی رہی ۔اہلیہ محترمہ ایک وفاشعار، سلیقہ مند  ،باحوصلہ وباہمت خاتون تھی جس نے ہر گام پر مفتی صاحب قبلہ کو راحت وسکون پہنچانے کی کوشش کی ۔

ان کی قربانیوں کے پیش نظر ہی مفتی صاحب گھر سے بے فکر ہوکر سفر در سفر میں رہا کرتے تھے۔

مفتی صاحب قبلہ اِ دھر 6/ 7/ سالوں سے ٹھنڈی کا موسم وجے واڑہ آندھرا پردیش میں اپنے مرید خاص سلیم بھائی کے گھر پر رہ کر گزارا کرتے تھے تو اہلیہ بھی ساتھ رہا کرتی تھی ۔

اس سال نومبر میں وجے واڑہ آئے۔15 / فروری کو ناگپور کے لئے نکلے 16/ فروری کو گھر پہنچے ۔آپ دوسرے سفر پر نکل گئے ۔اہلیہ محترمہ گھر پر رہی ۔5/ مارچ کو پبر آندھرا پردیش کا دورہ تھا ۔آنکھ میں تکلیف کی وجہ سے موتیابند کا آپریشن کرانا تھا ۔سلیم بھائی نے کہا، امی کو یہیں لے آئیے اچھے ڈاکٹر سے آنکھوں کا آپریشن کرادیں گے۔ ناگپور سے دونوں نکلے یہ آخری سفر تھا جو اپنے گھر اور شہر کو چھوڑ کر ایک ساتھ نکلے، دوبارہ جانا مقدر نہ ہوا۔مفتی صاحب کی طبیعت جب بگڑی تھی اسی وقت اہلیہ محترمہ کی بھی حالت خراب ہوگئی تھی۔مفتی صاحب دنیا سے پردہ فرماگئے اور اپنی وصیت کی جگہ جامعہ ضیائیہ فیض الرضا ددری کے صحن میں مدفون بھی ہوگئے ۔اہلیہ وجے واڑہ میں ہی خرابی طبیعت کی وجہ سے آکسیجن پر تھیں ۔جمعرات کو مفتی صاحب قبلہ کی چھوٹی بہو سے بات ہوئی تھی ۔ان کے ذریعہ ہی مخدومہ محترمہ کی موجودہ حالت پر گفتگو ہوئی ۔حضرت کے چھوٹے صاحبزادے مصطفیٰ رضا حضرت کی سیوم کے فاتحہ و میلاد کے بعد رات ہی میں اپنی اہلیہ کے ساتھ وجے واڑہ کے لئے نکل گئے تھے ۔رات اپنے سسرال مظفر پور رک کر صبح پٹنہ آگئے، وایا دہلی وجے واڑہ بدھ کے روز والدہ کے پاس پہنچ گئے تھے کہ طبیعت میں افاقہ ہوا تو ناگپور لے جائیں گے ۔حضرت مفتی صاحب کے مرید خاص سلیم بھائی کے یہاں والدہ رکی ہوئی تھی ۔ حضرت کی طبیعت خرابی کے ساتھ ہی ان کی طبیعت بگڑی تھی، سانس لینے دشواری ہورہی تھی، گھر میں ہی آکسیجن کا انتظام کردیا گیا تھا ۔مفتی صاحب وصال فرماگئے، افراد خانہ نعش مبارک لے کر ددری بہار چلے گئے، ان کو ڈاکٹر نے جانے کی اجازت نہ دی تھی کہ سفر کے لائق نہیں ہے ۔


۱؍ مئی کو مصطفیٰ رضا اپنی اہلیہ کے ساتھ امی جان کو لے کر ناگپور کے لیے نکلنے والے تھے۔ لیکن روح کی پروازگی کی جگہ متعین تھی۔ انسان سوچتاہے ۔قدرت تدبیر کرتی ہے۔جمعہ کی شام میںبعد نمازعصر ۰۰:۶  بجے آخری سانس لی ۔ کلمہ طیب پڑھتے ہوئے بڑی خاموشی سے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ۔ 

رات میں میں کاغذی کارراوئی کروائی گئی۔اور ایمبولینس سے ناگپورلاش کو روانہ کیا گیا۔ سنیچر کو دوپہر بعد چار بجے ایمبولینس پہنچی ۔فورا غسل و تدفین کا کام انجام دیاگیا۔ مفتی یحییٰ رضا مصباحی نے اپنی والدہ کا جنازہ پڑھایا۔مومن پورہ ناگپور کی قبرستان میں ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کردی گئیں۔

یہ ہفتہ حضور مفتی صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کے گھر والوں کے لیے بڑا صبر آزمارہا۔سفر در سفر نے سب کو نڈھال کردیا۔ایک ہفتہ قبل مفتی صاحب کا وصال ،اس ہفتہ والدہ محترمہ کے سایہ شفقت سے محرومی نے سبھی کو بری طرح صدمے میں ڈال دیا ۔ مصیبت و پریشانی کے اس گھڑی میں ہم ان کے ساتھ ہیں ۔ سارے شہزادے و شہزادی ،بہوئیں ،پوتے پوتیاں اور نواسوں کے حق میں دست بدعا ہیں۔ مولائے قدیر ان سب کو صبر و شکیب عطا فرمائے ، نازک حالت ضرور ہے لیکن مشیت ایزدی کے آگے سب بے بس ہے ۔اس کے قانون کل نفس ذائقۃ الموت پر راضی برضا رہنا ہی انسان کی کامیابی ہے۔ اس موقع پر وجے واڑہ والے سلیم بھائی کو بھی تعزیت پیش کرتے ہیں ۔انہوں نے اپنے افراد خانہ کے ساتھ حضور مفتی صاحب قبلہ اور ان کی اہلیہ کے لیے جو محبتیں اور قربانیاں پیش کی ہیں اللہ اس کا بہترین اجر و جزا دے گا۔ ان کی کاوشیں بہرصورت لائق ستائش رہی۔جزاکم اللہ خیرا جزا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی