تحقیق و تنقید کا باہمی رشتہ

 تحقیق و تنقید کا باہمی رشتہ

از:  محمد افروز رضا مصباحی

تحقیق و تنقید کے باہمی رشتے کو سمجھنے کے لیے پہلے تحقیق و تنقید کی تعریف،اصول اور اس کی قسمیں معلوم کرلی جائیں تاکہ تحقیق و تنقید کے باہمی رشتے کی افہام و تفہیم میں سہولت و آسانی ہوگی۔

تحقیق کیاہے؟

تحقیق کا معنی حقائق کی تفتیش،دریافت،چھان بین اورتلاش کے ہیں۔تحقیق دراصل حرکت عمل اور زندگی کی علامت ہے۔ اگر تحقیق رک جائے تو زندگی بھی رک جاتی ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ کے نزدیک: تحقیق کے لغوی معنی کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ اصطلاحاً یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتاہے“

قاضی عبد الودود تحقیق کی تعریف میں کہتے ہیں:تحقیق کسی امر کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے“۔

ڈاکٹر گیان چند نے قاضی عبدالودود کے ذریعے کی گئی تحقیق کی تعریف کو ناکافی کہا ہے۔ گیان چند کا کہنا ہے:

”اس تعریف کے الفاظ کافی نہیں۔ اگر حقیقت افشا ہے تو اس کی اصلی شکل کو دیکھنا تحقیق نہیں۔ اگر میں میز کرسی پر بیٹھا لکھ رہاہوں اور گردن گھماکر ایک طرف پڑی کرسی کو دیکھتاہوں تو یہ کوشش بھی اور کرسی اپنی اصل شکل میں بھی دکھائی دیتی ہے۔لیکن یہ تحقیق نہیں۔کہنا چاہیے جب کسی امر کی اصل شکل پوشید یا مبہم ہو تو اس کی اصلی شکل کو دریافت کرنے کا عمل تحقیق ہے“۔

(تحقیق کا فن۔ از:گیان چند۔ ص:3۔اترپردیش اردو اکادمی،لکھنو)

محققین کے ذریعے تحقیق کی تعریف یکجا کی جائے تو یہ باتیں سامنے آتی ہیں:

۱۔نامعلوم کو معلوم کرنا۔۲۔ معلوم کی نئی تشریح۔۳۔باضابطہ طریق کار۴۔سائنسی اسلوب۔۵۔علم کے علاقے کا پھیلاؤ۔۶۔مواد کی تنقیح۔ ۷۔مستند نتائج کا استنباط۔

تحقیق دراصل اس عمل کا نام ہے جس کے ذریعہ مسائل کے قابل اعتبار حل تک پہنچاجاتاہے۔ اس میں منصوبہ بندی اور باضابطہ طریقے سے مواد جمع کیا جاتاہے، یہ بے پناہ قوت و توانائی کی حامل ایک سرگرمی ہوتی ہے جو معاملات کی تصدیق یا تردید اور ان کی تعبیر و تشریح میں کمی بیشی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔

تحقیق کے اقسام: 

اردو کے محققین نے تحقیق کو دو زمروں میں تقسیم کیاہے۔ 

۱۔نظریاتی تحقیق:

ایسی تحقیق جس میں ریسرچ اسکالر نظریہ سازی سے کام لیتاہے۔ یعنی پہلے تحقیق کے لیے کچھ اصول بنائے جاتے ہیں۔اصول و ضوابط کے دائرے میں رہ کر کام کیا جاتاہے۔

۲۔اطلاقی تحقیق:

اطلاقی تحقیق ایک طرف سائنس کو اپنا موضوع بناتی ہے وہی سوشل سائنس کے علاوہ مختلف زبانوں سے بھی ہوتاہے۔ریسرچ اسکالر کو میدان میں اتر کرکام کرناہوتاہے۔ 

موضوع سے اعراض کرتے ہوئے محققین نے تحقیق کو سندی اور غیر سندی میں بھی تقسیم کیا ہے۔ سندی سے مراد وہ تحقیق ہے جو کسی ڈگری وغیرہ کے حصول کے لیے کیے جاتے ہیں،اس میں وقت کی پابندی ہوتی ہے۔ایک گائیڈ کے زیر اثر کام کرنا ہوتاہے۔غیر سندی وہ تحقیق ہے جو ڈگری کے لیے نہیں کیے جاتے۔اس طرح کی تحقیق میں کسی طرح کی قید نہیں ہوتی۔ محقق اپنے ذوق و شوق کی بنیاد پر اس طرح کی تحقیق پیش کرتاہے۔ 

تحقیق کے اصول:

تحقیق کا کام جہاں سعی پیہم اور محنت و جانفشانی کاہے وہیں اگر کام کو شروع سے اصول کے مطابق نہ کیا جائے تو اور بھی گنجلک ہوجاتاہے۔ تحقیق کا کام چونکہ سخت محنت اور الجھنوں سے پُر ہوتا ہے اس لیے ان الجھنوں میں آسانی پیدا کرنے اور کام کو سائنٹفک طریقے سے کرنے کے لیے اس کے اصول بنائے گئے تاکہ محقق کم سے کم ٹینشن لے کر اپنی ساری توجہ کو اپنی تحقیق اور تلاش مواد میں صرف کرسکے۔

تحقیق کے اصول کو مختصراً یہاں بیان کیا جاتاہے:

۱۔موضوع کا انتخاب۔۲۔عنوان سازی۔۳۔تحقیق کا خاکہ تیار کرنا۔۴۔معلومات جمع کرنا اور فائل بندی کا طریقہ۔۵۔مسودہ کی ترتیب و تدوین۔

تحقیق کی غرض و غایت:

تحقیق کا اصل مقصد فطرت یا انسانی زندگی سے متعلق مسائل کا حل تلاش کرناہے۔ تحقیق انسانی علم کی وسعت میں اضافہ کرتی ہے۔ جدید دنیا کی ترقی تحقیق کے ذریعہ ہی ممکن ہوسکی ہے۔جس دور سے ہم گزر رہے ہیں یہ پروپیگنڈے کا دور ہے۔ رائی کا پربت بنانا، تل کا تاڑ بنانا ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا لیکن موجودہ میڈیائی پروپیگنڈے نے دنیا کو سمجھا دیا کہ محاورے کو زمینی سطح پر اتارا جاسکتاہے۔ایسے دور میں تحقیق کی اہمیت و افادیت مزید بڑھ جاتی ہے تاکہ معمولی غلطی کسی نازک موڑ پر لاکر کھڑی نہ کردے۔

تنقید کیاہے؟

اردو ادب میں جس طرح تحقیق ضروری ہے یونہی تنقید بھی ضروری ہے۔ تنقید کا کام فن کو سنوارنا اور فنکار کی رہنمائی و اصلاح کرنا ہوتاہے۔ نقاد تخلیق کار میں تخلیق کا بہتر شعور اور فن سے دلچسپی لینے والوں کو اپنے تجربات سے متاثر کرکے لذت اندوزی کا صحیح ذوق پیدا کرتاہے۔نقاد بے جا نکتہ چینی کے ذریعے مصنف اور اس کی تصنیف کی بے قدری نہیں کرتا۔اسے فن سے دلچسپی ہوتی ہے اور تخلیق کار سے ہمدردی۔ وہ نقائص کی نشاندہی کرکے تخلیق کار کو سیدھے راہ پر لاتاہے۔

تنقید کا لفظی معنی:پرکھ، چھان بین، کھرا کھوٹا جانچنا۔

اصطلاحی معنی: ایسی رائے جو برے بھلے یا صحیح اور غلط کی تمیز کرادے۔ لفظ تنقید علم مصطلح الحدیث میں بھی مستعمل ہے، جس میں حدیث کے راویوں پر جرح و تعدیل کرتے ہوئے انہیں پرکھا جاتاہے تاکہ غلط صحیح میں تمیز ہوسکے۔

تنقید کی تعریف میں محققین کااختلاف خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ ہر مصنف تنقید کی اپنے طور پر تعریف کرتاہے،سبب یہ ہے کہ تعریفوں میں طریق کار، شرائط، مقصد اور ادب کا نظریہ و تصور بھی دخیل ہوتاہے۔

تنقید ایک ایسی اصطلاح ہے جس میں کسی بھی شخص، چیز، یا پھر صنف کے منفی اور مثبت پہلو شمارکرائے جاتے ہیں۔ دور جدید میں تنقید کو صرف نقص و خامی بیان کرنے کے لیے تصور کیا جاتاہے،حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ محض خامیاں بیان کرنے کی اصطلاح تنقیص کہلاتی ہے جس میں صرف منفی پہلوؤں کو اجاگر کیا جاتاہے۔

تنقید کے اقسام:

تنقید کے کئی اقسام ہیں یہاں صرف نام شمارکرانے پر اکتفا کیا جاتاہے:

۔آر کی ٹائپل تنقید: یہ نفسیاتی تنقید کی اہم شاخ ہے جس میں کسی ادبی یا ادب کے اجتماعی لاشعور پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

۲۔نفسیاتی تنقید:فرائیڈ کے دریافت کردہ نفس لا شعور کو اہمیت دینے والے ناقدین کا مطالعہ نفسیاتی تنقید کہلاتاہے۔ ادبی اصطلاح میں کسی ادیب کے نفس کو پرکھنا بھی مراد لیا جاتاہے۔

۳۔استقرائی تنقید:ایک ایسی تنقید جس میں کسی ادیب کو خارج سے عائد کردہ اصول و قوانین سے نہیں بلکہ اس کی اپنی تصنیف کے مطابق پرکھا جاتاہے۔

۴۔تجزیاتی تنقید:اس میں کسی ادب پارے کے بنیادی اوصاف کو ملحوظ خاطر رکھاجاتاہے۔

۵۔رومانی تنقید: اس تنقید میں ادیب کے رومانوی رنگ کو ملحوظ خاطر رکھا جاتاہے۔

۶۔سائنٹفک تنقید:اس میں سائنٹفک علام کے مطلق تنقید کی جاتی ہے۔

۷۔عمرانی تنقید: یہ معاشرے کی تنقید ہے اس میں ادیب اور ادب کو معاشرتی پس منظر سے پرکھا جاتاہے۔

۸۔ مارکسی تنقید:اس میں کسی بھی ادب کا مطالعہ موضوع کی طبقاتی کشمکش میں کیا جاتاہے۔ 

۹۔نظریاتی تنقید:اس میں نظریاتی بنیادوں پر کام کیا جاتاہے۔

۰۱۔عملی تنقید:کسی فنکار یا ادب کانظریاتی مطالعہ عملی تنقید کہلاتاہے۔

۱۱۔ہیئتی تنقید:اس میں کسی بھی صنف کی ہیئتوں کا مطالعہ کیا جاتاہے۔

(تنقید کیا ہے؟ تنقید کی اہمیت۔از: عابد عزیز۔ ادبی کاوش ڈاٹ کام)

تنقید کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے تخلیقی ادب کی ماہیت معلوم ہوتی ہے۔تنقید فن پارے کے بارے میں ترجمانی کرتی ہے یہ قدر ہی متعین نہیں کرتی بلکہ ادب اور زندگی کو ایک پیمانہ دیتی ہے۔ تنقیدانصاف کرتی ہے ادنی اور اعلیٰ کی شناخت کرتی ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ کہا کہنا ہے:

”تنقید کا کام مصنف کے ادب پارے پر فیصلہ صادر کرنا بھی ہے۔ملٹن تنقیدی فیصلوں کی موجودگی کو تسلیم کرنے کے باوجود یہ کہتاہے کہ تنقید کا عمل جو کچھ بھی ہے اس کے دو طریقے قدیم زمانے سے مروج ہیں ایک تو سائنسی طریقہ یعنی ادب پارے کا مطالعہ کرکے اس کے مطالب کو دوبارہ اچھی طرح پیش کرنے اور مصنفین وغیرہ کے بارے میں تحقیق و جستجو کا طریقہ، دوسرا عقلی طور پر پرکھ تول کر فیصلہ صادر کرنے کا طریقہ“

(اشارات تنقید۔ از: ڈاکٹر سید عبد اللہ۔ص:13) 

تنقید دراصل ادب تقویم و تشریح ہے۔یہ ادبی تحریر کو غیر ادبی تحریر سے ممتاز کرنے کے ساتھ ادبی تحریر کے معیار،ساخت اور مزاج کا تجزیہ بھی کرتی ہے۔ وزیر آغا نے تنقید کو معروضی نقطہئ نظر اور موضوعی نقطہئ نظر میں تقسیم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”معروضی نقطہئ نظر ادب کو ایک ”کھڑکی“ کی حیثیت دیتاہے جس میں سے ادیب کی شخصیت یا اس کے اردو گرد کی پوری معاشرتی صورتِ حال کو دیکھا جاسکتاہے چنانچہ معروضی تنقید علوم سے بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے۔ دوسری طرف موضوعی تنقید ہے جو داخلی رویے سے کام لے کر ادب پارے کو ذوقِ نظر کی میزان پر تولتی ہے.......... بعض لوگ تنقید کو محض ذاتی تاثرات کے اظہار تک محدود کردیتے ہیں اور یوں ذاتی پسند یا ناپسند کو میزان مقرر کرلیتے ہیں۔حالانکہ داخلی رویے سے مراد اس واہبی قوت کا اظہار ہے جو حسن کو پہچانتی ہے، خوشبو اور رنگ کے فرق کو سمجھتی ہے اور شے یا واقعہ کے عقب میں جھانکنے کی قدرت رکھتی ہے“

(تنقید اور جدید اردو تنقید۔از:وزیر آغا۔ص:22)

تحقیق و تنقید کا باہمی رشتہ:

تحقیق ہو کہ تنقید دونوں تخلیق پر منحصر ہیں۔ تخلیق کو اولیت حاصل ہے جبکہ تحقیق اور تنقید کو ثانوی درجہ حاصل ہے۔ کیونکہ یہ دونوں تخلیق کے بغیر وجود میں نہیں آسکتیں لیکن ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو تنقیدی پیمانے تحقیق سے پہلے تخلیق کے ساتھ وجود میں آتے ہیں۔ جب چند تخلیقات وجود میں آجاتی ہیں تو انہیں دیکھ پرکھ کر اقداری پیمانے اور راہ نما اصول وضع کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد جب فن کار مزید تخلیقات کرتے ہیں تو نقادوں کے وضع کردہ پیمانوں کو مدنظر رکھ اپنی تخلیق میں مزید بہتری لاتے ہیں۔ تخلیق کار پر ضروری نہیں کہ وہ نقادوں کے مقرر کردہ معیاروں کی سو فی صدی پابندی کرے۔ وہ ان سے آگے بڑھ کر نئے تجربے کرتاہے،نئے پیمانے دیتاہے اس پورے عمل میں تخلیق کار بھی نقاد بن جاتاہے۔ لیکن اس کی تنقید اور نقاد کی تنقید میں یہ فرق ہے کہ تخلیق کار کی تنقید اس کے ذہن میں خوابیدہ رہتی ہے جب کہ نقاد کے پیمانے منظر عام پر آتے اور اس طرح بعد کے تخلیق کار اور قاری دونوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر گیان چند تحقیق و تنقید پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”تحقیق ہو کہ تنقید دونوں تخلیق پر منحصر ہیں۔ تخلیق اصل شے ہے۔ تحقیق و تنقید ثانوی۔ کیونکہ یہ دونوں تخلیق کے بغیر وجود میں نہیں آسکتیں۔ لیکن ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو تنقید ی پیمانے تحقیق سے پہلے تخلیق کے ساتھ ساتھ وجود میں آتے ہیں۔ایلیٹ نے اپنے مضمون ”The Function of Criticism میں تخلیق اور تنقیدی صلاحیت کے رشتے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:

”شاید درحقیقت ایک مصنف کی اپنی تصنیف کے سلسلے میں محنت شاقہ کا بڑا حصہ تنقیدی محنت کا ہوتاہے۔ یعنی چاننے، جوڑنے، تعمیر کرنے، خارج کرنے، صحیح کرنے، جانچنے کی محنت۔یہ اذیت ناک محنت جتنی تنقیدی ہوتی ہے اتنی ہی تخلیقی ہوتی ہے“

(تحقیق کا فن۔ از:گیان چند۔ ص:17-16۔اترپردیش اردو اکادمی،لکھنو)

تحقیق اور تنقید دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔تحقیق کے لیے تنقید کا سہار ا لینا ہی پڑتاہے۔کسی بھی ادبی تحقیق میں یہ جاننا ہوتاہے کہ اس ادب پارے کی اہمیت کیا ہے؟ اس لیے تحقیق کے لیے تنقیدی شعور لازم قرار دیا گیاہے۔یوسف سرمست تحقیق و تنقید کے آپسی رشتے پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے کہاہے: ”تنقید منفی تحقیق مساوی برابر ہے گمراہی کے۔اردو ادب میں آج کل تحقیق کے بغیر تنقید کی گمراہیاں عام ہوگئی ہیں۔ تحقیق کے بغیر کوئی بھی تنقید ی فیصلہ صادر کیا جاسکتاہے۔۔کسی بھی ادب پارے کو اولیت کا تاج پہنایاجاسکتاہے۔کسی بھی سر سے دستار فضلیت اتاری جاسکتی ہے۔اگر کوئی دلیل فراہم کرنے کی ضرورت نہ ہوتو ظاہر ہے کوئی بھی دعوی کیا جاسکتاہے۔اردو ادب میں ایسے دعوے بہت عام ہوگئے ہیں“۔

 (تحقیق و تنقید۔ از:یوسف سرمست۔ ص:10)

 مشہور محقق و نقاد جارج وہیلے نے کہا: ”کوئی سچا محقق تنقیدی مہارت کے بغیر کام نہیں چلاسکتا۔ نقاد کو محقق ہوئے بغیر چارہ نہیں ورنہ تاثراتی نقاد یا عبارت آرا ہوکر رہ جائے گا۔تحقیقی علم کے بغیر تنقید محض خیالی بت بن کر رہ جائے گی“ مشہور نقاد رہنے ویلک کاکہناہے: کوئی ادبی تاریخ تنقید سے معریٰ نہیں ہوتی۔ ادبی مورخ کا تنقید سے بے نیاز رہنا بالکل غلط ہے۔۔ہر تخلیق خواہ کل کی ہو خواہ ہزار برس پہلے کی، اس کا تجزیہ اور قدر پیمائی تنقیدی اصول کی دست گیری کے بغیر ناممکن ہے۔ ادبی مورخ کو مورخ بننے کے لیے نقاد بننا ضروری ہے۔ اسی طرح ادبی تنقید جیسے ہی موضوعی پسند و ناپسند سے آگے قدم رکھتی ہے اس کے لیے ادبی تاریخ نہایت اہم ہوجاتی ہے۔ اگر نقاد تاریخی رشتوں سے ناواقف رہے تو اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ کون سی تخلیق طبق زاد ہے اور کون سی ماخوذ“۔ 

(تحقیق کا فن۔ از:گیان چند۔ ص:19) 

تحقیق اور تنقید میں مماثلت:

۱۔دونوں ادب کے شعبے ہیں۔ 

۲۔تنقید تخلیق کے جذبہئ حیات کا انکشاف کرتی ہے، تحقیق اسی جذبے کے پس پشت کام کرنے والے حقائق کا انکشاف کرتی ہے۔ 

۳۔ تنقید ان عوامل کو بھی تلاش کرتی ہے جن کے زیر اثر تخلیق ہوئی اور اس طرح تحقیق کے نزدیک پہنچ جاتی ہے۔ ۴۔ دونوں حقائق پر نظر رکھتی ہیں۔ ۵۔ دونوں میں تشریح، تعبیر، تاویل،جانچ،پرکھ وغیرہ مشترک ہیں۔ 

۶۔ دونوں کا آخری مقصد ادب کو سماج کے لیے مفید ثابت کرنا ہے۔

 تحقیق و تنقید ہم معنی یا مترادف ہے یا ایک دوسرے سے لاتعلق ہے؟ شارب ردولوی کا کہناہے:

 ”در اصل تحقیق و تنقید کو ہم معنی یا ایک دوسرے کے مترادف سمجھنا یا ایک دوسرے سے قطعاً بے تعلق سمجھنا غلط ہے۔ اس لیے کہ بغیر تنقیدی شعور اور تنقیدی بصیرت کے تحقیق مکمل نہیں ہوسکتی اور اگر کوئی تحقیق بغیر تنقیدی بصیرت کے ہے تو وہ معاشیات اور مالیات کے اعداد و شمار کی طرح ہوگی جس سے معنی خیز نتائج کی توقع نہیں کی جاسکتی“۔

 (جدید اردو تنقید اصول و نظریات۔ از: شارب ردولوی۔ ص:432)

 تحقیق و تنقید کے ندی کے دو کنارے ضرور ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔تنقید کے بغیر تحقیق کا سفر ممکن نہیں۔اسے اس طرح سمجھیں کہ تحقیقی مقالے کے لیے بہت سے مواد جمع کرلیے۔اب ترتیب دینا ہے تو کس طرح دیں گے؟ ظاہر ہے سارے مواد کو جمع کردینا قرین قیاس نہیں ہوتا۔ بعض اقتباسات کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس وقت تنقیدی زاویہ نظر سے سارے مواد کو دیکھا،پرکھا جاتاہے،جس کی ضرورت ہو بس اسی اقتباس یا مواد کو جگہ دی جاتی ہے۔لہذا محقق کے اندر تنقیدی شعور لازمی طور پر پایا جاتاہے،بغیر اس کے محقق کے لیے کوئی چارہ نہیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی