خواجہ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا

 


خواجہ ہندوہ دربار ہے اعلیٰ تیرا

عرس خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے موقع پر ایک خصوصی تحریر

از قلم: محمد افروز رضا مصباحی 

سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ اولیاء کرام کی صف میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔دعوت و تبلیغ ،رشد و ہدایت ،اعلاء کلمۃ الحق کے لیے کفر و شرک کی وادیوں میں جو صدا بلند کی ،مولائے قدیر کی رضا و خوشنودی میں خود کو فنا کردیا ۔ فناء کا جو صلہ مولائے کائنات نے خواجہ غریب نواز کو عطا فرمایاوہ بڑی قدر و منزلت والی تھی، ایسی عظمت و شان ،بلند مقام ومرتبہ  اور خواجگی سے سرفراز فرمایا جس کا نظارہ دنیا کھلی آنکھ سے دیکھ رہی ہے ۔ دین اسلام کا ایک اہم فریضہ دعوت و تبلیغ ہے ۔اس فریضہ کی ادائیگی میں خواجہ غریب نواز نے اپنی زندگی قربان کر دی اور ہندوستان کے کفر ستان جیسے علاقے کو اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے روشن کردیا اور ہر طرف کلمہ توحید کی صدا گونجنے لگی ۔لاکھوں لوگ کفر و شرک کے دلدل سے نکل کر اسلام کے دامن میں آگئے۔

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 14 رجب المرجب 536 ھ بمطابق 1141 عیسوی (بروز پیر 14 رجب 530ھ مطابق 1135ءکو جنوبی ایران کے علاقے سیستان آپ ایران میں خراسان کے نزدیک سنجر نامی گاؤں کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ خواجہ معین الدین چشتی کا بچپن میں نام حسن تھا۔ آپ نسلی اعتبار سے نجیب الطرفین صحیح النسب سید ہیں آپ کا شجرہ عالیہ بارہ واسطوں سے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد گرامی خواجہ غیاث الدین ایک تاجر اور با اثر  فرد تھے۔ خواجہ غیاث صاحب ثروت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عابد و زاہد شخص بھی تھے۔ دولت کی فراوانی کے باوجود خواجہ معین الدین چشتی بچپن سے ہی بہت قناعت پسند تھے۔ خواجہ معین الدین چشتی کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی بی بی سیدہ ماہ نور ہے۔

علوم ظاہری :۔بعد ازاں آپ نے سب کچھ اللہ کی راہ میں لُٹانے کے بعد تحصیل علم کے لیے خراساں کو خیرباد کہہ دیا اور آپ نے سمرقند بخارا کا رُخ کیا جو اس وقت علوم و فنون کے اہم مراکز تصور کیے جاتے تھے۔ یہاں پہلے آپ نے قرآن پاک حفظ کیا۔ پھر تفسیر‘ فقہ‘ حدیث اور دوسرے علوم ظاہری میں مہارت حاصل کی۔

علوم باطنی:۔علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ نے مرشد کامل کی تلاش میں عراق کا رخ کیا۔ اپنے زمانے کے مشہور بزرگ خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں آئے خواجہ معین الدین چشتی اپنے مرشد کی خدمت میں سالہا سال رہے۔ آپ پیرو مرشد کی خدمت کے لیے ساری ساری رات جاگتے رہتے کہ مرشد کو کسی چیز کی ضرورت نہ پڑ جائے۔پیر و مرشد کی خدمت گزاری ان کا بہترین مشغلہ تھا جس کے صلے میں خواجہ عثمان ہارونی ولایت کے وہ منازل طے کرائے جس کا تصور بھی مشکل تھا۔اپنے ساتھ ہی کعبہ معظمہ لے کر گئے ۔یہاں سے فراغت پاکر مدینہ منورہ میں سرورِ کائنات ﷺکے روضہ اقدس کی حاضری ہوئی حضرت عثمان ہارونی نے خواجہ معین الدین چشتی کو حکم دیا۔

”معین الدین! آقائے کائنات  ﷺکے حضور سلام پیش کرو۔

خواجہ معین الدین چشتی نے گداز قلب کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔

”السلام علیکم یا سید المرسلین۔“ وہاں موجود تمام لوگوں نے سنا۔ روضہ رسول سے جواب آیا۔

”وعلیکم السلام یا سلطان الہند“۔۔

سرکار مدینہ ﷺنے خواجہ معین الدین کو ہندوستان جانے کا حکم دیا ۔ خواب میں وہ سارے راستے دکھادیے جن سے گزر کر ہندوستان پہنچنا تھا۔خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدوں کے ایک مختصر قافلے کے ساتھ ہندوستان کا سفر کیا ۔ملتان میں خواجہ گنج بخش علیہ الرحمہ کے یہاں حاضری دی پھر وہاں سے اجمیر کے لیے روانہ ہوئے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کس سن میں اجمیر تشریف لائے اس سلسلے میں آپ کے تذکرہ نگاروں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ویسے زیادہ تر اس بات پر متفق ہیں کہ آپ ۵۸۷ھ / ۱۱۹۱ء کو اجمیر شہر پہنچے۔ جہاں پہلے ہی دن سے آپ نے اپنی مؤثر تبلیغ ،حُسنِ اَخلاق، اعلی سیرت و کردار اور باطل شکن کرامتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اہلِ اجمیر نے جب اس بوریہ نشین فقیر کی روحانی عظمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اجمیر جو کبھی کفر و شرک اور بت پرستی کا مرکز تھا ، اسلام و ایمان کا گہوارہ بن گیا۔ 

عطاے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ی رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ اسلام اور دعوت حق کے لیے ہندوستان کی سرزمین پر تقریباً ۴۵ سال گذارے۔ آپ کی کوششوں سے ہندوستان میں جہاں کفر و شرک اور بت پرستی میں مصروف لوگ مسلمان ہوتے گئے وہیں ایک مستحکم اور مضبوط اسلامی حکومت کی بنیاد بھی پڑ گئی۔ تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت خواجہ کی روحانی کوششوں سے تقریباً نوے لاکھ لوگوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ جو کہ ایک طرح کا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اخیر عمر میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو محبوبِ حقیقی جل شانہ سے ملاقات کا شوق و ذوق بے حد زیادہ ہوگیا اور آپ یادِ الٰہی اور ذکرِ و فکر الٰہی میں اپنے زیادہ تر اوقات بسر کرنے لگے۔ آخری ایام میں ایک مجلس میں جب کہ اہل اللہ کا مجمع تھا آپ نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ والے سورج کی طرح ہیں ان کا نور تمام کائنات پر نظر رکھتا ہے اور انھیں کی ضیاء پاشیوں سے ہستی کا ذرّہ ذرّہ جگمگا رہا ہے۔۔۔ اس سرزمین میں مجھے جو پہنچایا گیا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ یہیں میری قبر بنے گی چند روز اور باقی ہیں پھر سفر درپیش ہے۔ ‘‘ (دلیل العارفین ص ۵۸)

سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ نے جس روز اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طر ف سفر اختیار فرمایاوہ ۶ رجب المرجب ۶۳۳ھ بہ مطابق ۱۶ مارچ ۱۲۳۶ء بروز پیر کی رات تھی۔ عشا کی نماز کے بعد آپ اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے اور خادموں کو ہدایت فرمائی کہ کوئی یہاں نہ آئے۔ جو خادم دروازہ پر موجود تھے ساری رات وجد کے عالم میں پیر پٹکنے کی آواز سنتے رہے۔ رات کے آخری پہر میں یہ آواز آنا بند ہوگئی۔ صبح صادق کے وقت جب نمازِ فجر کے لیے دستک دی گئی تودروازہ نہ کھلا چناں چہ جب خادموں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے مالکِ حقیقی کے وصال کی لذت سے ہم کنار ہوچکے ہیں۔ اور آپ کی پیشانی پر یہ غیبی عبارت لکھی ہوئی ہے:’’ہٰذا حبیبُ اللہ ماتَ فِی حُب اللہ۔‘‘

 آپ کے صاحب زادے حضرت خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کا جسمِ مبارک اسی حجرے میں دفن کیا گیا جہاں آپ کی قیام گاہ تھی۔

خواجہ غریب نواز کی کرامتوں کا ظہور آج بھی ہوتاہے۔ اجمیر کی سرزمین روحانیت کا گہوارہ مانا جاتاہے۔ ان کے دربار میں حاضری دینے والے محروم نہیں ہوتے ۔ ان کی زندگی میں ضرورت مندوں کے لیے لنگر چلتارہا،یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ فیضان خواجہ سے سبھی مستفیض ہورہے ہیں۔سلسلہ چشتیہ کا فروغ ہند کی سرزمین پر آپ ہی کے ذریعہ ہوا۔ان کے درسے ہر کوئی دامن مراد بھر کر لوٹتاہے ۔یہ بارگاہ ہر مذہب و ملت کے لیے یکساں ہے یہاں کسی طرح کا بھید بھاؤ نہیں ہوتا۔اللہ کی مخلوق کی خبر گیری ہی صوفیاء کے یہاں سب سے بڑی خدمت ہے۔ بزرگوں سے وابستگی ایمان کے حفاظت کی ضمانت ہے۔ اللہ والوں کے در سے مانگنے والوں کو سب کچھ ملتاہے بس مانگنے کا طریقہ اور دامن پھیلانے کا سلیقہ چاہئے ۔سچ ہے:

خواجہ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا 

کوئی محروم نہیں مانگنے والاتیرا 


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی