دانائے راز

 دانائے راز

محمد افروز رضا مصباحی

چند روز قبل ایک دانائے راز امام صاحب سے ملاقات ہوئی۔گفت و شنید میں امام و مقتدی کی طرف گفتگو کا رخ مڑ گیا۔ دانائے راز کہنے لگے ایک مقتدی عمر دراز ہیں نماز میر ی اقتدا میں پڑھتے ہیں۔چند دنوں قبل فجر میں صلوۃ وسلام پڑھنے کا وقت آیا تو شاید وہ آگے بڑھ رہے تھے میں نے دیکھا نہیں دوسرے بچے کو سلام پڑھنے کو کہہ دیا۔اس کے بعد اس مقتدی کو نماز میں نہیں دیکھا حالانکہ پابند صلات تھے۔درس اور دیگردینی پروگرام میں بڑی پابندی سے شرکت کرتے تھے۔ دوسرے مقتدی سے پوچھا آں جناب کدھر ہیں۔ مقتدی نے بتایا وہ آپ سے ناراض ہیں،مجھے لگا ناراضگی نفرت کی حد تک پہنچ گئی ہے،کہہ رہے تھے اب مسجد کو نہیں آؤں گا۔وجہ ناراضگی یہی بات بتائی۔میں نے از راہ مذاق کہا: شاید وہ سمجھ رہے ہوں اس سے امام کا دماغ ٹھکانے لگے گا۔ایک بچے کو مجھ پر ترجیح کیوں دی!!!!کہنے لگے:ہر ایک کی سوچ کا زاویہ جداگانہ ہے۔ آپ کی بات اپنی جگہ۔مجھے احساس ہوتاہے جو دین کے خدام سے بلا وجہ شرعی دشمنی مول لے،ان سے عناد رکھے، برائیاں بیان کرنا شروع کردے ایسے اشخاص سے اللہ بھلائی کی توفیق، نیکی کا ذریعہ چھین لیتاہے۔ 

مرد ِدانا کی بات سن کر مجھے جھٹکا لگا۔کہا: وہ کس طرح؟کہنے لگے:اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں ایک شخص پابندی سے صف اول میں آکر نماز باجماعت ادا کرتاتھا، اب نہیں کرتا(ثواب سے محرومی)۔مسجد میں آنے پر ثواب کا مستحق تھا، اب نہیں آتا،ثواب سے محرومی۔ مسجد میں آنے پر نمازی حضرات سے سلام و مصافحہ کرتا تھا،حدیث میں ہے ”جب مسلمان آپس میں ملے اور مصافحہ کرے تو ہاتھ جدا ہونے سے پہلے دونوں کی بخشش ہوجاتی ہے(مفہوم حدیث) اب نہیں کرتا(خیر سے محرومی)۔ درس میں شامل ہوتاتھا،اللہ و رسول کی باتیں سنتا تھا، نبی کریم ﷺکا نام آتا تو، صلی اللہ علیہ وسلم“ کہتا تھا (درود شریف کی فضیلت معروف ہے) اب نہیں کہتا۔ایک عالم سے ملاقات ہوتی تھی، حدیث میں ہے:کچھ نہ بن سکو توعالم کی صحبت اختیار کرو،پہلے چند منٹ بیٹھا کرتا تھا، اب نہیں بیٹھتا،گویا اس فضیلت سے محروم ہوگیا۔کیا اتنی ساری محرومیاں نیکی کی توفیق چھن جانے کی طرف اشارہ نہیں کرتی؟ایک بات یاد رکھیں جو دنیا میں خیر سے محروم ہوگیا اس بڑھ کر کوئی بدنصیب نہیں۔۔

میں ان کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔ان کی باتوں کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔انسان معمولی باتوں کی وجہ سے کیسے کیسے خیر سے محروم ہوجاتاہے۔ بھلائیوں سے دور ی بنالیتاہے۔ اعمال صالح کا ذریعہ خود بند کرلیتاہے لیکن کبھی اس جانب خیال تک نہیں آتا۔شعور کا چھن جانا سب سے بڑا المیہ ہے۔ جسے نقصان کا احساس ہو وہ سنبھل سکتاہے،رب کی توفیق دوبارہ پاسکتاہے۔ لیکن جسے حساس زیاں نہ ہو وہ راہ راست پر نہیں آسکتا۔بلا وجہ کسی سے بھی عداوت رکھناروا نہیں۔جونیک بندوں سے عناد رکھے وہ سب سے پہلے توفیق کے جوہر سے محروم ہوتاہے۔

 بعض لوگ کہتے ہیں پہلے داڑھی رکھتاتھالیکن ایک واقعہ کی وجہ سے منڈانا شروع کردیا،پہلے صدقات کرتا تھا،اب نہیں کرتا، لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتا ایک واقعہ کی وجہ سے بند کردیا،خدمت کا جذبہ تھا لیکن ایک واقعہ کی وجہ سے بددل ہوگیا،یہ کام بند کردیا۔گویا ایسے واقعات عمل خیر کی توفیق چھیننے کے لیے وقوع پذیر ہوئے تھے۔ حالانکہ رب ذو الجلال کی اس کائنات میں واقعات کا ظہور عبرت حاصل کرنے، درس لینے اور اعمال کی خرابی کو دور کرنے کے رونماہوتاہے۔ لیکن جو مثبت پہلو کے بجائے منفی پہلو اپنالے گویا خیر سے محرومی اس کا نصیبہ بن گیا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی