امام و مؤذن! یو آر انڈر سی سی ٹی وی کیمرہ



ائمہ اور مؤذنین کی ہونے والی ناقدری اوران کی زبوں حالی کو بیان کرتی تحریر

از قلم:محمد افروز رضا مصباحی،گلبرگہ۔

ہیڈ لائن دیکھ کر ممکن ہے قارئین چونک جائیں کہ امام و مؤذن کے نگرانی پر کیمرے کی تنصیب چہ معنی دارد؟ لیکن مضمون پڑھنے کے بعد اس قسم کے خلجان اور سوالات رفو ہوجائیں گے۔پہلے ۲/اَن ہونی واقعہ سن لیں پھر اس پر تبصرہ۔ 

پہلا واقعہ:

”مسجد کا ایک ذمہ دار عین جماعت کے وقت امام مسجد کو کال لگایا۔امام صاحب کہاں ہیں؟کیوں کیا ہوا؟ آپ مسجد میں نہیں دیکھ رے؟۔آپ تو سسرال گئے تھے۔آگئے کیا؟ نہیں۔مسجدمیں لگا کیمرہ آن کیا تو دوسرے نماز پڑھاتے دیکھے تو کال لگایا۔تو آپ دور سے کیمرے کے ذریعہ نگرانی کر رہے ہیں امام مسجد میں ہے یا نہیں؟ کوئی دوسرا کیسے مصلی پر نظر کیسے آیا؟ نہیں چُپ دیکھا کہ نماز ہوری کہ نہیں۔یعنی آپ نماز پڑھنے مسجد میں مت آؤ اور مسجد میں کیمرہ لگاکر گھر بیٹھے نگرانی کرو کہ امام و مؤذن کیا کررے؟یہ دونوں کبھی وقت پر نہ پہنچ سکے تو سوال کرو کہ کیوں نہیں پہنچے؟ کیا مولانا!تم بات کدھر لے کو جارے چلو فون رکھتاہوں“

دوسرا واقعہ:

”امام صاحب آپ کی غیر حاضری بہت ہوری۔پچھلے ہفتے جمعہ کو فجر میں نہیں آئے،عصر میں بھی دیر سے آئے عید کے دن بھی غائب تھے۔چار دن پہلے بھی ظہر کو نہیں آئے۔آپ کو کیسے معلوم میں نہیں آیا؟ گھر میں رہ کر نماز کو نہیں آتے تو کیسے پتا چلا کہ امام یا مؤذن نہیں ہے؟اتنی غیر حاضری تو نہیں ہوتی جتنا آپ بتارے؟ارے میرے پاس سب لکھا ہے۔ایک لسٹ نکالی جس میں مہینے کی تاریخ کے حساب سے پانچوں وقت کا نام لکھا ہے جس میں حاضر اور غیر حاضر لکھاہے۔یہ کیا؟ آپ اسکول کے بچوں کی طرح حاضری بناتے ہیں؟امام نہ ہوئے کیرانہ دکان کے نوکر و ملازم ہوگئے کہ آئے تو تنخواہ دینا نہیں تو کاٹ لینا؟نہیں یہ بات نہیں ہے۔پھر کیوں حاضری کی لسٹ بناکر گھوم رہے ہو؟ اپنی یادداشت کے لیے،تنخواہ دیتے تو اتنا کرناپڑتا ہے۔مطلب تنخواہ دوگے تو اِتنی نیچ حرکت کروگے؟ایسا مت بولو،ہم ذمہ دار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسجد میں لگنے والا کیمرہ مسجد اور پبلک کی سیفٹی کے لیے نہیں امام و مؤذن کی نگرانی کے لیے ہے؟مولانا تم ذیادہ ہی بول رے۔چلو تم اپنا دیکھ لوہم دوسرے کا انتظام کرلیں گے“

اوپر کی دونوں کہانی پڑھ کر گڑھی ہوئی معلوم ہوگی کہ امام و مؤذن کی نگرانی کرنے کی کیا ضرورت،انہیں دونوں کی وجہ سے مسجدیں آباد رہتی ہیں،وقت پر اذان اور نماز ہوتی ہے۔ایسی غیر شریفانہ ورذیلانہ حرکت کو ن کرے گا؟۔ لیکن قارئین کو بتادو ں۔یہ دنیا ہے یہاں سب کچھ ممکن ہے۔دنیا میں ایسے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ عقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں یہی حال عبادت گاہوں میں ہونے لگاہے۔ یہ گڑھی ہوئی کہانی نہیں بلکہ اپنے دامن حقیقت کو چھپائے ہوئے ہوئی ہے۔لوگ خود اپنی نظروں سے اتنے گِر گئے کہ مسجد میں نماز ادا کرنے کے بجائے مسجد میں کیمرہ لگا دیا۔اُدھر اذان اور نماز ہورہی ہے۔ یہ خود ساختہ ذمہ دار موبائل پر آن لائن نظارہ دیکھنے میں محو ہے۔ یا حاضری بھرنی ہے کہ کل مؤذن وقت پر نہیں آیا۔ آج کی فجر میں امام دو منٹ لیٹ سے پہنچا۔اب فیصلہ کرنا ہے ان کو اگر پوری تنخواہ دے دوں تو حلا ل ہے یا نہیں؟

امام و مؤذن پابندیئ وقت کا دوسرا نام ہے۔موسم خواہ کوئی بھی ہو،ہر سرد و گرم میں یہ لوگ اپنی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھانے کی کوشش کرتے ہیں  انہیں کے دم قدم سے وقت پر مسجد کے منارے سے صدائے اللہ اکبر بلند ہوتی ہے۔ امام کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ ان دونوں میں سے اگر کوئی ایک نہ ہو تو کچھ نہ کچھ فرق آجاتاہے۔ لیکن آخر وہ کونسی ذہنیت اور گِری ہوئی سوچ ہے کہ مسجدمیں کیمرہ لگانے پر مجبور کیا، نام دیا گیاکہ مسجد کی حفاظت، نمازی کی سلامتی کے لیے مسجد میں کیمرے کی تنصیب کی جارہی ہے (اگر مسجد و نمازی کی حفاظت کے لیے لگایا تو بہت بہتر)لیکن اس کیمرے سے امام و مؤذن کی آمد ورفت اور حاضری کا بایوڈاٹاتیار کیا جاتاہے۔ پھر یہ غور کیا جاتاہے کہ اس مہینے میں امام نے آٹھ نماز میں غیر حاضری کی،مؤذن نے چھ وقتوں میں اذان وقت پر نہیں دیا۔اگر پوری تنخواہ دے دیا تو ان کے لیے حلال ہوگا یا نہیں؟

جن لوگوں نے خلوص دل سے مسجد کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا، پوری مسجد اپنے صرفہ سے بنوادیا،کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیا کہ دیکھ ریکھ کریں وہ اس طرح دیکھ ریکھ کررہے ہیں ان کی روحیں کانپ جاتی ہیں۔جو لوگ آج بھی خلوص و چاہت اور اللہ کی رضا مندی کے لیے دینی اداروں کی خدمت، مساجد کی دیکھ بھال کررہے ہیں ان کو عقیدت بھرا سلام ان کی وجہ سے تھوڑی آبرو بچی ہوئی ہے ورنہ جیسی شکایتیں اور مشکلات مساجد میں امام و مؤذن کو درپیش ہے وہ دن دور نہیں جب ان کے لیے قوم ترسے گی اور مصلی خالی پڑا ہوگا۔(تفصیل آگے آرہی ہے)


سوچئے اور ایسی سوچ رکھنے والے کے لیے دعائے خیر کیجیے۔یہی لوگ ہیں جو دنیا کو قیامت کی طرف لے چلنے میں معاون ہوں گے،ان کی مدد سے آگ اور پتھر کی بارش ہوگی تو یہ لوگ پہلے شکار ہوں گے۔

مسجد کیسی پاکیزہ اور نظافت والی جگہ تھی لیکن سیاست کا اکھاڑہ اور غلیظ ذہنیت کامینارہ بنادیا۔ان لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کیا کہتاہے یہ اپنی سوچ کے اعتبار سے بالکل صحیح راہ پر ہیں جن کی وجہ سے چہرے کی نورانیت ماند پڑ گئی،اللہ کے گھر کا تقدس پائمال کرنے کی وجہ سے ایسے لوگ خیر کے بجائے محرومیت کو سمیٹے ہوئے ہیں۔لیکن سمجھ سے پرے خود کو ذمہ دار، خادم اور ممبران تصور کرکے خیالی دنیا سے ثواب لوٹ رہے ہیں۔  

میرے ایک کرم فرما نے ایک پوسٹ فارورڈ کی ہے یہاں اسے نقل کررہاہوں:

اخیر دور میں مسجدوں کے لیے امام نہیں ملیں گے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیش گوئیاں فرمائیں ہیں،ان میں ایک پیش گوئی یہ بھی تھی کہ ”ان من اشراط الساعۃ ان یتدافع اھل المسجد لایجدون اماما یصلی بھم“  ترجمہ: بلا شبہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسجدوں میں لوگ نماز پڑھانے کو ایک دوسرے کے اوپر ٹالیں گے(کہ تم پڑھادو،تم پڑھادو)اور انہیں کوئی (موزوں) شخص نہیں ملے گا۔(ابو داؤد۔احمد)

دوسری حدیث میں فرمایا گیا”یقومون ساعۃ لا یجدون اماما یصلی بھم۔ ترجمہ: لوگ دیر دیر تک (انتظارکرتے ہوئے) کھڑے رہا کریں گے،انہیں کوئی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو نماز پڑھادے۔(شرح ابن ماجہ)

مذکورہ ارشاد نبوی میں عام مسلمانوں کی افسوس ناک دین سے بے خبری کی اطلاع بھی ہے کہ پوری بھر ی مسجد میں کوئی ایک شخص بھی نماز کی ضروری چیزوں سے واقف نہ ہوگا، جو نماز پڑھاسکے۔ 

ساتھ ہی اس میں دیندار طبقے کے اس درجہ بے صلاحیت اور غیر مقبول ہوجانے کی خبر بھی ہے کہ لوگ ان کو مسجدوں میں امامت کے لیے نا اہل قرار دے ڈالیں گے اور مسجدیں نمازیوں سے آباد ہوتے ہوئے بھی اچھے اماموں سے محروم ہوکر رہ جائیں گی۔

اوپر درج کی گئی حدیث پڑھیے اور اپنا اپنا جائزہ لیجیے بطور خاص جو لوگ مساجد کے ذمہ دار بنے ہوئے ہیں۔ اماموں کی ناقدری تقریبا عام ہوچکی، مصلیٰ سنبھالنے کے لیے کسی ایسے فرد کی ضرورت ہے جو وقت ہوتے ہی مشینی انداز میں آئے اور نماز پڑھادے،وضو و طہارت اور نماز کے مسائل سے واقف ہے یا نہیں اس سے غرض نہیں۔ بس اتنا ہونا چاہئے کہ نماز پڑھادے چاہے جس حال میں ہو، اب لوگوں کو اہل علم کی نہیں مصلیٰ پر ملازم اور نوکر کی ضرورت ہے،پندرہ سترہ سالوں سے مسجد کی خدمت کرنے والا ایک ہی شخص امام ومؤذن خادم بن کر پانچ ہزار کے قلیل مشاہرہ پر محض للہیت کے لیے ڈیوٹی انجام دے رہاہے۔ایسے مخلص شخص کی کمیٹی کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں۔ حلال و حرام کی تمیزکھوچکے معاشرے میں امام و مؤذن کو دی جانے والی مشاہرہ کے بارے میں بڑی باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں کہ مہینے میں آٹھ دس نماز میں حاضر نہیں تھے ان کی تنخواہ دینی چاہئے یا چائے سگریٹ کے لیے سجیب میں رکھ لینی چاہئے۔

اب بڑی تیزی سے اہل علم اپنی ناقدری اور بیجا سختی دیکھ کر کاروبار سے منسلک ہورہے ہیں،کم علم اور معمولی دینی معلومات رکھنے والے پھیلتے جارہے ہیں، کچھ اہل علم بڑی صعبوبتوں اور پریشانیوں کے ساتھ قلیل تنخواہ کے باوجود دین متین کی خدمت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت سمجھ کر کام چلارہے ہیں۔امام و مؤذن سے سو فیصد حاضری کے متلاشی ذمہ داران ذرا اپنے گریبان میں جھانکے جہاں خود ڈیوٹی کرتے ہیں وہاں کتنی حاضری دے کر اپنے مشاہرہ کو جائز کرتے ہیں۔ وہ کون لوگ ہیں جن کے بارے میں کہاجاتاہے”آفس میں بیٹھنے کی تنخواہ اور پبلک کے کام کرنے پر رشوت لیتے ہیں“۔

نوٹ: مضمون میں جتنے سوالات ہیں وہ ان صفات سے متصف حضرات کے لیے ہیں جو اوپر بیان کیے گئے۔رہے وہ اللہ والے جو بے لوث اور ہر جزا سے بے نیاز اللہ اور اس کے رسول کے گھر کی خدمات،علماء کی قدردانی، ائمہ و مؤذنین کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں وہ ہمارے مخاطب نہیں ہیں،وہ لوگ بہترین بدلہ پانے والے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی