شدھی تحریک کے انسداد میں حضور علی حسین اشرفی میاں کا کلیدی کردار
مقالہ نگار: محمد افروز رضا مصباحی
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھارت میں شروع ہونے والی شدھی تحریک نے مذہبی سطح پرمسلمانوں کو مضطرب اور ذہنی وفکری کشمکش سے دوچار کردیا۔شدھی تحریک مسلمانوں کو ہندو دھرم میں ”گھرواپسی“کے لیے شروع کی جانے والی وہ فتنہ انگیز تحریک تھی جس نے علماء کرام کو درس و تدریس کی مسند آرائی سے،ائمہ کو مساجد سے،عابدوں کوگوشہ نشینی سے،ہمدردان قوم و ملت کو دنیوی مشغولیات سے اور روحانی پیشواؤں کوخانقاہوں سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا۔یوپی کے بعض علاقوں میں شدھی تحریک کے کارکنان بڑی تندہی سے اپنے مشن میں لگے ہوئے تھے کئی علاقوں سے ہزاروں مسلمانوں کے مرتد ہونے کی خبروں نے مذہبی رہنماؤں کو بے چین و بے قرار کردیا۔یہ تحریک روز بروز زور پکڑتی جارہی تھی خطرات کے بادل بعض مسلم علاقوں پر فتنے کی شکل میں برس رہے تھے،جن علاقوں تک فتنہئ ارتداد نہیں پھیلاتھا وہاں خطرات کی بومحسوس کی جارہی تھی۔
مناسب معلوم ہوتاہے کہ شدھی تحریک کے بانی،تحریک کی فتنہ انگیزی،علمائے اہلسنت وپیشوایان ملت کی جانبازی ودردمندی پر روشنی ڈالنے قبل انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے مختصرحالات بیان کردیے جائیں تاکہ ہندو شدت پسندوں کی جانب سے شروع کیے جانے والی تحریکوں کا سمجھنا آسان ہوجائے۔
مغلیہ سلطنت کے کم زور پڑ جانے کے بعد اور انگریزوں کی آمد سے قبل بھی ملک کے مختلف چھوٹے بڑے علاقے مسلم حکمرانوں کے زیرنگیں تھے اور ریاستوں پر انہی کی حکمرانی تھی۔ہندو احساس محرومی کا شکار بھی تھے اور خود کو مسلمانوں کا محکوم خیال کرتے تھے جب کہ انھیں مغلیہ سلطنت میں مذہبی اور ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ تھیں، وہ اپنے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے۔کسی طرح کا بھید بھاؤ مسلمانوں نے یہاں کی اقوام کے ساتھ روا نہیں رکھا بلکہ مسلم حکمرانوں نے ان کی عبادتگاہوں کے نام وظائف اور زمینیں بھی وقف کی تھی۔حکومت میں بڑے بڑے مناصب دیے ہوئے تھے
انگریزوں کی آمد کے بعد مخصوص ذہنیت اور انتہا پسندوں نے ہندو مسلم تعلقات کو خراب کرنے کی کوششیں شروع کیں اور خیال کیا کہ انگریزوں سے ساز باز اور سازشیں کرکے اقتدار حاصل کرسکیں گے۔
ہندو مسلم تعلقات خراب کرنے کی ابتدا اُن ہندوؤں کی جانب سے ہوئی جنھوں نے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور شردھا نند کی قیادت میں سَنگَھٹن اور شدھی تحریکیں شروع کیں۔ سَنگَھٹن کے معنی ایک ساتھ جوڑ کر مضبوطی سے باندھنا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ہندو نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کرنا، انھیں نظم و نسق اور مختلف امور کا ماہر بنانا، اور مخالفین سے اپنا دفاع سکھانا تھا جس کے لیے ایسے اسلحہ کا استعمال بھی سکھایا جاتا جس سے فسادات کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف کام لینا مقصود تھا۔
شدھی تحریک: آغازاور اس کے وجوہات:
پنجاب کے علاقے میں انیسوی صدی کی آخری دہائی میں قحط پڑ گیااس جان لیواقحط کی وجہ سے بہت سے بچے یتیم ہوگئے۔عیسائی مشنری میں چونکہ خدمت خلق اور فلاح عامہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے،چنانچہ مسیحی مبلغین آفات سماوی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان یتیموں کی دیکھ بھال اور ان کے رہن سہن کا انتظام و انصرام کررہے تھے۔ موقع کا فائدہ اٹھاکر ہندو بچوں کو مسیحی مذہب میں داخل کر رہے تھے۔آریہ سماج نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ یتیموں کی دیکھ بھال کے بہانے مسیحی مبلغین بہت سے ہندو بچوں کو مسیحی بنالیں گے۔اسی خطرہ کے پیش نظر آریہ سماج نے پنجاب سمیت ملک کے دیگر حصوں میں یتیموں کی دیکھ بھال کا انتظام کیا۔بہت سے یتیم بچوں کا تعلق چونکہ اچھوتوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں سے تھا انہیں فیروز پور میں قائم یتیم خانے میں رکھاگیا۔رفاہی کام کے درمیان آریہ سماج کو محسوس ہوا کہ کس طرح مسیحی مشنری فلاحی کاموں کی آڑ میں نچلے طبقہ کے ہندوؤں کو عیسائیت میں داخل کرلیتے ہیں۔۔آریہ سماج کی جانب سے رفاہ عامہ کی ان سرگرمیوں نے نہ صرف شدھی تحریک کو بالواسطہ طور پر فائدہ پہنچایا بلکہ روایت پسند ہندوؤں میں یہ احساس بھی اجاگر کیا کہ آریہ سماج ہندو دھرم کے لیے مفید تنظیم ہے۔
(آریہ سماج کی تاریخ۔از: لالہ لاجپت رائے۔ص:۷۶۱)
شدھی تحریک کے مقاصد:
سوامی دیانند سرسوتی کے شاگرد سوامی شردھانند نے 1923ء میں بھارتیہ ہندو شدھی مہاسبھا (Indian Hindu Purification Council)کی بنیاد ڈالی۔ اس تحریک کو مضبوط کرنے میں سوامی شردھانند،پنڈت کالی چرن، پنڈت رام چندرا،دھرم بھکشو لکھوی وغیرہ نے بھروپور حصہ لیا۔ اس کا بنیادی ایجنڈا ان لوگوں کا جنھوں نے اسلام قبول کیا تھا اپنے آبائی مذہب یعنی ہندوازم کی طرف واپس لانا تھا۔شدھی تحریک کا مقصدچھوت چھات کی رسم کو ختم کرنا، غیر ہندوؤں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کو ویدک دھرم قبول کرنے کی دعوت دینا اور ہندوؤں میں خودی اور خود اعتمادی کی روح پھونکنا اس تحریک کی بنیادی غرض وغایت تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوؤں کا اسلام اور مسیحیت کی طرف مائل ہونا اور پھر قبول کرنا ایک عام رجحان بن گیا تھا، اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے شدھی تحریک نے ایڑی چوٹی کازور لگایا۔ وہ یہ بھی سمجھتے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے موروثی مذہب سے بھٹکے ہوئے ہندو ہیں۔ لہٰذا ان کو کسی بھی قیمت پر اپنے موروثی مذہب کو قبول کروانا ہے۔ 1928ء میں مذکورہ تحریک کے بانی شردھا نند نے کھلے طور پراسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات پر ہتک آمیز اوربے جا اعتراضات والزامات چسپاں کیے۔ اور اس کے علاوہ اسلام کے عالم گیر پیغام اور احکامات کو دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیا اوراسلام کو امن وامان کے لیے خطرہ ٹھہرایا گیا۔
اس پُر آشوب دور کے حالات کی تصویر کشی کرتے ہوئے حجۃ الاسلام مولاناحامدرضابریلوی علیہ الرحمہ نے آل انڈیا سنی کانفرنس منعقدہ مرادآباد،مارچ 1925 کے اپنے خطبہ صدارت میں کہا:
”موجود وزمانہ میں ہمسایہ قوم نے مسلم آزاری کی جو پیہم کوششیں جاری کر رکھی ہیں ان میں شدھی کا فتنہ سب سے اہم ہے،شدھی مسلمانوں کو مرتد کرنے اور معاذ اللہ مشرک بنانے کا نام ہے جس کے لیے ہندو دو برس سے سالہا سال کی منظم کوششوں اور تیاریوں کے بعد پوریقوت کے ساتھ ٹوٹ پڑے ہیں، ہر طبقہ کے ہندواس میں سرگرم ہیں۔والیان ریاست اور راجگان ان سبھاؤں میں شرکت کرتے رہے ہیں، مدتوں کی پر اطمینان کوششوں سے وہ ہندوستان بھر میں ایک نظم قائم کر چکے ہیں، گاؤں گاؤں میں سبھائیں قائم ہیں، کثیر التعداد مناظرین ملک بھر میں دورے کرتے پھر رہے ہیں، جابجا مسلمانوں کو چھیڑ نا پریشان کرنا، جاہلوں اور دیہاتیوں کو بہکانا شاہان اسلام اور بزرگان دین کی شان میں گالیاں دینا، گستاخیاں کرنا اسلام کی توہین کے ٹریکٹ چھاپنا اور ان میں حضرت پروردگار عالم تک کو گالیاں دینا، ان کا شیوہ ہے طمع اور دباؤ سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، یہی ان کے دین کی تبلیغ کا ذریعہ ہے، بہت سے نادار اور جاہل ان کے اس دام فریب میں پھنس کر ایمان کھو بیٹھے۔ان حالات پر نظر کرتے ہوئے تبلیغ وحفاظت اسلام کا مسئلہ اور بھی اہم ہو جا تا ہے،اب تک تو شدھی کی کوششیں راجپوتانہ ہی میں تھیں لیکن اب انہوں نے اپنا میدان عمل وسیع کر دیا ہے اور تمام ہندوستان میں جہاں موقع ملتا ہے گھات مارتے ہیں، قومیں کی قومیں ان کی دستبرد سے تباہ ہورہی ہیں“
(خطبہ صدارت۔از:علامہ الشاہ حامد رضابریلوی۔ادارہ اشاعت تصنیفات رضا بریلی۔ص:30)
شدھی تحریک کے کارکنان نے پہلے پنجاب کے بعض علاقوں میں فتنہئ ارتداد کو ہوا دی۔روپے پیسے کا لالچ دے کر اسلام سے منحرف کرنے کی کوشش کی جس میں کامیاب بھی ہوئے۔اس سے شہہ پاکر راجستھان کے ملکانہ علاقہ کو خاص اپنا نشانہ بنایاکیوں کہ یہاں کے راجپوت گرچہ اسلام قبول کرچکے تھے تاہم ان کے ایمان میں پختگی نہیں تھی قدیم مذہب چھوڑنے کے باوجود بہت سے ہندوانہ رسومات کو گلے لگائے ہوئے تھے،مشرکانہ رسم و رواج ان کی معاشرتی زندگی کا حصہ تھاجسے وہ چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔
ملکانہ راجستھان کے مسلم راجپوتوں کے احوال عثمان علی شیخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”جس وقت جنوبی ہند (مالابار) میں مبینہ طور پر زور زبردستی مسلمان بنائے گئے ہندوؤں کی شدھی کے ذریعے ان کی پرانی مذہبی و سماجی حیثیت پر بحالی کی کوشش کی جارہی تھی۔اسی عرصے میں شمالی ہند میں ملکانہ راجپوتوں کو بھی ہندو دھرم میں واپس لانے کے لیے کوششوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ملکانہ ایک راجپوت قوم ہے جو زیادہ تر بر طانوی ہند میں متحدہ صوبہ جات (United Provinces) کے اضلاع متھرا(Mathura)، آگرہ، ایٹہ (Etah) اور مین پوری میں بستے تھے۔ گو کہ ملکانہ راجپوت مردم شماری میں اپنا اندراج مسلمانوں کے طور پر کراتے تھے تاہم ان میں ہندوانہ رسوم و رواج باقی تھے۔
اگر چہ ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کے حوالے سے کوششیں بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے ہی جاری تھیں تاہم اس کو باقاعدہ تحریک کی شکل 1922ء میں ملی جب بارسوخ ہندوؤں نے اس میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کی کوششوں کو مربوط بنانے کے حوالے سے ایک اور کمی قیادت کا فقدان تھا جو سوامی شردھانند کی صورت میں میسر آئی۔ اس سلسلے میں بھارتیہ ہند و شدھی سمجھا“ کا قیام عمل میں لایا گیا اور سوامی شردھانند کو اس کا صدر مقرر کیا گیا۔ اس سبھانے متحدہ صوبہ جات کے400سے زائد دیہاتوں کو باضابطہ طور پر شدھی کا ہدف مقرر کیا۔بعض اندازوں کے مطابق اس تحریک کے نتیجے میں تقریبا ایک لاکھ تریسٹھ ہزار سے زائد لوگ ارتداد کے شکار ہوئے تھے۔
(مضمون:برطانوی ہند میں شدھی تحریک اور اس کے ہندو مسلم تعلقات پر اثرات:ایک جائزہ۔عثمان علی شیخ)
مسلم علماء و مشائخ فتنہئ ارتداد کے خلاف میدان میں:
مسلمانوں کے ارتداد کی خبریں سن کر علماء و مشائخ اور دوسروں کے ایمان و عقیدے کی سلامتی کی فکر کرنے والوں کو ارتداد کے شکار مسلمانوں کی بڑی فکر لاحق ہوئی۔فتنہئ ارتداد سے مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت و صیانت کی غرض سے علماء درسگاہوں سے اور مشائخین اپنی خانقاہوں سے باہر نکل پڑے۔ بریلی سے جماعت رضائے مصطفےٰ میدان عمل میں سرگرم ہوئی اس نے اپنا وفد مولانا قاضی احسان الحق اشرفی نعیمی کی قیادت میں متاثرہ علاقے کی جانب روانہ کیا۔ مبلغ اسلام حضرت سید غلام بھیک اشرفی وکیل انبالہ نے اپنی مرکزی دعوتی تنظیم جمعیۃ تبلیغ الاسلام انبالہ کے وفد کی قیادت کی۔ صدرالافاضل علامہ نعیم الدین مراد آبادی نے مدرسہ اہل سنت جامعہ نعیمیہ کے علماء و طلباء کو جائے واقعہ کی جانب روانہ فرمایا،حضرت مولانا سید غلام قطب الدین مودودی اشرفی اپنی انجمن اشاعت دعوۃ الحق کے لشکر کے ساتھ میدان میں نکلے۔
جماعت رضائے مصطفےٰ بریلی کی شدھی تحریک کے خلاف محاذ آرائی پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا شہاب الدین لکھتے ہیں:
”یہ بات مسلم ہے اور بالاتفاق مانی جاچکی ہے کہ میدان ارتداد کی طرف دفع ارتداد و انسداد شدھی اور تبلیغ اسلام کے لیے اسلامی جماعتوں میں سب سے پہلے قدم اٹھانے والااور میدان میں آنے والا جماعت رضائے مصطفی کا وفد تھا۔ اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ مسلمانوں میں حفاظت اسلام کا احساس جماعت رضائے مصطفی نے پیداکیا، بیداری کی لہریں اس کی حرکت سے پیدا ہوئیں۔مسلمانوں کے مردہ قالب میں تبلیغ کی روح اسی نے پھونکی، سوتوں کو جگایا،جاگتوں کو اٹھایا،اور میدان عمل میں ایک گرماگرمی پیدا کردی۔ارتداد کا وسیع رقبہ مبلغین جماعت رضائے مصطفی کے قدموں سے پامال نظر آنے لگا تھا اور آریوں کی دیرینہ سال کیکوششیں ناکام ہونے لگی تھیں،تحریکِ شدھی کا انسداد کیا تھا“
(تاریخ جماعت رضائے مصطفی بریلی۔ص:۷۳۲)
شیخ المشائخ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں میدان عمل میں:
ارتداد کی شرانگیزی اور جن علماء حق نے پوری قوت کے ساتھ انسداد کی کوشش کی ان کے بارے میں پروفیسر مسعود احمدلکھتے ہیں:
”ارتداد کی اس تحریک نے مسلمانان ہند میں ایک اضطراب پیدا کردیا۔علماء حق نے اس کی پوری پوری مزاحمت کی۔جن میں یہ حضرات قابل ذکرہیں۔حضرت مولانا شاہ حامد رضا خاں صاحب ٭حضرت پیر جماعت علی شاہ صاحب٭حضرت مولانا مفتی مصطفےٰ رضاخاں صاحب٭مولانا غلام قطب الدین اشرفی برہمچاری ٭مولانا محمد مختار صدیقی صاحب میرٹھی ٭مولانا ابوالبرکات سید احمد صاحب........... شیخ طریقت حضرت شاہ علی حسین اشرفی علیہ الرحمہ نے باوجود کبر سنی تحریک شدھی کا پوری قوت سے مقابلہ کیا“۔
(تحریک آزادی ہند اور السواد الاعظم۔مولف: پروفیسر محمد مسعود احمد۔ ص: ۷۳۱۔۸۳۱)
فتنہ ارتداد سے متاثرہ علاقہ میں سلسلہئ عالیہ اشرفیہ کے خلفاء ومریدین سرگرم عمل اور آریہ سماج کے ارکان کے برپا کردہ فتنہئ ارتداد کی روک تھام کے لیے مصروف تھے مگرہ وہ کامیابی نہیں مل رہی تھی جس کی ضرورت تھی۔ کبار علماء اپنے طور پر فتنہ ارتداد کے انسداد میں شب و روز مصروف کار تھے۔مصروف کار علماء اہلسنت اپنی خلوص و للہیت اور قوم مسلم کے ایمان و عقیدے کی حفاظت و صیانت کے لیے جذبہ دینی رکھنے اور شبانہ محنت و کوشش کے باوجود کسی ایسے رہنما کی کمی محسوس کر رہے تھے جو روحانیت کا تاجدار ہو،شب زندہ دار ہو،جن کا جذبہ دروں قوم مسلم کے ایمان جیسے قیمتی سرمایہ کے تحفظ میں تڑپ رکھتے ہوں جو شان رہبری کے ساتھ میدان عمل میں مصروف علماء کی قیادت و سیادت کرسکے،جن کے رخ زیبا کی درخشندگی دیکھنے والوں کی آنکھوں میں نور اور دلوں میں سرور بھر دے۔ان کے جلووں کی تابانی دیکھ کر غیر بھی ایک خدائے وحدہ لا شریک پر ایمان لانے پر خود کو مجبور پائے۔اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے حضرت صدر الافاضل، مولانا غلام قطب الدین برہمچاری، مولانا دیدار شاہ محدث الوری،علامہ ابوالبرکات حضرت قاضی احسان الحق صاحب نے باہم مشورے کے بعد یہ طے کیا کہ گرچہ ہم لوگ میدان عمل میں سرگرم ہیں مگر ایک روحانی شخصیت کی تشریف آوری اور موجودگی بھی بے حد ضروری ہے۔ چنانچہ سب نے اتفاق رائے سے حضور پرنور اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیا مرشد العالم کی خدمت بابرکت میں تشریف آوری کے لیے عریضہ نیاز حاضر کیا۔ کبار علماء کا عریضہ پاکر حضور مرشد العالم نے فرمایا:
”میں کبر سنی و ضعیف العمری کے سبب ناقابل سفر ہوگیاہوں، لیکن اس موقع پر عذر کرتے ہوئے سب سے پہلے مجھ کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضور شرم آتی ہے، جن کی کبر سنی شباب فاروقی سے برتر ثابت ہوچکی ہے“
(ماہنامہ اشرفی کچھوچھہ مقدسہ ذی الحجہ ۱۴۳۱ھ۔ص:۶)
تاریخ جماعت رضائے مصطفےٰ کے مصنف مولانا شہاب الدین رضوی نے حضور شیخ المشائخ کی فتنہئ ارتداد کے انسداد میں مصروف وفد اسلام کیکارگزاری کو دیکھنے اور ان کے عزم و حوصلہ کو مضبوط و توانا بنانے کے لیے،آگرہ میں ان کی تشریف آوری کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وفد اسلام جماعت رضائے مصطفےٰ کی تمام کارگزاریوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے اپنے وقت کے شیوخ آگرہ پہنچ رہے تھے۔ شیخ المشائخ مولانا شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی ۴۱/ جون ۳۲۹۱ء کو بہ نفس نفیس صدر دفتر وفد اسلام محلہ رکاب گنج آگرہ پہنچے حضرت کچھوچھوی کی آمد سے قبل ان کی طرف سے ایک فرمان اخبارات میں چھپ چکا تھا،جس کا لب لباب یہ ہوگا:
”میں اپنے مریدین و مخلصین کو ہدایت کرتاہوں کہ وہ جلد تر اس علاقہئ ارتداد میں پہنچ کر انسداد فتنہئ ارتداد میں کام کریں، اور وفد اسلام میں شامل ہوکر اس کومضبوط کریں“
(مولانا شہاب الدین رضوی۔ تاریخ رضائے مصطفی بریلی۔ص:۷۶۲)
شیخ المشائخ حضور اشرفی میاں کا آگرہ کا سفر:
حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ نے بلاتاخیر آگرہ کے لیے سفر کا قصد فرمایا،مولانا قاضی احسان الاحق نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ ناظم مرکزی وفود جماعت رضائے مصطفےٰ نے حضور اشرفیہ علیہ الرحمہ کے آگرہ تشریف آوری کا اعلان کیا۔ہفتہ وار دبدبہ سکندری کے ۵۲/ جون ۳۲۹۱ء میں اعلان شائع کیا:
”جماعت رضائے مصطفی جس اخلاص سے انسداد فتنہئ ارتداد میں کام کررہی ہے اس کے ثمرات اس کو یہ ملے ہیں کہ دنیا کی روحانی قوتیں اس پر کرم گستری فرمارہی ہیں۔ہم گزشتہ اطلاعات میں اعلیٰ حضرت عظیم البرکت شیخ المشائخ حضور مولانا الحاج سید شاہ محمد علی حسین صاحب اشرفی جیلانی سجادہ نشین کچھوچھہ مقدسہ دامت برکاتہم کا مفاوضہئ عالیہ (جس میں حضور پر نور نے اپنے مریدین و مخلصین کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ جلد تر اس علاقہ ارتداد میں پہنچ کر انسداد فتنہ میں کام کریں) کرچکے ہیں۔ اب خود حضور پر نور بہ نفس نفیس ۴۱/ جون کو آگرہ تشریف لائے اسٹیشن پر ہزاروں آدمی استقبال کے لیے موجود تھے، رضاکاران جماعت رضائے مصطفی بریلی اور مقتدر علمائے کرام بھی موجود تھے، حضرت والا بسواری موٹر دفتر جماعت رضائے مصطفی میں تشریف لائے، راستہ میں اللہ اکبر کے نعرے بلند ہورہے تھے اور ہر شخص کی زبان پر نصرف و فتح اسلام و مسلمین تھے، لوگ ہار پھول پہناتے تھے، ایک عجیب ایمانی جوش کا منظر تھا، اس شاہانہ شان کے ساتھ جلوس شہر کے بازار سے گزرا،تمام دکاندار اس کی بہار دیکھ رہے تھے، چھتوں پر لوگوں کا ہجوم تھا،اللہ اکبر، آج جامع مسجد میں اعلیٰ حضرت دامت برکاتہم نے ایک زبردست تقریر فرمائی،ہر شخص محو حیرت بنا ہوا تھا“
(حیات مخدوم الاولیا۔ص: ۱۶۲۔۲۶۲)
حضور محدث اعظم قدس سرہ نے حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے آگرہ میں تشریف آوری کا جو نقشہ کھینچاہے اسے انہیں کے خوبصورت اندازمیں ملاحظہ کریں:
”روزانہ ہفتہ وار،ماہوار اخبارات اور خود ”اشرفی“ کی گزشتہ اشاعت کے ذریعہ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں یہ خبر پھیل چکی ہے کہ اعلیٰ حضرت شیخ المشائخ سید الشاہ ابو احمد المدعو محمد علی حسین صاحب قبلہ اشرفی جیلانی سجادہ نشین آستانہ کچھوچھہ شریف ملکانہ کے علاقہ ارتداد کی خبروں کو سن کر بے چین ہوگئے اور مجاہدانہ طریق پر اشرفی جھنڈا بلند فرماکر اس علاقہ میں متوسلان سلسلہ عالیہ اشرفیہ کو دعوت دیتے ہوئے تشریف لے گئے ہیں۔ جماعت رضائے مصطفی کی سرکردگی میں مسلمانان آگرہ نے جیسا پر جوش استقبال حضور کا کیا اور جیسی شاہانہ سواری آگرہ کے عام گزر گاہوں پر حضور کی نکلی ہے اس نے مشرکین ہند کے دلوں کو ہلادیا ہے اور رعبِ جلالت نے ان کے قلوب پر قبضہ کرلیا ہے ............جمعہ کے دن بعد نماز جمعہ حضرت شیخ المشائخ کا وعظ ہوا جس کے سننے کو ملکانہ کے راجپوت ٹوٹے پڑتے تھے، اس جلسہ میں لوگوں کی محویت جیسی کچھ تھی، اس کا لطف حاضرین ہیں بتاسکیں گے، مسئلہ ارتداد پر روشنی ڈالے کے بعد دعوت دی گئی اور اسلامی خون میں صدیقی جوش کی لہر پیدا ہوگئی،اس وعظ کا ملکانہ میں بڑا چرچاہے“
(حیات مخدوم الاولیا۔ص: ۳۶۲۔۲۶۲)
علماء و مشائخ کامیدان عمل میں اتر کر کام کرنا جاری تھا لیکن شدھی تحریک کے کارکنان بھی یوپی کے کئی اضلاع میں پھیل کر مسلمانوں کو ارتداد کی راہ پر چلانے کے لیے کئی طرح کے حربے آزمارہے تھے۔جہالت و نادانی،غربت و مفلسی میں زندگی گزارنے والے بادیہ نشینوں اور افلاس کی تصویر بنے لوگ حرص و لالچ میں آکر دولت ایمان سے محروم ہورہے تھے۔ایسے وقت میں گھر بیٹھنے کا وقت نہیں تھا۔ حالات کے جبری تقاضے نے حضرت شیخ المشائخ کو بیتاب کردیا۔آپ بہ نفس نفیس میدان جہاد میں قدم رکھ دیا،حضور شیخ المشائخ کا یہ اقدام ایک عظیم الشان واقعہ ہے جس نے ملکانہ کی بساط الٹ کر رکھ دی اور جس طرح شدھی تحریک کے متعصب کارکنان اپنے کا م کا دائرہ بڑھاتے ہوئے پورے ہندوستان میں اپنے مفسدانہ عمل کے پھیلاؤ کے لیے نظریں دوڑا رہے تھے اسی طرح جماعت رضائے مصطفےٰ بریلی کی نگاہ ہند کے تمام مسلم علاقے پر پڑتی تھی اور اس کے کام کا دائرہ پھیل جاتاتھا۔علی گڑھ سے لے کر ضلع ایٹہ تک اس کے محنت کش کارکنان پھلے ہوئے ارتدادی لہر کے دفاع میں پوری تندہی سے مشغول ہوگئے۔
فتنہئ ارتداد سے متاثرہ علاقوں میں حضور اشرفی کا تبلیغی دورہ:
حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کبر سنی اور قویٰ کی کمزوری کے باوجود سخت موسم گرما میں تبلیغی دورے فرمائے اور پر تاثیرمواعظ حسنہ کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں شمع ایمان کو روشن کیا اور تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیا۔دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے الفاظ دلوں تک پہنچے تو کتنے لوگوں کے دل کی دنیا بدل گئی۔آپ نے اپنے نورانی خطابات کے ذریعہ لوگوں کو ایسے پُر آشوب ماحول میں تبلیغ دین کا فریضہ انجام دینے والوں کا ساتھ دینے کے لیے برانگیختہ کرتے ہوئے فرمایا:
”اے اشرفی بھائیواور ائے لواء اشرفی کے علم بردارو! اب تمہارا انتظار ہے، کیا تم میں کوئی زمیندار ہے جو جائداد کو چھوڑ کر، کوئی وکیل ہے جو اپنی پریکٹس کو لات مار کر، کوئی تاجر ہے جو اپنی دکانوں کو بند کرکے، کوئی صاحبِ اولاد ہے جو اپنے بچوں کو تج کر کے، کوئی صاحب ِ عزت و جلال ہے جو اپنی عزت و جلال کو ٹھکرا کر اٹھ کھڑا ہو اور جھنڈے اور مقدس جھنڈے کے نیچے آجائے جس کے نیچے آنے کی حسرت،اسلاف سینے میں لے گئے اور جس کے سایہ تلے کونین کی کامیابی رکھی ہوئی ہے،
مسلمانو! جاگو! اشرفیو! اٹھو اٹھو! کم کھاؤ، کم قیمت کا پہنو، مال و دولت کو اسلام پر قربان کردو۔ بھائیو! اسلام کی حالت ہندوستان میں بڑی نازک ہوگئی ہے، بت پرستوں نے حق پرستوں پر دھاوا کردیا ہے۔ فرزندان اسلام آگ میں پھونکے جاتے ہیں، حلقہ بگوشان اسلام قہر کے زنجیر و سلاسل میں گرفتار کیے جاتے ہیں، اسلام ایک غریب الوطن مہمان ہوگیاہے اور کوئی میزبان نہیں پاتا“
(ماہنامہ اشرفی ذی الحجہ ۱۴۳۱ھ۔بحوالہ حیات مخدوم الاولیا۔ ص:۴۶۲)
فتنہئ ارتداد کے خلاف محاذ آراء ہونے والے علماء و مسلم تنظیموں کی حوصلہ افزائی:
حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ فتنہئ ارتداد کی سرکوبی کے لیے جو سفر کیااس میں دو ماہ تک گھر سے دورراجستھان کے ملکانہ علاقہ میں مصروف کار رہے، تبلیغ کے کام میں جد وجہد فرمائی،مبلغین اسلام کی پرسوز تبلیغی کارگزاریوں سے متاثر ہوئے۔ان تمام مبلغین کی جانبازی، جاں سوزی اور محنت و جفاکشی کا ذکر فرمایاجو انسداد ارتداد میں مصروف تھے۔جماعت رضائے مصطفی بریلی اور انجمن خدام الصوفیہ علی پور سیدان ضلع سیالکوٹ اور جمعۃ الاشرفیہ کچھوچھ کی خدمات کو سراہتے ہوئے ایک مو قع پرفرمایا:
”اس موقع پر میرا فرض ہے کہ اراکین جماعت رضائے مصطفی بریلی اور ممبران انجمن خدام الصوفیہ علی پور سیدان ضلع سیالکوٹ کو دلی مبار ک باد دوں،جنہوں نے قوم کی طرف سے ملامت کی بوچھار ہونے پر بھی ایک منٹ کی تاخیر نہ کی اور وقت پر پہنچ کر مشرکین کے پر غرور سر کو کچل کر دکھ دیا، اور اشرفی جھنڈا اس علاقہ میں پہنچا تو میں نے خود جاکر اس منظر کو دیکھا کہ کام کرنے والوں کی دشواریاں اس درجہ بڑھی ہوئی ہیں جن کا تصور بھی گھر بیٹھنے والے پر بار ہے، ماہ مبارک ہے، گرمیکی شدت ہے، پانچ پانچ کوس کا پاپیادہ سفر ہے، افطار کے لیے چنا بھی میسرنہیں ہے،مگرعزم و ثبات کا یہ عالم ہے کہ ہر خار راہ ان مجاہدین کو گل بوٹا نظر آرہاہے، ایک فرد کی دولت ایمان کو بچانے کے لیے ان مصیبتوں کو برداشت کیا گیاہے،جس کی داستان بہت طویل ہے“
(حیات مخدوم الاولیاء۔ص:۷۶۲)
مختلف تنظیم و تحریک کے بینر تلے علماء کرام کی انتھک محنت وکاوش، وفد اسلام کی شبانہ سعی بلیغ،روحانی پیشواؤں کی نظر عنایت سے جو علاقے ارتداد کی زد پر آچکے تھے،جن گاؤں دیہات و قصبات پر شدھی تحریک کے کارکنان کی وجہ سے فضامسموم ہوچکی تھی،کمزور ایمان والے مسلمان اسلام سے برگشتہ ہوگئے تھے وہ لوگ علمائے کرام کی سخت و محنت و کوشش سے پھر اسلام کے دامن میں واپس گئے۔مولانا سید قطب الدین برہمچاری اور ان کے شاگرد مولانا غلام قادر اشرفی نے بھیس بدل کر نہ صرف مرتدین کو مشرف باسلام کیا بلکہ بہت سے ہندوؤں کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔مجموعی طور پر ساڑھے چار لاک مرتدین،مسلمان ہوئے اور ڈیڑھ لاکھ ہندوؤں نے اسلام قبول کیا۔شدھی تحریک کے بانی شردھانند کو علماء نے کئی جگہ مناظرے میں شکست فاش دی، بعض علماء اس کے تعاقب میں ہوتے کہ یہ جس جگہ جس اسٹیج پر ہوگا وہیں مناظرہ کریں گے اور اسلام کی حقانیت کو اجاگر کریں گے۔ کئی مناظرے میں تھوڑی دیر مقابلہ کرتا رہا لیکن بہت جلد پسپائی اختیار کی اور مناظرے سے فرار ہونے لگا۔شدھی تحریک اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے ساتھ تقریباً چھ سالوں تک یوپی پنجاب کے مختلف اضلاع اور دیہات و قصبات میں مسلمانوں کو مرتد بنانے میں سرگرم رہی۔ ۸۲۹۱ ء کی وہ ایک صبح آئی جب عبد الرشید نامی مسلم غیرت مند جوان نے دہلی میں اس کے گھر میں گھس کر شردھا نندکوقتل کردیا۔اس قتل کے بعد تحریک کے کارکنان کے حوصلے پست ہوگئے جس سے یہ فتنہ انگیز تحریک دم توڑ گئی،ڈاکٹر مسعود احمد نے اس فتنہ کے ختم ہونے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
”تحریک شدھی میں ناکامی کے بعد ہندوؤں نے گستاخیوں کا سلسلہ شروع کردیاچنانچہ آریہ سماج کی ان کتابوں سے اس کی شہادت ملتی ہے۔ ترک اسلام،تہذیب الاسلام، آریہ مسافر جالندھر،مسافر میگزین، مسافر،بہڑائچ،آریہ پتر بریلی،ستیارتھ پرکاش وغیرہ۔غیرت مند مسلمانوں نے ان گستاخوں کا محاسبہ کیا چنانچہ شردھانند سے گستاخی کا بدلہ قاضی عبدالرشید نے لیا، راجپال سے گستاخی کا بدلہ غازی علم الدین نے لیا، بھولاناتھ سین سے گستاخی کا بدلہ عبداللہ اور امیر احمد نے لیا،قصور کے پالامل سے محمد صدیق نے بدلہ لیا اور کراچی کے نتھو رام سے غازی عبدالقیوم نے“۔
( ہفت روزہ الہام،بہاولپور۔مارچ ۷۷۹۱ء۔بحوالہ تحریک آزادی ہند اور السواد الاعظم)
شدھی تحریک کے زور توڑنے میں اور جو مسلمان اس تحریک کی شرانگیزی کی بنیاد پر اسلام سے برگشتہ ہوگئے تھے انہیں پھر دائرہ اسلام میں واپس لانے کے لیے علمائے اسلام، مشائخین عظام اور ہمدردان قوم و ملت نے جو بیش بہا خدمات پیش کیں، قربانیاں دیں،تحریک شدھی کے کارکنان کے تعاقب میں رہے،ان سے مناظرہ و مباحثہ کے ذریعہ اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا۔روحانی پیشواؤں نے میدان میں اتر کر بہ نفس نفیس سرگرم مجاہدین کی حوصلہ افزائی کی بطور خاص حضور شیخ المشائخ مرشد اعظم سید شاہ علی حسین اشرفی الجیلانی رحمہ اللہ نے کبر سنی کے باوجود معرکہ کارزار میں ڈٹے سپاہیوں کی ہمت افزائی و حوصلہ افزائی کی۔دو ماہ تک ارتداد سے متاثرہ علاقے میں رہ کر رشد و ہدایت، اصلاح فکر و اعتقاد اور مرتدین کو واپس دین اسلام کی طرف لانے کی جو سعی کو،اسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی،ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتی رہے گی۔فتنہئ ارتداد کی روک تھام اور اسلام سے برگشتہ لوگوں کو دوبارہ اسلام کے دامن میں لانے کی جن خوش نصیب لوگوں نے قربانیاں دیں،لوگوں کے ایمان و عقیدے بچانے کے لیے خود تکالیف شدیدہ سے دوچار ہوئے ان سبھی خوش نصیبوں کو مولائے قدیر بہتر سے بہتر اجر و جزا عطا فرمائے،ان کی قبروں کو روشن و منور فرمائے ان کے درجات کو بلند فرمائے۔
وماتوفیقی الا باللہ
٭٭٭
درج ذیل کتابوں سے اس مقالے میں مدد لی گئی ہے:
٭تاریخ جماعت رضائے مصطفی۔از: مولانا شہاب الدین رضوی
٭خطبہ صدارت۔از:علامہ الشاہ حامد رضابریلوی۔ادارہ اشاعت تصنیفات رضا بریلی
٭تاریخ آزادی ہند اور السواد الاعظم۔ از: پروفیسر محمد مسعود احمد
٭آریہ سماج کی تاریخ۔از: لالہ لاجپت رائے
٭دائرۃ المعارف ویکی پیڈیا
٭حیات مخدوم الاولیاء۔از: مولانا شاہ محمود احمد قادری رفاقتی
٭برطانوی ہند میں شدھی تحریک اور اس کے ہندو مسلم تعلقات پر اثرات:ایک جائزہ۔از:عثمان علی شیخ