یہ سرٹیفکٹ کی توہین نہیں ہے؟

 یہ سرٹیفکٹ کی توہین نہیں ہے؟

محمد افروز رضا مصباحی

دو روز قبل ایک عالم دین سے بات ہوئی۔ایک شہر میں امامت کی تلاش میں پہنچے تھے لیکن بات نہیں بنی۔ مسجد والوں سے کیا باتیں ہوئیں یہ نہیں معلوم۔انہوں نے بتایا کہ کل وطن واپس جارہاہوں۔ پوچھا کیوں؟بات نہیں بنی؟جگہ پسند نہیں یالوگوں نے سوالات کچھ زیادہ کرلیے؟کہنے لگے:ذمہ داران کو انٹر ویو لینے کا شوق ہے۔اتنی سی بات ہوتی تو چل جاتا۔میری تعلیمی سرٹیفیکٹ دیکھنا چاہا۔زبانی بتادیا کہ کہ فلاں فلاں کورس کیا ہے۔لیکن دکھانے پر اصرار کرتے رہے۔میں نے کہا:دکھادیتے حرج کیا تھا؟کہنے لگے:دکھانے میں حرج نہیں لیکن دیکھنے والا بھی کم سے کم ایسا ہو جو سمجھے کہ یہ سرٹیفیکٹ ہے!!!چائے بیچنے والا، فروٹ کا ٹھیلہ لگانے والا، کمیلے میں جانور ذبح کرنے والا،گونڈی کا کام کرنے والا یہ کہے کہ تم سرٹیفیکٹ دکھاؤ تو آپ بتاؤ یہ ایک عالم دین کے سرٹیفیکٹ کی توہین نہیں ہے؟کسی کمپنی میں وہی سرٹیفکٹ چیک کرتاہے جو ماہر ہوتاہے،سرٹیفکٹ کو سمجھتاہے۔میں نے کہا:بعض امام ایسے آجاتے ہیں جو ہوتے کچھ نہیں لیکن زبانی ڈگریوں کانام بتادیتے ہیں بعد میں معلوم ہوتاہے کہ ٹھیک سے عالم بھی نہیں۔ کہنے لگے:یہی خامی ہے جس کی وجہ سے گوہر سے محروم ہوجاتے ہیں کوئلہ سے ہاتھ کالا کرلیتے ہیں۔ انتخاب میں ان کی چوک ہی باصلاحیت عالم دین اور مسائل شرعیہ سے واقف کار کو پہچان نہیں پاتے۔ لیکن رونا روتے ہیں اچھے عالم دین نہیں ملتے۔  

مساجد کی اکثریت ایسی ہے جہاں صرف نماز پنج گانہ پڑھانا، جمعہ کے دن خطاب کرنا،صبح یا شام میں محلے کے بچوں کو پڑھانا ہوتا ہے۔ ہمارے پاس اگر مفتی کی ڈگری ہے تو منصب امامت میں اس کا کیا فائدہ؟کم خواندہ امام ہر بات میں آمنا و صدقنا کی گردان کرے گاجو قابل ہو اہل علم ہو وہ ہر بات میں کیسے تائید وتصدیق کرے گا؟ یہی بات ذمہ داران کو بُری لگتی ہے۔ ایک بات یاد رکھیں۔ایک بات ہر جگہ کامن ہے۔جو کم پڑھا لکھا ہے اس سے بڑے بڑے علمی کارناموں کی امید رکھی جاتی ہے،جو بڑے کارنامے انجام دے سکتاہے اسے مسجد کے مصلیٰ میں لپیٹ دیا جاہے۔اردو کامحاورہ ”ملا کی دوڑ مسجد تک“ کو سچ کر دکھانے کے لیے محدود کردیتے ہیں۔ 

میں نے کہا:اب کیا ارادہ ہے؟ کہنے لگے درس و تدریس کی جگہ ملی تو ٹھیک ورنہ خدا کی زمین وسیع ہے،رزق کا دوسراذریعہ تلاش کریں گے، کاروبار کے بارے میں سوچیں گے۔پھر ان سے رابطہ منقطع ہوگیا۔تھوڑی دیر تک ان کی کہی ہوئی باتوں کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی