ڈاکٹر اقبال کی نظم "ایک آرزو"کا تجزیاتی مطالعہ

 ڈاکٹر اقبال کی نظم ’’ ایک آرزو ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ 

از قلم ۔۔افروزرضامصباحی (ایم اے)، گلبرگہ

  اردو شاعری میں اقبال ایک بڑا نام ہے ۔نام کے اعتبار سے اقبال کی شاعری بھی بلند اقبالی لئے دنیائے اردو ادب کے افق پر نیر تاباں بن کر چھائی ہوئی ہے ۔ دن گزرتے شاعری میں نئے گوشے اور زاویے سامنے آرہے ہیں ۔ اردو زبان سے آشنا لوگوں کی کوئی محفل نہیں جہاں اس کے اشعار کسی جہت سے نہ پیش کئے جاتے ہو ں۔ محفل مذہبی ہو یا سیاسی ، ملی ہویا سماجی ہر جگہ اس کی شاعری کا چرچا ہے ۔اقبال کی شاعری غزل نظم یا رباعی ہو پڑھے جاتے ہیں ،گنگنائے جاتے ہیں ،زبان و ادب کے ساتھ شاعری کے لطف اٹھا ئے جاتے ہیں ۔ اہل ذوق و اہل علم وادب اقبال کی شاعری میں غواصی کرکے ارباب علم ودانش کے سامنے علم و ادب کا خزینہ پیش کرتے ہیں ۔ 

  اقبال کے مجموعہ کلام ’’ بانگ درا‘‘ میں ایک خوبصورت نظم ’’ ایک آرزو ‘‘ کے نام سے ہے۔ اس نظم میں اقبال کی بلند فکری ،شاعری کی گہرائی اور منظر کشی کا اعلی نمونہ ہے۔اس نظم کے ذریعہ اندرونی کیفیت کا اظہار جس حسین پیرائے میں کیا گیا ہے اس کی توقع اقبال جیسے اعلی فکر شاعر سے ہی کی جاسکتی ہے ایسی بلند فکر قدرتی عطیہ ہے جو سب کے حصے میں نہیں آتی ۔ جس کے حصے میں آتی ہے وہ اقبال کے مثل شعر وسخن کا  تاجور کہلاتاہے ۔

  نظم کی ابتدا اس شعر سے ہوتی ہے؛ 

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

  اقبال نے لطف انجمن نہ پانے کی وجہ دل کے بجھ جانے کو کہا ہے ۔ دل انسانی جسم کا لطیف حصہ ہے ۔یہی منبع عنایات ربانی ، جلوہ گاہ تجلیات الٰہی ہے ۔دلِ زندہ حیات انسانی کے بہتری کی نشان دہی کرتی ہے اگر یہی بجھ جائے ،مرجھا جائے یا مرجائے تو انسانی جسم چلتی پھرتی لاش ہے ۔ اس کی زندگی میں ہی حیات بشر پنہا ہے ۔ 

  لوگ دنیا کی آلائشوں کو ہی مقصد زندگی تصور کرتے ہیں انہیں آلائشوں میں رہتے ہوئے ’’ دلِ زندہ ‘‘ تلاش کرتے ہیں ۔صوفیہ نے دلِ زندہ کے لیے بڑے سخت مراحل طے کئے اس کی صفائی ستھرائی پر خاص توجہ دی ۔ان کے یہاں تذکیہ نفس کے ساتھ تطہیر قلب بھی لازمی ہے ،یہ نہ ہوتو تذکیہ نفس ثمر بار نہیں ہوتی ۔صوفیہ کے نزدیک قلب روشن کی خاص اہمیت ہے کہ یہی نزول تجلیِ مولیٰ کی جلوہ گاہ ہے۔ اس کے لئے مراقبہ و مجاہدہ کے دشوار مراحل عبور کئے ۔رزق حلال کا اہتمام کیا ۔ صحبت بد سے دوری اختیار کی ۔ اتنی ساری چیزوں کا التزام آبادی کی گہما گہمی ،شور شرابہ اور لوگوں کے درمیان رہ کر حاصل کرنا امر دشوار تھا لہذا خلوت نشینی و گوشہ نشینی کے لئے سب سے دور ہوگئے جہاں کسی نوع بشرکی آہٹ نہ ملے، ہر طرح کی رکاوٹوں سے دور اپنی اندرورنی صفائی کے لئے جنگل ،بیاباں، صحرااور پہاڑوں کے غاروں میں مراقب ہوگئے ۔ 

  اقبال کی خواہش بھی ایسی ہی تھی کہ ہنگام دنیا سے دوری اختیار کرلوں ،سب سے جد اہوجاؤں ،غم جاناں کے ساتھ غم روزگار سے چھٹکارہ پا کر خلوت نشیں ہوجاؤں ۔اس بارے میں اقبال کا خیال اچھوتا اور سب سے جداگانہ ہے ۔اس کی خواہش ہے میری کٹیا ایسی جگہ ہو جہا ں انسانی آبادی کا نام نہ ہو ہر طرف ہریالی اپنا دامن پھیلائے آنکھوں کو سرور عطاکررہی ہو۔قریب بہتی ہوئی ندی ہو جس کے صاف و شفاف پانی سے اپنی ضرورتیں پوری کروں ۔پانی جب لہراتے بل کھاتے ہلکورے لے کر گزرے تو اس سے پیدا ہونے والی نغمگی آواز سے دل کے تار پر راگنی چھڑ جائے ۔ صبح و شام درختوں پر چہچہانے والے پرندوں کی خوشنماترنم سے دل شاد ہو۔ یہاں ہرطرف فطرت اپنی اصل لباس میں ہو تو انسان خود کو فطرت سے قریب پاتا ہے ۔ شب کی تنہائی ،ہر طرف ہو کا عالم ،ہوائیں سنساتی ہوئی گزرتی ہو،چشمے کا پانی شور کرتا گزر رہاہو ، یہ وہ وقت ہوتا ہے جب صناعی قدرت میں غور کرنے والا انسان اٹھ کر وضو کرکے زمین پر سجدہ میں سر رکھ کر مناجات میں ڈوب جائے ۔خدا اور بندے کے درمیان کوئی نہ ہو ،آنکھیں اشک بار، لبوں پر التجا ، دل میں احساس عبودیت سر ابھارے تو قدرت کی طرف سے انعامات کی بارشیں ہوتی ہیں ۔روح انسانی کو بالیدگی ملتی ہے ۔ دل کی کثافتیں اور بیماریاں دور ہوتی ہیں ۔دل مز کی و مصفٰی ہوکر انوارخداوندی کا جلوہ گا ہ بنتاہے اسے وہ عطا ہوتاہے جو کسی اور کے حصہ میں نہیں آتا ۔ 

  اقبال کی خواہش ہے کہ یہ ایسی جگہ ہو جہا ں کسی مذہب و ملت کا شور و غل نہ ہو ۔ دیر و حرم کی صدا یہاں تک نہ پہنچے ۔ صبح کی بیداری کے لئے کسی صدا و جرس کی ضرورت نہیں ۔ یہاں صرف انسانی درد ہو اس کے سوا ہر درد ہوا ہوجائے ۔

اقبال ایسی تنہائی میں بھی لوگوں کی بھلائی اور بھٹکے ہوئے لوگو ں کی خیر خواہی کا جذبہ اپنے اندر پاتے ہیں ۔ اگر ہر طرف سے مایوس انسان اگر اس کی نشانی پاکر یہاں تک پہنچ جائے تو اس کی راہبری کرنے کو تیار ہیں ۔ ان کی ہر طرح سے مدد کرنا انسانی فریضہ سمجھتے ہیں ۔ مذہب و ملت کے الجھنوں میں نہ پڑ کر خالص انسانی ہمدردی کے پیش نظر ہر ایک کی دل جوئی کے لئے کمر بستہ ہیں ۔ ساتھ ہی غفلت میں پڑے لوگوں کو جگا کر ، خطرات سے آگاہ کیا جائے ۔ اقبال کا کہنا ہے : لوگو!  تمہاری بربادیوں کے مشورے آسمانوں میں ہیں ،ہر طرف سے گھٹا ٹوپ بادل تم پر برسنے والا ہے اور تم خواب غفلت میں ہو۔اٹھو اپنی زندگی کا سامان کرو ،اپنی حفاظت اور اپنے مذہب کی فکر کر و کہیں ایسا نہ ہو کہ غفلت میں نقصان سے دو چار ہوجاؤ۔ زمین اپنی وسعت و کشادگی کے باوجود تنگ ہوجائے ۔ 

  قوم مسلم کی بیداری کے لئے اقبال بڑے فکر مند تھے ۔انہیں جگانے کی ہر ممکنہ کوششیں کی ، عظمتِ رفتہ کی دہائی دی، قوموں کے عروج و زوال کے عبرت ناک حالات بتائے، حالات سے بے خبر لوگوں کے قصے سنائے، رہبروں کی رہبری کی آڑ میں اس کی رہزنی کے مکروہ چہرے دکھائے تا کہ قوم ہوش کے ناخن لے ۔  

  اقبال کی یہ آرزو ظاہری طور پر پوری نہ ہوسکی البتہ سالکین کو راہ دکھا گئے۔ دنیائے دل آباد کرنے کے لئے یہ طریقہ خوب ہے جسے صوفیہ نے اپنا یا ۔آبادی پر ویرانی کو ترجیح دی، ہنگام زندگی پر سکوت و خاموش ماحول کو فوقیت دی، انسانوں کی صحبتوں سے دور چرند وپرند کی مسحورکن آواز کو اہمیت دی ۔جسے ایسا ماحول وقت اور خاموش فضا مل جائے وہی اہل دل ہے۔ ظاہری خواہ کچھ ہو باطن کی تابناکی دنیا کی رنگت و رعنائی کی حقیقت بے نقاب کرکے قدرت سے رشتہ کو مضبو ط کردیتی ہے۔ اس کا دردمند دل انسانوں کا بہی خواہ، اس کے مناجات انسانوں کی فلاح وبہبود ، اس کی چاہت اجتماعی دنیا و آخرت کی کامیابی ،اور سب کی نجات پر اس کی نظر جمی ہوتی ہے۔دردمند شخص اپنی قوم کی تباہی وبربادی نہیں دیکھ سکتا ، اس کی غفلت پر بے چین ہواٹھتاہے ، دشمنوں سے منہ موڑے زندگی میں مگن رہنے پر کڑھتاہے۔ غافلوں کو جگانے کے لئے بڑے درد مندی کے ساتھ فریاد کرتاہے۔ 

اس خاموشی میں جائیں اتنے بلند نالے 

تاروں کے قافلے سے میری صدا دراہو


ہر  درد مند  دل کو  رونا  مر ا  رلا  دے 

بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگادے

اقبال کی نظم’’ ایک آرزو ‘‘ اعلیٰ نمونہ کی نظم ہے۔ جن خیالات کو اشعار میں پیش کیا گیا ہے اس کےعلاوہ لفظیات کی بندش، ماحول کی منظر کشی اور خیا ل آفرینی نے مل کر نظم کو اعلیٰ معیار کا بنادیا ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی