چندریان iii چاندپر پہنچ چکا اور انسانیت؟

 چندریان iii چاندپر پہنچ چکا اور انسانیت؟

از قلم: محمد افروز رضا مصباحی

23  ؍ اگست بروز بدھ باشندگان ہند کے لیے بڑی شادمانی کا دن تھا جب چندریان ۳  شام چھ بجے چاند کے جنوبی حصے پر لینڈنگ کیا۔ بھارت کے تحقیقی ادارے اسرو کی جانب سے روانہ کیا جانے والا چندریان ۳خلائی جہاز کامیابی سے چاند کی سطح پر اتر کر ہندوستانی جھنڈا لہرانے لگا۔ یہ وقت ملک کے تمام باشندوں کے لیے فرحت و شادمانی کا تھا کہ ہمارا ملک چین، امریکہ اور روس کے بعد سافٹ لینڈنگ کرنے والا چوتھا ملک بن گیا۔ 

کامیابی کے اس خوشگوار موقع پر خلائی ایجنسی اسرو نے کامیاب لینڈنگ کے بعد اپنے ہیڈکوارٹر کے آپریشن سینٹر کی تصاویر بھی شیئر کی اور ٹیکنیکل اسٹاف کامیاب لینڈنگ پر خوشی و مسرت اظہار کیا۔ اس موقع پر ملک کے وزیر اعظم جو برکس کے کانفرنس میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ کے دورہ پر ہیں ،لائیو کاسٹ دیکھ رہے تھے،نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: زندگی خوشیوں سے بھر گئی ہے۔یہ لمحہ فتح کی راہ پر آگے بڑھنے کا ہے۔یہ لمحہ ایک سو چالیس کروڑ دھڑکنوں کے لیے ہے، آج ہر گھر میں جشن شروع ہوگیا ہے۔وزیر اعظم نے اسرو اور کے سبھی سائنسدانوں کو مبارکباددیتے ہوئے کہا: ہمارا چاند کا مشن خلائی سائنسی تحقیق کی جانب سے اپنی خلائی تحقیق کو چاند سے آگے لے جائے گا اور جلد اسرو سورج پر تحقیق کے لیے اپنا مشن بھیجے گا۔انہوں مزید کہاکہ : آج آپ سب کی محنت سے ہم اس مقام پر پہنچے ہیں جہاں آج تک دنیا کا کوئی ملک نہیں پہنچا ۔ یہ مشن دیگر ممالک کے خلائی مشنز کی بھی مدد کرے گا۔ یہ دن ہمیں ایک روشن مستقبل کی  جانب لے جانے والا ہے۔

مشہور انگریزی اخبار ’’دی ہندو‘‘ میں کرییا یونیورسٹی کے محققین ایس شیو کمار اور وکاش پانڈے لکھتے ہیں کہ: (چندریان کی کامیاب لینڈنگ) چاند کے قطب جنوبی میں مستقبل کے مشنزمیں بین الاقوامی تعاون کی گنجائش پیدا کرتی ہے، ترقی پذیر ممالک کو اپنے شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اس طرح کے تصورات کی ضرورت ہے جیسا کہ اگر چند کام گنوائے جائیں تو موسم کی پیشن گوئی، سمندری وسائل کی تشخیص ، جنگلات کے احاطہ کا تخمینہ لگانا، مواصلات ، دفاع کے لیے خلائی ٹیکنالوجیز بھی ضروری ہوگئے ہیں۔ 

چندریان ۳ کا سفر:

۱۴؍جولائی کو آاندھرا پردیش سے چندریان ۳ کا خلائی سفر شروع ہوا تھا۔ چالیس دن کے طویل سفر کے بعد ۲۳؍ اگست کو شام کے چھ بجے چاند کے قطب جنوبی میں لینڈ کیا۔ اس خلائی جہاز نے چاند کے مدار میں داخل ہونے سے تقریباً دس دن زمین کے گرد چند چکر لگائے جس کے بعد یہ پہلے ٹرانس لونر اور پھر 5؍ اگست کو چاند کے مدار میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔ 17؍  اگست کو اس مشن کا آخری مرحلہ شروع ہوا تھا جب لینڈر پرویلشن ماڈیول سے الگ ہوا جو بعد میں اسے چاند کے قریب لے گیا۔ 

چاند کی پشت پر کامیاب لینڈنگ کے بعد اس خلائی مشن سے چھ پہیوں والی ایک گاڑی چاند کی سطح پر اتری اور انڈین جھنڈے لہرانے لگے۔ اس چھ پہیوں والی گاڑی کا کام یہ کہ وہاں موجود چٹانوں اور گڑھوں کے گرد گھومے گی ، اس دوران وہ جمع کیے جانے والے اہم ڈیٹا اور تصاویر کو واپس زمین پر تجربے کے لیے بھیجے گی ۔ 

چندریان ۳ مشن کے بڑے اہداف میں سے ایک ’’پانی سے بننے والے والی برف ‘‘ کی تلاش ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق چندریان اس برف کی تلاش میں کامیاب رہتا ہے تو مستقبل میں چاند پر انسانوں کی رہائش میں مدد مل سکتی ہے۔

انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کی جانب سے چندریان ۳کی چاند کے جنوبی حصے پر سافٹ لینڈنگ انسان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ زمین پر رہتے ہوئے اپنے علم و تحقیق ، داشمندی و ہوشمندی سے چاند پر اپنی کامیابی کے جھنڈے نصب کردیے۔ یہ دنیا تحقیق و ریسر چ کی جگہ ہے۔ کلام مجید میں کائنات کے خالق نے انسان کو بار بار تدبرو تفکر کی دعوت دی اور کائنات میں غورو فکر پر برانگیختہ کیا۔ انسان کا اپنی جنم بھومی پر رہتے ہوئے دوسرے سیاروں کی تلاش انسان کی مہماتی ذوق اور اس کے تدبر و تفکر کو اجاگر کرتی ہے۔یہ معیوب نہیں بلکہ انسان کی فکر رسا اذہان کی باطنی قوت کو ظاہر کرتی ہے۔ انسان اگر چاہ لے تو کوئی کام ناممکن نہیں ۔سمندر کا سینہ چاک کرنا ، اس کی تہہ سے لولو و مرجان کا نکال لانا ، زمین کی گہرائی سے معدنیات اور پٹرول کے ذخائر کا پتا لگاناعام سی بات ہوگئی ،چاند پر کمندیں ڈالنا محاورۃً نہیں رہا بلکہ حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ 

آج ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں ٹیکنالوجی نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر ے میں لے کر حیران زدہ کررہی ہیں ۔ ٹیکنالوجی مصنوعات اور نئی آلہ جات ہر ساعت ہماری زندگی کو تبدیل کررہے ہیں۔خلائی سفر اب خواب کا حصہ نہیں رہ گیا، آرٹی فیشیل انٹلی جینس اور روبوٹکس اب سائنسی کہانی نہی رہ گئے، تھری ڈی پرنٹر گھروں میں آچکے ہیں ، بغیر ڈرائیور والی کاریں بہت جلد سڑکوں پر دوڑتی ہوئی نظر آئے گی ۔انسان اور مشین کے درمیان تعلق ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ کوئی کام بغیر مشین کے نہیں رہا۔آج کے انسان نے اتنی ترقی کرلی ہے جہاں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سہولیات فراہم کررہاہے۔ انسانی زندگی پرتعیش اور سہولت یافتہ بنتی جارہی ہے۔ یہ ساری ترقی اپنی جگہ ،انسانی ضروریات کے لیے حوصلہ افزا بھی ہے لیکن ہماری توجہ بنیادی سائنسی تحقیق سے نہیں ہٹنی چاہئے۔ 

سائنسی ترقی یہ ہے کہ جب انسانی زندگی کے مختلف شعبوں جیسے صحت، صفائی ستھرائی، سینی ٹیشن ، تعلیم و تعلم، ایگریکلچر میں ہمارے معاشرے کی سماجی، اقتصادی ترقی کو رفتار دینے میں مدد کرے۔اس سے بڑھ کر انسانیت کی حفاظت ہے۔

انسانیت کس موڑ پر ہے؟

انسان ترقی کرتے ہوئے اتنی دور نکل چکا ہے کہ انسانیت کو بھولتا جارہاہے۔سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرنے والے انسانیت سے عاری ہوتے جارہے ہیں،تن آسانی کا متلاشی زندگی کی حقیقی خوشی سے محروم ہے۔اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش میںدوسروں کی خوشی و غم کی پرواہ نہیں۔درد و غم کا مارا انسان اپنے دردکے سوا کسی کے درد کو حقیقی ماننے کو تیار نہیں۔دوسرے کی مصیبت عذاب معلوم ہوتی ہے اپنی مصیبت آزمائش ۔کسی کے ساتھ حادثات رونما ہونے پر بجائے مدد کرنے کے تماش بین تو بننا پسند ہے لیکن آگے بڑھ کر ہاتھ تھامنا گوارا نہیں۔ موبائل کی ایجاد نے ہمیں انسانیت سے دور کردیا۔ کہیں آگ لگ جائے، ایکسیڈنٹ ہوجائے، نالے میں گرجائے ،کوئی مدد کے لیے فریاد کرے تو بجائے مدد کرنے کے ویڈیوبنانا آسان ہے،سہارا دینا مشکل، ہمدردی دکھانے کی باڑھ لگی ہے لیکن حقیقی مددگار بننے کو کوئی تیار نہیں۔خوشی و غم کی ویڈیو گرافی کرنے والے اصل ہمدردی کو بھول جاتے ہیں۔ اپنی عزت سب کو پیاری ہے،دوسروں کی عزت کا جنازہ نکالنا فیشن بن چکا، اپنے گھر کی عورتوں کے سوا کسی کی عزت و وقار، عفت و عصمت کی اہمیت نہیں۔چندرماں کی دھرتی پر زندگی کا متلاشی اپنی ہی دنیا کو جہنم کا ایندھن بنا دیا

ملک کی حالت نازک مرحلے سے گزر رہی ہے۔سیاست کی غلاظت انسانی دلوں میں نفرت بھر دیا ۔ ذات پات ، مذہب و برادری کا کارڈ کھیل کر  اقتدار کی کرسی پر جمے رہنے کے لیے بسی بسائی بستی کو آگ کے حوالے کرنے میں فخر محسوس کرتاہے۔ چندریان کی کامیاب لینڈنگ پر خوشی منانے والے آگ و خون کی ہولی کھیلنے کے لیے خفیہ تیاری میں ہیں۔ سال آہندہ کے الیکشن کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ہر حد سے گزرنے کو تیار ہیں۔مظلوموں کی آہ و بکا حکمرانوں تک نہیں پہنچ رہی ہے۔حالات اتنے کشیدہ ہوگئے کہ ہر شخص دوسرے کو مشکوک نگاہ سے دیکھنے کو مجبور ہے۔ مسلمان اور دلتوں کی ماب لنچنگ عام بات ہوگئی ہے۔ آج کے ہی اخبار ات میں جہاں چندریان کی لینڈنگ کی خبر جلی حرفوں میں چھپی وہیںجھارکھنڈ میں شمشاد نامی شخص پر ٹھگی کا الزام لگا کر پیٹ پیٹ کر قتل کردیا گیا۔منی پور میں قبائلی جنگ کی آگ سرد ہونے سے پہلے ہریانہ کے نوح و میوات کو آگ کے حوالے کردیا، مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کی سماجی بائیکاٹ کے اعلان پر پنچایت سے آئی اے ایس افسر عمران رضا نے وجہ پوچھی کہ پنچایتوں نے ایسا کس بنیاد پر کیا ؟ اس سوال پر بجائے ستائش اور حوصلہ افزائی کے افسر کا ہی تبادلہ کردیا گیا، نفرتیںعروج پر ہیں یہ نفرت تعلیم تک پہنچ چکی ہے۔پڑھائی میں بھی ہندو مسلم دیکھ کر نمبرات دیے جاتے ہیں۔اس کی ایک مثال گجرات کے مہسانہ کی ایک اسکول سے سامنے آئی ہے۔ ایک مسلم طالبہ جو پہلے نمبر پر تھی اسے مسلم ہونے کے ناطے پہلے نمبر سے ہٹا کر دوسرے پر آنے والی ہندو لڑکی کو انعام و اکرام سے نوازا گیا۔

چندریان ۳ کی کامیابی جہاں تمام ملک کے باشندوں کے لیے مسرت آمیز ہے وہیں انسانیت کو بچائے رکھنا ، ایک دوسرے کا تحفظ،پڑوسی کے حقوق، دوسروں کے عزت نفس کا خیال اور جان ، مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کو یقینی بنانا بھی ملک کے ہر باشندے کی ذمہ داری ہے۔انسانیت کے تحفظ میں زمین پر قدم ہونی چاہیے ایسی ترقی ہی کیا جب آسمان کی بلندی کو چھولے اور انسانیت سے گرجائے۔ 


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی