داستان اور ناول میں فرق و امتیاز

 داستان اور ناول میں فرق و امتیاز

محمد افروز رضا مصباحی

داستان کے لغوی معنی:قصہ،کہانی،واقعہ،سرگزشت،اسطور،اسطور ہ،افسانہ۔طولانی قصہ(غیرضروری طور سے پھیلاکر بیان کی جانے والی باتیں،کسی فر د یا قوم کے واقعات،حالات کا مفصل و مسلسل بیان،تاریخ۔(موسیقی) پانچ ضرب کی تال جو نقارے میں بجائی جاتی ہے۔

(ریختہ ڈکشنری ڈاٹ کام) 

داستان افسانوی ادب کی قدیم ترین صنف ہے۔ ادب میں نثری قصوں کی وہ قسم جس کی اساس زیادہ تر خیال آرائی پر ہوتی ہے۔ کردار عموماً مثالی ہوتے ہیں۔زبان میں تکلف سے کام لیا جاتاہے۔داستان میں انسانی حواس اور فطرت کے اعتبار میں آنے والے واقعات پیش نہیں کیے جاتے تاکہ داستان میں دلچسپی اور تجسس باقی رہے۔ 

دردانہ قاسمی نے داستان کی تعریف اس طرح کی ہے:

”داستان کو اگر موٹے طور پر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ تہذیب کی ابتدا کی نمائندگی کرتی ہے“

(داستان،ناول اور افسانہ۔از: دردانہ قاسمی۔ص:11۔ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ)

کیرن آر م سٹرانگ نے داستان کی تعریف اس طرح کی ہے:

”داستان ایک ناول،اوپرا(غنائی ڈرامہ) یا بیلے ڈانس کی طرح مفروضے پر مبنی ایک کہانی اور ایک ایسا کھیل ہوتی ہے جو ہماری ٹکڑوں میں بٹی ہوئی المناک دنیا کو اپنی دنیا کی تکلیف دہ الجھنوں کے بارے میں بصیرت حاصل کرلی ہے“

(داستان کی مختصر تاریخ۔مصنف:کیرن آرم سٹرانگ۔مترجم:محمد یحییٰ خان۔ص:14) 

دنیا کی تمام ادب میں داستان کی موجودگی کا ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے۔سائنس کی ترقی نے داستان کے فن کو محدود کردیا،جن بنیادوں پر داستان کا سفر آگے بڑھتا تھا اب سائنسی اکتشافات نے اس کی تلاش کو ممکن بنادیاہے یہی وجہ ہے کہ لوگ اب داستان پر اعتماد نہیں کرتے۔

”غالباً دنیا کے تمام ادب کی شروعات میں داستان کی موجودگی پائی جاتی رہی۔وجہ یہ ہے انسانی شعورمیں حیرت پسندی ہے۔ سائنسی انکشافات و اکتشافات کے بعد جدید دور میں لوگ داستان کے حیرت کدہ سے باہر نکل گئے۔نئے زمانے میں لوگوں نے عقل، ہوش اور حقیقت پر یقین کرنا کچھ زیادہ ہی شروع کردیا ہے۔اس لیے آج کے انسان کو ایسے کردار یا توہم پر مبنی واقعات بہت زیادہ اپیل نہیں کرتے“۔

(داستان کا فن۔bismilji.com) 

اردو کی زیادہ تر داستانیں عربی اور فارسی سے ماخوذ ہیں یا پھر ان کا ترجمہ اردو میں کیا گیاہے۔ طبع زاد بھی ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہیں۔داستان نے اردو کو بیانیہ دیا،اردو نثر کو مالا مال کیااور اس میں اتنی استعداد پید ا کی کہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ پر قلم اٹھاسکے۔ داستانوں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور معاشرت کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔ اردو میں زبان کا رچاؤ داستانوں ہی کا مرہون منت ہے۔ داستانوں میں اردو نثر کے متعدد اسالیب محفوظ ہیں جو زبان کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔ 

داستان گو اپنی کہانی کو حقیقی روپ دینے کے لیے داستان کی دنیا کے عہد میں دوری پیدا کردیتاہے۔کہانی کی شروعات اس طرح ہوتی ہے کہ پہلے زمانے میں،یا بہت پہلے کی بات ہے وغیرہ۔ڈاکٹر ابن کنول داستان کے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں:

”داستان کی دنیا کو حقیقی دنیا ظاہر کرنے کے لیے داستان کو اپنے اور داستان کی دنیا کے عہد میں دوری پیدا کردیتاہے،وہ نہ اپنے زمانہ کے افراد کو داستان کا کردار بناتاہے اور نہ اپنے قرب و جوارمیں آباد جانے پہچانے شہروں کو داستان میں شامل کرتاہے، اپنے سامنے کی چیزیں بیان کرنے سے داستان کا حسن ختم ہوجاتاہے، داستان میں موجود زندگی اگر چہ داستان گو کے عہد کی زندگی ہوتی ہے لیکن داستان کو انداز بیان سے یہ ظاہر کرتاہے جیسے صدیوں پہلے کا کوئی قصہ بیان کیا جارہاہے۔داستان ہمیشہ اس طرح شروع کی جاتی ہے کہ بہت پہلے کی بات ہے فلاں ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتاتھا۔ زمان و مکان کا فاصلہ پید اکرکے داستان کو سامعین کا اشتیاق بڑھاتاہے“

(داستان سے ناول تک۔ از: ڈاکٹر ابن کنول۔ ص:15)

داستان میں مرکزی قصہ:

داستان کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کوئی مرکزی قصہ ہویا قصہ در قصہ، خواہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔ اس میں شاعرانہ تخیل کا دبیز پردہ پڑا رہنا چاہیے۔داستانوں میں زندگی کی تصویر ہوتی ہے لیکن اس کا تعلق حال سے کم اور ماضی بعید سے زیادہ ہوتاہے۔ کرداروں کو جاندار بنانے کے لیے اس کے تانے بانے ایسے خیالی تاروں سے بنائے جاتے ہیں جس سے سننے یا پڑھنے والے کے ذہن و ہوش کی رسائی سے بالاتر ہو۔

داستان کی فنی خصوصیت:

داستان میں مافوق الفطرت عناصر،واقعات،مقامات اور کرداروں کی کثرت ہوتی ہے۔جادو کی چیزیں،جادو کے واقعات، خزانوں،جنوں،پریوں،بھوت،پریت، شہزادے، شہزادیوں کا ذکر قدم قدم پر نظر آتاہے۔ ویکی پیڈیا نے داستان کے ابتدائی حالات اس طرح بیان کیا ہے:

”اردو داستانوں کی تاریخ انیسویں صدی کے نصف آخر میں شروع ہوتی ہے۔ اس لیے بعض محققین کے نزدیک ملا وجہی کی سب رس پہلی داستان مانی جاتی ہے۔ جس تصنیف کو باقاعدہ سب سے پہلی داستان کہہ سکتے ہیں، وہ میر حسین عطا تحسین کی نوطرز مرصع ہے۔ اس کے چند سال بعد فورٹ ولیم کالج کا دور شروع ہوتا ہے اور نوطرز مرصع یا باغ و بہار اور انشاء کی رانی کیتکی کی کہانی کو چھوڑ کر بیسویں صدی میں جتنی داستانیں معرض وجود میں آئیں ان میں زیادہ تر فورٹ ولیم کالج کے منصوبے کے تحت یا حکمت عملی کے مقصد سے لکھی گئیں۔ اس دور کی معروف اور خوب صورت داستانوں میں میر امن کی باغ و بہار، حیدر بخش حیدری کی آرائش محفل، خلیل خاں اشک کی داستان امیر حمزہ، للو لال کی بیتال پچیسی وغیرہ کافی مشہور ہیں“۔

(آزاد دائرۃ المعارف۔ویکی پیڈیا)

فورٹ ولیم کالج کے دور کے بعد انیسویں صدی کے آخر تک جو بے شمار داستانیں تصنیف ہوئیں ان میں محمد بخش مہجور کی نورتن، رجب علی بیگ سرور کی فسانہئ عجائب، نیم چند کھتری کی گل صنوبر اور دوسرے قلم کاروں کی الف لیلیٰ، بوستان خیال، طلسم ہوشربا، سروش سخن، طلسم حیرت وغیرہ زیادہ مشہور ہوئیں۔ قاری ان دل کش داستانوں میں تقریباً ایک ہی قسم کی رنگینی، زبان کی لطافت، واقعات کی ندرت اور دل چسپی محسوس کرتا ہے۔ کہانی کو طویل بنانے کے لیے داستان نویسوں نے عموماً یہ انداز اختیار کیا کہ وہ اصل اور بنیادی قصے کے ساتھ ضمنی قصے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ ان میں قاری کی توجہ اور اس کا انہماک برقرار رہے۔ بادشاہوں، وزیروں، امیروں اور تاجروں کی زندگی کی رونق، شوکت و عظمت اور شان جلال و جمال میں قاری کے لیے اس وجہ سے کشش تھی کہ وہ اپنی سیدھی سادی اور حقیقت بھری زندگی میں اس آسائش اورر تعیش سے محروم تھا۔ اس رنگین، حسین و جمیل اور پر شکوہ دنیا کی تشکیل و تعمیرداستان گو کے فن کی روایت کا حصہ ہے اور اپنی روایت کی اسی دل کشی سے وہ قاری کے دل کو موہ لیتا ہے۔

داستان میں پلاٹ:

داستان کا کوئی پلاٹ ہی نہیں ہوتا۔پلاٹ ناول میں ہوتے ہیں۔داستانوں میں نہ تو مربوط پلاٹ کا کوئی تصور ہے نہ واقعات میں کوئی ترتیب۔قلم کارآزاد ہے جب چاہے مرکزی قصہ کو چھوڑ کر ایک نیا قصہ شروع کردے لیکن یہ ثانوی قصے جو کسی وجہ سے شروع کیے جاتے ہیں، شروع کرنے کے بعد مکمل کرنے لازمی ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ مصنف یا داستان گو کبھی کبھی اپنے مرکزی قصے کی طرف رجوع کرتاہے۔ ایک صور ت یہ بھی ہوتی ہے ایک داستان شروع کی جائے اس کے بعد مرکزی قصہ چھوڑ کر قصہ در قصہ داستان آگے بڑھائی جائے،درمیان میں مرکزی قصے کو شامل نہ کیا جائے۔آخر میں مرکزی قصے پر لوٹ کر داستان ختم کردی جائے۔ 

کردار نگاری:

داستان میں حقیقی زندگی کے فطری کردار نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔زیادہ تر اعلی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو دیکھنے میں انسان جیسے ہی معلوم ہوتے ہیں لیکن اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے مثالی کردار بن جاتے ہیں۔مثلاشہزادے انسانوں کے مثل ہوتے ہیں لیکن غائب ہونے کی صلاحیت،طاقتور جنوں،بھوتوں،دیووں سے مقابلہ کرنے کی طاقت عام انسانوں میں نہیں ہوتی لیکن داستان میں یہ ممکن ہے۔

مافوق الفطرت عناصر:

داستان میں مرکزی کردار کے علاوہ فوق الفطری کردار و عناصر بھی ہوتے ہیں جیسے جن، پری، دیو، جل پری، اڑنے والے گھوڑے،جادوئی تیر و تلوار وغیرہ۔ان چیزوں کا ہماری حقیقی دنیا میں کوئی تصور نہیں۔غیر فطری عناصر ہی داستانوں کا اہم سرمایہ ہیں اور ان ہی سے ہماری داستانیں پہچانی جاتی ہیں۔ مثال میں شیکسپئر کے ڈرامے، ملٹن کی فردوس گم شدہ،فردوسی کا شاہنامہ، کالی داس کے ڈرامے، رامائن، مہابھارت،یہ تمام مافوق الفطرت عناصر سے پُر ہیں.

منظر نگاری:

منظر نگاری کے حوالے سے داستان بہت زرخیز ہے۔داستان منظر نگاری کے اعتبار سے اردو ادب کا بیش قیمت خزانہ ہے۔داستان نگاروں نے مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، پہاڑ،ریگزار،بندرگاہیں،دریا،شادی بیاہ،عرس، موسم،میلے کو بڑی تفصیل اور سلیقے سے ذکر کیا ہے۔سارے مناظر آنکھوں کے سامنے جیتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔

تہذیب و معاشرہ:

داستان تہذیب و معاشرے کی عکاس ہوتی ہے۔داستان نگاراپنی تہذیب و معاشرت کی مکمل تصویر اپنی داستان میں پیش کرتاہے۔ داستان میں رہن سہن کے آداب،کھانے پینے کی اقسام،ملبوسات، سواریاں،ملازم، چور اچکے،زیوارات،جانور، غرض ہر چیز کا ذکر تفصیل سے کیا جاتاہے۔

اخلاق کا درس:

داستان میں اخلاق کا درس لازمی ہوتاہے۔داستان کا انجام طربیہ با نصیحت اورسبق آموزہوتاہے۔ حق کی فتح،باطل کی شکست ہر جگہ بار بار دکھائی جاتی ہے۔ داستان میں ہمدردی، نیکی، وفاداری، شجاعت کا درس بھی لازمی شامل کیا جاتاہے

انجام:

داستان کا انجام طربیہ ہوتاہے ہمیشہ نیکی کی فتح ہوتی ہے اور بدی کو مات ہوتی ہے داستان کا ہیرو ہر مشکل سے گزر کر آخر فتح یاب ہوتاہے۔

زبان و بیان:

داستانوں میں دو طرح کے اسالیب کو برتاگیاہے۔ ایک رنگین،مسجع و مقفٰی،فارسی میں یہی اسلوب ہے۔ دوسرے سادہ سلیس اور بامحاورہ،دونوں اسالیب میں داستان نگاروں نے اپنے فن کا مظاہر ہ کیاہے۔
(داستان اردو۔ داستانوی ادب کا ابتدائی ڈھانچہ۔ شیخ شکیل)
ناول:
ناول: اطالوی زبان کے لفظ ناولا(Novella)سے نکلاہے۔ ناولا کے معنی ہے نیا۔لغت کے اعتبار سے ناول کے معانی نادر اور نئی بات کے ہیں۔ لیکن صنف ادب میں اس کی تعریف بنیادی زندگی کے حقائق بیان کرنا ہے۔ ناول کی اگر جامع تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی:
ناول ایک نثری قصہ ہے جس میں پوری ایک زندگی بیان کی جاتی ہے“ ناول کے عناصر:ترکیبی میں کہانی، پلاٹ،کردار،مکالمے، زمان و مکان،اسلوب،نکتہ نظر اور موضوع وغیرہ شامل ہیں۔
ناول کے اجزا ء یہ ہیں:
کہانی،پلاٹ، کردار، انداز نظر،زبان و بیان،منظر نگاری،
 اطہر مسعود ناول کے ابتدائی حالت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اردو میں داستان گوئی کا عہد شباب ختم ہونے سے پہلے ہی کہانی کی ایک نئی صنف یعنی ناول نے جنم لیا اور اردو کا پہلا ناول مراۃ العروس1869 میں تصنیف ہوا۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں نے کہانی کو تخیل اور تصور کی دنیا میں رہنے کے بجائے حقیقت کی دنیا میں قدم رکھنا سکھایا اور کہانی کو محض دل چسپی اور تفریح کی چیز سمجھنے کے بجائے اسے معاشرتی زندگی کے پاکیزہ مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ ناول میں زندگی کے دکھوں، اس کی سچائیوں اور اس کے مسائل کو بنیاد بنایا۔ نذیر احمد کے ناول مراۃالعروس، ابن الوقت، بنات النعش اسی جذبے کی عکاسی کرتے ہیں“۔
(کہانی کا سفر:داستانوں سے افسانے تک۔مضمون نگار:اطہر مسعود)
ڈپٹی نذیر احمد کے بعد لکھنے والوں میں رتن ناتھ سرشار، عبد الحلیم شرر، مرزا ہادی رسوا، راشد الخیری، منشی پریم چند اور سجاد حسین نے اپنے اپنے ماحول کے طرز معاشرت کی عکاسی اپنے ناولوں میں کی۔ بعد کے لکھنے والوں نے موضوعات کو وسعت دی اور نئے نئے موضوعات کے تحت ناول لکھ کر قارئین کی ذہنی آسودگی اور مطالعہ کے ذوق کی فراہمی کے اسباب مہیا کیے۔ رفتہ رفتہ اردو میں ایسے شان دار ناول لکھے گئے جو موضوع، فن، تکنیک، پلاٹ، اسلوب نگارش، زبان و بیان اور مقصد تحریر کے لحاظ سے شاہ کار قرار پائے۔اس سلسلے میں عبداللہ حسین کے ناول اداس نسلیں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناول اگرچہ آزادی سے قبل لکھا گیا تھا لیکن اس کی مقبولیت میں اب تک کمی نہیں آئی ہے
 اور یہ آج بھی تیسری نسل کی ذہنی آسودگی کے ساتھ اس کے ذوق مطالعہ کو پورا کر رہا ہے۔اداس نسلیں سے قبل لکھے گئے گؤدان، میدان عمل وغیرہ پریم چند کے ایسے ناول ہیں جن میں کہانی کی روایت کے عناصر موجود ہونے کے باعث ان میں قاری کی دل چسپی برقرار رہتی ہے۔
ناول کی اقسام:۔
1۔معاشرتی ناول:۔ جو ناول بنیادی طور پر معاشرے کے کسی مسئلے یا مسائل کی نقاب کشائی کرتے ہوں، انہیں معاشرتی ناول کا عنوان دیا جاسکتا ہے۔
2۔واقعاتی ناول:۔ جن ناولوں میں پلاٹ پر زیادہ زور ہوتا ہے، یعنی ان میں واقعات کی بھرمار ہوتی ہے، انہیں ہم واقعاتی ناول کہہ سکتے ہیں۔
3۔کرداری ناول:۔ جن ناولوں کا مرکزی تأثر کسی خاص کردار کی خصوصیات سے تشکیل پائے، انہیں کرداری ناول سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔
4۔نظریاتی ناول:۔ جن ناولوں میں مقصد یا نظریہ زیادہ ابھرا ہوا ہوتا ہے، انہیں ہم مقصدی یا نظریاتی ناول قرار دے سکتے ہیں۔
۔تاریخی ناول:۔ جن ناولوں میں تاریخ کسی خاص دور، کسی مشہور شخصیت کو ناول کا موضوع بنایا گیا ہو، انہیں ہم تاریخی ناول قرار دے سکتے ہیں۔
6۔جاسوسی ناول:۔ جن ناولوں کی بنیاد انوکھی باتوں، مافوق الفطرت کرداروں اور تحیر و تجسس پر ہو، انہیں ہم جاسوسی ناول کہہ سکتے ہیں۔
7۔اصلاحی ناول:۔ ایسے ناول جن میں اصلاح معاشرت کی جائے۔انھیں اصلاحی ناول کہتے ہیں۔
8۔ رومانی ناول:۔ رومانوی ناولوں میں، ایک محبت کی کہانی سامنے آتی ہے جو بطور اصول، خوش کن اختتام پذیر ہوتی ہے۔ ان ناولوں کا مرکزی پلاٹ محبت میں مرکزی کرداروں کے جذبات کی تفصیل سے بھرا ہوا ہے، جو دوسروں کے مابین محبت میں پڑنے
9۔نفسیاتی ناول:۔  جو ناول بنیادی طور پر کسی نفسیاتی نقطے کے گرد گھومتے یا پھر کرداروں کی تحلیل نفسی میں مصروفِ عمل ہوتے ہیں، انہیں ہم نفسیاتی ناول کہہ سکتے ہیں۔
(آزاد دائرۃ المعارف۔ ویکی پیڈیا)
داستان اور ناول میں فرق:
داستان ناول یا افسانے کے برعکس ہماری خارجی دنیا سے بلند و برتر ایک مثالی اور خیالی دنیا کی کہانی ہوتی ہے۔ جس میں مثالی کردار بستے ہیں اور مثالی واقعات آتے ہیں جو آخر کار مثالی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔
داستان میں مافوق الفطرت عناصر ہوتے ہیں۔
واقعات، مقامات اور کرداروں کی کثرت ہوتی ہے۔
اس میں قصہ در قصہ ہوتے ہیں۔
خیالی اور مثالی دنیا کی کہانی ہوتی ہے جو محبت،مہم جوئی،سحر وطلسم، جیسے غیر معمولی عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں۔
ناول:
ناول مغربی صنف ہے جو اردو میں داستان کے بعد رائج ہوئی۔ اس کے معنی نیا،انوکھا پن،عجیب اور نمایاں کے ہیں۔یہ ایک نثری کہانی ہوتی ہے جو کسی ایک انسان کی تمام زندگی پر محیط ہوتی ہے٭حقیقی زندگی کا ترجمان ہے٭پلاٹ ہوتاہے٭کردار کم ہوتے ہیں ٭داستان کے مقابلے مختصر ہوتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی