مدارس اسلامیہ: یہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں

 


مدارس اسلامیہ: یہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں 

از قلم: محمد افروز رضا مصباحی

دینی تعلیم و تعلم کی تربیت گاہ کو مدرسہ کہتے ہیں جس کی جمع مدارس ہے۔ مدارس اسلامیہ اسلام کے مضبوط قلعے ہیں جہاں قوم کے نونہالوں کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ و پیراستہ کیا جاتاہے۔ یہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں۔خام مال کو مختلف مراحل سے گزار کر امت کا پیشوا وامام بنایاجاتاہے۔یہاں پڑھنے والے قوم کے بچے معمولی آسائش زندگی پر قناعت کرتے ہوئے دینی علوم و فنون سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔اسی کی خاک پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والے قوم کے نباض،بہترین استاد، علم و آگہی کے شناور،تخلیقی ذہن والے تیار ہوتے ہیں جو ہر محاذ پر قوم کی پیشوائی کرتے ہیں۔ 

موجودہ دو ر میں مدارس کے خلاف جس کے طریقے سے سازشیں کی جارہی ہیں،چہار دیواری میں تانک جھانک کی کوشش کی جارہی ہے۔مختلف الزامات لگائے جارہے ہیں، دہشت گردی کا اڈہ کہا جارہاہے ایسے پُر اشوب دور میں اس کی حفاظت پہلے کے بنسبت زیادہ ہوگئی ہے۔فرقہ پرست عناصر کو مدارس اسلامیہ کانٹوں کی طرح آنکھوں میں چبھ رہے ہیں،ملک کے دستور کے مطابق ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہبی ادارے کھولنے کی اجازت ہے،اسی دستوری اجازت کی بنیاد پر مدارس کی بنیاد رکھی جاتی ہیں لیکن نفرت و تعصب اور مذہبی جنونیت کے شکار لوگ آئے دن اس کے خلاف بکواس کرنا اپنا شیوہ بنالیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر آج تک ملک کے کسی حصے سے کسی مدرسے سے کوئی قابل اعتراض سامان نہیں ملے،کئی بڑے مدارس میں تلاشی بھی لی گئی،بچوں کی ذہنی آزمائش بھی ہوئی لیکن کوئی ایسا سوشہ نہیں ملا جو قابل اعتراض ہو،باوجود اس کے ہر چند ماہ بعد کسی گوشے سے کوئی شرپسند اس کے خلاف اپنی ذہنی آوارگی کا ثبوت دیتے ہیں،بیجا اعتراض کرتے ہوئے کبھی تلاشی،کبھی نصاب کی تبدیلی،کبھی مقفل کرنے کا حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں۔کرتا ٹوپی والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔گویامدرسہ سے وابستہ ہر معاملہ ہی شرپسندوں کے نشانے پر ہے۔ لیکن بحمد اللہ مسموم فضا اور بادمخالف کے باوجود اسلامی قلعے توکل علی اللہ اپنے وجود کو باقی رکھنے میں کامیاب ہے اور اسلاف کے طریقے پر چلتے ہوئے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو عام کرنے میں ہر صعوبت کو برداشت کرتے ہوئے منزل کی طرف گامزن ہے۔

مدارس میں پڑھنے والے بچے عام طور پر غریب و نادار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔خوشحال گھرانے کے بچے بھی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہوتی ہے۔ خوش نصیبی جن کا گھر دیکھ لیتی ہے اس گھر کے بچے دینی تعلیم کے لیے داخل ہوتے ہیں۔ غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہی زیادہ تر اس ماحول میں ڈھل پاتے ہیں اور یہاں کے ماحول سے مانوس ہوتے ہیں مالدار طبقہ کے بچے اگر ماں باپ کی خواہش و احترام میں آ بھی گئے تو زیادہ دنوں نہیں رُک پاتے۔ حافظ قرآن، قاری قرآن،عالم و فاضل کے آخری مراحل تک نہیں  پہنچ پاتے جو پہنچ جاتے ہیں وہ یقینا قابل ستائش ہیں۔

زمانے کے جدید تقاضے کو مدنظر رکھتے ہوئے مدارس اسلامیہ میں بھی بہت سی اصلاحات کی گئی ہیں قدیم طرز کی عمارت کے بجائے جدید سہولیات سے آراستہ عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ طالب علموں کو کھلی فضا میسر آئے اس کے لیے شہر کی آبادی سے دور دانش گاہیں تعمیر کیے جارہے ہیں،کھیل کود کے لیے میدان بھی بنائے جارہے ہیں۔یہ سہولیات وہ مدارس دے رہے ہیں جن کے پاس زمینیں موجود ہیں وسعت

 و فراخی اور امداد و تعاون کے بہترین ذرائع ہیں۔چھوٹے مدارس ابھی قدیم روش پر چلتے ہوئے معمولی عمارت میں شمع علم کو روشن کرنے کے لیے اپنی چادر کے مطابق مصروف کار ہیں۔ 

مدارس نے اسلاف کے دیے گئے خطوط پر چلتے ہوئے دینی تعلیمات کے فروغ میں ہمہ مصروف ہے ساتھ ہی زمانے تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے تبدیلی کو بھی قبول کرلیا ہے۔ عربی و فارسی کی مروجہ تعلیم کے علاوہ عصری علوم انگریزی، ریاضی،ریاستی زبان،ہندی اور کمپیوٹر کو بھی داخل نصاب کیا گیاہے۔اردو زبان کے فروغ و ارتقاء میں مدارس کی چہار دیواری سب سے زیادہ معاون ہے۔ صحیح تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا مدارس اسلامیہ ہی فی زمانہ اردو کے فروغ و ارتقاء میں کلیدی رول ادا کررہے ہیں۔یہاں کے فارغین اس کے زلف پریشاں کو سنوارنے میں شب و روز مشغول ہیں۔

نسل نو میں دینی تعلیم کو عام کرنے کے لیے بعض تنظیم و تحریک نے ڈیجیٹلائز طریقہ تعلیم کو بھی فروغ دیا ہے۔مدارس کے ساتھ مکاتب کا قیام بھی کثرت سے دیکھنے میں آرہاہے۔ہر شہر میں وہاں کے ذمہ دار لوگوں کے رجحان اور جدید تقاضے کو محسوس کرتے ہوئے ٹوٹی چٹائی پر بچوں کو بٹھانے کے بجائے ٹیبل کرسی،صوفہ اور اے سی روم میں تعلیم دینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔جس کا خاطر خواہ فائدہ بھی دیکھنے کو ملاہے کہ اونچے طبقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی اپنے بچوں کو ایسی جگہ تعلیم دلانے کے لیے لے کر آتے ہیں۔حیثیت کے مطابق بہترین تعلیم گاہ دیکھ کر سکون محسوس کرتے ہیں۔

علمائے امت نے ہمیشہ اپنی قوم کی تعلیم و تربیت کے لیے ہر ممکنہ کوششیں کی اور زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے بڑی سے بڑی تکلفیں بھی برداشت کی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ایک مرد کی تعلیم اکیلے کی تعلیم ہے۔ ایک عورت کی تعلیم ایک نسل کی تعلیم و تربیت ہے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے قوم کی بچیوں کی دنیوی تعلیم کے ساتھ فکرمندمذہبی ذہن رکھنے والے قوم کے ہمدرد اور علماء نے ان کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے بھی خالص دینی ادارے قائم کیے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ تقریباً ہر شہر میں لڑکیوں کی دینی تعلیم گاہیں کھل چکی ہیں یا کھل رہی ہیں جہاں پردے گوشے کے اہتمام کے ساتھ ان کی دینی تعلیم معلمین و معلمات کی نگرانی میں ہورہی ہیں۔

ہمارا دور پُر آشوب دور ہے،زمانہ پُر خطر ہے،نفرت کی چنگاری ہر طرف سلگ رہی ہے،خطرات کے بادل چھائے ہیں ہمارے دینی ادارے شرپسندوں کے نشانے پر ہے،بے لگام سیاسی لیڈران اپنی ساکھ بچانے اور کبھی سیاسی زندگی کے وجود کو باقی رکھنے کے لیے مسلمانوں کے مذہبی تشخصات پر نشانہ سادھتے ہیں،ذہنی ہراس منٹ کا ماحول بنا کر اپنی سیاسی روٹی سینکتے ہیں۔ایسے سنگین حالات میں اپنے وجود کے ساتھ مذہبی شناخت کو باقی رکھنا اور اپنے دینی اداروں کی حفاظت بھی از حد لازمی ہے۔ یہی وہ مضبوط قلعے ہیں جہاں کے فارغین کی وجہ سے ہمارے دین و ایمان کی حفاظت ہورہی ہے اگر یہ بھی نہ رہے اسلام کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ 

دینی اداروں کو مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔وقت اور حالات کے بدلتے منظر نامے پر نظر رکھتے ہوئے مدارس کی بقا لازم و ضروری ہے۔لہذا قوم مسلم جس طرح چاہے اعانت و تعاون اور امداد کے ذریعہ دین کے ان قلعوں کو توانائی عطا کرے۔رمضان کا مبارک و مسعود مہینہ جلوہ فگن ہے اس ماہ میں قوم مسلم اربوں کھربوں میں زکوۃ و صدقات نکالتے ہیں۔عزیز و رشتہ دار،غریب و نادار اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کے ساتھ مدارس کا بھی خیال رکھے تاکہ اپنے وجود کو باقی رکھتے ہوئے دینی تعلیم کی نشر و اشاعت اور قوم کے بچے بچیوں کی دینی و اخلاقی تربیت میں اپنا رول ادا کرتاہے۔ 

یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی 

یہاں کی خاک سے انساں بنائے جاتے ہیں 


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی