بابری مسجد: تاریخ کے آئینے میں

 

بابری مسجد :تاریخ کے آئینے میں
پیش کش:محمد افروز مصباحی

بابری مسجد (یا میر باقی مسجد) جو مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے منسوب ہے، بھارتی ریاست اترپردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک تھی۔ اسے مغل سالار میر باقی نے تعمیر کروایا تھا۔9 نومبر 2019 کو ہندوستانی عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے تعلق سے اپنا حتمی فیصلہ سنایا، سپریم کورٹ کے جج نے اسے ہندو توا کے حق میں دےدیا، 5 اگست 2020 ملک کے وزیراعظم کے ہاتھوں رام مندر کے لیے سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔

1528: ایک ایسے مقام پر مسجد کی تعمیر جو کچھ ہندو تنظیموں کے دعویٰ کے مطابق ’رام‘ کی جائے پیدائش تھی۔

1853ء: ایودھیا کے پہلے مذہبی فسادات۔

1859ء: برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے عبادت کی جگہ کی تقسیم کر دی گئی۔

1949ء: مسجد کے اندر سے ’رام‘ کی مورتی کی دریافت۔ حکومت نے متنازع مقام قرار دے کر مسجد بند کروا دی۔

1984ء: وشوا ہندو پریشد کی جانب سے ’رام‘ کی جائے پیدائش کو آزاد کروانے کے لیے تحریک کا اعلان۔ بی جے پی کے رہنما لعل کرشن ایڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی۔

1986ء: ضلعی عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو متنازع مقام پر پوجا کی اجازت۔ مسلمانوں کا گیا- مسلمانوں کی جانب سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام۔

1989ء: وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔

1990ء: وشوا ہندو پریشد کے حامیوں نے مسجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا۔ بھارتی وزیرِاعظم کی جانب سے مسئلے کے حل کی کوشش۔

1991ء: ریاست اتر پردیش میں بی جے پی حکومت کا قیام۔

1992ء: وشوا ہندو پریشد کے حامیوں کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت۔ ہندو مسلم فسادات، تین ہزار افراد ہلاک۔

2001ء: انہدام کے 9 برس مکمل ہونے پر وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کا عزمِ نو۔

جنوری 2002ء: وزیرِاعظم واجپائی کے دفتر میں ’ایودھیا سیل‘ کا قیام۔

فروری 2002ء: بی جے پی کی جانب سے انتخابی منشور میں سے رام مندر کی تعمیر کی شق خارج۔ ایودھیا سے واپس آنیوالے ہندوؤں کی ٹرین پر حملہ 58 ہلاک۔ وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کے آغاز کے لیے پندرہ مارچ کی تاریخ کا اعلان۔

مارچ2002ء: گجرات مسلم کش فسادات میں دو ہزار افراد ہلاک۔

اپریل 2002ء: ایودھیا کے متنازع مقام کی ملکیت کے بارے میں مقدمے کی سماعت کا آغاز۔

جنوری 2003ء: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے عدالت کے حکم پر متنازع مقام کے جائزہ کا آغاز۔

اگست2003ء: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے مسجد کے نیچے مندر کی موجودگی کے شواہد کا اعلان۔ مسلمانوں کی جانب سے اعتراضات۔

ستمبر 2003ء:عدالت کی طرف سے بابری مسجد کے انہدام پر ا کسانے کے الزام میں سات ہندو رہنماؤں پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ۔

اکتوبر 2003ء: مسلم تنظیموں کی جانب سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا مطالبہ۔

دسمبر 2003ء: انہدام کی گیارہویں برسی پر حیدرآباد دکن میں فسادات۔ پانچ افراد ہلاک۔

جولائی 2004ء: شیوسینا کے رہنما بال ٹھاکرے کی جانب سے مسئلے کے حل کے لیے متنازع مقام پر قومی یادگار کی تعمیر کی تجویز۔

اکتوبر2004ء: لال کرشن ایڈوانی کی جانب سے مندر کی تعمیر کی عزم کا اعادہ۔

نومبر 2004ء: الہٰ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بابری مسجد معاملہ میں لعل کرشن ایڈوانی کو نوٹس۔

اکتوبر 2010ء: الٰہ آباد عدالت نے فیصلے میں بابری مسجد کی زیادہ تر زمین ہندوؤں کے دو فریقوں کو دے دی۔ تاہم سابقہ مسجد کی زمین کے ایک تہائی حصے پر مسجد کی بازتعمیر کی گنجائش رکھی۔

دسمبر 2015ء بڑے پیمانے پر تعمیری پتھروں کو بابری مسجد کی زمین پر وشو ہندو پریشد کی جانب سے بھیجا گیا۔

10 نومبر 2019 کو، سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے بارے میں تمام شواہد قبول کرلیے - پھر بھی، ہندوستانی جمہوریت سے انکار کرتے ہوئے، بابری مسجد کی سرزمین کو عقیدے کی بنیاد پر ہندوؤں کے حوالے کردیا گیا
(دائرۃ المعارف ۔ویکی پیڈیا)

سپریم کورٹ کے جس جج نے 142/ کا خصوصی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ کو رام مندر کے حوالے کیا، اس جج کو انعام کے طور پر حکومت نے راجیہ سبھا کی سیٹ دے کر جج کے غیر جانبداری پر کیے جانے والےشکوک و شبہات کو تقویت دی ۔ سپریم کا فیصلہ "انصاف " نہیں صرف ایک فیصلہ تھا جس پر ہمیشہ انگشت نمائی ہوتی رہے گی ۔بابری مسجد کی شہادت جمہوریت پر ایک داغ ہے جو ہمیشہ باقی رہے گا ۔بھارتی تاریخ میں بابری مسجد کی شہادت کبھی نہ بھلانے والا سانحہ ہے ۔6/ دسمبر 1992 سیاہ دن کے طور پر منایا جاتے گا ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی