تعفن زدہ معاشرہ
از۔۔۔۔ محمد افروز رضا مصباحی
دنیا چمک کو دیکھتی ہے، حالانکہ یہ سبھی
جانتے ہیں کہ ہر چمکتا سونا نہیں ہوتا لیکن آنکھیں رکھتے ہوئے بھی لوگ بینائی سے محروم ہیں ۔حقیقت سامنے ہوتے ہوئے بھی سراب کے پیچھے بھاگنا عادت سی بن گئی ہے ۔مغربی فیشن کی تقلید مسلمانوں میں کچھ زیادہ ہی سرایت کر گئی، چال ڈھال، لباس میں تقلید، کھانے پینے اور دیسی کھانے کے بجائے جنک فوڈ اور دیگر چیزوں میں اندھی تقلید موجودہ دور میں مرض کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔
مغربی دنیا میں ہر شخص آزاد ہے ۔بالغ بچے پر ماں باپ کا کوئی زور نہیں، ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کرسکتے ۔پہلے آنکھیں کھول دینے والا واقعہ پڑھیے، اگر اندھی تقلید کی پٹی آنکھوں پر نہیں بندھی ہے تو ممکن ہے سسکیاں نکل جائے :
*امریکہ کی ایک ریاست میں ایک ماں نے اپنے بچے کے خلاف مقدمہ کیا کہ میرے بیٹے نے گھر میں ایک کتا پالا ہوا ہے روزانہ چار گھنٹے اس کے ساتھ گزارتا ہے اسے نہلاتا ہے اس کی ضروریات پوری کرتا ہے اسے اپنے ساتھ ٹہلنے کے لئے بھی لے جاتا ہے روزانہ سیر کرواتا ہے اور کھلاتا پلاتا بھی خوب ہے اور میں بھی اسی گھر میں رہتی ہوں لیکن میرا بیٹا میرے کمرے میں پانچ منٹ کے لئے بھی نہیں آتا۔ اس لئے عدالت کو چاہیے کہ وہ میرے بیٹے کو روزانہ میرے کمرے میں ایک مرتبہ آنے کا پاپند کرے۔
*جب ماں نے مقدمہ کیا تو بیٹے نے بھی مقدمے لڑنے کی تیاری کر لی ماں بیٹے نے وکیل کر لیا۔ دونوں وکیل جج کے سامنے پیش ہوئے اور کاروائی مکمل کرنے کے بعد جج نے جو فیصلہ سنایا ملاحظہ کیجیئے!
*عدالت آپ کے بیٹے کو آپ کے کمرے میں 5 منٹ کے لئے بھی آنے پر مجبور نہیں کر سکتی کیونکہ ملک کا قانون ہے جب اولاد 18 سال کی ہو جائے تو اسے حق حاصل ہوتا ہے کہ والدین کو کچھ ٹائم دے یا نہ دے یا بالکل علیحدہ ہو جائے رہی بات کتے کی تو کتے کے حقوق لازم ہیں جنہیں ادا کرنا ضروری ہے البتہ ماں کو کوئی تکلیف ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ حکومت سے رابطہ کرے تو وہ اسے بوڑھوں کے گھر لے جائیں گے اور وہاں اس کی خبر گیری کریں گے*
*یہ وہ متعفن اقدار ہیں جن کے پیچھے ہمارے بہت سے لوگ اندھا دھند بھاگ رہے ہیں*
*یقین کریں ہمارے معاشرے میں بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت جیسی اعلیٰ روایات ہماری اسی مغربی تقلید کی وجہ سے ہی دم توڑ رہی ہیں*
*اسلام میں دوسروں کے حقوق کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ احسان کرنے کی بھی ترغیب دی گئی ہے*
*اس لئے اگر ہم اسلام کے دامن میں پناہ نہیں لیتے تو بہت جلد ہمارا حال بھی ان لوگوں جیسا ہی ہو گا جنہیں ہم ترقی یافتہ سمجھ کر ان کی تقلید کی کوشش کرتے ہیں۔
*اسلام نے ہر فرد کے حقوق کی پاسداری کی ہے ۔والدین کے بارے میں سب زیادہ تاکید کی گئی ۔کلام مجید میں ماں باپ دونوں یا ایک زندہ ہوں تو ان کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے ذرا ان دو آیات کا ترجمہ دیکھیے:
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا ، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا ۔
اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔
سورہ بنی اسرائیل۔آیت:17,18)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
دوسری حدیث میں ہے:
باپ جنت کے دروازوں میں سے بیچ کا دروازہ ہے۔
مولی تعالیٰ نے ماں باپ کی خدمت کو لازم کردیا کہ جو فلاح چاہے والدین کی خدمت کرے ۔
جس معاشرے میں ماں باپ کی قدر نہ ہو اس پیروی میں سواے نقصان کے کچھ نہیں۔ کامیابی اور عزت مغرب کی تقلید میں نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات میں ہے ۔ اس دن سے ڈرو کے جس کا ذکر اوپر کے واقعہ میں ہے۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ ہمارے بچوں کے پاس کتوں کے لئے وقت ہو لیکن والدین کے لیے نہ ہو۔ اپنے والدین کی عزت اور خدمت کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہیں وقت دے سکے ۔ کورٹ میں مقدمہ دائر کرنے کی نوبت نہ آ سکے ۔