’سعودی عرب کا ملک ایک ہی جماعت اور راستے پر چل رہا تھا کہ باہر سے کچھ جماعتیں آئیں، اس ایک جماعت اور ایک مذہب پر چلنے والے لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کا (سعودی شہریوں) اتحاد پارہ پارہ ہو جائے۔ ان معروف جماعتوں میں سے ایک تبلیغی جماعت بھی ہے جو اپنے آپ کو اس ملک (سعودی عرب) میں احباب کے نام سے پکارتے ہیں۔‘
’اس جماعت کی اصل ہند (برصغیر) میں ہے۔ جماعت تبلیغ پیغمبر اسلام کے کئی طریقوں کے مخالف چلتے ہیں۔ یہ جماعت بغیر علم کے دعوت کے لیے نکلتی ہے۔ یہ اللہ اور پیغمبر اسلام کے طریقے کے برخلاف ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جس سے دہشت گرد گروپ بھی پیدا ہوئے۔ ان کے ساتھ چلنے والے لوگ علم کی کمی کا شکار ہو کر تکفیری جماعتوں کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔‘
’اسی وجہ سے دہشت گرد جماعتوں کے لوگ جو کہ یہاں (سعودی عرب) کی جیلوں میں بند ہیں، ان کے بارے میں تفتیش کی گئی تو پتا چلا کہ یہ پہلے تبلیغی جماعت میں شامل تھے۔ اس ملک (سعودی عرب) کی فتویٰ دینے والی کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ اس جماعت (تبلیغی جماعت یا احباب) کے ساتھ شریک ہونا جائز نہیں ہے۔‘
’ہم پر واجب ہے کہ ہم ان کی دعوت کو قبول نہ کریں۔ یہ جماعت اور اس جیسی جماعتیں ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں گی۔ یہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔‘
یہ خطبہ سعودی عرب کی ایک بڑی جامع مسجد میں جمعے کے روز دیا گیا تھا۔ اس سے ملتے جلتے خطبے تقریباً تمام ہی جامع مساجد میں سعودی عرب کی وزارتِ مذہبی اُمور کی ہدایت پر دیے گئے ہیں۔
سعودی عرب کے وزیرِ مذہبی اُمور ڈاکٹر شیخ عبداللطیف بن عبدالعزیز آل شیخ نے اپنی ایک ٹویٹ میں بھی سعودی عرب میں جمعے کے خطبے میں تبلیغی جماعت کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی اپیل کی تھی۔
حیرت انگیز طور پر برصغیر کے تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں نے کسی بھی قسم کا بیان دینے سے پرہیز کیا ہےتاہم دارالعلوم دیوبند انڈیا نے اس پر اپنا مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے تبلیغی جماعت پر عائد کیے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
تبلیغی جماعت پر پابندی کا معاملہ کیا ہے؟
سعودی وزارتِ مذہبی اُمور میں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے ایک اہلکار کے مطابق تبلیغی جماعت پر پابندی کے ماجرے کو سمجھنے سے پہلے سعودی عرب میں جاری نظام کو سمجھنا ہو گا جو مختصراً یہ ہے کہ سعودی عرب میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو قانون کے تحت کام کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔اب اگر سعودی عرب میں داخلے اور کام کی اجازت یعنی ویزا اور اقامہ کی شرائط کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سعودی عرب میں دعوت و تبلیغ کے لیے داخلے کی اجازت نہیں ہے یعنی اس طرح کا کوئی ویزہ یا اقامہ موجود ہی نہیں ہے۔
اسی طرح اگر کسی عالم یا مترجم کو بنگلہ دیش، افغانستان، افریقہ، انڈیا یا پاکستان وغیرہ سے اقامہ یا ویزا دیا جاتا ہے تو وہ مترجم اور عالم ہی رہے گا۔ اس کو کسی کا علاج معالجہ یا دم درود کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر وہ اپنے اقامے یا ویزا میں دیے گئے کسی بھی کام سے تجاوز یا اس سے ہٹ کر کچھ کرے گا تو یہ قانونی طور پر جرم ہے۔
تبلیغی جماعت کا آغاز انڈیا سے ہوا تھا۔ ساری دنیا میں اس کو تبلیغی جماعت ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے مگر اس کو سعودی عرب میں احباب کے نام سے پکارا جاتا ہے کیونکہ سعودی عرب میں تبلیغی جماعت کے نام سے کام کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔
احباب کا نام بھی غالباً حکام کی نظر سے بچنے کے لیے استعمال کیا گیا کیونکہ یہ عام بول چال میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
دنیا بھر سے تبلیغی جماعت کے لوگ سعودی عرب میں داخلے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ عموماً ان کی وہ جماعتیں جو کہ ایک ایک سال کے لیے مختلف ممالک کے دوروں پر ہوتی ہیں، وہ عمرہ، حج یا سیاحت کا ویزہ حاصل کرتے ہیں۔
اس ویزے کی بنیاد پر وہ دو یا تین ماہ یا چند دن سعودی عرب کے مختلف شہریوں میں قیام کر کے تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور ان لوگوں کو خلیجی ریاستوں کے کچھ لوگوں کا بھی تعاون حاصل ہوتا ہے۔
ان اطلاعات پر چند سال قبل سعودی محکمہ داخلہ اور وزارت مذہبی امور نے سخت کارروائی کی تھی اور ان کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال کیا گیا اس کے نتیجے میں کئی لوگوں کو تبلیغ کا کام کرتے ہوئے پکڑا گیا اور ان کو سعودی عرب کے قوانین کے مطابق سزائیں دی گئی تھیں۔
ان تمام اُمور پر بات کرنے کے لیے تبلیغی جماعت کے لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا گیا مگر انھوں نے اس سمیت ہر موضوع پر بات کرنے سے انکار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات موجود ہیں جن میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے بظاہر تبلیغی جماعت کے ساتھ مصروف عمل لوگوں کو تبلیغ کے دوران گرفتار کیا تھا، جن میں کچھ سعودی شہری اور دیگر بھی شامل تھے جس کے بعد سے سعودی شہریوں کو تبلیغ کے نام پر کچھ عرصے سے ویزے جاری نہیں کیے جا رہے ہیں اور اس کی وجہ سعودی حکومت بھی ہو سکتی ہے۔
سبوخ سید کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ سعودی عرب کے نظام کے تحت اسلام کی تشریح، اسلامی قوانین، دعوت و تبلیغ اور اسلامی معاملات میں فتویٰ وغیرہ دینے جیسے کاموں کی کسی بھی جماعت کو اجازت نہیں ہے بلکہ یہ سارے کام حکومت اپنی مختلف وزارتوں کی وساطت سے خود کرتی ہے۔ اس صورتحال میں بھی وہاں پر تبلیغی جماعت یا احباب کے کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔