تبلیغی جماعت پرسعودی عرب میں پابندی عائد

 

احباب (تبلیغی جماعت) پرسعودی عرب میں پابندی
از قلم:محمد افروز رضا مصباحی

بھارت میں کلمہ و نماز کے نام پر تبلیغی جماعت 1926ء میں قائم کی گئی۔ بنیادی طور پر یہ جماعت دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ اس تحریک کے فروغ کے لیے کلمہ و نماز کو بنایا گیا۔سادہ طبیعت کے لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کے لئے بانی تحریک نے چند اصطلاحات وضع کی ۔جماعت، گشت، تعلیم جیسے عام الفاظ کو مخصوص معنی میں استعمال کیا ۔اس جماعت کے امیر کو "حضرت جی" کہا جاتا۔اندرونی اختلاف کے بعد ذمہ دار کا لفظ استعمال کرنے لگے ۔بانی تحریک کی مرتب کردہ کتاب "فضائل اعمال "ہر کتاب پر تقدیم حاصل ہے حتی کہ بعض تبلیغیوں کے نزدیک کتاب ہدایت قرآن سے بڑھ کر درجہ حاصل ہے ۔
یہ جماعت "گشت" کے نام گاؤں گاؤں شہر شہر نگر نگر ڈگر ڈگر جاکر جماعت کا پرچار کیا، ان کے عقائد اہل سنت جماعت سے متصادم تھے اس لیے کلمہ و نماز کے نام پر عقائد اہلسنت پر شب خون مارا ۔کئی علاقوں سے دربدر بھی کیے گئے ۔علمائے اہلسنت نے ان کے عقائد و نظریات پر کتابیں تصنیف فرمائیں ۔علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی کتاب"تبلیغی جماعت "اس جماعت کی حقیقت کو طشت ازبام کرنے میں اہم رول ادا کیا۔
یہ جماعت اپنے بھولے پن اور کلمہ و نماز کے نام پر پھیل گئی ۔دہلی کی بنگلہ والی مسہے۔
ان کا مرکز ہے ۔رائے ونڈ بھی ان کی مرکزی جگہوں میں سے ایک ہے ۔کلمہ و نماز کے نام پر اٹھنے والی تحریک مسلمانوں کو ہی داخل اسلام کرنے لگی ۔ غیر مسلموں سے پہلو تہی کرتے ہوئے ان علاقوں کو ٹارگٹ کیا جہاں اولیاء کرام، بزرگان دین، صلحاء امت کے مزارات سے فیوض و برکات حاصل کرنا لوگ مستحب جانتے تھے ۔جاہلانہ رسومات کی منظر کشی کرکے لوگوں کو دین سے خارج پھر اپنے امیر کے ہاتھ مسلمان کرتے تھے ۔حد تو یہ ہے کہ "جماعت"میں نکلنے کو حج سے افضل گرداننے لگے "گشت"پر نکلنا دین کا سب سے اہم درجہ سمجھا جانے لگا ۔
دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء نے اسے سپورٹ کیا ۔علی میاں ندوی اس تحریک کے عرب ممالک میں متعارف کرانے میں بڑی محنتیں کی ۔جس ملک میں لوگوں کو جیسا پایا وہاں اسی رنگ میں پیش کیا۔سعودی عرب میں "توحید خالص " کے نظریے کے ساتھ، ترکی جیسے ملکوں میں "اہل تصوف" سے منسوب کرکے دوہرے چہرے کے ساتھ رنگ جمایا ۔جو چیز بھارت میں ان کے نزدیک حرام خالص ہوتا، وہی عمل ترکی جیسے ملکوں میں جائز و مستحسن ہوجاتا ۔اس مکر وفریب نے اہل علم کو بھی مخصمے میں ڈال دیا ۔عرب ممالک میں تبلیغی جماعت’’ احباب‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اسی نام سے پہچانے جاتے ہیں۔
تازہ واقعہ سعودی میں پیش آیا ۔وہاں کی حکومت نے تبلیغی جماعت پر بین لگاتے ہوئے جمعہ کے خطبے میں عوام کو اس سے متنبہ کرنے کو کہا گیا ۔ایک خطبہ کا ترجمہ بی بی سی اردو نے اپنے پیج پر شیئر کیا ہے ترجمہ دیکھیے :

’سعودی عرب کا ملک ایک ہی جماعت اور راستے پر چل رہا تھا کہ باہر سے کچھ جماعتیں آئیں، اس ایک جماعت اور ایک مذہب پر چلنے والے لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کا (سعودی شہریوں) اتحاد پارہ پارہ ہو جائے۔ ان معروف جماعتوں میں سے ایک تبلیغی جماعت بھی ہے جو اپنے آپ کو اس ملک (سعودی عرب) میں احباب کے نام سے پکارتے ہیں۔‘

’اس جماعت کی اصل ہند (برصغیر) میں ہے۔ جماعت تبلیغ پیغمبر اسلام کے کئی طریقوں کے مخالف چلتے ہیں۔ یہ جماعت بغیر علم کے دعوت کے لیے نکلتی ہے۔ یہ اللہ اور پیغمبر اسلام کے طریقے کے برخلاف ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جس سے دہشت گرد گروپ بھی پیدا ہوئے۔ ان کے ساتھ چلنے والے لوگ علم کی کمی کا شکار ہو کر تکفیری جماعتوں کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔‘

’اسی وجہ سے دہشت گرد جماعتوں کے لوگ جو کہ یہاں (سعودی عرب) کی جیلوں میں بند ہیں، ان کے بارے میں تفتیش کی گئی تو پتا چلا کہ یہ پہلے تبلیغی جماعت میں شامل تھے۔ اس ملک (سعودی عرب) کی فتویٰ دینے والی کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ اس جماعت (تبلیغی جماعت یا احباب) کے ساتھ شریک ہونا جائز نہیں ہے۔‘

’ہم پر واجب ہے کہ ہم ان کی دعوت کو قبول نہ کریں۔ یہ جماعت اور اس جیسی جماعتیں ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں گی۔ یہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔‘

یہ خطبہ سعودی عرب کی ایک بڑی جامع مسجد میں جمعے کے روز دیا گیا تھا۔ اس سے ملتے جلتے خطبے تقریباً تمام ہی جامع مساجد میں سعودی عرب کی وزارتِ مذہبی اُمور کی ہدایت پر دیے گئے ہیں۔

سعودی عرب کے وزیرِ مذہبی اُمور ڈاکٹر شیخ عبداللطیف بن عبدالعزیز آل شیخ نے اپنی ایک ٹویٹ میں بھی سعودی عرب میں جمعے کے خطبے میں تبلیغی جماعت کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی اپیل کی تھی۔

حیرت انگیز طور پر برصغیر کے تبلیغی جماعت  سے وابستہ لوگوں نے کسی بھی قسم کا بیان دینے سے پرہیز کیا ہےتاہم دارالعلوم دیوبند انڈیا نے اس پر اپنا مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے تبلیغی جماعت پر عائد کیے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

تبلیغی جماعت پر پابندی کا معاملہ کیا ہے؟

سعودی وزارتِ مذہبی اُمور میں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے ایک اہلکار کے مطابق تبلیغی جماعت پر پابندی کے ماجرے کو سمجھنے سے پہلے سعودی عرب میں جاری نظام کو سمجھنا ہو گا جو مختصراً یہ ہے کہ سعودی عرب میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو قانون کے تحت کام کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔اب اگر سعودی عرب میں داخلے اور کام کی اجازت یعنی ویزا اور اقامہ کی شرائط کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سعودی عرب میں دعوت و تبلیغ کے لیے داخلے کی اجازت نہیں ہے یعنی اس طرح کا کوئی ویزہ یا اقامہ موجود ہی نہیں ہے۔

اسی طرح اگر کسی عالم یا مترجم کو بنگلہ دیش، افغانستان، افریقہ، انڈیا یا پاکستان وغیرہ سے اقامہ یا ویزا دیا جاتا ہے تو وہ مترجم اور عالم ہی رہے گا۔ اس کو کسی کا علاج معالجہ یا دم درود کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر وہ اپنے اقامے یا ویزا میں دیے گئے کسی بھی کام سے تجاوز یا اس سے ہٹ کر کچھ کرے گا تو یہ قانونی طور پر جرم ہے۔

تبلیغی جماعت کا آغاز انڈیا سے ہوا تھا۔ ساری دنیا میں اس کو تبلیغی جماعت ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے مگر اس کو سعودی عرب میں احباب کے نام سے پکارا جاتا ہے کیونکہ سعودی عرب میں تبلیغی جماعت کے نام سے کام کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔

احباب کا نام بھی غالباً حکام کی نظر سے بچنے کے لیے استعمال کیا گیا کیونکہ یہ عام بول چال میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔

دنیا بھر سے تبلیغی جماعت کے لوگ سعودی عرب میں داخلے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ عموماً ان کی وہ جماعتیں جو کہ ایک ایک سال کے لیے مختلف ممالک کے دوروں پر ہوتی ہیں، وہ عمرہ، حج یا سیاحت کا ویزہ حاصل کرتے ہیں۔

اس ویزے کی بنیاد پر وہ دو یا تین ماہ یا چند دن سعودی عرب کے مختلف شہریوں میں قیام کر کے تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور ان لوگوں کو خلیجی ریاستوں کے کچھ لوگوں کا بھی تعاون حاصل ہوتا ہے۔

ان اطلاعات پر چند سال قبل سعودی محکمہ داخلہ اور وزارت مذہبی امور نے سخت کارروائی کی تھی اور ان کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال کیا گیا اس کے نتیجے میں کئی لوگوں کو تبلیغ کا کام کرتے ہوئے پکڑا گیا اور ان کو سعودی عرب کے قوانین کے مطابق سزائیں دی گئی تھیں۔

ان تمام اُمور پر بات کرنے کے لیے تبلیغی جماعت کے لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا گیا مگر انھوں نے اس سمیت ہر موضوع پر بات کرنے سے انکار کیا ہے۔

مذہبی جماعتوں پر کئی برسوں سے رپورٹنگ کرنے والے کراچی سے صحافی عظمت خان کا کہنا تھا تبلیغی جماعت کے چاہے اپنے ارکان قتل کر دیے جائیں یا ان کے لوگوں پر کسی واقعے میں ملوث ہونے کا الزام ہو، جماعت اس پر بات نہیں کرتی اور صرف اپنا کام جاری رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اپنے ساتھ شامل ہونے والوں میں سے کسی سے بھی نہیں پوچھتے کہ وہ کیوں ان کی صف میں شامل ہوئے ہیں، مقاصد کیا ہیں، بس ان کے ساتھ جو بھی آ جائے یہ اس کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ بظاہر اسلام کے معاملات کی بات کرتے ہیں جس میں لوگوں کو کلمہ، نماز، عربی میں دعائیں اور قران سکھانا شامل ہوتا ہے۔

تبلیغی جماعت کے خلاف سعودی عرب کا سخت ردِ عمل کیوں؟
بی بی سی کے نامہ نگار نے سعودی عرب کے موجودہ سخت رد عمل کے بارے ميں صحافی سبوخ سید کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
مذہبی جماعتوں پر طویل عرصے سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی سبوخ سید کے مطابق ایسی اطلاعات آتی رہی ہیں کہ سعودی عرب میں دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں القاعدہ اور الاخوان المسلمون وغیرہ کے لوگوں کے علاوہ فرقہ واریت میں ملوث تنظیموں کے لوگوں نے بھی کسی نہ کسی طرح تبلیغی جماعت کی صفوں میں شامل ہو کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات موجود ہیں جن میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے بظاہر تبلیغی جماعت کے ساتھ مصروف عمل لوگوں کو تبلیغ کے دوران گرفتار کیا تھا، جن میں کچھ سعودی شہری اور دیگر بھی شامل تھے جس کے بعد سے سعودی شہریوں کو تبلیغ کے نام پر کچھ عرصے سے ویزے جاری نہیں کیے جا رہے ہیں اور اس کی وجہ سعودی حکومت بھی ہو سکتی ہے۔

سبوخ سید کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ سعودی عرب کے نظام کے تحت اسلام کی تشریح، اسلامی قوانین، دعوت و تبلیغ اور اسلامی معاملات میں فتویٰ وغیرہ دینے جیسے کاموں کی کسی بھی جماعت کو اجازت نہیں ہے بلکہ یہ سارے کام حکومت اپنی مختلف وزارتوں کی وساطت سے خود کرتی ہے۔ اس صورتحال میں بھی وہاں پر تبلیغی جماعت یا احباب کے کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی حکام کی جانب سے حالیہ ٹویٹ اور جمعے کے خطبات میں تبلیغی جماعت کے حوالے سے ایک بار پھر بات کرنے کا مطلب تبلیغی جماعت یا احباب کے لوگوں کو وارننگ جاری کرنا ہو سکتا ہے جس میں ممکنہ طور پر اگر کوئی سرگرمی سعودی حکومت کے نوٹس میں آئی تو اس پر شدید کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔
تبلیغی جماعت پر یہ پابندی لگنا ہی تھا جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر کب تک کسی کو حقیقت سے نا آشنا رکھا جاسکتا ہے ۔سعودی میں توحید کااور ترکی جیسے ملکوں میں تصوف کو مکھوٹا کب تک سچائی کو چھپا سکتا ہے ۔آگے دیکھیے کلمہ و نماز کی آڑ میں دوہرے چہرے والی اس جماعت کے ساتھ دیگر ممالک میں کیسی پابندی لگائی جاتی ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی