ہمارے قائدمحمد عربی ﷺ ہیں

 


ہمارے قائدمحمد عربی ﷺ ہیں

از قلم۔۔۔۔ محمد افروز رضا مصباحی 7795184574


" وہ قوم کبھی کسی کے آگے نہیں جھک سکتی جس کے قائد محمد پاک ﷺ ہوں "۔
مذکورہ جملہ عربی جملے کا ترجمہ ہے عربی جملہ یہ ہے لن ترکع امۃ قائدھا محمدﷺ۔۔۔۔یہ عبارت القدس کی دیوار پر لکھی ہوئی ہے، اسی عبارت سے فلسطینی ایمانی حرارت، غیرت قومی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرتے ہیں ۔یہ جملہ ان کے لئے کسی ٹانک سے کم نہیں ۔ان کے کمزور بازوؤں، پست حوصلوں، ورم زدہ قدموں، اجڑتے علاقے، بکھرتی عمارتیں، جلتے مکانات، زخمیوں کی چیخ و پکار، کھنڈرات میں اپنوں کی دبی لاشیں، مساجد میں ہونے والے حملے، عرب حکمرانوں کی مصالحانہ خاموشی اور دنیا کی منافقانہ روش اختیار کرنے پر یہ عبارت انہیں اپنے مشن کو جاری رکھنے پر مہمیز کرتی ہے۔
دلائل میں ننھے ننھے بچوں کا اسرئیلی فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال بات کرنا، ان سے مباحثہ کرنا، ہتھیار کی معدومی کی صورت میں اینٹ پتھر برسانا، ان پتھروں کے سامنے اسرائیلی فوج کا بے دم ہوناوغیرہ یہ ساری تصاویر سوشل میڈیا ہر دستیاب ہیں جس کا جی چاہے دیکھ سکتا ہے ۔القدس سے ان کی محبت اور اس بازیابی کا جذبہ اتنا شدید ہے کہ چھوٹے بچے بچیوں کو فوج گرفتار کرتی ہے، ہاتھ پیچھے کرکے ہتھکڑی لگاتی ہے ۔زمینوں اور سنگریزوں پر گھسیٹتی ہے اعضاء جسم زخم خوردہ ہے لیکن چشم فلک اس وقت حیرت زدہ رہ جاتا ہے جب گرفتار شدگان کی آنکھوں میں خوف وہراس اور چہرے پردرد و کرب کے بجائے لبوں پر مسکراہٹ رقصاں ہوتی ہیں ۔بچوں کی شہادت پر مائیں بجائے سینہ کوبی اور گریہ وزاری کے ہنستی ہوئی  نظر آتی ہیں ۔انہیں اپنے بچوں پر فخر ہوتا ہے میرا بیٹا بیٹی شہادت پائی ہے ۔ایک ماں کو فخر ہوتا ہے کہ میں " ایک شہید کہ ماں ہوں ۔
اسی سرزمین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ : یہ شیروں کی زمین ہے جس کو فلسطین کہتے ہیں ۔یہ بنجر ہوکر بھی بزدل پیدا نہیں کرتی۔
یہاں کی مائیں بزدل اور ڈرپوک بچے نہیں بلکہ مجاہداور جاں باز بچے پیدا کرتی ہے ۔
اسی سرزمین میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ پیدائش سے قبل مائیں اولاد کا بوجھ اپنی کوکھ میں اٹھا تی ہے ۔بچہ جب القدس کی بازیابی کی جد وجہد میں شہید ہوتا ہے تو ماں خود اولاد کو کاندھا دیتی ہے ۔صبر واستقلال، عزم وحوصلہ، جوش و ولولہ، جہد مسلسل، عمل پیہم ، چھوٹے چھوٹے بچے بچیوں کی گرفتاری اورخاک وخون میں تڑپتی لاشوں کے انبار یہاں ہمیشہ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔
یہ عبارت فلسطینیوں کے لئے حوصلوں کو بلند رکھنے کا ایک عظیم ذریعہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنے مشن کو دین کے حقیقی معاملے سے جوڑ رکھا ہے، بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔مسلمانوں کا اس پر حق ہے اس کی بازیابی کی کوشش کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔یہ اور بات کہ فلسطین سے باہر رہنے والے عام مسلمانوں نے خود کو دعاوں تک محدود رکھا ہے۔57/ ممالک کا حکمراں طبقہ مذمت، قرارداد منظور کرنے، اعلامیہ جاری کرنے تک محدود کر رکھا ہے۔عملی اقدامات سے ہر کوئی گریزاں ہے بلکہ اگر کوئی مسلم حکمراں عملی اقدامات کی کوشش کرے تو غیر بعد میں اپنے پہلے راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہے ۔یہی وجہ ہے 73 سالوں سے مسئلہ فلسطین لاینحل مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ اسرائیلی حکومت ظلم و جبر کے پہاڑ توڑتی ہے ۔پورے پورے علاقے کو نیست ونابود کردیتی ہے، غزہ کا علاقہ جس کی آبادی ڈھائی لاکھ کے قریب ہے دنیا کا سب سے بڑا جیل بنا ہوا ہے ۔حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے، دنیا میں امن کے ٹھیکے دار یا تو آنکھیں بند کرلیتے ہیں یا پھر کاغذی بیان جاری کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ۔
غیروں سے گِلا کیسا؟  جب اپنے ہی فلسطینیوں کو خاک وخون میں تڑپتا دیکھ کر سوائے مذمتی بیان کے نہ کرسکے تو دوسری اقوام سے بھلائی کی امید کار عبث ہی ہوگا ۔وہ لوگ جتنا کردے یا کہہ دے اتنا ہی بس ہے ۔بلکہ بعض امن پسند لوگ کھل کر مخالفت کرتے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اپنا احتجاج درج کرواتے ہیں ۔
تازہ واقعہ رمضان المبارک میں جمعہ کے دن پیش آیا جب اسرائیلی فوج دندناتے ہوئے مسجد القدس میں گھس گئی نماز پڑھ رہے فلسطینیوں پرربر کی گولیاں برسائی گئیں، بموں کا استعمال ہوا، آنسو گیس چھوڑے گئے جس سے ہر طرف خون ہی خون نظر آنے لگے، فلسطینی مزاحمت کاروں نے فوج کا مقابلہ پتھروں سے کیا ۔فوج کو مسجد سے باہر نکلنے تک بھوکے پیاسے اندر ہی رہے ۔
اسرائیلی فوجیوں کی کارروائی کی تصاویر جب عام ہوئی تو ہر طرف سے مذمتی بیان شروع ہوگئے لیکن عملی اقدام پر کسی مسلم حکمران نے پیش قدمی نہیں کی صرف ترکی اور ایران کھلے طور پر فلسطینی کے پشت پناہ رہے ۔مسلم ممالک کی مشترکہ تنظیم او آئی سی کی ہنگامی میٹنگ بلائی گئی لیکن وہی دھاک کے تین پات، مذمتی بیان جاری کرکے سبھی اپنی ذمہ داریوں سے بری ہوگئے۔فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج کے سامنے تر نوالے کی شکل میں اکیلے چھوڑ دیا ۔فلسطینی بھی 74 سالوں سے دنیا کے دوہرے رویہ کو دیکھتے ہوئے اپنی جنگ آپ لڑ رہے ہیں ۔یہ سوچ کر سینہ سپر ہیں کہ قبلہ اول مسلمانوں کے حوالے کیا جائے چاہے اس راہ میں سبھی ختم ہوجائیں لیکن دم اخیر تک جان کی بازی لگاتے رہیں گے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی