ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے

 ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے

محمد افروز رضا مصباحی


رمضان المبارک کے اٹھائیس دن ہوچکے ہیں، انیسویں شب ہے ۔انتیس کے اعتبار سے چہار شنبہ کو ورنہ جمعرات کو چاند نظر آجائے گا ۔رمضان جانے کا غم ان لوگوں کو ہوگا جو صحیح معنوں میں رمضان المبارک کا احترام کرتے ہوئے اس کے روزے رکھے ہوں گے ۔ڈھیروں نیک عمل کے باوجود احساس ہوگا ہم کچھ نہ کرسکے ۔اللہ پاک ایسوں کے صدقے میں ہی ناقص روزہ داروں کی عبادات کو قبول فرمالیتا ہے۔یا پھر غم کاروباری کو ہوگا کہ چند روز مل جاتا تو کاروبار اور کرلیتے ۔

چاند نظر آئے گا رمضان رخصت ہوگا شوال کی جلوہ گری ہوگی ۔کہیں شور ہوگا چاند نظر آگیا کل نماز عید ہوگی ۔ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنے کا سلسلہ ہوگا ۔صبح میں نئے لباس زیب تن کیے عطر میں معطر عید گاہ جانے کاارادہ ہوگا یا پھر مسجد تک جانے کی خواہش ہوگی ۔لیکن ۔۔۔۔لیکن ۔۔۔عید گاہ اور مسجد دوگانہ ادا کرنے نہ جاسکیں گے ۔حسرت ِ دل اندر ہی رہ جائے گی باہر کرونا اپنی پوری شرپسندی کے ساتھ گھر سے نکلنے والے پر حملہ کرنے کو تیار، پولیس لاٹھی لئے گھر سے نکلنے والوں کو کھدیڑ رہی ہوگی ۔گاڑیاں چھین کر سیز کر رہی ہوگی ۔پہرہ ہوگا عید گاہ جانے والی راہوں پر ۔ دل مسوس کر رہ جائیں گے کہ سالانہ عید کی دو رکعت نماز بھی نہ ادا کرسکتے ۔ہائے کیا وقت ہے!  کبھی مسجد سے بلاوا تھا نہیں جاسکے آج جانے کو تیار ہیں لیکن پہرہ ہے ۔بیماری کا۔۔۔۔۔۔۔ پولیس کا۔۔۔۔۔۔۔ حکومت کی گائید لائن کا۔


چاند شام میں اپنی ایک جھلک دکھلا کر روپوش ہو جا ئے

گا۔لوگوں کی خوشی اور ایک دوسرے کو عید کی مبارکبادی دیتےدیکھ کر اسے ہنسی چھوٹ رہی گی ۔کہہ رہا ہوگا : 

اے زمین کے مکینو!  کس خوشی میں ہو؟  ہم اپنے رب حکم کے تابعدار ہیں ۔جو کام ہمارا ہے اس کام کو کرنے میں سرمو انحراف نہیں کرتے۔میرا آج نکلنا قدرت کے حکم کی بنیاد پر ہے۔ پھر بھی گرہن سے دوچار ہوتا ہوں ۔خدا کے جلال کے آگے نصف نصف ہوجاتا ہوں ۔

اب تم بتاؤ تم نے اپنے رب کے حکم پر کتنا عمل کیا؟  اپنے فریضے کی ادائیگی میں کہاں تک مخلص تھے۔حکم رب پر کہاں تک چلے؟  ذرا بتاؤ اپنے احوال؟  

اے ارض مقدس کی پاسداری سے بے خبر لوگو کہو کیا تم پر رمضان جیسے مقدس مہینے میں کرونا کی مار نہیں پڑ رہی ہے؟  مسجد میں گھس کر تم پر گولیاں نہیں چلائی جارہی ہے ۔ربر کی گولیوں، بموں اور آنسو گیسوں سے تم پر حملے نہیں ہورہے ہیں ۔لاشیں ندیوں، تالابوں میں نہیں بہہ رہی ہے؟  ہسپتالوں میں تمہارے مریض ایڑیاں نہیں رگڑ رہے ہیں ۔پھر بھی تمہیں ہوش نہیں، نوالہ تر بنے ہو لیکن  احساس زیاں نہیں ۔لیکن پھر بھی عید کی خوشی ہے، نئے کپڑے، زنانہ دوپٹے، مشرکین کی کمپنیوں کے بنے جوتے پسند ہیں جو کبھی اللہ کا نام کبھی رسول کا نام کبھی قرآنی الفاظ کو جوتوں پر چھاپ تمہارے منہ پر طمانچہ مارتے ہیں لیکن تمہیں ہوش نہیں ۔ برانڈز کے چکر میں اپنے دین پر حملہ کرنے والوں کے معاون بن جاتے ہو، خون شہیداں نظر نہیں آتے  ، فلسطین کے بچوں کے کٹے پھٹے جسم نظر نہیں آتے، ان کی گرفتاری تمہیں آبدیدہ نہیں کرتی، مسجد میں ہر سو پھیلے ہوئے خون کی سیاہی تمہیں مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کو آمادہ نہیں کرتی، جدید ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی فوج کا مقابلہ کرنے والے نہتے فلسطینی نوجوان اور خواتین پر نظر نہیں پڑتی؟  

اگر ان کے دکھ درد کا احساس نہیں ہے تو پھر قوم مسلم میں اپنا شمار کس لئے کرتے ہو؟  ان کے بکھرتے اعضاء، دھماکوں سے گرتی عمارتیں، گولیوں کی بوچھار میں چھلنی جسم وجاں نظر نہیں آتے تو کیسے کہتے ہو مسلمان ایک جسم کی مانند ہے ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو دوسرے اعضاء ان کا درد محسو کرکے بے چین وبے قرار ہوجاتے ہیں ۔

عید ہماری بھی ہوگی، نئے لباس، نئے جبے قبے، عمامے ٹوپی کے ساتھ پرسکون ماحول میں پھر شیرخرموں کے ساتھ انصاف ہوگا ۔گھروں میں جاکر سوجائیں گے کہ سب ٹھیک ہے ۔

الاقصی کے محافظین بھی نماز عید ادا کریں گے، بندوق کی نالیوں کے سائے میں، بم دھماکوں کی گونج میں، آنس گیس کی دھواں میں، زور زبردستی کرنے والے اسرائیلی فوج کے ساتھ ہاتھا پائی کرتے ہوئے، خون شہیداں ہر طرف بکھری ہوئی ہے، لاشیں اٹھاتے ہوئے نعرہ تکبیر کے ساتھ ۔

ہاں عید آئی ہے سب کے لئے یکساں خوشی کہاں لائی ہے ۔کوئی کرونا وبا میں اپنو ں کو کھو کر رورہا ہے کوئی حالات کا مارا ہے کوئی معیشت کا مارا ہے کوئی القدس کی حفاظت میں جان دے کر دنیا سے انصاف کا متقاضی ہے ۔دنیا کی عدالتیں، اقوام عالم کی نمائندگی کرنے والے ادارے ایک آنکھ بند کرکے ہتھیاروں کو مظلوم اور نہتے لوگوں کو ظالم و جابر قرار دینے میں مصروف اپنی بے حسی اور دوغلے پن کا ثبوت دے رہے ہیں ۔

عید کا چاند کس کے لئے خوشی لایا ہے؟  یہ تو ہماری ہنسی اڑاتا ہے ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی