استادکی عظمت اور معاشرے میں اس کا کردار

 استادکی عظمت اور معاشرے میں اس کا کردار

یوم اساتذہ کے موقع پر تعلیم اور اساتذہ کے حالات کا جائزہ لیتی ایک خاص تحریر

از قلم: محمد افروز رضا مصباحی

ماہ ستمبر کی 5/ تاریخ کو ہمارے ملک میں ”یوم اساتذہ“منایا جاتاہے۔اس تاریخ کو یوم اساتذہ منانے کی وجہ آزاد ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کی یوم پیدا ئش کی مناسبت سے منا یا جاتاہے۔ رادھا کرشنن جی کی جنم پیدائش 5 /ستمبر1888ہے۔ چونکہ وہ ایک کامیاب سیاست داں، ماہر و باکمال فلسفی بھی تھے۔ تعلیمی میدان کے ماہر شہ سوار اور صاحب قلم بھی تھے۔ آزادی کے بعدانہیں تحقیق و جستجو کے نتیجے میں بھارت رتن کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔عمر کے چالیس سال تعلیم وتعلم میں میں گزاری۔ کلکتہ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیں۔تعلیمی میدان سے ہی صدر جمہوریہ جیسے اہم منصب تک پہنچے۔تعلیمی میدان میں رہنے کی وجہ سے اساتذہ کے احوال سے اچھی طرح واقف تھے کہ یہ لوگ زندگی کے مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود صبر و استقلال کے ساتھ آنے والی نسلوں کی تعلیم وتربیت میں مشغول رہتے ہیں۔کم تنخواہ میں گزارہ کرتے ہوئے بھی اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔ صدر جمہوریہ بنے تو ان کی جنم پیدائش پر شاگردوں نے ان کا جنم دن منانا چاہا تو ”یوم اساتذہ“ منانے کا مشورہ دیاتاکہ اساتذہ کی عزت و تکریم اور سماج و معاشرے میں ان کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔حکومتی سطح پر ہر سال ان کے جنم پیدائش پر ”یوم اساتذہ“ منانے کا اہتمام کیا جانے لگا

صدر جمہوریہ کے میعاد پورے ہونے پر ان کے شاگردوں نے ایک گاڑی سجا کر لائے، اس گاڑی کو کھینچنے کے لیے بجائے گھوڑے جوتنے کے شاگردوں نے خود گاڑی کھینچ کر اسٹیشن پہنچایاتھا۔ 

شری رادھا کرشنن کے احوال پڑھ رہا تھا۔ ان کے تعلیم و تعلم کے ایام، شاگردوں سے محبت اور شاگردوں کا ان سے والہانہ پیار پڑھاتو رشک آیا۔ایسے ہزاروں لاکھوں استاد ہیں جو اپنی علمی صلاحیتوں کو شاگردوں میں منتقل کرنے میں اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، مستقبل کے قومی معماروں کو بہتر سے بہتر بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑتے۔استاد وہی ہے جو حق استادی ادا کرے اور اپنے پیشہ سے انصاف کرتے ہوئے اپنے شاگردوں ایک اچھا شہری بنائے،منزل سے آگے کی رہنمائی کرے۔

استاد کے ذریعے تنبیہی طور پر سزا دینا کوئی موجودہ زمانے کا رواج نہیں ہے یہ ہمیشہ سے چلتا آیاہے،تعلیم کی تئیں احساس دلانے کے لیے، اسباق کو یاد کرنے، ہوم ورک مکمل نہ کرنے، کلاس روم میں شور شرابایا ساتھیوں کے ساتھ بدمعاشی کرنے پر استاد سزا دیتاہے،جس سے بچے کو عادات و اخلاق کو سنوارنا مقصود ہوتا ہے۔

ً ابھی گزرے ماہ اگست میں مظفر نگر کے نیہا اسکول میں پیش آنے والے واقعے کی یاد نے رادھا کرشنن کی شاگردوں سے محبت اور شاگردوں کی ان سے محبت کو پس پردہ ڈھکیل دیا۔ ترپتا تیاگی نامی معذور عورت ایک کلاس کے مسلم بچے کو اس کے غیر مسلم ساتھیوں سے باری باری پٹوا رہی تھی ساتھ ہی مذہبی منافرت بھرے جملے بھی ادا کر رہی تھی۔ 

سوچنے لگا ایسے شاگرد کیا واقعی ایسی ٹیچر کا احترام دل میں رکھ پائے گا، جسے کلاس میں سرعام ساتھیوں سے پٹوایا گیا اور اس کے مذہب سے متعلق غلط کومنٹس کئے گئے؟ایک گھنٹے تک پٹنے والا شاگرد کیا اپنے دل میں استاد کے تئیں محبت کا جذبہ رکھ سکے گا؟

مظفر نگر کے نیہا اسکول میں پیش آمدہ واقعہ کے بعد کئی ایسے واقعات منظر عام پر آئے جہاں مسلم بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی،فقرے کسے گئے، پاکستان چلے جانے کو کہا گیا،وغیرہ۔ ان جیسے واقعات کے رونما ہونے کے بعد حکومت کیا اقدام کرتی ہے یہ بعد کی بات ہے، پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ایک استاد کی ذمہ داری کیا بنتی ہے، کلاس روم میں کس طرح تعلیم دینی چاہئے؟تقریباً ہرپرائیوٹ و سرکاری اسکول و کالج میں ہر مذہب کے بچے پڑھتے ہیں،والدین بچوں کا ایڈمیشن اچھی تعلیم،اچھا ادارہ دیکھ کر کراتے ہیں لیکن اگر استاد ہی تعلیم کے بجائے نفرت انگیز گفتگو کرنے لگے،دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے بچوں سے پٹوانے لگے،مذہب دیکھ کر حقارت آمیز رویہ اختیار کرے تو اس استاد کی کیا اہمیت رہے گی، اس کے شاگردوں کی ذہنی تربیت کیسی رہے گی سوچنے کا مقام ہے۔ 

ہر سماج و معاشرے میں استاد کو قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ لہو جلا کر شاگردوں کی تربیت کرنے والا استاد شاگرد کی نگاہ میں باوقار، معزز اور محترم ہوتا ہے۔ جس کے آگے سرجھکائے کھڑا ہوتا ہے۔ استاد اپنی عزت و قدر کو باقی رکھتے ہوئے شاگردوں کی تعلیم و تربیت کرے کوئی وجہ نہیں کے شاگرد اس پر جان نچھا ور نہ کرے۔ تعلیمی اداروں میں چار عناصر کی بہتر ترتیب سے ہی بہتر نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔ یہ چار عناصر استاد، طالب علم، والدین اور ادارہ کے منتظمین ہوتے ہیں۔ایک کامیاب استاد وہی ہے جو اپنے شاگرد، ان کے والدین اور اراکین انتظامیہ سے عمدہ تعلق رکھتے ہوئے اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرے۔ خام مال کو عمدہ طریقے سے تراش خراش کر ایک نئی شکل دے،استاد اور شاگرد کے درمیان تعلقات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔فی زمانہ اسی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔

دور جدید میں جہاں بہت سے مسائل پیدا ہوئے وہیں تعلیم و تعلم کا شعبہ بھی اصلاح کا متقاضی ہے۔ لیکن اصلاح سے پہلے یہ غور کرنا ضروری ہے کہ استاد و شاگرد کے رشتے میں بگاڑ کیوں پیدا ہوا ہے، گرہیں کہاں پڑگئی ہیں؟ الجھاؤ کو ختم کیسے کیا جائے؟

آج کے تعلیمی ماحول پر سیاسی،سماجی اور معاشی اثراندازی نے اسے اپنے محور سے پھیر دیا ہے۔ انیسویں صدی کے آواخر میں یورپ میں برپا ہونے والے صنعتی انقلاب نے ساری دنیا پر اثرڈالا۔ اس انقلاب کے بطن سے مادیت اور لادینیت کا وہ سیلاب آیا جس سے اخلاقی، و روحانی اقدار برباد ہوگئیں۔قدیم تہذیبوں کی بساط الٹ گئیں،سو چ و فکر کا زاویہ بدل گیاجس سے قدیم تعلیمی نظام بھی بدلا اور اسی کے ساتھ معلم و متعلم کا بھی رشتہ متاثر ہوا۔تعلیم و تعلم پہلے فریضہ تھا جہاں خلوص، محبت اور اپنائیت تھی،نسل نو کی تعلیم و تربیت کا احساس ذمہ دارانہ تھا،اب وہ کاروباری سطح پر آگیا۔آج کے دور میں طالب علم فیس دے کر سمجھتاہے میں کلاس روم میں بیٹھتا اور لکچرسنتاہوں، اس میں استاد کا احسان کہاں؟ استاد بھی اسی ماحول کا پیدا وار ہے،اسے فروغ علم سے زیادہ کسب معاش کی فکر ہے،پڑھانا ڈیوٹی ہے،اس ڈیوٹی کا تقاضا بس اتنا ہے کہ متعلقہ سبق پڑھا دیااور بس۔سوال کرنے پر دبانا،رعب جمانا،مذاق بنا دینا،شاگردوں کے ذہن میں منفی سوچ پیدا کرتی ہے۔ طالب علم کی خاموش زبان کہہ رہی ہوتی ہے’آپ نے اچھا نہیں کیا‘۔

تعلیم گاہوں پر سیاسی دباؤ اور مخصوص ذہنیت کے افراد کی مداخلت نے بھی خاصا نقصان پہنچایاہے۔ کلاس روم تعلیم و تعلم کی جگہ ہوتی ہے۔ جب کلاس روم ہی نفرت، عداوت اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی جگہ بن جائے تو ظاہر ہے بچے عداوت و نفرت کا سبق لے کر ہی نکلیں گے۔ انسانی سماج و معاشرہ کی تباہی و بربادی کا سبب بنیں گے۔

فی زمانہ لوگوں میں تعلیمی بیداری آئی تو سرکا ری و غیر سرکاری اسکول و کالج بھی کھولے گئے،پڑھانے کے لیے ٹیچرز بھی رکھے گئے۔پرکشش تنخواہیں بھی ملنے لگیں،بہت سے لوگ علم وفن کو پھیلانے اور ماہرین تیار کرنے کے لیے تعلیمی شعبہ کو اپنایا، بعض ایسے لوگ بھی داخل ہوئے جسے تعلیم و تعلم سے کوئی غرض نہیں نوکری چاہئے تھی آنگن واڑی، نرسری، پرائمری، ہائی اسکول اور کالج کی سطح پر جہاں نوکری کے لیے ڈگری تھی وہاں منتخب ہوگئے۔بعض تعلیمی قابلیت کے بجائے جوڑ توڑ کی سیاست، رشوت اور سورس کی وجہ سے بھی استاد بن کر اس پیشے کے تقدس کو پائمال کیا ہے۔ تعلیمی فکر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ”ایسا لگتاہے جسے کہیں نوکری نہیں ملتی، وہ ٹیچر بن جاتاہے“ ظاہر ہے جو شوق و ذوق اور دردمندی کے بغیر استاد بنے وہ بچوں کو کیا تعلیم دے گا؟اس کی قابلیت خواہ کچھ ہو، جس میدان سے دلچسپی نہ ہو،وہاں پہنچنے کے بعد خانہ پُری ہی کرسکتاہے۔ حال دنوں میں اسکولوں سے جتنی خبریں اخبار کی زینت بنی ہیں اس میں خاتون ٹیچر ہی الزام کے زد پر ہیں، عورتیں بچوں کے لیے حساس اور درد مند ہوتی ہیں،سکھانے پڑھانے کا جذبہ زیادہ ہوتاہے لیکن ان کی طرف سے ہی نفرت انگیز باتیں کہی جائیں تو اندازہ لگایاجاسکتاہے حالات کتنے ناگفتہ بہ ہوچکے ہیں۔

اساتذہ پر بچوں کو قوم و ملت کے لیے فائدہ منداور معیاری تربیت دینے کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر اساتذہ کا ذہن تعصب و نفر ت سے بھر ا ہو تو وہی شاگردوں میں منتقل کرکے ملک کی سا  لمیت کے لیے خطرہ پید ا کر یں گے۔ یہ ایسا خطرناک رجحان ہے جو کسی طرح ملک کے مفاد میں نہیں،وقت رہتے اس کی روک تھام کے لیے اقدام کرنا ضروری ہے ورنہ مستقبل میں اس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے جس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا ہوگا۔یوم اساتذہ پرصرف پروگرام کا انعقاد، کانفرنس اور تقریبات منعقد کرنا کافی نہیں بلکہ یوم احتساب بھی ہے۔ 


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی