رضا اکیڈمی ممبئی کی آواز پر لبیک کی صدا

 

حق کی آواز بلندکرنے والی تنظیم کے 12/ نومبر بند کا جائزہ لیتی تحریر 

از قلم: محمد افروز رضا مصباحی،گلبرگہ 

جمہوریت کی شان یہ ہے کہ اس میں ہر فرد کو اپنی بات کہنے کا حق ہے اوردائرہ میں رہ کر اپنی آواز بلند کرسکتاہے۔کسی فردیا کمیونٹی پر ظلم و زیادتی ہو،حقوق کی حق تلفی ہو،فرقہ پرست طاقتیں کمزوروں کو دبارہی تو جمہوریت اسے اس بات کی آزادی دیتی ہے کہ،حکومتی ذمہ داران کے پاس نمائندگی کرے،دشمن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔ پولیس محکمہ سے شکایت کرے،اگر یہاں بات نہ بنتی ہو کورٹ تک جاسکتاہے۔ بھارت دنیا میں سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا حق حاصل ہے۔یہاں کے دستور میں ہر طبقہ کے حقوق کی پاسداری کی گئی ہے۔ سرکاری اداروں کو غیر جانبدار ہوکر ہر مظلوم کو انصاف دلانے کا پابند کیا گیاہے۔جمہوریت میں آواز اٹھانے کے کئی طریقے ہیں۔ اپنی آواز حکومت کے ایوان تک پہنچانے کے لیے ہر وہ پُر امن طریقہ اختیار کیا جاسکتاہے جو مؤثر ثابت ہو۔جمہوریت میں پُر امن احتجاج و مظاہر ہ کو سیاسی و سماجی رہنماؤں نے بہتر گردانا ہے۔کسی خاص کمیونٹی، ذات برادری اوردبے کچے یا کمزور طبقہ پر کوئی زیادتی کرے تو حکومت وقت کا فریضہ بنتاہے کہ ظالم کو ظلم سے روکے،مظلوم کی اشک سوئی کرے۔   

رضا اکیڈمی اہل و سنت جماعت کی ایک دینی،مذہبی، ادبی، ملی،فلاحی اور رفاہی کام کرنے والی تنظیم ہے۔اس کا ہیڈ کوارٹر ممبئی میں ہے۔ اس کے بانی الحاج سعیدنوری ہیں۔ رضا اکیڈمی نے بیسویں صدی کے ساتویں دہائی سے دینی کتابوں کی نشر واشاعت سے اپنا سفر شروع کیا،اس کے علاوہ سماجی فلاح و بہبود کے لیے بھی متحرک و فعال رہی۔وقتا فوقتاً مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے موثر اقدام کرتی رہی ہے۔اسلام و مسلمان کے خلاف دنیا کے کسی حصے میں ظلم و زیادتی کی خبر ملی تو رضا اکیڈمی نے آواز اٹھا ئی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہاں کی حکومت پر دباؤ بنائے کہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکا جائے۔ 

بھارت آبادی کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پرہے یہاں روزانہ سیکڑوں واقعات پیش آتے ہیں۔ یونہی سماج دشمن عناصر سر ابھارتے رہتے ہیں۔ملک میں بی جے پی کی حکومت جب سے آئی ہے۔ مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنا گویا فیشن بن گیا۔فاشسٹ ذہنیت کے لوگ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ہوڑ میں مسلمانوں کو تر نوالہ سمجھ کر آئے دن سورش برپاکرتے رہتے ہیں،یا کوئی دہریہ اسلام و مسلمان کے خلاف بیہودگی اور بیمار ذہنیت کے پیش نظر اسلام، قرآن، نبی آخر الزماں ﷺ،امہات المومنین،شرعی قوانین کو نشانہ بناتاہے تو فتنہ پرور لوگ مقابل میں آکر مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہر انے لگتے ہیں۔رضااکیڈمی نے ایسے ہر موقع پر آواز اٹھائی،میمورنڈم دیے،بعض معاملات میں سپریم کورٹ تک گئی۔


گزشتہ مہینہ اکتوبر کے آخری عشرہ میں شمالی بھارت کے تری پورہ ریاست میں بنگلہ دیش کے ایک معاملے کو لے ہندوتوا کی مختلف تنظیموں نے بہانہ بنا کر جلوس نکالاجس میں مسلمانوں کے خلاف دل آزار نعرہ لگائے ساتھ ہی پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں بھی گستاخی کی۔پھر ایک ہفتہ تک تری پورہ کا مختلف علاقہ آگ کی شعلوں میں لپٹا رہا،شعلے بھڑکتے رہے، دھوؤں کا کثیف گولا بادل بنتا رہا۔مساجد نذر آتش ہوتے رہے، مذہبی کتابوں کی بے حرمتی ہوتی رہی۔ریاستی حکومت اور پولیس دیپارٹمنٹ بالکل خاموش رہا۔ایک ہفتہ کے بعد جب بھڑکتے شعلے بجھنے لگے،انصاف پسند سماجی و سیاسی اور میڈیا کے لوگوں نے علاقے کا دورہ کرکے واقعات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا تو پورے ملک و بیرون ملک میں ریاستی حکومت اور پولیس پر انگلیاں اٹھنے لگی، پولیس بجائے فسادیوں اور ظالموں کو گرفتار کرتی،واقعات کو روشنی میں لانے والوں کے خلاف ہی کارروائی کرتے ہوئے یو اے پی اے جیسے سخت قانون کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔

رضا اکیڈمی شروع سے تریپورہ فساد کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرتی رہی،مرکزی حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کے جان ومال کی حفاظت کی جائے، ریاستی حکومت اپنا فریضہ ادا کرنے میں ناکام رہی لہذا اسے برخاست کرکے صدر راج نافذ کیا جائے۔ لیکن ظالموں کو بجائے سزا دینے کے انصاف پسند وں پر لگام ڈالنے لگی جس کی وجہ سے رضا اکیڈمی نے 12 نومبر کو مہاراشٹر بند کا رضا کارانہ طور پر کال دیا۔ جو چاہے مہاراشٹر بند میں شامل ہوسکتاہے۔رضا اکیڈمی کی جانب سے بند کے اعلان پر دیگر سماجی و رفاہی تنظموں نے لبیک کہا اور بند کو کامیاب بنانے کے لیے خوب کوششیں کیں۔

12 بروز جمعہ کو بند کا اعلان رضا اکیڈمی، آل انڈیا سنی جمعیۃ علماء اور تحفظ ناموس رسالت بورڈ کی جاجن سے کیا گیا جوپوری طرح کامیاب رہا،لوگوں نے اپنی دکانیں اور کاروبار رکھیں۔پولیس کا پورے ممبئی میں سخت بندوبست دیکھا گیا۔مہاراشٹر کے تمام اضلاع میں رضا اکیڈمی کی شاخوں نے بھی بندکا اعلان کیا۔پونہ،اورنگ آباد،جالنہ، پربھنی، نانڈیڑ، اکولہ، ناسک، مالیگاؤں، بلڈانہ،امراوتی،تھانہ بھیونڈی،وسئی، پالگھر سمیت تعلقہ سطح پر بھی سارے علاقے نہایت پُر امن طریقہ سے بند رہے۔کرناٹک کے گلبرگہ میں بھی رضاکارانہ طور پر دکانیں بندرکھنے کی اپیل کی گئی تھی جس کے اثرات دیکھنے کو ملے۔ مہاراشٹرکے بعض علاقوں میں سماج دشمن عناصر کی مداخلت کی وجہ سے حالات کشیدہ ہوئے مالیگاؤں سے کشیدگی کی خبریں ملی،لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے داغے گئے۔ناندیڑ میں مظاہرین اور پولیس میں ٹکراؤ کی خبریں آئیں۔سب سے زیادہ امراوتی میں کشیدگی، توڑ پھوڑ ہوئے۔حالانکہ مسلمانوں نے ہر جگہ نہایت صبر و ضبط سے کام لیا۔رضا اکیڈمی نے ملک کے صدر جمہوریہ کو ایک میمورنڈم دیا جس میں مطالبہ کیا کہ تریپورہ میں وشو ہندو پریشد کی ریلی میں کھلے عام اشتعال انگیز نعرہ لگانے والے اور نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والوں کی اعلی سطحی تفتیش کروا کر نفرت کا ماحول کھڑا کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں۔ مساجد کو آگ لگانے والے قرآن مجید جلانے والے،ایک ہی فرقہ کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف زبردست ایکشن لیا جائے گا۔ حالیہ فساد میں مسلمانوں کی جائداد کے نقصانات کی بھرپائی کی جائے اور کو ان کو معقول معاوضہ دیاجائے،مساجد کو دوبارہ تعمیر کیاجائے۔ ریاستی حکومت اقلیتوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی اس لیے فوراً برخاست کیاجائے اور صدر راج لاگو کیا جائے۔

رضا اکیڈمی کے بانی الحاج سعید نوری نے بڑے مؤثر انداز میں میڈیا میں اپنی باتیں رکھی اور اپنے مطالبات پیش کیے۔قوم کی رہبری و رہنمائی وقت کا جبری تقاضہ ہے۔ موجودہ حکومت جس طرح مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے والی شخصیات پر ہلا بول رہی ہے اور ڈرانے دھمکانے کے علاوہ مختلف الزامات عائد کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل رہی ہے تاکہ اقلیتوں کے دلوں میں ڈر بیٹھ جائے اور کوئی حکومت کے غلط رویے پر صدائے احتجاج بلند نہ کرے۔ ایسے وقت میں جناب سعید نوری کا پوری طاقت سے آواز اٹھانا اور بند کا اعلان کرنا نہایت جرأت و بیباکی کا مظہر ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ دیگرقوم کی تنظیم و تحریک نے بلااختلاف رضا اکیڈمی کی کال پر لبیک کہتے ہوئے اپنی دکانیں بند رکھ کر یکجہتی اور رواداری کا ثبوت دیا جس سے فاشست ذہنیت کے لوگوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔مالیگاؤں، ناندیڑ اور امراوتی میں جس طرح سے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی صاف ظاہر ہوتاہے مظاہرین میں سماج دشمن بھی گھسے ہوئے تھے جو موقع پاکر اپنی غلیظ حرکتوں سے گریز نہیں کیا۔


یہ سطور قلم بند کر رہاہوں۔خدشہ کے مطابق امراوتی شہر میں مسلمانوں کے پُر امن ااحتجاج کے خلاف سنیچر کو ہندو تنظیموں کی جانب سے بند کا اعلان کیا گیاتھا لیکن اس بند کے دوران صبح میں تشدد بھڑک اٹھا۔پتھراؤ اور دکانیں نذر آتش گئیں،پولیس نے لاٹھی چارج کیے اس کے بعد چار دنوں کے لیے دفعہ ایک چوالیس لگادیے۔ افواہوں کو روکنے کے لیے انٹر نیٹ سروس بند کردیے گئے۔موجودہ بی جے پی لیڈر نتیش رانے نے رضا اکیڈمی پر پابندی لگانے کی مانگ کی ہے۔بی جے پی لیڈر رانے کے بیان پر ردعمل میں جناب سعید نوری نے کہا کہ جو بندوق بانٹ رہے ہیں، فساد کرواتے ہیں ان پر کوئی بات نہیں کرتا،ہم تو غریب لوگ ہیں،غریبوں کا مدعا اٹھاتے ہیں جو کمزور ہوتاہے اسی کودباتے ہیں۔ ابو عاصم اعظمی نے کہا:رضا اکیڈمی پر پابندی لگانے کے بجائے فرقہ پرست تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے۔اقلیتی امور کے وزیر اور این سی پی کے قومی ترجمان نواب ملک نے سنیچر کو کہاکہ گزشتہ روز بند کے دوران تشدد کرنے اور مہاراشٹر پر امن ماحول خراب کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔احتجاج کرنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے لیکن اگر یہ احتجا ج تشدد کا راستہ اختیار کرلے تو یہ کسی طرح مناسب نہیں۔ نواب ملک نے یہ بھی کہا کہ وسیم رضوی گزشتہ دو چار سال سے ملک کا امن و امان خراب کر نے کے لیے مختلف بیانات دے رہاہے۔لوگوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے کتابیں لکھ رہاہے لیکن اس کے خلاف کوئی کار روائی نہیں ہورہی ہے۔ وہ ایک سازش کے تحت ملک کا ماحول بگاڑنے میں لگاہے۔ 

بھگوادھاری تنظیموں کو مسلمانوں کا پُر امن احتجاج و مظاہر کرنا بھی گوار ہ نہیں۔ ان لوگوں کو یہ پسند نہیں کہ مظلومین انصاف کا مطالبہ کرے۔فرقہ پرست جماعت ایسے موقع پر سیاسی روٹی سینکنے کے لیے اپنی اوچھی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ ملک سب کاہے سبھی برابر کے حق دار ہیں۔اپنے کے حقوق کے مطالبے کا حق سبھی کو حاصل ہے۔ مسلم کمیونٹی پر عرصہ حیات تنگ کرنا ملک کے مفاد میں نہیں۔ جمعہ کے روز بند کا اعلان بالکل پُر امن تھا۔لیکن فرقہ پرستوں کو یہ راس نہیں آیا جس کا ثبوت امرواتی شہر ہے۔ ناندیڑ میں حالات قابو میں ہے۔مالیگاؤں سے اس کے بعد کسی ناخوشگوار واقعہ کی خبر نہیں ہے۔اب انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ جہاں بھی حالات کشیدہ ہوئے،املاک تباہ کیے گئے، پتھر بازی ہوئی اس کی جانچ ہونی چاہیے جو مجرم ہو اسے سزا ملنی چاہئے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی