’’مسجد بیچ کھائیں گے‘‘

 ’’مسجد بیچ کھائیں گے‘‘

موجودہ زمانے میں مساجد کے حالات اور ذمہ داران کے حالات کی عکاسی کرتی ایک دلگداز تحریر

از قلم : محمد افروز رضا مصباحی

آج کئی روز بعد دانائے راز سے بعد عشاملاقات ہوئی ۔ موسم کی پہلی رم جھم رم جھم بارش ہورہی تھی،موسم خوشگوار اور فضا میں موجود خنکی جسم کو گدگدا رہی تھی اتنا اچھا موسم ہو اور گھر میں بیٹھا جائے مناسب تھا لہذا باہر ہی کرسی لگا کر بیٹھ گئے۔ مختلف امور پر گفتگو کا رنگ چڑھتا رہا۔ اثنائے کلام کہنے لگے:وقت گزرتے مسجد کے متولیان کے حالات دگر گوں ہوتے جارہے ہیں۔ بعض مساجد کے متولیوں کی حرکتیں دیکھ کر ایسا لگتاہے ’’مسجد بیچ کھائیں گے‘‘

اس جملے پر میں چوکنا ہوگیا۔کہا:پھر سے یہ جملہ دہرائیں ۔

کہنے لگے اس جملے پر تعجب کیوں ہے؟ ڈاکٹر اقبال نے تو بہت پہلے کہاتھا:

بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو

بیچ کھاتے ہیںجو اسلاف کے مدفن ،تم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے 

کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے

جو لوگ اسلاف کے مدفن کوبیچ کھائیں ،قبروں کی تجارت کریں، پتھر کے صنم کو بیچنے لگیں ،ایسی ذہنیت کے لوگ مسجد کو بیچ ڈالیں تو مقام تعجب کیا ہے؟ 

میںنے کہا: کچھ سمجھا نہیں!!!!!

کہنے لگےجس مسجد کی جائیداد اور دکانیں ہیں وہاں دو دو کمیٹی ہیں ایک کا وقت پورا ہوا تو دوسری کمیٹی برسر اقتدار آتی ہےیہ ایسا ہے کہ ہم نے کھالیا اب تم بھی کچھ وقت کھالو۔۔۔۔۔۔۔

پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ اللہ کا گھر صرف عبادت کے لیے ہے لیکن اب لوگوں کو سمجھ میں آگیا ہے کہ صرف عبادت کے لیے نہیں بلکہ کمائی اور چندے کا بہترین ذریعہ ہے۔پہلے مسجد کے متولی کو فکر ہوتی تھی کہ لوگ مسجد کو آئیں تاکہ مسجد آباد رہے۔ اللہ کے گھر کی رونق باقی رہے۔ اب بھی فکر ہے۔ لیکن فکر کا زاویہ بدل گیا ہے۔ اب یہ فکر ستاتی ہے کہ لوگ کم آئے تو جمعہ کا چندہ کم ہوگا، مہینے کا چندہ کم ہوگا۔لوگوں کے دین و ایمان کی فکر نہیں ، نماز پڑھتے ہیں یا نہیں اس سے بھی مطلب نہیں ،بس چندہ دیتے رہیں ، ہماری ضرورت پوری ہوتی رہے۔ پہلے صرف امام و موذن کی تنخواہ کی فکر رہتی تھی اب یہ بھی فکر رہتی ہے کہ ہماری جیب میں کیا بچے گا!!!!!!!!!!!!!!  جو اللہ والے ہیں ، اخلاص سے کام کر رہے ہیں ان کی بات نہیں بلکہ ان کے بارے میںکہہ رہاہوں جو مسجد کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے، حکومت کی جانب سے ملنے والے امام و موذن کے وظائف میں حصہ دار بنے ہیں!!!!!!!!!!!!!!!!!!

آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ مسجد ایسے لوگ بنا رہے ہیں یا تعمیراتی کام میں بڑھ چڑھ کر چندہ وصول کر لا رہے ہیں جسے امید ہے کہ کوئی عہدہ مجھے بھی مل جائے،ایسے لوگ صدارت کےلیے لڑ رہے ہیں جسے نماز روزے اور عبادات سے غرض نہیں۔ بعض مسجد محض اس لیے بنارہے ہیں نیک نامی کا ذریعہ ہے۔ پچھلے کرتوتوں کو بھول کر لوگ مسجد کے متولی اور صدر کے طور پر نام لیں گے۔سیاسی لوگ خانہ خدا کے صدر و متولی بن رہے ہیں، جنہیں سیاست میں کامیابی نہیں ملتی ، الیکشن میں منہ کی کھائی ،کوئی ذریعہ نہیں رہا تو محلے کے مسجد پر قابض ہورہے ہیں۔ملازمت کے دوران کرپشن میں بدنام تھے وہ لوگ مسجد کے متولی اور صدر بننے کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔حالت باینجا رسید کے بعض مساجد کے متولی شرابی ہیں ۔ ایسوں سے مسجد کا کیا بھلا ہوگا، مسجد کے امام و موذن کی تنخواہ کہاں سے دیں گے، جسے صبح و شام پیگ چڑھانا ہو ، وہ دیانت داری سے کیا کام لیں گے؟

میں نے کہا: مسجد بیچ دیں گے‘‘ اس جملے کا مفہوم اب تک نہ سمجھ سکا۔

کہنے لگے:ایک مسجد کا صدر جس کا گزر بسر مسجد کے چندے سے ہوتا ہے (یہ الزام نہیں حقیقت ہے)اس نے ایک ایسے شخص کو صدر بنادیا جو مسلک میں اس کا مخالف ہے۔محض اس وجہ سے کہ وہ موجودہ امام کا مخالف ہے۔ صدر کے کارنامے پبلک میں اجاگر ہونے کی وجہ سے دکھاوے کے لیےایک ایسے چہرے کو سامنے لایا جو مسلک مخالف ہے۔ اگر کوئی صدارت کی بولی لگادے تو مسجد سے دست بردار ہو جائے گا۔

میں نے کہا : مسلک مخالف شخص لانےکی وجہ؟

کہنے لگے: اس کے مطابق وہ صدر بننے پر سنی بن جائے گا۔۔۔

میں نے کہا:مسلک عقیدے کا نام ہے، عہدہ پاکر کوئی کیسے سنی بن سکتاہے؟

کہنے لگے:انسان جب دین سے دور ، علما سے نفور،شکم پروری اور دین و ایمان فروخت کرنے پر آجائے تو ایسی ہی بات زبان سے ادا ہوتی ہے۔

مسجدوں پر اغیار کا قبضہ کیسے ہوتاہے؟ 

میں نے کہا: کیسے ہوتاہے؟

کہنے لگے: کوئی غیر مسلک شخص تمہاری مسجد پر قابض نہیں ہوسکتا ۔ وہ مسجد کے صدر سکریٹری، یا کسی ممبر کے ذریعہ کمیٹی میں جگہ بناتاہے۔ پھر دوسروں کی بنسبت زیادہ چندہ دیتاہے جس سے ممبران اس کے ہمنوا اور موافق ہوجاتے ہیں پھر صدر و سکریٹری کے انتخاب کے وقت اسی کو سپورٹ کرتے ہیں ۔بڑے عہدے کو پاکر پھر اپنا رنگ دکھانا شروع کرتاہے۔سب سے پہلے صفایا امام کا صفایا کرتاہے کیونکہ یہ وہ کانٹا ہے جو سوتے جاگتے چبھتا رہتاہے۔ لہذ ا اس کی اَن کہی اَن دیکھی غلطیوں کو بہانہ بنا کر برطرف کرکے کسی پلپلے امام سے کام چلاتا ہے پھر جب موقع ملا اپنے ہم مسلک و ہم مشرب امام کو مصلیٰ پر کھڑا کردیتاہے۔ 

ترکی کی ایک کہاوت ہے:یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ میں تمہارا بھائی ہوں بلکہ یہ وضاحت کرنی ہوگی کہ ہابیل ہو یا قابل۔

اسی طرح اس زمانے میں مسلک حقہ کا دم بھرلینا کافی نہیں بلکہ یہ وضاحت لینی چاہیے کہ سنیت کے علم بردار ہو یا منافق روز شمار، حقیقی متبع مسلک حقہ ہو یا شرار بولہبی کو خوبصورت نام دے دیا ہے؟

منافقانہ روش بڑھتی جارہی ہے۔دینی و ملی خدمات کا بس نام رہ گیا ہے لوگ اپنے مفاد کی خاطر اپنے مشرب و مسلک بلکہ دین و ایمان کا قتل کرتے ہیں۔ متاع عزیز کی بولی لگاتے ہیں۔حقیر روپے پیسے کے لیے کسی حد تک جاسکتےہیں، باقی تصلب فی الدین کا دعوی حقیقت سے پرے ہوتا ہے۔ ایسے لوگ بھی باشرع داڑھی اور جبہ و دستار میں ملبوس مسلک کے قتل کرنے میں لگے ہیں جن کا دعوی ہے کہ میرے علاقے میں میرے سوا کوئی مسلک حقہ کا پاسدار نہیں۔ 

آج مساجد میں باصلاحیت اور متصلب فی الدین اماموں کو جگہ نہیں دی جارہی ہے۔ حق کا گھونٹ پلانے والے زہر بنا دیئے گئے ،آج وہی امام فاتح زمانہ ہے جو ہر حق و ناحق میں ہاں میں ہاں ملاتارہے۔جائز و ناجائز ، حلال و حرام میں چپی سادھے رہے، حق و دیانت کی بات کرنے والے امام اپنے مسلک کی حقانیت کے بجائے مطلقاً دین و ایمان کی بات کرے ورنہ اغیار بعد میں شمشیر بکف ہوں گے اس سے پہلے کمیٹی کا کوئی شخص استعفا لینے کو تیار بلکہ اسٹیشن تک پہنچانے کے گاڑی لیے کھڑا ہوگا۔

مساجد سے دین کی عظمت کا ڈنکا بجتا ہے لیکن آج اسے زیب و زینت کا منبع اور اختلاف و انتشار کی آماجگاہ بنادی گئی ہے۔ امام کو بے دست و پا کرکے محض پانچ وقت کی امامت کا پابند کردیا ہے۔کم علم اماموں کو اہل علم پر فوقیت دی جاتی ہے ،علم سے بیگانہ شخص کو مصلیٰ امامت سونپی جا رہی ہے۔

وقت زیادہ ہو رہاتھا، اجازت لے کر گھر کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں سوچتا رہا ، دانائے راز کی ہر بات کی تصدیق اکیلا شخص نہیں کرسکتا ۔ ہاں! باذوق قارئین جو دین و ملت اور مسلک کا درد رکھتے ہیں وہ اس کی حقیقت تک پہنچ سکیں گے۔۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی