سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی

 


عید قرباں کے پُر بہار موقع پرایک خصوصی تحریر
از قلم:محمد افروز رضا مصباحی

بے آب و گیاہ سرزمین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی زوجہ اور گود کے بچے حضرت اسماعیل کو چھوڑ کر فلسطین جانے لگے ۔ایک جگہ رک کر رب سے دعا کی :
رَبَّنَاۤ  اِنِّیۡۤ  اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ  ذِیۡ  زَرۡعٍ عِنۡدَ  بَیۡتِکَ  الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ وَارۡ زُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ (سورہ ابراہیم۳۷)

اے میرے رب میں نے اپنی کچھ اولاد ایک نالے میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے میرے رب اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں تو تو لوگوں کے کچھ دل ان کی طرف مائل کر دے اور انھیں کچھ پھل کھانے کو دے شاید وہ احسان مانیں ،
ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا میں جن چیزوں کا ذکر کیا اس میں #غیر آباد علاقے میں بسانا. # حرمت والے گھر کے قریب اپنی ذریت کو آباد کرنا، #وہ لوگ نماز قائم رکھیں ۔#تو لوگوں کے دلوں کو ان کی جانب مائل کردے، #کچھ پھل کھانے کو دے، #آخری التجا یہ تھی کہ یہ لوگ تیرا احسان مانیں۔
اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہر دعا کو شرف قبولیت عطا فرمائی ۔
غیر آباد علاقہ "مکہ"کے نام سے آباد ہونے والا شہر اقصائے عالم میں معروف ومشہور ہوا ۔مسلمانوں کا قبلہ ہونے کی وجہ سے متبرک شہر ہوا۔
حرمت والا گھر"کعبہ"کی تعمیر ہوئی ۔جس طرف مسلمان منہ کرکے پانچوں وقت نماز ادا کرتے ہیں ۔
نماز کی ادائیگی کو شریعت اسلامیہ میں افضل العبادات قرار دیا گیا ۔ہر نماز میں درود ابراہیمی کو سنت قرار دے کر حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد پر درود بھیجنا ہر نمازی پر لازمی ٹھہرا۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے لوگوں کے دلوں کو کعبہ کے طواف، حاضری مکہ، ادائیگی حج کے لئے لوگوں کے دلوں میں تڑپ پیدا کردی ۔
موسم کوئی سا ہو، اقصائے عالم میں پائے جانے والے ہر پھل ہر موسم میں وہاں دستیاب رہتا ہے ۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاوں کا ثمرہ ہے۔
حضرت اسماعیل جب چلنے پھرنے کے لائق ہوئے تو خدائے بزرگ کی جانب سے ابراہیم علیہ السلام کو اپنی سب سے قیمتی اور پسندیدہ چیز قربان کرنے کو کہا گیا ۔
یہ بات خواب میں بتائی گئی ۔پیغمبر کا خواب بھی وحی الہی کے زیر اثر ہوتا ہے ۔انہوں نے سمجھ لیا کہ میرا قیمتی اثاثہ میرا لخت جگر اسماعیل ہے ۔لہذا ان کی قربانی دینے کو تیار ہوگئے ۔
منی کی وادی میں بیٹے کو لے کر آئے اور اپنا مدعا بیان کیا ۔قرآن کریم نے باپ بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو کو بیان کیا ہے:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ  السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ  اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ  اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ  اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۰۲﴾

پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہو گیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے کہا اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے ، خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے ۔
اس آیت میں رب کریم نے حضرت ابراہیم و اسماعیل کے درمیان ہونے والے گفتگو کو ذکر کیا ہے ۔اسمٰعیل علیہ السلام نے باپ سے جرح نہ کی، اپنے اکلوتے بیٹے ہونے کا واسطہ دیا، والدہ سے بچھڑنے اور تنہا رہ جانے کا بھی ذکر نہیں کیا ۔ابراہیم علیہ السلام کی اس وقت تنہا وارث تھے، ان ساری باتوں کو نظر انداز کرکے رب العزت کے حکم پر عمل پیرا ہونے پر جو رضامندی ظاہر کی، اس نے باپ بیٹے کے اخلاص، وفا، رب کے حکم کے آگے سر خمیدہ کرنے کی جو مثال پیش کی اس نے تا قیامت آنے والی نسل انسانی کو درس دیا کہ عزیز شی کو سنبھال کر رکھا نہیں جاتا بلکہ رب کی راہ میں قربان کرکے سرخروئی حاصل کی جاتی ہے ۔حضرت اسماعیل کی اسی فدا کارانہ جذبہ رضا جوئی اور صبرو تحمل کو دیکھتے ہوئے شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کہا:
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی

باپ کا اپنے بیٹے کو قربان کرنا اتنا پسند آیا کہ مولائے کائنات نے ان کے بعد آنے والی امت پر لازم قرار دیا کہ جو صاحب حیثیت ہیں، ابراہیم خلیل اللہ کی سنت کو تازہ کریں، اولاد کی جگہ جانور قربان کرکے خوشنودی مولا حاصل کریں ۔
شریعت محمدی میں ایام نحر میں قربانی کرنا ہر طرح کے صدقات و خیرات سے افضل و اعلی ہے ۔چند احادیث ملاحظہ کریں :

 ابو عوانہ نے قتادہ سے انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کی ،  کہا  : نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دو سفید رنگ کے بڑے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی ۔  آپ نے انھیں اپنے ہا تھ سے ذبح کیا بسم اللہ پڑھی اور تکبیر کہی  ۔ آپ نے  ( قربانی کے وقت انھیں لٹا کر )  ان کے رخسار پر اپنا قدم مبارک رکھا  ۔

 عروہ بن  زبیر نے حضرت  عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو ،  سیاہی میں بیٹھتا ہو اور سیاہی میں دیکھتا ہو  ( یعنی پاؤں ،  پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں )  ۔  پھر ایک ایسا مینڈھا قربانی کے لئے لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! چھری لا ۔  پھر فرمایا کہ اس کو پتھر سے تیز کر لے ۔  میں نے تیز کر دی ۔  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی ،  مینڈھے کو پکڑا ،  اس کو لٹایا ،  پھر ذبح کرتے وقت فرمایا کہ بسم اللہ ،  اے اللہ! محمد  (  صلی اللہ علیہ وسلم  )  کی طرف سے اور محمد  (  صلی اللہ علیہ وسلم  )  کی آل کی طرف سے اور محمد  (  صلی اللہ علیہ وسلم  )  کی امت کی طرف سے اس کو قبول کر ،  پھر اس کی قربانی کی ۔ 

عبد اللہ بن ابی بکر نے حضرت عبد اللہ بن واقد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کی ،  کہا :  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین  ( دن رات  )  کے بعد قربانیوں کے گو شت کھا نے سے منع فر ما یا  ۔ عبد اللہ بن ابی بکر نے کہا  :  میں نے یہ بات عمرہ  ( بنت عبد الرحمان بن سعد انصار یہ  )  کو بتا ئی عمرہ نے کہا  :  انھوں نے سچ کہا :   میں نے  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں بادیہ کے کچھ گھرانے  ( بھوک اور کمزوری کے سبب )  آہستہ آہستہ چلتے ہو ئے جہاں لو گ قربانیوں کے لیے مو جو د تھے  ( قربان گا ہ میں ) آئے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا  :     تین دن تک کے لیے گو شت رکھ لو  ۔  جو باقی بچے  ( سب کا سب  )  صدقہ کر دو ۔    دوبارہ جب اس  ( قربانی  )  کا مو قع آیا تو لو گوں نے عرض کی :  اللہ کے رسول!لو گ تو اپنی قربانی  ( کی کھا لوں  )  سے مشکیں  بنا تے ہی اور اس کی چربی پگھلا کر ان میں سنبھال رکھتے ہیں  ۔  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:    کیا مطلب ؟    انھوں نے کہا  :  یہ  ( صورتحال ہم اس لیے بتا رہے ہیں کہ )  آپ نے منع فرمایا تھا کہ تین دن کے بعد قربانی کا گو شت  ( وغیرہ استعمال نہ کیا جا ئے  ۔  تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا  :   میں نے تو تمھیں ان خانہ بدوشوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت بمشکل آپا ئے تھے  ۔ اب  ( قربانی کا گو شت  )  کھا ؤ رکھو اور صدقہ کرو ۔ 

حضرت براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ، قربانی کے دن نبی ﷺ نے ہمیں خطاب کیا تو فرمایا :’’ آج کے دن ہم پہلے نماز پڑھیں گے پھر واپس جا کر قربانی کریں گے ۔ جس نے ایسے کیا تو اس نے سنت کے مطابق کیا ، اور جس نے ہمارے نماز پڑھنے سے پہلے قربانی کر لی تو وہ گوشت کی بکری ہے (محض گوشت کھانے کے لیے ذبح کی گئی ہے) اس نے اپنے اہل و عیال کے لیے جلدی ذبح کر لی ، اس میں قربانی کا کوئی ثواب نہیں ۔‘‘ متفق علیہ 

حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے عید الاضحی کے روز سینگوں والے چتکبرے دو خصی مینڈھے ذبح کیے ، جب آپ ﷺ نے انہیں قبلہ رخ کیا تو یہ دعا پڑھی :’’ بے شک میں نے ابراہیم جو کہ یکسو تھے کے دین پر ہوتے ہوئے اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا ، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ، بے شک میری نماز ، میری قربانی ، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہے جو کہ تمام جہانوں کا پروردگار ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے ، اور میں مسلمانوں (اطاعت گزاروں) میں سے ہوں ، اے اللہ ! (یہ قربانی کا جانور) تیری عطا ہے اور تیرے ہی لیے ہے ، اسے محمد ﷺ اور ان کی امت کی طرف سے قبول فرما ، اللہ کے نام سے اور اللہ بہت بڑا ہے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے ذبح فرمایا ۔ احمد ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، دارمی ۔ اور احمد ، ابوداؤد اور ترمذی کی روایت میں ہے : آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے ذبح کیا ، اور یہ دعا پڑھی :’’ اللہ کے نام سے ، اور اللہ سب سے بڑا ہے ، اے اللہ ! یہ میری اور میری امت کے اس شخص کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی ۔‘‘

حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قربانی کے دن ، ابن آدم کا قربانی کرنا اللہ کو انتہائی محبوب ہے ، بے شک وہ (جانور) روز قیامت اپنے سینگوں ، بالوں ، اور کھروں سمیت آئے گا ، بے شک قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے ، پس تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو ۔‘‘ رواہ الترمذی 

حضرت زید بن ارقم ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! یہ قربانی کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے لیے اس میں کیا (ثواب) ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اون کے بارے میں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اون کے ہر ریشے پر ایک نیکی ۔‘‘ ۔رواہ ابن ماجہ

ذی الحجہ کے تین دنوں، دس، گیارہ اور بارہ تاریخ کو قربانی دینا ہی صاحب نصاب پر لازم و ضروری ہے ۔ان تین دنوں میں قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ۔

مولائے کریم ہم سب کو جذبہء اسماعیل علیہ السلام عطا فرمائے ۔رب کی رضا پر راضی و خوشی رہنے اور اسی طریقے پر زندگی گزارنے کی توفیق بخشے ۔اللہ پاک دلوں کے بھید جانتا ہے، ہمارے نیت و ارادے کو جانتا ہے، اخلاص نیت کے ساتھ قربانی کرنی چاہیے ۔یونہی جن مسلمانوں کے یہاں پریشانی و غربت کی وجہ سے قربانی نہ ہوسکی ان کا خیال رکھنی چاہیے ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی