کیا واقعی حجاب مسئلہ ہے؟
از قلم: محمد افروز رضا مصباحی،گلبرگہ
آزمائش زندگی کا لازمی حصہ ہے۔آزمائش زندگی کے کسی موڑ پر ہوسکتی ہے۔ آزمائش انسان کو مصیبتوں سے دوچار کرنے کے لیے نہیں بلکہ زندگی کا بہترین سبق پڑھانے اور عزم و حوصلہ کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ مصیبت کا پہاڑ کھڑا ہو آپ وہاں سینہ سپر ہوجائیں مصیبت خود ہی غبار بن کر ہباء منثورا ہوجائے گی۔اس وقت جو فرحت و شادمانی ملے گی،جس خوشی اور کیفیت کا احساس ہوگا شاید الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہو۔ کرناٹک میں مسکان نامی مسلم طالبہ کی آزمائش شہرت و ناموری کاسبب بن گئی
کرناٹک کی سرزمین حجاب کے مسئلے کو لے کر سیاست کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے۔ اڑپی کے ایک کالج میں چند مسلم بچیوں کو حجاب استعمال کرنے کی وجہ سے کلاس میں داخل نہیں ہونے دیا۔بچیاں بطور احتجاج کلاس کے باہر ہی بیٹھ گئی۔اس بات کا مطالبہ کی کہ یہ بتایاجائے کہ حجاب جب ہمیشہ استعمال کرتے ہوئے آئی کبھی منع نہیں کیا گیا،آج ایسا کیوں ہوا؟ کالج انتظامیہ نے اسکول کے ڈریس کوڈ کی وجہ سامنے رکھ دی۔اس کے بعد ریاست کے کئی ضلعوں میں تنازہ بڑھ گیا کئی اداروں میں لڑکیوں نے حجاب پہننا شروع کیا تو غیرمسلم طالبات نے احتجاجاً زعفرانی شال اوڑھنے لگی۔یہ بات پھیلتے پھیلتے ملکی سطح پر پھیل گئی اور پھر سیاست دانوں نے بھی بیان بازی شروع کی۔ موافقت و مخالفت میں اٹھنے والی آواز کے بیچ کئی کالجوں میں پتھراؤہوا جس کے جواب میں پولس کو لاٹھی چارج کرنی پڑی۔ ایک کالج کے احاطے میں ترنگا جھنڈا لہرارہاتھا جسے اتار کر ایک طالب علم نے بھگوا جھنڈا لگادیا۔آٹھ فروری کو اڑپی مہاتما گاندھی کالج میں ایک باحجاب لڑکی کو بھگواداری کے ایک گروہ نے گھیرلیا اور جے شری رام کا نعرہ لگانے لگے۔جواب میں باہمت لڑکی بے خوف و خطر اللہ اکبر کا نعرہ لگانے لگی۔مسکان خان نامی لڑکی کی اس جرأ ت و بہادری پر ہر طرف سے سرہنا کی گئی۔ہر طرف سے اس جرأت و استقلال پر داد و تحسین سے نوازا گیا۔
حجاب کا مسئلہ کرناٹک ہائی کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔8 / فروری کو شنوائی مکمل ہوچکی تھی۔9/ تاریخ کو فیصلہ سنانا تھا لیکن ہائی کورٹ کے جج جسٹس کرشنا دکشت کی سنگل بینچ نے طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت دینے کے معاملے میں کوئی عبوری حکم دینے سے انکار کردیااور اس معاملے کو بڑی بنچ کے پاس بھیج دیا۔جسٹس کرشنا دکشت نے دوران سماعت کہا کہ بڑی بنچ اس معاملے میں عبوری راحت پر بھی غور کرے گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”عدالت کا خیال ہے کہ سماعت میں زیر بحث اہم سوالات سے متعلق کاغذات چیف جسٹس کے سامنے رکھے جاسکتے ہیں تاکہ یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ آیا اس معاملے میں بڑابنچ تشکیل دیا جاسکتاہے۔
ملک بھر میں حجاب کو لے کر معاملہ گرم ہے۔ کرناٹک سے شروع ہونے والا حجاب کا مسئلہ دس ریاستوں تک پھیل ہوچکاہے۔ اِدھر مسلم طالبات حجاب کے استعمال پر اصرار کررہی ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے۔ آئین ہند اپنے شہری کو پہننے اوڑھنے کی آزادی دے رکھی ہے۔ حجاب پر پابندی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ کئی شہروں میں کالج اسکول سے نکالی جانے والی طالبات کے حق میں پروٹیسٹ جاری ہیں جسے کئی سیاسی و غیر سیاسی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔
پانچ ریاستوں میں صوبائی الیکشن کو ذہن میں رکھ کر بی جے پی حجاب کو ایشو بناکر ماحول گرم رکھنا چاہتی ہے تاکہ ہندو مسلم میں ووٹروں کو تقسیم کرکے ووٹ بٹورا جاسکے۔کیوں کہ حجاب کے مقابلے میں کالج کے طلبہ بھگوا رنگ کا رومال گلے میں ڈال کر داخل ہوئے۔ منع کرنے پر کہا کہ مسلم طالبات جب تک حجاب ترک نہیں کرتی،ہم لوگ بھی یہ بھگوا داری شال اوڑھ کر کالج میں آئیں گے۔
اب پورے معاملے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔کیا واقعی حجاب اسکول و کالج کے لیے مسئلہ ہے؟ اسکول و کالج کے متعین کردہ یونیفارم کی خلاف ورزی ہے؟ کیا مسلم طالبات اس سے قبل حجاب میں اسکول و کالج نہیں آتی تھیں؟اگر آتی تھیں تو پھر اتنے سالوں سے کوئی مسئلہ نہیں تھا اب اچانک ایسا کیوں ہواکہ حجاب رکاوٹ بن گیا اور باحجاب طالبات کو کلاس روم سے باہر کردیا گیا؟حجاب سے مذہبی شناخت کیسے ہوتی ہے؟ ہندوستان کے طول و عرض میں ہر علاقے کا اپنا لباس ہے۔جسے جو سمجھ میں آیا وہ لباس زیب تن کرتے ہیں کسی پر کوئی پابندی نہیں ہوتی،تو پھر حجاب پر پابندی کیوں؟ اگر اسے مذہبی شناخت باور کیاجاتاہے تو دستور ہند ہر شہری کو پہننے اوڑھنے کی آزادی دیتاہے،پھر یہ پابندی کیا دستور کے خلاف نہیں ہے؟ اگر حجاب کو مذہبی شناخت ہی باور کرایاجاتاہے تو پھراسکول و کالج میں غیر مسلم لڑکے ماتھے پر زعفرانی ٹیلا لگاکر آتے ہیں،ہاتھوں میں کڑے پہننا بھی مذہبی شناخت کو ظاہر کرتاہے۔ لڑکیاں منگل سوتر پہنتی ہیں،ان کے ماتھے پر کم کم ہوتاہے۔اس سے مسلم طالبات کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی،ان کے حجاب سے کیوں کسی کو پریشانی ہوتی ہے؟
سارے سوالات اپنی جگہ اور سیاست کی روٹی سینکنا اپنی جگہ۔پانچ ریاستوں میں ہونے والے الیکشن میں حکمراں پارٹی کے پاس کوئی ایشو نہیں ہے۔پبلک کو دکھانے بتانے کے لیے اس کی جھولی میں کچھ نہیں،ووٹ مانگنے کے لیے کچھ تو جھولی میں ہونا چاہئے لیکن حکومت چونکہ زمینی کام پر کم، الجھاؤ والے معاملے پر زیادہ یقین رکھتی ہے یہی وجہ ہے جہاں کہیں الیکشن ہو وہاں ہندو مسلم سوشہ چھوڑا جا تاہے،ٹکراؤ کا ماحول بنایاجاتاہے۔ فساد کے لیے زمین ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے سہارے ووٹ کا حصول ممکن ہوپاتاہے۔ 10 / فروری کو یوپی الیکشن کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ ہوچکی ہے،یوپی کے صوبائی حکومت بی جے پی کے لیے بہت اہم ہے،یوگی جی نام بدلنے اور نفرت کی سیاست میں رہ گئے،زمینی کام سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھا۔ اب الیکشن سر پر آیا تو پبلک کو کچھ دکھانے کے لیے کچھ ہے نہیں،ہندو مسلم کارڈ ہے جو ہر موقع پر کام آتاہے۔ یہی کارڈ کرناٹک پھینکاگیا تاکہ پبلک دو حصوں میں تقسیم ہوجائے اور اکثریتی حمایت مل جائے جس سے ڈوبٹی نیا پار لگ سکتی ہے۔ یہ کوشش کہاں تک کامیاب ہوگی ابھی کہنا قبل ا ز وقت ہوگا لیکن اتنا طے ہے کہ یوپی کی سیٹ کھسکتی نظر آرہی ہے جس کی وجہ سے ملک کے کسی حصے میں ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔حجاب کوئی مسئلہ نہیں،مسئلہ دراصل یوپی الیکشن ہے جو ”حجاب“ کی آڑ میں حاصل کرنے کے ناپاک ارادے بنائے ہوئے ہیں۔
حجاب کو مسئلہ بتانے والے کے لیے شیوسینا کے لیڈر سنجے راوت کایہ ٹویٹ بہت کچھ سکھاتاہے:”برقع سے اسی کو پریشانی ہوسکتی ہے جس کے گھر کی عورتیں بدن کی نمائش کرتی ہو یا اس گھر کے مرد عورتوں کے جسم کو دیکھنے کے شوق رکھتاہو۔عورتیں پردہ میں اچھی لگتی ہیں۔۔۔کسی کے لباس سے اگر آپ کو تکلیف ہے تو یقین مانیں آپ انسان نہیں ہوسکتے“۔