عید غدیر۔۔۔۔ حقیقت یا فریب

انبیاء ومرسلین کے بعدکائنات میں حضرت صدیق اکبر کادرجہ ہےان کی خلافت و جانشینی پر امت مسلمہ کا اتفاق ہے

ازقلم۔۔۔۔ محمد افروز رضا مصباحی

ٹیکنالوجی کی ایجاد سے پہلے بھی لوگ اپنے مذہب اور علاقے کے اعتبار سے بہت سے تہوار مناتے رہے ۔عید کی طرح خوشیاں منانا عام رواج رہا ۔بلکہ یہ انسانی فطرت رہی کہ جب کوئی خوشی ملے تو اس دن کو یاد گار بنالیااور ہر سال اس تاریخ کو خوشیاں مناتے اور دیگر رسومات کے ادخال کے ساتھ ایک نیا رُخ دے دیتے ۔ایسے واقعات تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں مثلا ً بنی اسرائیل فرعون کے ظلم و ستم سے نجات پائے تو اس دن کو عید اور خوشی کے طور پر منانے لگے۔ 

ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں کسی بھی قوم ،مذہب کا تہوار پنہا و پوشیدہ نہیں رہا۔ ’’نیکی کر اور نیٹ پہ ڈال‘‘ جیسی صورت حال ہے۔اب ہر مذہب والا اپنے مذہبی و مسلکی تعلیمات کو سوشل میڈیا پر ڈالتاہے ۔نام اور معروف شخصیت کی یکسانیت کی وجہ سے دوسرےمذہب و مسلک والے بھی عقیدت میں شیئر کردیتے ہیں، بغیر یہ جانے کے کہ یہ پوسٹ ان کے عقائد و نظریات اور مسلمہ عقیدے کے خلاف ہے۔  جس کی زندہ مثال ’’عید غدیر ‘‘ ہے۔ سوشل میڈیا جب اتنا عام نہیں تھا اس وقت اہل تشیع اور بعض محققین کے علاوہ عام وخاص لوگ بھی بالکل نہ جانتے تھے کہ ’’عید غدیر ‘‘ ہے کیا ؟ اس کی حیثیت کیاہے،اہل تشیع کیوں مناتے ہیں؟ ۔ اس سے اہل سنت و جماعت کے خاص و عام کو کوئی غرض نہ تھی لیکن سوشل میڈیا نے عید غدیر پر ایک نئی بحث کے دروازے کو کھول دیا ۔لوگ یہ جاننے کی کوشش کرنے لگے اسے ہم مناسکتے ہیں یا نہیں؟۔ اس میں ’’حب علی ‘‘ کی بے جا دم بھرنے والے افراد کا ہاتھ بھی ہے جو ایک ایسے مسلمہ عقیدے کی خلاف ورزی میں مشغول ہورہے ہیں جس سے خلافت راشدہ کی ترتیب اورحضرات ابوبکر و عمر کی شان و عظمت پر ضرب پڑتی ہے، اہل تشیع کے دعواے محض کو تقویت ملتی ہے۔ 

مسلمانوں میں دو طبقہ ہے سنی اور شیعہ ۔ شیعہ کے کچھ اپنے مذہبی تفردات ہیں جسے وہ لوگ مذہبی فریضہ کے طورپر مناتے ہیں۔ اہل سنت و جماعت کے یہاں اس چیز کا تصور نہیں پایاجاتا ۔ مثلاً ’’عید غدیر ‘‘کو اہل تشیع بڑے تزک و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں ۔ اہل سنت و جماعت کے یہاں اِس عید کی کوئی حیثیت نہیں جس طرح اہل تشیع مناتے ہیں۔ شیعہ فرقہ عید غدیر کو ایسے ہی مناتے ہیں جیسے دنیا کے مسلمان عید الفطر اور عید الاضحی مناتے ہیں۔عبادت کرتے ہیں ۔ تحفے تحافت کا تبادلہ ہوتا ہے، خاص عید کے دن پکائے جانے والے انواع واقسام کے کھانے تیار کیے جاتے ہیں۔آئیےدیکھتے ہیں عید غدیر ہے کیا ؟

’’عید الغدیر یا یوم غدیر خم اہل تشیع کے نزدیک 18 ذوالحجہ کا دن ہے جب رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ حجۃ الوداع کے بعد واپس جاتے ہوئے غدیر خم کے مقام پر امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا۔ روایات کے مطابق نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم حجۃ الوداع سے فراغت کے بعد واپس تشریف لے جا رہے تھے تو غدیر خم کے مقام پر حکم خداوندی سے توقف فرمایا اور تمام ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ سے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے جناب علی ابن ابی طالب کی ولایت و جانشینی کا اعلان فرمایا۔ اہل تشیع کا ماننا ہے کہ اس دن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کو اپنا جانشین بنایا۔اور ارشاد فرمایا:

’’من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ‘‘جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں‘‘(ویکی پیڈیا)

جس پس منظر میں عید غدیر کے واقعہ کو شیعہ فرقہ پیش کرتے ہیں اس اہل سنت و جماعت کے یہاں اس کا معنی و مفہوم دوسرا سمجھا جاتاہے۔ پہلے دیکھتے ہیں کہ مقام خُم پر اللہ کے رسول ﷺنے علی کرم اللہ وجہ الکریم کے بارے میںجو جملہ ارشاد فرمایا اس کی وجہ کیا تھی؟

دراصل ہوا یہ تھا کہ مال غنیمت حضرت علی نے تقسیم کی تھی ، تقسیم پر کچھ صحابہ کرام کو ناگوار گذرا انہوں نے غدیرخم مقام پر رسول کریم ﷺ سے حضرت علی کی شکایت کی....رسول کریمﷺنے پوچھا اے بریدہ کیا تم علی سے(اس تقسیم کی وجہ سے)ناگواری محسوس کرتے ہو...؟ حضرت بریدہ نے فرمایا جی ہاں... رسول کریمﷺ نے فرمایا علی سے ناگواری مت رکھ، جتنا حصہ علی نے لیا ہےحق تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے....بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئ...اس تقسیم وغیرہ کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام وغیرہ کو بھی ناگواری گذری ہو تو انکی بھی ناگواری ختم ہو اس لیے رسول کریمﷺنے اعلان فرمایا: 

میں جسکا مولا علی اسکا مولا.... یعنی میں جسکو محبوب ہوں وہ علی سے بھی محبت رکھے،ناگواری ختم کردے 

اس روایت کو بخاری کے علاوہ دیگر محدثین نے بھی احادیث کی کتابوں میں ذکر فرمایاہے۔ 

شیعہ کتب میں اس واقعہ کا ذکر ملتاہے،صرف ایک حوالہ درج کیا جاتاہے:

بریدہ اسلمی نے رسول کریمﷺسے حضرت علی کی مال غنیمت کی تقسم کی شکایت تو رسول کریمﷺنے فرمایا میں جسکا مولا و محبوب ہوں علی بھی اس کے مولا و محبوب ہیں)لیھذا ناگواری نہ رکھو، ختم کرو) (شیعہ کتاب بحار الانوار37/190)

دراصل اللہ کے رسول ﷺکا اس مقام پر ’’من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ‘‘ کہنے کا مقصدیہ تھاکہ:

حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اورمقرب بندے ہیں ، ان سے اورمیرے اہل بیت سے تعلق رکھنامقتضائے ایمان ہے،اوران سے بغض وعداوت یانفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے۔

من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ ‘‘  کے ارشاد سےحضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے لئے نہیں بلکہ ان کی قدرومنزلت بیان کرنے ، ان کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قراردینے کے لئے تھا  اور الحمدللہ!اہل سنت وجماعت اتباع سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کواہمیت و فوقیت دیتے ہیں۔

عیدغدیر کا واقعہ ۱۸؍ ذی الحجہ کا ہے ۔لہذا مذکورہ تاریخ کو اہل تشیع حضرت علی کی خلافت و جانشینی کے طور پر مناتے ہیں۔حضرت علی کو خلیفہ ٔ بلا فصل مانتے ہیں۔ یہ تو ہرکسی کو تسلیم ہے کہ اہل تشیع سے اہل سنت و جماعت کا اختلاف عقیدہ و مسلک کا اختلاف ہے۔ اہل تشیع کے بعض فرقے اہل سنت و جماعت کے نزدیک کافر بھی ہیں ۔بعض گمراہ ومضل ہیں۔ایسی صورت میں وہ قصے کہانی گڑھ کر حضرت علی کی فضیلت ثابت کریں ،انہیں خلیفہ بلا فصل مانیں ،خلفا ئے ثلاثہ کو غاصب مانیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اس فرقے کی بنیاد ہی شر و فتن پر رکھی گئی ہے،لباس مسلم میں دشمن دین وایمان ہیں۔ان کی خمیر میں اسلام کی بیخ کنی ہے ۔لیکن اہل سنت و جماعت میں بعض لوگوں کا شیعہ کی حمایت اٹھ کھڑے ہونا،18/ ذی الحجہ کو خوشیاں منانا، عید غدیر منانا اور اس کی مبارک بادی دینا،مقام خم پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے ہوئے قول "من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ "سے مولا علی کے خلافت و جانشینی مراد لینا، یعنی حضرت علی کو خلیفۂ بلا فصل ماننا۔۱۸؍ ذی الحجہ کی تاریخ کو عید کا دن تصور کرتے ہوئے مبارک بادی کے پوسٹ شیئر کرنا دراصل ایک خطرناک رجحان ہے ۔جس کے نتائج آنے والے دنوں میں بُرے ہوسکتے ہیں ۔

اس دن عید کی ابتداء کرنے والاایک حاکم معزالدولۃ گزراہے ،اس شخص نے 18ذوالحجہ 351ہجری کو بغدادمیں عیدمنانے کا حکم دیاتھااوراس کانام ’’عید خُم غدیر‘‘رکھا۔

 عید غدیر جس طرح شیعہ مانتے ہیں وہ بہر طور واقعہ مبنی بر خطا اور ’’من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ‘‘ کی غلط و تعبیر و تشریح ہے۔وہی معنی میں اگر اہل سنت کے چند افراد ماننے لگے تو خرابی یہ لازم آئے گی :

۰حضرت ابوبکر و عمر و عثمان علیھم الرضوان کی خلافت غلط ثابت ہوگی ،جوکہ عقیدہ اہل سنت کے خلاف ہے۔ 

۰شجر اسلام کی بنیاد کو کھودنے اور کمزور کرنے کی ناپاک کوشش ہوگی ۔

۰خلفاء ثلاثہ کی خلافت کو باطل ٹھہرانا ہوگا جو سراسر زیادتی اور اسلام کے ستون کو ڈھانے والی بات ہوگی ۔

۰حضور اکرم ﷺ کے قول کو ایک ایسے معنی کی طرف موڑنا پایاجائے گا جو منشاء و مقصود کے خلاف ہے۔ 

۰خلافت ابوبکر صدیق پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کا متفقہ فیصلہ تھا ، اس فیصلہ کے خلاف کسی کا بھی قول ہو باطل و مردود ہوگا۔

۰قرون اولی سے اب تک امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ خلافت کی وہی ترتیب صحیح ودرست ہے جس طرح خلفائے ثلاثہ خلیفہ بنے ۔اس کے خلاف کسی طرح کا قول گمرہی اور امت میں انتشار و افتراق کا باعث ہے۔

  چندباتیں اہل سنت و جماعت کے افراد سے :

* حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضائل و مناقب اپنی جگہ مسلم ،لیکن وہ چوتھے خلیفہ ہیں۔اسی پر تمام امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔

*عید غدیر منانے یا مبارکباد ی دینے سے ایک ایسے فتنے کادروازہ کھلے گاجس سے ہمارے مسلمہ عقیدے پر ضرب پڑ ے گی۔

* افضل البشر بعد الانبیاءبالتحقیق حضرت ابوبکر صدیق ہیں۔ان کے بعد کفرو ایمان کے درمیان خط امتیاز کھینچنے والےحضرت عمر فاروق، ان کے بعد شرم و حیاکے پیکر عثمان غنی،ان کے بعد حیدر کرار علی مرتضی کرم اللہ وجہہ ہیں۔اسی ترتیب پر دور صحابہ سے اب تک اہل سنت و جماعت کا اتفاق رہا ہے، اس کے خلاف کسی طرح کے قول کو تسلیم نہیں کیا گیا۔

 بھولے بھالے مسلمان حضرت علی رضی اللہ عنہ کا صرف نام دیکھ کر پوسٹ وغیرہ شیئر نہ کیا کریں ۔بہت ممکن ہے شیعہ لوگ اپنے عقائدو نظریات کی تشہیر و تبلیغ کے لئے مولا علی کا نام استعمال کرتے ہوں۔حضرت علی کے نام سے نیٹ پر اتنے سارے اقوال کو پھیلا دیے گئے ہیں کہ بعض قول زریں پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ چوتھےکا خلیفہ قول ہوسکتاہے۔ مولاعلی سے عقیدت و محبت اپنی جگہ لیکن ان کی محبت سے خلفائے ثلاثہ پر آنچ نہیں آنی چاہئے ۔حدیث کی کتابوں میں یہ روایت ملتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمات ہیں کہ مجھے خبرملی ہے کہ کچھ لوگ ابوبکر اور عمر پر مجھے فضیلت دیتے ہیں ، مجھے ابوبکر و عمر پر مجھے کوئی فضیلت نہ دے ورنہ اسے وہ سزا دوں گاجو ایک جھوٹے کی سزا ہوتی ہے۔(فضائل الصحابہ )

جو لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت و وارفتگی میں خلیفۂ بلا فصل کہنے کی غلطی کررہے ہیں انہیں اپنا احتساب کرنا چاہیے آخر کس راہ پر چل رہے ہیں اس سے کیسے کیسے فتنے اٹھیں گے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ حق یہ ہے کہ حضرت علی چوتھے خلیفہ بنے اس سے ان عظمت و شان میں کوئی کمی نہ آئی ۔ان کو جو مرتبہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دیا کیا کسی بشر میں یہ طاقت ہے کہ اسے کم کردے ؟ان کے لیے زبان رسالت مآب ﷺ سے جاری ہونے والا جملہ’’من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ‘‘ ان کی عظمت و شان کی بلندی کے لیے کافی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی