وہ گیا تاروں سے آگے آشیانہ چھوڑ کر



فقیہ اسلام مفتی عبد الحلیم رضوی اشرفی ناگپوری کے سانحہ ارتحال پر خراج عقیدت پیش کرتی تحریر
از قلم۔۔۔محمد افروز رضا مصباحی،7795184574
۱۱/ رمضان المبارک ۲۴۴۱ ؁ھ بروز ہفتہ بعد نماز عشا تراویح سنا کر گھر پہنچا دسترخوان پر بیٹھا ہی تھا کہ وجے واڑہ اندھرا پردیش سے مولانا سبحانی نظامی کا کال آیا سلام کیا جواب آواز بھرائی ہوئی تھی، پوچھا خیریت ہے؟ روتی ہوئی آواز میں کہا:
پیر صاحب نہیں رہے۔سن کر کانوں پر بھروسہ نہیں آیا پوچھا کیا کہہ رہے ہیں؟ کہا مفتی عبد الحلیم صاحب قبلہ ناگپوری اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔(مفتی صاحب ایک ماہ سے وجے واڑہ میں ہی اپنے چہیتے مرید و خلیفہ سلیم بھائی کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے)
انتقال کی خبر تھی کہ صور اسرافیل کی آواز۔طبیعت اچاٹ ہوگئی،بھوک اڑ گئی، پلیٹ میں رکھا کھانا پھیکا ہوگیا۔فوراً مفتی صاحب کے چھوٹے صاحبزادے مصطفیٰ رضا کو کال لگایا۔وہ پہلے سے ہی اشکبار تھے میری آواز سن کر اشک کے بند ٹوٹ گئے صرف اتنا کہہ سکے '' ہاں ابو اب اس دنیا میں نہیں رہے'' 
اب تک اشک کے در بند تھے ان کی آواز نے میرے پیمانہ اشک کو چھلکا دیا، دل کی کیفیت بدل گئی۔مفتی صاحب کا سراپا نظروں میں گھوم گیا، وہ ہنستا مسکراتا چہرہ، کشادہ پیشانی، بھرے بھرے گال، چہرے پر خوبصورت سفید داڑھی، نورانی چہرہ، بزرگانہ وقار، سر پر دو پلی ٹوپی یا عمامہ یا برکاتی ٹوپی،ڈیل ڈول والا جسم، مسکراہٹ ایسی فدا ہونے کو جی چاہے، انداز تخاطب سے دل کو جیت لینے والا انداز، ملنے والوں سے اپنائیت ایسی کہ ہر کوئی خود کو قریبی سمجھے۔
مفتی صاحب صف اول کے عالم دین تھے، پارسائی ان کی زینت، تقوی وطہارت ان کی شناخت، دعوت دین ان کا کار میدان،رشد و ہدایت ان کی پہچان،تعلیم و تدریس ان کا زیور،تقریر و خطابت ان کی شان،باتیں ایسی کہ لبوں سے پھول جھڑتے،چہرے کی نورانیت ان کے حق و صداقت کی گواہی دے،مفتی اعظم ہند کی دعاؤں کا ثمرہ تھے۔حضرت قطب مدینہ علامہ ضیاء الدین مدنی کے خوابوں کی تعبیر تھے۔
مفتی صاحب لفظاً نہیں حقیقتاً یاد گار سلف تھے، ان کے رکھ رکھاؤ سے بزرگوں کی یاد تازہ ہوجاتی، ایک بار ملنے والا دوبارہ ملنے کو ترسے، خوردہ نوازی ان کا خاصہ تھا، چھوٹوں پہ شفقت کا ہاتھ دراز رکھتے، الجھنا الجھ کر دوسروں کی پگڑی اچھالنا ان کی طبیعت میں ہی نہیں تھا، اگر کوئی غلط فہمی میں اختلاف رکھتا اور کوئی ان کے سامنے برائی بیان کرے تو فوراً روک دیتے کہ وہ ہمارے ہیں، اختلاف علم سے ہوتا ہے ذات سے نہیں۔
موت سے کس کو رستگاری ہے، موت تو آکر رہے گی، قانون قدرت کے سامنے ذی جان سر خمیدہ ہے۔بس ہوتا یہ ہے کہ کسی کی موت ”موت العالم موت العالم“ ثابت ہوتی ہے، سننے والا اشکبار آنکھوں سے راہی عدم کو رخصت کرتاہے۔
مفتی عبد الحلیم رضوی اشرفی یاد گار سلف اور نمونہ خلف تھے۔ان کی روشن پیشانی ان کے عظمت و شان کی خبر دیتی تھی۔ان کی زندگی بالکل اس مصرع کے موافق تھی:کچھ ایسا کرجاؤ یاں کہ ہمیشہ رہو یاد
وہ دنیا میں رہے ضرورت بن کر رہے، کام کے آدمی تھے کام کرتے کرتے رخصت ہوئے، دین کا درد کیا ہوتا ہے، دینی خدمات کسے کہتے ہیں، دین کے لئے کیا قربانی دی جاسکتی ہے، وہ اپنے وقت میں عملی ثبوت پیش کر گئے۔حالات شناس حالات کو دیکھ کر کام کرتا ہے یہی خوبی اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔حالات کا رونا نہیں روتے بلکہ حالات موافق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
1958 میں دارالعلوم منظر اسلام سے سند ودستار فضیلت سے نوازے گئے، 2/ اسی مدرسہ میں معلم رہے۔1960 تا 1966 مدرسہ نعیمیہ چھپرہ میں تدریسی خدمات انجام دی۔1966 میں ہی پاسبان ملت علامہ مشتاق احمد نظامی کے ایماء پر بحیثیت نائب مفتی وسطی ہند کے معروف شہر ناگپور میں مفتی عبد الرشید فتحپوری کے قائم کردہ ادارہ جامعہ عربیہ اسلامیہ آگئے۔1975 تک تدریسی، خدمات انجام دی، ساتھ ہی کار افتاء بھی سنبھالے رہے، مدرسہ سے دو کلو میٹر کی دوری پر محلہ بنگالی پنجہ کی چھوٹی مسجد میں امامت بھی سنبھال لی۔

1975 میں جامعہ عربیہ کی تدریسی خدمات سے سبکدوش ہوگئے، اپنی مسجد میں ایک نائب رکھ لیا، اور تبلیغی خدمات پر نکل گئے، ہفتہ پندرہ دن کبھی مہینہ مہینہ سفر میں رہے، یہ سفر ان دیہات و قصبات کی طرف کیا جہاں پہنچنے کے لئے کوئی راستہ تک نہ تھا۔کبھی اکیلے کبھی دو چار لوگوں کو ساتھ لے کسی گاؤں میں پہنچے، اپنی دری، کرسی اور ضروری چیزیں لے کر پہنچے، ساتھیوں نے خود ہی دری شطرنجی بچھائی، گاؤں والوں کو جمع کیا مغرب سے عشاء تک پروگرام کیا، پھر رات کے کسی حصے میں ناگپور آگئے۔ناگپور کے قرب وجوار کا شاید ہی کوئی گاؤں ہوگا جہاں اس زمانے میں نہ گئے ہوں۔پھر مدھیہ پردیش جو اب چھتیس گڑھ کہلاتا ہے، اڑیسہ کے باڈر کا علاقہ عمر کوٹ،ٹٹلا گڑھ، کانٹا بھاجی، راور کیلا، بھدرک، جارج پور، سنبھل پور، بلاس پور کانکیر، دھمتری اور اس سے جڑے دوسرے شہروں تک آنے لگے یہ سفر ایک دو دن کا نہیں بلکہ مہینہ پندرہ دن کا ہوتا، کانٹا بھاجی اور روار کیلا میں ٹھہرتے پھر جہاں جانا ہوتا یہیں سے رخت سفر باندھتے۔
مہاراشٹر اور گجرات کے بارڈر کا علاقہ بھی آپ کے تبلیغی کاموں پر گواہ ہے۔اس علاقہ میں دینی خدمات کے لئے دھولیہ ضلع کے ڈونڈائچہ کو ہیڈ کوارٹر بنایا، جو لوگ بڑی عمر کے ہیں وہ مفتی صاحب کی محنت وکاوش اور جد وجہد اور دینی خدمات کی گواہی دیں گے۔
اندھرا پردیش کا علاقہ کو اندھرا اور رائل سیما پر مشتمل ہے یہ علاقہ آپ کی دینی خدمات کی گن گاتی نظر آتی ہے۔اس علاقہ کو کور کرنے کے لئے وجے واڑہ شہر کو ہیڈ کوارٹر بنایا۔اسی شہر میں رکتے اور پھر جس گاؤں دیہات و قصبات یا کسی شہر میں جانا ہوتا تو یہاں کے احباب کے ساتھ جاتے۔
اندھرا پردیش کا یہ علاقہ دینی اعتبار سے بالکل اندھیرے میں تھا مسلم و غیر مسلم کی تمیز بہت مشکل سے ملتی تھی۔اس اندھیر نگری میں جاکر شمع اسلام کو فروزاں کیا، مسلک اہل سنت و جماعت کے فروغ پر پوری تندہی سے کام کیا۔اس علاقے پر جتنی توجہ دی لوگ بھی اتنے ہی گرویدہ ہوئے بعض گاؤں ایسا بھی ہے جہاں کے تمام لوگ آپ کے دست حق پرست پر بیعت کرکے داخل سلسلہ ہوئے۔اتفاق دیکھیے پانچ چھ سالوں سے ٹھنڈی کا موسم وجے واڑہ میں گزارا کرتے تھے۔اور آخری سفر پر روانہ ہوئے تو اسی شہر سے دنیا کو الوادع کہا
اپنے آبائی وطن ددری ضلع سیتامڑھی بہار میں علامہ مشتاق احمد نظامی کے مشورے پر دارالعلوم فیض الرضا کی بنیاد رکھی۔یہ ادارہ دیکھتے ہی دیکھتے علاقہ کا نامور ادارہ بن کرابھر ا۔ طلبہ کی کثرت کو دیکھتے ہوئے جامعہ ضیائیہ فیض الرضا کی بنیاد 1995 میں رکھی۔فی الحال اس ادارہ میں ۰۵۲/ طلبا کے قیام و طعام کا شاندار مرکز بناہواہے۔یہ ادارہ شمالی بہار کا معروف ادارہ ہے جس کاشہرہ سن کر دور دور کے تشنگان علوم یہاں آتے ہیں۔ ۰۱۰۲ء میں مسجد برکات رضا کی بنیاد مدرسہ کے جنوبی حصہ میں زمین لے کر رکھی گئی۔۴۱۰۲ء سے باضابطہ نماز ہورہی ہے۔ 
خدمت دین ان کا مطمح نظر تھا۔جس نہج سے دین و سنیت کا کام ہوسکتاہے وہ کرنے کو تیار تھے۔ اہل سنت وجماعت کی کوئی باضابطہ تبلیغی تحریک نہیں تھی۔ بیسویں صدی کے ۰۸/ کی دہائی میں دعوت اسلامی قائم ہوئی۔بھارت میں ۰۹/ وے کی دہائی میں آئی تو آپ نے سب سے زیادہ اس کو مضبوط و مستحکم کرنے میں کوشاں رہے۔ بقول امیر دعوت اسلامی مولاناالیاس عطار قادری”مفتی صاحب نے بڑے سخت اور آزمائشی وقت میں ساتھ دیاان سے بڑھ کر ہمارے پاس کوئی عالم نہیں تھابلکہ سچ یہ ہے کہ وہ ساتھ نہ دیتے تو ممکن تھا کہ ہند سے دعوت اسلامی ختم ہوجاتی“
گلبرگہ سے مفتی صاحب کے تعلقات:بارگاہ بندہ نواز کے سابق سجادہ نشین محمد حسینی صاحب سے اچھے تعلقات رہے۔کئی مرتبہ ان سے گفت و شنید بھی رہی۔دوسری مرتبہ دعوت اسلامی کی مکتبہ المدینہ کے افتتاحی پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ ابھی چند سال پیشتر بھی ایم ایس کے ملز اور بلند پرواز کالونی میں آپ کا پروگرام ہواتھا جہاں کثیر تعداد میں لوگوں کی شرکت کی تھی اور برکات حاصل کیے تھے۔گلبرگہ سے جبھی بھی گزرے اگر قیام ہے تو بارگاہ بندہ نواز میں ضرور حاضر ہوتے،اگر اسٹیشن سے گزر رہے ہیں تو احباب کو خبر کردیتے ملنے والے اسٹیشن پر ملاقات کرلیتے۔
آخری سفر پر روانہ:۔آندھراپردیش کے وجے واڑہ شہر میں ان کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد ہے۔یہاں جبھی آئے الحاج سلیم بھائی کے یہاں قیام فرمایاکرتے۔ایک ماہ سے یہیں مقیم تھے۔درمیان میں طبیعت خراب ہوئی علاج ہوا اچھے ہوگئے۔۱۱/ رمضان المبارک ۴۲/ اپریل کو طبیعت بگڑی اور بگڑتی چلی گئی۔پھر یادگار اسلاف نمونہ اخلاف ۰۴:۹ / بجے شب آخری سانس لی اور داعی اجل کو لبیک کہا۔اناللہ وانا الیہ راجعون
موت اس کی ہے کرے زمانہ جس کا افسو س 
یوں تو دنیامیں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

مولائے غفار و ستار ان کے درجات بلند فرمائے،ان کے دینی خدمات کو قبول فرمائے، باغ فردوس کامکین بنائے،ان کے پسماندگان کو صبر جمیل و اجر جزیل عطا فرمائے۔ہندوستان میں پھیلے ہوئے ان کے کاموں کو باقی رکھنے اور ترقی دینے کا شوق و جذبہ عطا فرمائے۔ان کے سجادہ نشین مفتی یحییٰ رضامصباحی و دیگر بررادران،مریدین و متوسلین و معتقدین کو صبر و شکیب کے گوہر سے بامراد کرے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی