ایک مجبور کی لاش

 ایک نوجوان کی خودکشی


8/ فروری کو رات ساڑھے آٹھ بجے ہماری ٹرین سکندر آباد اسٹیشن پر پلیٹ فارم نمبر 2/ پر لگی۔چونکہ اگلی گاڑی کو وقت تھا لہذا وہیں چادر بچھا کر بیٹھ گئے کھان پان سے فارغ ہوئے تو گھڑی ساڑھے نو بجا رہی تھی۔پلیٹ فارم نمبر 2/ پر ہی مال گاڑی آرہی تھی۔قریب آئی تو ہارن بجائی۔اچانک ایک نوجوان پلیٹ فارم نمبر تین کی طرف سے دوڑتا ہوا آیا اور انجن کے سامنے چھلانگ لگا دیا۔پہلے تو لگا شاید دوسری طرف جانا ہوگا اس لیے تیزی سے گیا لیکن سوچ غلط تھی۔زندگی سے عاجز نوجوان سانسوں سے رشتہ منقطع کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔لوگ چلتی گاڑی کے نیچے جھک جھک کر دیکھنے کی کوشش کرتے رہے کہ کیا ہوا؟ زندگی بچی یا سانسوں کی ڈور ٹوٹ چکی !!!!!!

مال گاڑی دس منٹ کے بعد آگے بڑھی تو لوگ آگے بڑھے۔ سر دھڑ سے جدا ہوکر ایک طرف لڑھکا ہوا تھا۔

اخبارات اور نیوز چینلوں پر ایسے واقعات روزانہ دیکھنے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اتنے قریب سے خودکشی کے واقعہ کو دیکھنے کا پہلی مرتبہ موقع ملا تھا۔۔۔ کسی چیز کے بارے میں سننے پڑھنے کا الگ اثر ہوتا ہے۔سامنے وہی واقعہ پیش آجائے تو اس کا اثر جداگانہ ہوتا ہے۔

آخر نوجوان طبقہ اپنی زندگی سے عاجز کیوں ہے؟ حالات کی ایسی کونسی ڈور ہے جسے اپنے حق میں استعمال کے بجائے گلے کا پھندہ بنا لیتا ہے؟ حالات کی کونسی مجبوری ایسی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے؟

خودکشی کرنے والا آسانی سے اس کا ارتکاب نہیں کرتا بلکہ وہ شدید تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق ڈپریشن کے ہر 16مریضوں میں سے ایک فرد خودکشی کرتا ہے۔ خودکشی کرنے والے 90 فیصد لوگوں میں ذہنی صحت کے ایشوز ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 30کروڑ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہے۔ عالمی سروے کے مطابق ہر چوتھا شخص اور ہر دسواں بچہ ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہے۔

زیادہ تر ذہنی امراض لڑکپن میں شروع ہوتے ہیں اور ان کی تشخص نہیں ہوتی اور نہ ہی علاج ہوتاہے کیونکہ آگاہی نہ ہونے کے سبب والدین اور اساتذہ ان امراض کی علامات کو پہچان نہیں سکتے۔ 25-18  سال کی عمر والوں میں خودکشیوں میں خطرناک حدتک اضافہ ہورہا ہے ۔اعصابی تناؤ ختم کرنے اور سکون آورادویات کا استعمال بھی خود کشی کا سبب ہوتا ہے۔

10 سے20 سال کی عمر کے نوجوانوں میں گھبراہٹ ، خوف ، مایوسی، ڈپریشن، منشیات کی لت، غصہ ، تشدد ، عد م برداشت ، فحاشی اور جنسی بے راہ روی، مشاغل کا نہ ہونا، کیئریر کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال اور ان جیسے حالات میں ذہنی ونفسیاتی امراض تیز ی سے بڑھ رہے ہیں ۔

موجودہ حالات میں نوجوان طبقہ ذمہ داریوں میں دبا ہوا ہے۔بہت سے نوجوان وہ ہیں جو پردیس میں روزی کے حصول کے لیے گئے تنہائی کی زندگی نے اسے ڈپریشن کا شکار بنادیا۔گھر والوں کے مطالبات بھی اس کی وجہ بنتی ہیں۔مسابقتی دوڑ میں پیچھے رہ جانے پر بھی بعض نوجوان ہمت ہار جاتے ہیں۔خودکشی کے بہت سے اسباب ماہرین نے بیان کیے ہیں ۔خودکشی کرنے والا شخص ضرور کسی نہ کسی وجہ کا شکار ہوتا ہے۔

یہ تو سبھی کو معلوم ہے زندگی کسی کو ایک ہی بار ملتی ہے ۔حوصلہ مند لوگ ہر مشکل حالات میں جی جاتے ہیں پست حوصلہ اور زندگی سے بیزار لوگ زندگی کے خاتمہ کو ہی مشکلات کا حل سمجھتے ہیں۔اس وقت کسی کی لاش ندی نالے، بلند و بالا عمارت کے نیچے، ٹرین بس وغیرہ کے نیچے دبی کچلی اور غیر شناختہ صورت میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

بارہ بجے کے بعد اگلے منزل کی گاڑی اسی پلیٹ فارم سے روانہ ہوئی تب تک اس بدنصیب کا سر دھڑ بے گور وکفن انتظامیہ کے انتظار میں پڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی