ہمدردی کے ہر راہ پر لٹیروں کا قبضہ

 ہمدردی کے ہر راہ پر لٹیروں کا قبضہ

از قلم : محمد افروز رضا مصباحی


کل دوپہر میں اپنے گھر لوٹ رہا تھا تو ایک وہیل چیئر کو ڈھکیلتے ہوئے بچے کو دیکھا جو ایک معمر شخص کو بٹھائے وہیل چیر ڈھکیل رہا تھا ۔گزرنے والا ایک شخص گاڑی روک بیس کا نوٹ بڑے پیار سے بچے کو تھمایا اور آگے بڑھ گیا۔بچے کا مائک پھر ایک بار گونجنے لگا" بھائیو اور بہنو! جو شخص وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا ہے نہایت مجبور ہے چل پھر نہیں سکتا خود سے کھڑا نہیں ہوسکتا آپ اپنے گھروں سے نکل کر دیکھو یہ کتنا مجبور و لاچار ہے ایسے کو دینا ثواب کا کام ہے۔

ابھی ایک دوست نے ایک ویڈیوکلپ اس کمنٹ کے ساتھ شیئر کیا ہے۔

پہلی 3 وہیل چیئرز  ایک ای رکشے میں آتے ہے۔  پھر 3 مختلف وہیل چیرز ۔  رکشے سے اتر کر 3 آدمی وہیل چیئر پر بیٹھ گئے، کسی کے سر پر ٹوپی نہیں ہے، پھر ایک ایک کرکے سفید ٹوپیاں پہنائی جاتی ہیں، خواتین برقعے میں نہیں ہیں، پھر بیگ سے برقع نکالتی ہیں۔ایک لڑکی کو اپنا منگل سوتر چھپاتے دیکھا جا سکتا ہے۔  تمام چالوں کے بعد ادائیگی رکشہ ڈرائیور کو۔ اور پھر سب اپنے اپنے طریقے سے آپ کو اور ہمیں دھوکہ دیتے ہیں۔  ذرا سوچئے، کیا آپ کی زکوٰۃ ضرورت مندوں تک پہنچ رہی ہے؟

 ثواب کی تلاش میں ہم معاشرے کو بھکاری بنا رہے ہیں۔

...........................................................

آپ شہر میں ہوں یا دیہات و قصبات میں آپ کو بھکاری  گروپ کی شکل میں یا تنہا  اپنے اپنے انداز میں بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ رمضان کے مہینے میں بارش کے بوندوں کی مانند ان کا نزول ہوتا ہے۔ہر گھر پر کسی بھکاری کو دستک دیتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔

بھیک مانگنا پہلے مجبوری تھی اب پیشہ بن چکا ہے۔کام چوروں نے بھیک مانگنے کو پیشہ بنا لیا۔باضابطہ ان کا منظم گروہ ہوتا ہے۔شہر میں کسی جگہ مقیم ہوتے ہیں ۔صبح کی پو پٹھتے ہی ہر گھر پر دستک دینے نکل پڑتے ہیں۔ بھکاریوں کی ادا کاری بھی لاجواب ہوتی ہے۔کوئی کس طریقے سے متاثر ہوکر سکہ دینے کو تیار ہوسکتا ہے وہ طریقہ بھکاریوں کے پاس موجود ہے۔بھکاریوں کا گروہ اس بات پر غور کرتا ہے کہ لوگ کیسے مجبور و اپاہج اور بے بیکس و ناتواں کو بھیک دینے میں عجلت کرتے ہیں پانچ کی جگہ دس، دس کی جگہ بیس دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ لہذا گنگا، بہرا، ہاتھ کٹا ، پیر کٹا،پولیو زدہ، یتیم، بیوہ، مسکین، فقر و فاقہ کا مارا، گرد و غبار میں اَٹے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں، عورتيں چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھائے،مفلسی کی عملی تصویر بنی سوالی بن جاتی ہے۔ ہاتھ میں دوائی کی چٹھی، بہن بیٹی کے شادی کا کارڈ لیے صحت مند عورتيں نوجوان بچیاں برقع پہنےنظر آئیں گی۔ رمضان مہینے میں کسی مسجد کا دروازہ دو چار منگتوں کے بغیر نظر نہیں آئے گا۔

ہمدردی اور مروت کے ہر موڑ پر کوئی منگتا اسی بھیس میں موجود ہے جس پر آپ ترس کھا کر دس بیس اس کی جھولی میں ڈالدیں ۔

بعض کو نہ ملے تو بد دعا دینے میں بھی تاخیر نہیں کرتے۔ اس ڈر سے بھی بعض لوگ کچھ نہ کچھ دے کے رخصت کردیتے ہیں۔

شہر کے بعض حصے میں ایسے بھی منگتے نظر آئے  مولویانہ رنگ و روپ میں ہے بیوی چھوٹے بچے کو اٹھائے ہر راہ گیر کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے۔ کوئی خاص مجبوری ہو، دوسرے شہر کا ہو ٹکٹ کے پیسے کی ضرورت ہو تو ایسے صوفی منش بھکاری کو لوگ چہرے کی معصوميت دیکھ کر تعاون کردیتے ہیں لیکن مسلسل اسی طرح الگ الگ گلیوں مانگتے نظر آنا یہ بتاتا ہے کہ یہ گداگری کی ترقی یافتہ صورت حال ہے۔

ضرورت مندووکو دینا برا نہیں لیکن معاشرے میں  بھکاریوں کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے مسلم قوم کا ایک بڑا طبقہ بھکاریوں کے رستے پر چل چکا ہے۔

گلبرگہ اسٹیشن پر باضابطہ "بیساکھی منگتا گروہ " کو دیکھا جس میں ہر عمر کے مرد و عورت اور کمسن بچیاں شامل تھیں ۔بیساکھی کے بھروسے چلنے والے سیڑھی پر پہنچ کر نارمل چلنے لگے،پل پر باضابطہ دوڑنے جیسے کیفیت تھی لیکن باہر پہنچتے ہی سبھی اپاہج ہوگئے۔

مسلم منگتوں کی دیکھا دیکھی غیر مسلم مرد وعورت بھی مسلم لبادے میں در در دستک دے کر اللہ کے نام پر یا خیرات دو جی " کی آواز لگا کر زکوة و صدقات پر ڈاکہ ڈالنے میں سرگرم ہیں۔

یہ منظم لٹیرے ہیں جو مسلم آبادی میں آکر زکوة وصول کرنے میں لگے ہیں۔ کتنی ہی ویڈیوکلپ سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں جس میں نقاب پوش عورت یا تو غیر مسلم عورت نکلی یا نوجوان غیر مسلم نکلا۔۔۔۔۔

مجھے لگتا ہے مسلم چہرہ رکھنے والے بھی سال کے گیارہ مہینے محنت و مزدوری یا چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں لیکن رمضان کے مہینے میں زکوة و صدقات کی وصولی پر نکل پڑتے ہیں یہ سوچ کر کہ کام دھندہ کرنے میں جتنی محنت کے بعد روپے پیسے ہاتھ آئیں گے شہر بہ شہر، دیہات و قصبات گھوم پھر کر مانگنے میں اس سے کہیں زیادہ کما لیں گے۔

فی زمانہ دین کی باتیں کتابوں تک سمٹ کر رہ گئی۔ حلال و حرام، جائز و ناجائز کا یا تو مفہوم بدل دیا ہے یا خود کو ضرورت مندوں میں شامل کرکے ہر طرح کے رقومات کو جائز ٹھہرا لیا ہے۔

قیامت کی جواب دہی بھول گئے، غیر ضروری زکوة و صدقات کی رقم ہڑپ کرنے والے کی اولاد پر کیا اثر مرتب ہوگا، اسے پس پشت ڈال دیا۔پیسہ ہو چاہے جیسا ہو۔

بھکاریوں کی بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون حاجت مند ہے اور کون پیشہ ور۔ ہر ایک کا ہمدارانہ چہرہ ہے، چہرےکی یاسیت،جسم کی ناتوانی، الفاظ کے بول ہر ایک کو بھکاری ثابت کر رہا ہوتا ہے۔ایسے چہرے والے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

مصارف زکوة کو قرآن کریم نے باضابطہ بیان کر دیا ہے۔ علماء کرام اپنی تقریر میں بیان کرتے رہتے ہیں، رمضان المبارک میں اس پر زیادہ ہی زور دیا جاتا ہے۔اور فی زمانہ کسے کس طریقے سے زکوة ادا کرسکتے ہیں،اسے بھی تفصیلاً بیان کرتے ہیں۔

 مدارس اسلامیہ پر جب برا وقت آیا شاہان وقت نے مدارس میں پڑھنے والوں کی کفالت سے ہاتھ روک لیا۔یا اسلامی سلطنت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ مدارس اسلامیہ کے بقا اور دین اسلام کی تعلیم و تعلم خطرے میں پڑ گئے توحیلہ شرعی کے ذریعے مدارس اسلامیہ میں زکوة و صدقات کے استعمال کی علماء اسلام نے اجازت دی ۔ یہ ان علماء ذی وقار کی دور اندیشی اور چشم بینائی کا کمال تھا کہ بعد کے ادوار کو قبل از وقت دیکھ لیا اور مدارس کے بقاء و دوام کے لیے زکوة و صدقات کو بعد حیلہ شرعی اجازت دی۔ جس کی وجہ سے دینی تعلیم کو استحکام اور قوم کی دینی و شرعی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وارثین انبیاء کی فوج کو تیار کرنے کا موقع ملا۔ عیاں رہے کہ مدارس اسلامیہ کو بھی جو اجازت حاصل ہے وہ حدود و قیود کے ساتھ، اجازت میں شتر بے مہار نہیں کیا گیا کہ جہاں چاہیں جیسے چاہیں جس جگہ چاہیں خرچ کریں بلکہ جہاں دینی ضرورت ہو وہیں استعمال کریں ۔جس مصرف کے لیے لیا یا دیا گیا ہے مصرف میں ہی خرچ کریں ۔۔

مدارس اسلامیہ اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے سفراء کو زکوة و صدقات و عطیات کی وصولی کے لیے رکھتے ہیں،  علماء اپنی خود داری اور شان و عظمت کو ایک طرف رکھتے ہوئے دین کی خدمت کی خاطر چندہ وصولی کو نکلے تاکہ تعلیمی سال کے اخراجات کی تکمیل ہوسکے۔۔۔

یہ راہ بھی عیاروں کی عیاری سے محفوظ نہ رہا۔دولت دنیا دیکھ کر ان کی بھی رال ٹپکنے لگی جو سرے سے مدارس سے تعلق ہی نہیں رکھتے یا رکھتے تو ہیں لیکن وصولی ذاتی مصرف کے لیے کرتے ہیں۔

اب سفراء اتنی کثرت سے ہر جگہ وارد ہونے لگے گویا چندہ وصولی ہی ہر ایک کا مطمح نظر ہے ۔سفراء کی کثرت کو دیکھتے ہوئے " چندہ براے دھندہ" جیسے جملے گڑھے گئے اب جو نظر آجائے خواہ وہ کسی دارالعلوم یاجامعہ کا مہتمم یا صدر مدرس ہی کیوں نہ ہو، یہ جملہ ضرور سننے کو ملتا۔

اس کی وجہ جعلی سفیروں کی بہتات، ہر دکان پر کوئی سفیر اپنے مدرسے کی درد بھری کہانی سنانے کو موجود ،بہت سے سفراء رمضان جیسے مہینے کی ناقدری کرتے ہوئے پورے دن چندہ جمع کرنے میں مشغول دیکھے گئے جس کی وجہ سے یہ حیلہ شرعی والا" راستہ " بھی لوگوں کی نگاہ مشکوک ٹھہرا۔

زکوة کے رقوم کو دیکھ کر دنیوی پڑھے لکھے لوگوں کے منہ میں بھی پانی آنے لگا۔ مدارس اسلامیہ کے کردار،زکوة و صدقات پر قبضہ اور جدید علوم سے بے بہرہ ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے اس طبقہ نے  ٹرسٹ بنایا،فاونڈیشن قائم کیا، جدید تعلیم کا خوشنما بورڈ لگا کر قوم کے بچوں کو اعلی تعلیم سکھانے کے نام پر زکوة صدقات خیرات اور عطیات وصولنے لگا۔یہ لوگ زکوة کی وصولی کے بعد بھی پروفیشنل طریقے سے ایڈمیشن فیس اور دیگر فیسز لے کر ہی انسٹیوٹ چلارہے ہیں۔ یہ بھی کاروبار کا بہترین ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اپنے طریقہ وصولی زکوة کو " قوم کی فلاح و بہبود" کا نام دیتے ہیں۔ مدارس کو غاصب اور حق  مارنے والا۔

اسلام میں بیت المال کا تصور ہے۔اگر اسی طریقے سے چلایا جائے تو پوری قوم کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اسلامی نظام قانون نہ ہونے کی وجہ سے یہ طریقہ  بندر بانٹ کے نذر ہوگیا۔جو کوئی کام کرنا چاہے اسے سب سے پہلے زکوة و صدقات کی رقم چاہیے، وہ دوسرے ذرائع سے پیسے جمع کرسکتے ہیں لیکن سب سے آسان راستہ تقریباً قوم کے بہی خواہوں، ہمدردوں ، قوم کی فلاح و بہبود کے غم میں اے سی روم بیٹھ کر کامرانی کا خواب دیکھنے والوں کو صرف زکوة و صدقات ہی نظر آتے ہیں۔

بیت المال بھی اتنے قائم ہوگئے  کہ ہر محلے میں کھلنے والی کرانے کی دکان کا گمان ہونے لگا ہے، جن لوگوں نے قائم کیا وہ واقعی ترقی پر ہیں۔ جن کے نام پر وصولی ہوتی ہے، وہ لوگ اب بھی گلیوں میں مانگتے پھرتے ہیں ۔

ایک اہم بات جو کسی مرد دانا نے گوش گزار کیا تھا"

زکوة و صدقات وصولنے والے دراصل امانت دار ہوتے ہیں۔ امین کا کام یہ ہے کہ جس مصرف کے لیے وصول کیا گیا اسے وہیں لگایا جائے۔ اب اگر کوئی اسے کاروبار میں لگالے،ذاتی کام میں لے لے،خود استعمال کرلے، اپنے گھر خاندان والوں کو کھلائے تو زکوة تو زکوة ہے جسے حدیث میں مال کی ناپاکی کہا گیا ہے، غیر حاجت مند خواہ کتنا ہی قابل احترام کیوں نہ ہو، ناپاکی اندر جاکر دل کو سیاہ، زبان کو خراب اور عادت سلیمہ کو بگاڑ دے گی ۔ آپ کسی کو معظم و محترم جانتے ہوں لیکن ان کے عادت و اطوار شخصیت سے میل نہ کھاتے ہوں تو سمجھ لینا قوم کی امانت کا خائن ہے۔

آخر میں ایک سوال مع جواب پڑھ لیں

سوال :گدا گروں کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہوتی ہے یا نہیں؟

جواب :پیشہ ورگداگر تین قسم کے ہیں، ایک غنی مالدار جیسے اکثر جوگی اور سادھو، انہیں دنیا حرام اور ان کے دئیے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہو سکتی فرض سر پر باقی رہے گا۔ دوسرے وہ کہ واقع میں فقیر ہیں مالکِ نصاب نہیں مگر تندرست ہیں اور مفت کا کھانا کھانے کے عادی ہیں اور اس کے لیے بھیک مانگتے پھرتے ہیں، انہیں بھیک دینا منع ہے کہ گناہ پر اعانت ہے لوگ اگر نہ دیں تو مجبور ہوں کچھ محنت مزدوری کریں مگر ان کے دئیے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی جبکہ کوئی اور مانعِ شرعی نہ ہو کہ فقیر ہیں۔ اور تیسرے وہ عاجز و ناتواں کہ نہ مال رکھتے ہیں نہ کمانے پر قادر ہیں، انہیں بقدرِ حاجت سوال حلال ہے اور اس سے جو کچھ ملے ان کے لیے طیّب ہے یہ عمدہ مصارف زکوٰۃ سے ہیں اور انہیں دینا باعثِ اجر عظیم اور یہی وہ ہیں جنہیں جھڑکنا حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی