عصر حاضر میں صوفیانہ افکار کی اہمیت و ضرورت


عصر حاضر میں صوفیانہ افکار کی اہمیت و ضرورت
از: محمد ا فروز رضا مصباحی
 کے بی این یونیورسٹی ،گلبرگہ

  تصوف نام میں اپنے من میں ڈوب جانے کا،ذات کبریا کی شناخت کا،فکر و خیال کی بالیدگی اور ذات نفس کے ادراک کا۔ اگر اسی جملےکو پھیلایاجائے تو صوفیائے کرام کا اصل منہج نکھر کر سامنے جلوہ گر ہوگا۔انسان دنیا میں کتنا ہی گم کیوںنہ ہوجائے لیکن کبھی اسے یہ خیال ضرور آتاہے کہ دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟رب العالمین نے ہمیں دنیا میں کیوں بھیجا ۔ہماری تخلیق کس وجہ سے ہوئی؟ اگر ان باتوںپر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان غایتوں کا تعلق انسان کے روحانی تجربات اور نفسی کیفیات سےہے اور چونکہ تخلیقی رویہ ذات رب العالمین اور باطن کی جانب انسان کا رجحان اس کی خلقت اور فطرت کے عین مطابق ہےتو اس رجحان اور میلان کا کوئی پہلو خواہ وہ حقیقت و آگہی کی کسی منزل میںہو، فطرت انسانی سے مغائرت نہیں رکھتا بلکہ یہ انسان کے شعور اور ادراک کا مستقل تقاضا ہےکہ وہ اپنے خالق سے قریب ہوجائے اور اپنی ذات کی گہرائیوں سے آشنا ہوجائے۔اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی کوشش کرے ۔اپنے باطن میں سفر کرتے ہوئے اس منزل تک پہنچنے کی کوشش کرے جہاں اس کی روح کو نشاط ابدی اور پیغام سرمدی حاصل ہوسکے۔عربی جملے ’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘ کی عملی تفسیر بن سکے۔
  ’تصوف‘ اصل میں اخلاق کی پاکیزگی ،باطن کی صفائی،آخرت کی فکر،قلب کی طہارت اور دنیاسے بے رغبتی کا نام ہے ۔تصوف بندہ کے دل میں جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت اور رسول اللہ کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتاہے، وہیں تحمل ،برداشت، حسن اخلاق،رواداری اور خدمت خلق کی طرف بھی انسان کو راغب کرتا ہے۔راہ تصوف کو اختیار کرنے والے کو صوفی کہتے ہیں۔ اس کی جمع صوفیا آتی ہے۔
اسلامی معاشرہ میں تصوف روز اول سے مو جود ہے اور ان شا ء اللہ رہتی دنیا تک پوری آب و تاب کے ساتھ مطلع حیات پر جگمگا تا رہے گا۔  سچ تو یہ ہے کہ تصوف اسلام کی خالص ترین اور پاکیزہ ترین تعبیر ہے سچا تصوف انسان کو حقیقت کا راستہ دکھاتا ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے بتائے ہوئے راستے کا علم عطا کرتا ہے۔
  صوفیائے کرام کی افکار کے مطابق انسان ہی حق تعالیٰ کی صفات کا مظہر ،حکمت و دانش، عشق و سرمستی ،نامعلوم کی جستجو اس کی سرشت میں شامل ہے۔ جب خود شناسی و خود آگہی کی منزل انسان طے کر لے تو دست نگر رہنے کی بجائے وہ دستگیری کے بلند مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ معرفت ذات کے ساتھ اسے معرفت خدا بھی حاصل ہو جاتی ہے کل جہاں اس کی دسترس میں ہوجاتے ہیں ۔
   تصوف کے بنیادی مطالب مشرق و مغرب میں کم و بیش یکساں ہیں ۔جن میں اصل ہستی ذات باری تعالیٰ ہے جو سب کا رب ہے جو بے امتیاز کافر و مومن کو رزق دیتا ہے ۔خدا تک پہنچنے کی خواہش تقریبا ہر بندے کی ہوتی ہے لیکن طریقہ کار اور راہیں جداگانہ ہوتی ہیں۔راہ تصوف اختیار کرنے والے صوفیانہ طریقہ و منہج کو اختیار کرتے ہیں۔خدا تک پہنچنے کا صوفیا نہ طریقہ محض قول نہیں بلکہ عملی مظاہر ہ ہے۔ ان کا طریقہ انسان کوشکوک و شبہات کی بھول بھلیوں سے نکال کر ان خطوں میں لے آتا ہے جہاں رحم و شفقت کی کرنیں سب پریکساں پڑتی ہے ۔
  تصوف کے راستہ پر چلنے کی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو پاک و صاف کرے اور شریعت اسلامیہ کا پابند ہو ۔شریعت کو پس پشت ڈال کر کوئی راہ تصوف اختیار کرے تو خطرہ ہے کہ اصل راہ سے بھٹک نہ جائے ۔بقول شیخ سعدی:
ترسم نرسی بہ کعبہ اے اعرابی
کہ ایں رہ کہ تو میروی بترکستان ست
یعنی جہاں کا ارادہ ہو اسی راستے پر چلا جائے ورنہ بے خبری میں اس راہ کا سفر منزل سے بہت دور کردے گا۔
  حدیث جبرئیل میں احسان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھتے ہو تو کم از کم یہ سمجھ لو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: خوب سمجھ لو دین کی بنیاد اور اس کی تکمیل کا انحصار فقہ‘ کلام اور تصوف پر ہے اور اس حدیث میں ان تینوں کا بیان ہوا ہے۔ اسلام سے مراد فقہ ہے کیونکہ اس میں شریعت کے احکام اور اعمال کا بیان ہے اور ایمان سے مراد عقائد ہیں جو علم کلام کے مسائل ہیں اور احسان سے مراد تصوف ہے جو صدق دل سے توجہ الی اللہ سے عبارت ہے۔
حضرات صوفیا جن رذائلِ اخلاق سے اپنے اندر کو پاک کرنے کی تعلیم دیتے ہیں، وہ یہ ہیں :
بد نیتی ،نا شکری، جھوٹ ، وعدہ خلافی ، خیانت ، بددیا نتی ، غیبت وچغلی ، بہتان ، بد گوئی و بدگمانی، خوشامد و چاپلوسی ، بخل و حرص ، ظلم ، فخر ، ریا و نمود اور حرام خوری، و غیرہ ۔
اور جن چیزوں سے اپنے اندر کوسنوارنے کی تعلیم دیتے ہیں، وہ یہ ہیں :
اخلاصِ نیت، ورع و تقویٰ ، دیانت وامانت ، عفت و عصمت ، رحم و کرم ، عدل و انصاف ، عفو و درگزر ، حلم و بردباری ،تواضع و خاکساری ، سخاوت و ایثار ، خوش کلامی وخودداری ، استقامت و استغناء وغیرہ۔

تصوف کی منزلیں ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔ مجاہدے کی بھٹی میں تپنا ،دنیو آلائشوں سے کنارہ کش رہنا، محض رضائے مولا کے لیے عبادت و ریاضت کرنا،اوامر پر عمل اور نواہی سے پرہیز کرنا ہوتا ہے۔بقول شخصے:تصوف ایسی دشوار گزار ہیں کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ایک ہادی و رہبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ جس کو پیر و مرشد کہتے ہیں ۔اصطلاح صوفیاء میں جب انسان کا دل پاک و صاف ہو جاتا ہے تو وہ مختلف منزلوں سے گزرنے کے بعد وجد اور استغراق کے مرحلوں سے گزر کر ذات الہٰی کا قرب حاصل کر لیتا ہے۔ یہ بڑا بلند مقام ہے اور اسے فنافی اللہ کہتے ہیں۔یہ بلند مقام و مرتبہ مل جائے صحیح معنوں میں وہی ہاد ی بننے کے قابل اور سزاوار ہے۔ تصوف کے نام پر محض رنگ برنگے لباس زیب تن کرنا تصوف نہیں ہے۔ یہ وہ مقام ہے جسے اہل اللہ عبادت و ریاضت اور نوافل کی کثرت کی وجہ سے حاصل کرتے ہیں اور اللہ انہیں لوگوں کا ہادی بنا دیتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صوفیاء کرام نے اپنے عمل و کردار سے لوگوں کے سینوں میں حرارت بخشی اور غافل انسانوں کو ایک خدا، ایک رسول، ایک قرآن اور ایک کعبہ کی طرف بلایا ۔انہیں اخوت و محبت کا درس عام دیا اور خود شناسی کو خدا شناسی کا بہترین ذریعہ قرار دیا ۔لیکن عصر حاضر میں قوم کا جو حال ہے اسے ایک شاعر نے چار مصرعے میں اس طرف اشارہ کیا ہے:
محبت میں جنوں باقی نہیں ہے  
مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے
صفیں کج،دل پریشاں، سجدے بے ذوق  
 کہ جذبِ اندوں باقی نہیں ہے
  آج مسلم معاشرے کی حالت بگڑ چکی ہے ۔برائیاں عروج پر ہیں۔ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی ہے۔ صبر و شکیب، تحمل و بردباری رخصت پذیر ہے۔ہر گناہ بغیر کسی روک ٹوک کے کیے جارہے ہیں۔بلکہ یوںکہا جائے کہ برائیاں اب برائیاں نہیں سمجھی جارہی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ایک دوسرے کے حقوق کو غصب کرنا فیشن سا ہوگیا ہے ۔دلوں پر گناہوں کی سیاہی پھیلی ہوئی ہے۔ایسے ماحول کو پھر دینی ماحول میں بدلنا ایک چیلنج سے کم نہیں لیکن ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنا شیوہ عقلاء نہیں ہے۔ہمیں اس طرف قدم بڑھاناہے اور صوفیا کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے مسلم معاشرے کی از سر نو تشکیل کرنی ہے۔
  صوفیاے کرام کا طریقہ رہا کہ لوگوں کو اللہ کی یاد میں مشغول رکھنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے،مستند کتابوں کا درس دیتے۔فکری بالیدگی کے لیے ذکر حق کا ضرب لگواتے جس سے دلوں کی کثافت دھل جاتی اور قلب انساں نور خداوندی سے روشنی پاتا۔عصر حاضر حقیقی تصوف کو زندہ کرنے کی ضرورت ہےتاکہ ہر قلب پریشاں یاد خداوندی کو وظیفہ بنالیں اور ہر چیز سے بیگانہ ہوکر اسی کی لذت و حلاوت میں ڈوب جائیں۔ آج روحِ مضراب کے تاروں کو ہلانے کی ضرورت ہے۔ جب تک ان تاروں کو چھیڑ کر الوہی ذکر کے نغمے نہیں سنائے جائیں گے اور اللہ کی ضربیں دل پر پیہم نہ لگائی جائیں گی اس زنگ کا دور ہونا ممکن نہیں۔مضراب دل کو چھیڑنے کے لیے صوفیانہ طریقہ احسن طریقہ ہے۔محبت و الفت ، نرمی و خوش اسلوبی ، خوش گفتاری و سنجیدگی جیسے صفات سے دلوں کی دنیا کو بدلاجاسکتاہے۔ذکر خداوندی و اسوہ رسول کو اس پیکر میں پیش کیا جائے جو قلوب و اذہان میں اتر جائے ۔سینوں میں عشق کی ایسی آگ بھڑکادی جائے جو اس حد تک سوز پیدا کردے کہ اس کے بغیر ایسی کیفیت ہوجائے جس طرح پانی کے بغیر مچھلی کی ہوتی ہے۔
   تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ ہمارے صوفیااورعلمانے جہاں جہاں بھی اسلام کے چراغ روشن کیے انہی خصوصیات کی بنیادپرکیے۔ وہ ہمیشہ انسانوں کو خداے تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکاتے اور نبی کریم ﷺ کاسچاعاشق بناتے تھے۔ یہی کام ان کی حیات کاکل اثاثہ ہوتاتھا اوراسی اثاثے کووہ سفر آخرت میں زادراہ کے طورپرلے گئے اورمنزل مقصود تک پہنچنے میںکامیاب وکامران ہوگئے۔ ان علماو صوفیا کا مقصد صرف اورصرف ایک تھایعنی عوام کی اصلاح اوراسلامی تعلیمات کافروغ واستحکام لیکن جب سے اس نقطہ نظرکاقبلہ تبدیل ہواتونتائج بھی بدل گئے ۔
  موجودہ دور میں مسلم نوجوان نسل کو بگاڑنے اور اس کو احکام شرع سے الگ کرنے کا عمل نہایت سنجیدگی اور منصوبہ بند طریقے سے جاری ہے۔ اس کام میں عالمی طاقتوں کا باہمی تعاون نہایت منظم طریقے سے کار فرما ہے، اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لئے ہرطرح کے وسائل کا استعمال کیا جارہا ہے۔جدید ٹیکنالوجی کو قوم مسلم کے دل سے حمیت و غیرت کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اسی طرح مختلف قسم کے کھیلوں کو مسلم معاشرہ میں رواج دینے کی بھرپور کوششیں ہورہی ہیں، اس کے ذریعہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اپنے روشن مستقبل کی تعمیر سے غافل کرکے زندگی کو مادہ پرستی اور بے حیائی کے سیلاب میں غرق کرنے کا عمل ہر سطح پر پوری تیزرفتاری کے ساتھ جاری ہے، مسلم عورتوں کے ذہن میں پردہ کی اہمیت نہ صرف ختم کی جارہی ہے، بلکہ ان کو آزادانہ طور پر مخلوط ماحول میں زندگی گزارنے کی ترغیب دی جارہی ہے، اور گھروں کے ’’جیل خانوں‘‘ سے آزاد ہونے کے لئے ان کو مختلف ذرائع سے تیار کیا جارہا ہے۔

ایسے ماحول میں اصلاح و تربیت کا کام بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن ایسے پُر خطر اور دشوار گزار حالات میں اہل صلاح و تقویٰ اپنا فرض منصبی بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرسکتے ہیں ۔تاریخ ابواب ایسی آزمائشی واقعات کو دامن میں جگہ دیے ہوئی ہے کہ صوفیاے کرام نے ان نازک ماحول میں بھی خدمت دین اور لوگوں کے تذکیہ نفس اور تطہیر قلب کا فریضہ انجام دیا جب حالات ان کے موافق نہ تھے۔ وہ اللہ والے تھے ان کا کام توکل علی اللہ ہوتا تھا جس سے ہر گام پر ان کی یاوری ہوتی تھی ۔
آج کا جو معاشرہ ہے یہاں سب کچھ ہے لیکن سکون کو ترستے ہیں،لوگ اضطراب و کشمکش میں جی رہے ہیں۔ دنیوی تعیشات تو میسر ہیں لیکن سکون قلب مفقود ہے۔ دولت کے انبار ہیں لیکن اطمینا ن سے عاری ہیں۔دنیوی ترقی نے اونچی کرسی پر بیٹھا دیا لیکن انسانیت کو بھول بیٹھے،جسم خوبصورت لباس میں ملبوس ہے لیکن باطن سیاہ ہوچکا ہے۔سکون کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن کوئی رہبر ایسا نہیں ملتا جو صحیح معنوں میں رہنمائی کرسکے ۔ مضطرب قلب کو مطمئن کرسکے۔ذہنی خلجان کو دور کرسکے،انسانیت کی گرتی ساکھ کو سہارا دے سکے۔ بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم کی رہنمائی کرسکے۔یہی وجہ ہے لوگ سکون کی تلاش میں ہر اس در پر حاضری دیتے ہیں جہاں تصوفانہ رنگ ہو ،اخلاق ظاہرہ کی ملمع سازی ہو، ظاہری ملبوس فقیرانہ دیکھ کر لپکتے ہیں لیکن وہاں بجائے روشنی کے سخت تاریکی ہوتی ہے۔تصنع ،بناوٹ،دکھاوا، ریاو سمعہ کی حکمرانی ہوتی ہے علاج کے بجائے زخم  کو مزید گہرا کیا جاتاہے۔
آج اہل درد کی ضرورت ہے۔ اہل محبت کی ضرورت ہے، اہل اللہ کی ضرورت ہے، درد سمجھنے اور سمجھ کر اس کا مداوا کرنے والے کی ضرورت ہے، ایسےافراد کی ضرورت ہے جو ظاہر کو نہیں باطن پر نظر رکھے،ذہنی خلجان کو دور کر سکے،حکمت و تدبر کے ذریعہ اندیشوں سے چھٹکارا دلاسکے۔قرآن و حدیث کی روشنی میں علاج درد کرسکے،الا بذکر اللہ تطمئن القلوب کے مفہوم کو ذہن میں اتار سکے ،صوفیانہ انداز میں سینے سے لگاسکے، اہل تصوف کے منہج پر تربیت کی جاسکے۔ بعض لوگ صوفیانہ طریقہ سے اس لیے دور و نفور ہوئے کے تصوف کے نام پردھوکہ و فراڈ کیا گیا،عقیدت کو ٹھیس پہنچائی گئی،دوا کے نام پر بیمار لا دوا کردیا ۔
آج بھی صوفیا کے افکار کو رہنما بنالیں فلاح پاسکتے ہیں، مسلم معاشرے میں بیداری لاسکتے ہیں ،خوابیدہ قوم میں روح پھونک سکتے ہیں،سوز بلالی ہو تو شب کی سیاہی کو سمٹنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔تلقین غزالی کے ذریعہ حرارت ایمانی بیدار کی جاسکتی ہے۔ اس کے لئے نبوی مزاج اور قوت برداشت پیدا کرنے کی انتہائی ضرورت ہے، حکمت و موعظت کے پہلو کوزمانے کے تقاضوں کے مطابق اختیار کرنے اور گھرکے ماحول میں دینداری کی فضا قائم کر نے کی کوشش کی جائے تاکہ ہماری زندگی پر دینداری کا رنگ غالب ہواور اسلامی طور طریقے سے زندگی کی دھوپ چھاؤں کو گزار سکیں۔اقبال کا پیغام قوم کے رہنماؤں اور بہی خاہوں کے نام:
نہیں ہے ناامیداقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی 


ماخذ؛
کشف المحجوب۔از: داتا گنج بخش ہجوری
اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ ۔۔۔از: شیخ عبد الحق دہلوی
تصوف :قرآن و سنت کی روشنی میں۔از: ڈاکٹر بشیر
دین سے بے رغبتی کا علاج۔از:صائمہ نور

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی