مساجد کا تحفظ اور ہماری ذمہ داری

 مساجد کا تحفظ اور ہماری ذمہ داری 

 محمد افروز رضا مصباحی 
اس عنوان کے تحت قوم مسلم کو تین زمرے میں تقسیم کیا جاسکتاہے ۔مسجد کےنمازی ۔۔۔۔ کمیٹی ۔۔۔۔ ارباب فکر و نظر
مسجد کے نمازی: ہر مسلمان مرد وعورت پر نماز فرض ہے ۔مسجد کی تعمیر باجماعت نماز ادا کرنے اور مذہبی معمولات کے لیے کی جاتی ہے ۔ لہذا بحیثیت مسلمان ہر بالغ مرد کی ذمہ داری ہے کہ مسجد میں نماز ادا کرنے کی کوشش کرے ۔۔۔ ورنہ
جس طرح مساجد کے غیر آباد ہونے پر غیر لوگ قبضہ کرلیتے ہیں وہی حال اس مسجد کا بھی ہوسکتا ہے جہاں کے آپ نمازی ہیں یا جمعہ پڑھنے جاتے ہیں یا عید بقرعید میں کاندھا پھلانگتے ہوئے صف اول میں پہنچتے ہیں۔ آپ کے لاپرواہی ہی مساجد کو خطرے میں ڈالنے کا ذریعہ ہے۔لہذا مسجد آبا رکھنے کی کوشش کریں۔
قوم مسلم کےلیےیہ بات کسی المیے سے کم نہیں کہ ان کی سستی و لاپرواہی کی وجہ سےآج محتاط اندازے کے مطابق ساٹھ تا ستر فیصد مساجد غیرآباد اور پندرہ تا بیس فیصد مساجد تالے پڑ گئے۔ بعض گاؤں دیہاتوں کی حالت زار یہ ہے کہ ایک ہی شخص موذن ہے، وہی امام ہے اور وہی مصلی و مقتدی۔ آج کتنے ایسےمسلمان ہیں جوہفتہ میں ایک مرتبہ صرف جمعہ کی سعادت حاصل کرنے مسجدجاتے ہیں اور پورا ہفتہ مطمئن بیٹھے رہتے ہیں۔ کتنے ایسے چہرے ہیں جو سالانہ عیدوں کے موقع پر نظر آتے ہیں اور پھر طویل مدت کےلیے غائب ہو جاتے ہیں۔
ایک طرف خانہ خدا کی یہ قابل تشویش  صورت حال ہے اور دوسری طرف دولت مند طبقہ کا یہ اصرار ہے کہ" ہم صرف تعمیر مسجد کو کارِخیر سمجھتے ہیں، ہمارے نزدیک سب سے بڑی نیکی مسجد بناناہے، خواہ وہ کسی اور مسجد کے پہلو میں بنائی جائے یا دور کسی ویرانے میں"۔
ایک چیز اور یہ دیکھنے میں آرہی ہے کہ ، نیا لے آوٹ ڈالنے والے کاروباری لوگ بازو کے لے آوٹ میں مسجد تعمیر ہے پھر دوسرے کونے میں مسجد تعمیر کرتے ہیں خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ کمیٹی امام پر جبر کرتی ہے کہ تمہاری تقریر بیان، درس ٹھیک نہیں ہے اس لیے یہاں لوگ نماز کو نہیں آتے۔جب اتنے قریب قریب مسجدیں ہوں گی تو نمازی کہاں سے آئیں گے۔۔۔
میری اس تقسیم سے کمیٹی کے افراد اور ارباب فکر و نظر یہ سوچیں کہ نماز پڑھنا ان کا کام ہے جو کچھ نہیں کرسکتے۔نماز آپ لوگوں پر بھی فرض ہے ورنہ کوتاہی کی سزا اور کمیٹی کا فرد یا ارباب فکر و نظر میں خود کو شمار کرنے والے زیادہ تعذیب کے حق دار ہوں گے۔۔۔
کمیٹی: ہر غریب مسجد کی ایک کمیٹی یا کوئی فرد واحد ذمہ دار ہے جبکہ دولت مند مسجد کی کمیٹیاں ہوتی ہیں جو عبادت گاہ سے زیادہ سیاست کا اکھاڑہ بنا کر رکھتے ہیں۔ مسجد کمیٹی کی ذمہ داری ہے
تعمیراتی کام کرانا، تعمیر کا بندوبست کرنا، اس کے لئے فکر کرنا، ان کی دیکھ بھال کرنا، زمین کے کاغذات کو درست رکھنا،وقف بورڈ میں رجسٹر کرانا، یا ٹرسٹ کے نام پر رجسٹر کرانا۔ دونوں میں کہاں رجسٹر کرانے میں فائده ہے ماہرین سے پوچھا جاسکتا ہے
ایک اور مسئلہ جس کی طرف ہماری توجہ کم جاتی ہے وہ ہے نئی تعمیرکے وقت مساجد میں استعمال ہونے والے سامان کا انتخاب، ہمیں چاہیے کہ ہم جو مساجد بلکہ گھر بھی تعمیر کریں تو ایسی اینٹیں نہ لگائیں جس پر رام، گوپال، سیتا، کرشن، کنہیا ،شنکر وغیرہ لکھا ہوا ہو، اسی طرح تمام تعمیرات میں ایسی شکل و شباہت  ہو جو مسلم تہذيب کی عکاسی کرتی ہو، غیر مسلم عبادت گاہوں کے طرز وانداز سے سختی سے گریز کریں، کیوں کہ ایک سو سال کے بعد ان مساجد سے نکلنے والی اینٹیں اور ان کے نقش ونگار مندر کے کھنڈرات معلوم ہوں گے اور ان پر قبضہ کی مہم چلے گی ،گیان واپی مسجد کے فوارے کو شیولنگ نام دے کر کورٹ میں کیس دائر کردیا گیا، سنوائی چل رہی ہے۔یہ درس و عبرت ہے کہ عبادت خانوں میں ایسی شباہت کی چیزیں بنانے سے گریز کریں۔
ہماری مسجدیں اپنی ملکیت والی زمینوں پر تعمیر ہوتی ہیں،یہ ایک حقیقت ہے، اسی لیے نیشنل ہائی وے کو فور لائن کرتے وقت ہماری مسجدیں اس کی زد میں نہیں آتیں، جب کہ ایک خاص فرقہ کی عبادت گاہیں کثرت سے سڑک کی زمین پر واقع تھیں، جنہیں منتقل کرنا پڑا، آئندہ بھی ہماری کوشش رہنی چاہیے کہ چھجے وغیرہ کی حد تک بھی ہم غیر قانونی طور پر تعمیرات کو آگے نہ بڑھائیں، تاکہ تجاوزات کے نام پر ہماری مسجدوں پر بلڈوزر نہ چلایا جائے، ہمیں معلوم ہے کہ جب ظالم کی نیت بدلتی ہے تو دلیل اور حجت کام نہیں آتی۔
ارباب فکر و دانش : میری تقسیم کے اعتبار سے یہ تیسرا گروہ ہے ۔اس گروہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ بدلتے حالات پر نظر رکھیں،فسطائی سوچ کی حامل حکومت انتظار میں ہوتی ہیں بس ایک کلیو(شوشہ) ملے اس پر بلڈوزر چلا دیا جائے۔نیز کرنے کا کام یہ بھی ہے کہ موجودہ حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مستقل ایک تحریک بناکر ویران مساجد کی باز آبادکاری کا سلسلہ شروع کیا جائے، مقامی مسلمانوں کو ترغیب و فہمائش کے ذریعہ اس جانب متوجہ کیا جائے،بالخصوص شہر کے کناروں پر واقع غیر آباد مسجدوں کی خبر گیری کی جائے، مقفل مسجدوں کی ضروری کارروائی کے بعد کشادگی عمل میں لائی جائے۔ اس سلسلہ میں زعماء قوم اور مسلم لیڈران آگے آئیں اور شہرت و ناموری کے بجائے نجاتِ اخروی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں۔ ان شاء اللہ اس کے دور رس نتائج بر آمد ہوں گےاور دشمنان اسلام کو اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چند باتیں مسجد کی فضیلت کے بیان میں :
حدیث میں آتا ہے، جب آندھی چلتی تو حضور اکرم ﷺفوراً مسجد تشریف لے جاتے تھے اور جب تک آندھی بند نہ ہوتی مسجد سے باہر تشریف نہ لاتے۔ مسجد میں آنےوالے شخص سے اللہ تعالیٰ اسی طرح خوش ہوتا ہے جیسے ایک گم شدہ شخص واپس اپنے گھر لوٹ آئے۔ مسجد جانے والے اللہ کی حفظ و امان میں آ جاتے ہیں۔ ارشاد نبویﷺہے: جو شخص مسجد کی طرف جائے گا اس کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے اگر اسے موت آئے گی تو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کر ے گا ورنہ وہ اجرو ثواب اور عبادت کے فوائد لےکر لوٹ آئے گا۔ (ابو داؤد)
ایک اور روایت میں  ہے کہ جو لوگ کثرت سے مسجد میں جمع رہتے ہیں وہ مسجد کے کھونٹے ہیں، فرشتے ان کے ہم نشین ہوتے ہیں اگر وہ بیمار ہوجائیں تو فرشتے ان کی عیادت کرتے ہیں اور اگر وہ کسی کام کو جائیں تو فرشتے ان کی اعانت کرتے ہیں۔ (مستدرک حاکم)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی