مولانا آزاد اور اردو صحافت

مولانا آزاد اور اردو صحافت

افروز مصباحی,گلبرگہ

1۔ مولانا ابوالکلام آزاد مایہ ناز فکر و فن کے مالک تھے۔ان کی تحریر انشاء پردازی کا مرقع ہوتی تھی۔انہوں نےاردو صحافت کو ایک نیا رخ دیا۔آپ بتایے کہ مولانا آزاد صحافت کی جانب کب اور کیسے متوجہ ہوئے؟؟؟

جواب:مولانا آزاد ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ دینی علوم سے آشنائی میراث میں ملی تھی ۔یونہی قلم کی طاقت انہیں بچپن سے ملی تھی۔مولانا کا گھرانہ مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے ہندوستان کے شہر کلکتہ میں وارد ہوا۔

 کلکتہ کو اردو صحافت میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہی شہر ہے جہاں سے اردو کا سب سے پہلا اخبار ’جام جہاں نما‘27؍مارچ 1822ء کو نکلنا شروع ہوا۔ ’جام جہاں نما‘  ہفت روزہ اخبار تھا۔ جام جہاں نما‘ کے اندازِ صحافت سے متاثر ہوکر اردو فارسی کے بعض نئے اخبارات نکالنے شروع ہوئے۔ اس طرح اردو اخباروں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ ’جام جہاں نما‘ کے اجراء کے نوے سال بعد مولانا نے ’الہلال‘ نامی پرچہ نکالنا شروع کیا۔ اس سے پہلے آزاد بہت سے اخباروں میں کام کرچکے تھے اور اپنا بھی کئی اخبار نکال چکے تھے مگر مولانا کی صحافت کا یہ مشقی دور تھا۔ اس زمانے میں بھی مولانا کی شہرت ہندستان بھر میں پھیل چکی تھی۔ ان کی کمسنی کی وجہ سے بہت سے لوگ انہیں مولانا ابوالکلام آزاد کا بیٹا سمجھتے تھے۔’نیرنگ عالم‘ المصباح، تحفہ احمدیہ، لسان الصدق، جیسے معیاری پر چوں میں مولانا کی نگارشات کو پڑھ کر کسی کو بھی اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کوئی نوجوان ایسی چیزیں لکھ سکتا ہے یہ کہہ سکتا ہے۔

2۔ مولانا آزاد کن رسالوں سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا؟الہلال پرچہ کب نکلنا شروع کیا؟؟؟

جواب:  مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت کا آغاز ’نیرنگ عالم‘ المصباح، تحفہ احمدیہ، لسان الصدق، سے کیا۔

  آزاد کی صحافت کا دور ارتقاء الندوہ کی سب ایڈیٹری سے ہوا۔ ’وکیل‘ امرتسر دورثانی پرختم ہوا مولانا کی صحافت دور عروج حقیقت میں الہلال کے اجراء سے شروع ہوا۔ الہلال کا پہلا شمارہ 13؍جولائی 1912 کو نکلا جب مولانا ابوالکلام آزاد کی عمر 24سال سے بھی کم تھی۔

3۔ الہلال ایک معیاری پرچہ تھا اس کے مضامین ،اداریے بہت اہم ہوتے تھے تو یہ پرچہ نکلنا کیوں بند ہوا؟؟؟

جواب:الہلال ایک معیاری پرچے کی شکل میں نکل رہا تھا۔حکومت پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔جو مضامین دوسری زبان سے ترجمہ ہوکر شامل اشاعت ہوتا وہ بھی برٹش گورنمنٹ کے خلاف ہوتا جس کی وجہ سےحکومت نے ستمبر 1913؁ء میں حادثۂ مسجد کانپور کے ہنگامے کے زمانے میں ایک مضمون پر الہلال سے دو ہزار کی ضمانیت طلب کرلی جو الہلال کی طرف سے پیش کردی گئی۔ اگلے سال 1914؁ء میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوگئی۔ اب الہلال کے تیزو تند مضامیں حکومت کی نظر میں باغیانہ ٹھہرے۔ اسی زمانہ میں انگریزی اخبار پانیر(Pioneer) نکلتا تھا جو حکومت کے خیر خواہوں اور وفاداروں میں سے تھا۔ اس نے حکومت کی توجہ مبذول کرائی کہ الہلال در پردہ جرمنی کاحامی ہے اور حکومت وقت اس کے باغیانہ رویہ سے چشم بوشی کرکے کوئی اچھی حکمت عملی کا نہیں اپنا رہی ہے۔ پانیر کی اس تنبیہہ کے بعد کیونکر ممکن ہوسکتا تھا کہ حکومت مولانا کی باغیانہ روش کو درگذر کردیتی ۔

 پانیر کی تنبیہہ اور تلقین کاحکومت پر یہ اثر ہوا کہ دو ہفتے بعد نومبر 1914 میں حکومت نے دوہزار کی ضمانت ضبط کرلی۔ اس پر مولانا نے الہلال بند کردیا۔ الہلال کاآخری پرچہ 18؍نومبر1914؁ء کو شائع ہوکر بند ہوگیا۔

4۔ مولانا آزاد نے الہلال پر پابندی کے بعد البلاغ نامی رسالہ جاری کیا تھا۔اس کا اسلوب کیا تھا،یہ کیوں بند ہوا؟؟؟

جواب:.مولانا نے الہلال پر پابندی کے ایک سال بعد نومبر 1915؁ء کو  دوسرا پرچہ البلاغ کے نام سے جاری کیا۔ یہ الہلال کانقش ثانی تھا۔ یہ صرف نام کے لحاظ سے نیا اخبار تھا مگر اپنی شکل و صورت، مضامین و مواداور اسلوب و استدلال ہر لحاظ سے الہلال کی نمائندگی کررہا تھا۔ مولانا کے انداز فکر و تحریر میں کوئی فرق نہیں پیدا ہوا تھا بلکہ تیزی اور ترشی میں اضافہ میں ہوگیا تھا۔ حکومت اخبار کی جارحانہ اور باغیانہ تحریروں کو نظرانداز نہ کرسکی آخر کار 23؍مارچ1914؁ء کو حکومت بنگال نے انہیں ایک ہفتے کے اندر حدود بنگال سے باہر چلے جانے کاحکم صادر کردیا۔

 اس پر انہیں مجبوراً کلکتہ کو خیر آباد کہنا پڑا۔30مارچ کو کلکتہ سے نکلے۔ روانگی سے پہلے البلاغ کا پرچہ مرتب کرچکے تھے جس پر 3؍اپریل1914کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔مولانائے محترم کا خیال تھا کہ ان کی کلکتہ کی غیرموجودگی سے پرچے کی اشاعت پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ لیکن ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ اس کو جاری رکھنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں ۔

5۔مولانا آزاد کی تحریر کا اسلوب کیا تھا؟ پڑھنے میں آیا ہے کہ لوگ ان کے اخبار الہلال کا انتظار کرتے تھےــ یہ کہاں تک درست ہے؟؟؟

جواب:1912 ءمیں مولانا آزاد نے ’’الہلال‘‘ نکالنا شروع کیا جو نہ صرف اردو زبان و ادب اور صحافت بلکہ سیاست، مذہب اور معاشرت کے لیے صور اسرافیل کی سی کیفیت لے کر نمودار ہوا۔ اسی سلسلے میں ایک نقاد نے کتنا درست فرمایا ہے کہ ’’الہلال‘‘ کی نثر کے جوش و خروش، منطق و استدلال اور دعوت و تبلیغ نے اردو داں معاشرے میں ایک زلزلہ سا ڈال دیا۔ اس کے طرز بیان کی خطابت نے قارئین کے رگ و پے میں بجلیاں دوڑا دیں۔ ایسی جاندار اور شاندار نثر اس سے پہلی کم ہی لکھی گئی تھی۔

مولانا ابولکلام آزاد کے اس اسلوب نگارش کو جہاں ایک طرف قرآن مجید کے حوالوں نے اعتبار بخشا وہیں دوسری طرف اشعار نے اس میں چاشنی اور دلکشی پیدا کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ راقم کے دل کی آگ نے الفاظ کے شعلوں کو اس طرح ہوادی کہ پڑھنے والوں کے حوصلے بلند ہوئے اور کچھ کر گزرنے کے جذبات ابھرے۔

5۔مولانا آزاد کی وہ کونسی صحافتی خوبی ہے جسے موجودہ دور میں اس پیشہ سے وابستہ لوگوں کو اپنانے کی ضرورت ہے؟؟؟

جواب:ایک جملے میں کہوں تو میں کہوں گا" حقیقت بیانی اور بے باکی"

یہی وصف ہے جس کی وجہ سے برٹش حکومت مولانا آزاد کی تحرير سے خوفزدہ تھی ۔جس کی وجہ سے اس پرچے الہلال اور البلاغ پر پابندی لگی۔لیکن اپنی بے باک صحافت سے دستبردار نہیں ہوئے۔مولانا آزاد اپنے اس صحافتی سفر میں مختلف مرحلوں سے گزرے ہیں لیکن انکے قدم کسی مقام پر رکے نہیں، وہ اس سفر میں آگے بڑھتے رہے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ صحافت کو معراج کمال تک پہنچا دیا۔

6۔ مولانا آزاد کی اردو صحافت کی خدمت کو مد نظر رکھتے ہوئے اردو کے قارئین ناظرین اور اردو سے وابستہ لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟؟؟

جواب:مولاناابو الکلام آزاد کی صحافت نے اُردو زبان و ادب کو بہت کچھ دیا۔اس سے اُردو زبان میں ایک نیا پن، ایک نیا اسلوب اور ایک نئی فکر ملی۔ جس سے اُردو زبان وادب آج بھی اپنے آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔اس کا ماضی روشن تھا، حال بھی روشن ہے اور مستقبل بھی انشاء اللہ روشن رہے گا۔ چوں کا اس کا تعلق دھڑکتے ہوئے دلوں سے ہے اور وہ ہے ہندوستان کے دینی مدارس و مساجد و مکاتب، علماء و صلحاء اور خانقاہیں ہیں جہاں آج بھی اُردو میں ہی سارے نظام چلتے ہیں۔اس لئے ہمیں اُردو زبان کا رونا رونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ اپنے گھروں میں اس زبان کو برتنے کی ضرورت ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی