مجرمین کی رہائی مظلوم کے ساتھ ناانصافی
از قلم:محمد افروز رضا مصباحی
ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں اس دور کی خاصیت یہ ہے کہ ظالم کی مدد کی جائے مظلوم کو چکی کے دو پاٹ کے درمیان پیس دیا جائے، جھوٹوں کے سرپر عزت کا تاج سجایا جائے سچ بولنے والوں کو کال کوٹھری میں ٹھونس دیاجائے، برائی کی سرپرستی کی جائے،برائی کے خلاف آواز اٹھانے والے کی آواز دبا دی جائے،ظلم کو بڑھاوا دیا جائے مظلوموں کو رونے بھی نہ دیاجائے جس مظلوم کے حلق سے انصاف کا لفظ نکل جائے اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرکے ظالم کو آزادی کا پروانہ دلوایا جائے۔ظلم کی چکی جس تیزی سے گھوم رہی ہے ظالموں،خاطیوں کو جس طرح سمان دینے کا رواج چل پڑا ہے،ممکن ہے اب یہ دیکھنے کو ملے کہ مظلوم کا ساتھی کوئی نہیں ظالم کے ساتھ سماج ایک طبقہ سینہ سپر ہے۔اقتدار سے چمٹے حکمراں جب ظلم و تعدی اور خاطیوں کی پشت پناہی پر اتر آئے توانصاف کی امید سراب ہی ثابت ہوگی۔
ملک کی 75/ ویں آزادی کے موقع پرریاست گجرات نے ان 11/ قیدیوں کو رہا کیا ہے جس نے بیس سال قبل بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا،تین سالہ بچی کو بے دردی سے مار دیا اور دیگر سات افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ یہ تمام مجرمین عمر قید کی سرزا کاٹ رہے تھے۔ مجرموں نے محض 15/ سال کی سزا کاٹی تھی۔رہائی کایہ فیصلہ بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے ذریعہ بیان کردہ معافی کے اصولوں کے خلاف ہے۔
ریاست گجرات میں بیس سال پہلے ہوئے گودھرا کانڈ کو بہانہ بناکر مسلمانوں کے خلاف خونی فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ گجرات فساد نے پچھلے کئی سال میں رونما ہونے والے فسادات کے ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا گیا تھا۔چھوٹے بچوں تک کو نیزے پر اچھالا گیا۔قانون کی محافظت میں ہونے والی خونی فساد نے عالمی برادری میں بحث کا موضوع بن گیا تھا۔امریکہ نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پر امریکہ میں داخلے پرپابندی لگادی تھی۔ اس فساد میں مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایاگیاتھا۔ان کی املاک کو نشانہ بنایا گیا۔کروڑوں کی املاک تباہ کردیے گئے تھے۔اس پر ستم یہ کہ مظلوموں کی داد رسی کے بجائے ظالموں کی سرکار ی سطح پر بچاؤ کا کام کیا گیا۔حکومت کے اشارے پر کام کرنے والے افسران کو ترقی دی گئی،جن افسران نے حکومت کے خلاف حقیقت سے پردہ اٹھایا اسے ڈیوٹی سے برخاست کردیا گیا۔
ملک کے 75/ یوم آزادی کو ”امرت مہوتسو“حکومت کی جانب سے منانے کا اعلان ہوا۔ امیت شاہ کی زیر قیادت وزارت داخلہ نے اس موقع پر تمام ریاستوں کو 10/ جون کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ ریاستیں بعض جرائم کے لیے ان سزا یافتہ قیدیوں کو رہا کرسکتی ہیں جنہون نے اپنی سزا کی مدت کا پچاس فیصد یا اس سے زیادہ حصہ جیل میں گزار چکے ہیں۔ تاہم خط میں اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ جنہیں سزائے موت سنائی جاچکی ہے یا جن کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا گیاہے،جو لوگ جہیز کے لیے قتل کے قصور وار قرار دیے جاچکے ہیں،جو لوگ پوٹا،فیما، این ڈی ایس اور بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے اور بدعنوانی کرنے کے معاملے میں مجرم قرار دیے جاچکے ہیں، ایسے لوگوں کو معافی نہیں دی جاسکتی۔
مجرمین آزاد کیوں ہوئے؟
بلقیس بانو کیس کے 11/ مجرمین میں رادھے شیام شاہ شامل ہے۔ اس نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں گجرات حکومت کوا س کی قبل از وقت رہائی کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت کی درخواست کی گئی تھی۔اس درخواست نے ہی عمر قید کی سزاکاٹنے والے تمام 11/ مجرمین کی جیل سے رہائی پانے کی راہ ہموار کی۔جنوری 2008 میں ممبئی کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے انہیں گینگ ریپ کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی اور بعد میں بمبئی ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
اتفاق دیکھئے بلقیس بانو کیس کے گیارہ مجرمین کو 15/ اگست کو ہی آزاد کیا گیا۔ان کی آزادی سے ٹھیک تھوڑی دیر پہلے لال قلعہ کے فصیل سے ملک کے وزیر اعظم نے بڑی لچھے دار اور لبھانے والی تقریر کی۔انہوں نے دوران تقریر کہا کہ ”میں اپنا درد کہنا چاہتاہوں،اپنا درد اپنے ہم وطنوں میں نہیں تو اور کہاں بانٹ سکتاہوں۔ہم نے اپنے اندر ایک خرابی پیدا کرلی ہے۔ہم لوگ اخلاق میں اور الفاظ میں خواتین کی توہین کرتے ہیں۔اس اعتراف کے بعدنصیحت کرتے ہوئے کہاہم اپنی تقریر اورطرز عمل میں کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے خواتین کی عزت کو ٹھیس پہنچے۔ اس کے بعد انہوں نے شہریوں کو اپنی ذمہ داری یاد دلائی اور ان کو ادا کرنے کی تلقین کی۔
لال قلعے کی فصیل سے وزیر اعظم کی تقریر ختم ہوئی۔اُدھر ان کے جنم بھومی گجرات کی بی جے پی سرکار نے بلقیس بانو اور ان کے خاندان والوں پر بے انتہا ستم کے پہاڑ توڑنے والوں کی رہائی عمل میں آگئی۔ستم بالائے ستم یہ کہ مجرمین کا باضابطہ استقبال کیا گیاجس کا ویڈیو وائرل ہوا ہے۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سنیئر لیڈر پی چدمبرم نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی لوگوں سے خواتین کا احترام کرنے کی اپیل محض ایک قول ہے۔جبکہ گجرات حکومت کا فیصلہ فعل ہے،جو گینگ ریپ کے مجرموں کی باقی سزا معاف کرتاہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ قول کو فعل کے ساتھ منسلک کردیں گے۔انہوں نے مزید کہا: وزیر اعظم کی لوگوں سے خواتین کا احترام کرنے کی اپیل کے چند گھنٹے بعد ان کی منتخب شدہ گجرات حکومت گینگ ریپ کے مجرموں کی باقی ماندہ سزا معاف کردیتی ہے“۔راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا:پانچ مہینے کی حاملہ خاتون کی عصمت دری اور اس کی تین سالہ بچی کو قتل کرنے والوں کو آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران رہا کیا گیا۔ خواتین کی طاقت کی بات کرنے والے ملک کی خوتین کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟اس کے علاوہ مختلف سیاسی لیڈران نے گیارہ مجرمین کی رہائی کی مذمت کی ہے اور مظلومین کے ساتھ ناانصافی قرار دیا ہے۔
ملک کے وزیر اعظم خواتین کا اعتراف کرتے ہیں لیکن ان کے قول و فعل کا کھلا تضاد ہے۔انصاف کی لڑائی لڑنے والی سماجی جہد کار تیستاسیتلواد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔75سال پہلے کے درد کا احساس ہے لیکن بیس سال قبل ذکیہ جعفری کا درد یاد نہیں۔ یوپی میں حکومت نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے محمد جاوید کے نام پر نوٹس دے کر پروین فاطمہ کا گھرڈھادیا اور ان کی دو بیٹیوں سمیت پورے گھر کو بے گھر کردیا۔ان کی بیوی خود اپنا حق پانے سے محروم ہے۔اس سے بڑھ کر بھی قول و عمل کاکوئی تضاد ہوسکتاہے؟
گجرات حکومت کے اس بدبختانہ فیصلے سے مجرمین کے حوصلے بلند ہوں گے۔اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میں ریپ کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔گیارہ مجرمین کے بعد جرائم پیشہ لوگوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔قانون کی گرفت میں آنے کے بعد بھی عمر قید کی سزا کاٹ رہے لوگوں کی آزادی یقینا بلقیس بانو کے گھر والوں کے لیے سوہان روح سے کم نہیں۔قانون مجرمین کو سزا دیتی ہے تاکہ دوسروں کو سبق حاصل ہو کہ یہ عمل مجرمانہ ہے جو بھی اس جرم کا مرتکب ہوگا اسے سزا ہوگی۔لیکن گجرات حکومت کے اس عمل سے یہ تاثر ملتاہے کہ جرم کے بعد عمر قید سزا بھی مل جائے تو مجرمین رہائی پاسکتے ہیں۔ مظلوموں کی آہ و بکا اور فریاد کا کوئی جواب نہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے جس آہ کا اثر نظر نہ آئے وہ آہ آسمان کے کنگورے کو ہلا دیتی ہے۔مظلومین کی داد رسی جہاں سے ہوگی وہاں ظالمین اور پشت پناہی کرنے والوں کوچھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔جمہوری حکومت میں عوام خود فیصلہ کرتی ہے،خواتین اپنی طاقت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے خود فیصلہ کرے گی اسے کس کی حکومت چاہیے۔