سید خواجہ معین الدین دنیا سے چل بسے

 مسجد محمد عیسیٰ رحمت نگر گلبرگہ کے سابق مؤذن 

سید خواجہ معین الدین دنیا سے چل بسے

از قلم۔۔۔ محمد افروز رضا مصباحی

سید خواجہ معین الدین 74 / سال کی عمر میں 7/ جولائی 2022ء جمعہ کی شب میں جیمس ہاسپٹل میں آخری سانس لی۔

خواجہ معین الدین کا آبائی وطن ”ریور“ ضلع گلبرگہ تھا۔ اپنی جوانی کے دنوں سے زیادہ وقت ممبئی میں گزارے۔فیملی کے ساتھ وہاں رہتے تھے۔ تقریباًسولہ سال پہلے رحمت نگر میں اپنے قدیم گھر میں فیملی کے ساتھ شفٹ ہوگئے۔ صاحب اولاد تھے،چار لڑکی اور چار لڑکے شرف الدین، ریاض الدین،فیاض الدین،نظام الدین،آخر الذکر لڑکا مفقو دالخبر ہوگیا تھا۔کبھی کبھی وہ بیٹا یاد آتا تو کہتے میرا ایک بیٹا تھانہیں معلوم کیا ہوا اس کے ساتھ۔سید ریاض الدین ٹیلر ماسٹر ہیں مارکیٹ میں ”بمبئی ٹیلر“ کے نام سے ایک بڑی دکان ہے۔ سید صاحب شولا پور کے سید عثمان قادری سے سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے۔نماز کے پابند تھے،اذان کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعداللہ کے گھر کے لیے وقت ہوگئے۔زندگی کے ایام سکھ دکھ میں گزارا۔ ممبئی میں کئی طرح کے کام کیے۔ ٹرک بھی چلایا۔سلائی کا کام بھی کیا۔بیوی بچوں کی ضرورت کو پوری کی۔

سید خواجہ معین الدین کوئی معروف و مشہو ر یا بڑی عظیم شخصیت یا صاحب ثروت نہیں تھے۔ایک عام شخص تھے لیکن اچھی خوبیوں کے مالک تھے، دیندار انہ مزاج تھا،اچھے لوگوں کی صحبت پائی تھی،سچائی کو ترجیح دیتے،لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک رہتے، لوگوں سے میل جول رکھتے۔خوش مزاج اور پرمزاح گفتگو کے حامل تھے،زیادہ پڑھے لکھے تو نہیں تھے لیکن ضرورت کے مطابق معلومات اچھی تھی۔ قرآن کریم کی تلاوت بعد فجر ضرور کیا کرتے تھے۔

سید خواجہ معین الدین کو پہلی مرتبہ مسجدمحمد عیسیٰ رحمت نگر کے افتتاحی تقریب میں نعت رسول ﷺ پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسی مسجد میں میری تقرری بحیثیت امام اور ان کی موذن کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ اس تقریب میں منتخب امام و مؤذن اور اسٹیج پر پیچھے بیٹھے ہوئے دو تین مولوی صاحبان کے علاوہ سب کی گل پوشی و شال پوشی ہوئی تھی۔سید صاحب کو نعت رسول گنگنانے کی دعوت دی گئی۔اونچا قد، لمبے بال، خشخشی داڑھی،اونچی دوبلی ٹوپی پہنے مائک پر آئے۔ پرانی طرز میں بہترین نعت پیش کی جس پر سامعین کی جانب سے خوب داد و تحسین ملی۔ نماز ظہر کی امامت فضیلت مآب سراج بابا جنید ی نے فرمائی۔ پروگرام کے اختتام پر سید صاحب سے علیک سلیک ہوئی۔ اس علیک سلیک کی تاثیر تاحیات رہی۔

مسجد محمد عیسیٰ رحمت نگر میں اہل سنت و جماعت کی قائم کردہ خداکا گھر ہے۔تقریباً آٹھ سال پہلے چند جیالوں نے اس علاقہ میں اہل سنت و جماعت کی مسجد تعمیر کرنے کا بیڑہ اٹھا یاجس کے لیے اسی علاقہ کے چند لوگوں سے مشاورت ہوئی پھر دیکھتے ہی دیکھتے زمین کی خریدی ہوئی، تعمیری کام شروع ہوا تو تسلسل کے ساتھ کام انجام پایا بہت مختصر مدت میں مسجد کا کام مکمل ہوا۔(جناب محمد عیسیٰ صاحب مرحوم کے بیٹے پوتوں نے زمین کی خریدی اور تعمیری کاموں سے سب سے زیادہ تعاون کیا جس کی وجہ سے مسجدکا نام”مسجد محمد عیسیٰ“ رکھاگیا) مسجد کے قیام کو تحریک کی شکل دینے والے جناب جاوید صاحب المصباح کتاب گھر،محمد داؤد ولد الحاج محمد بابو میاں اور احمد صاحب تھے۔پھر لوگ آتے گئے اور کارواں بنتاگیا“ کے مصداق مخیر لوگوں کی شرکت ہوتی گئی۔ جب تعمیر ی کام شروع ہوا تو سید معین الدین اور محمد داؤد زیادہ پیش پیش رہے۔ میٹریل کی حفاظت کے لیے راتوں کو مسجد کی ہی زمین پر ٹینٹ ڈال کر سوجاتے۔ دیواروں کو پانی مارنے کے لیے صبح سویرے حاضر ہوجاتے۔سید صاحب کی محنت اور مسجد سے محبت کو دیکھتے ہوئے بعدمیں مؤذنی کے لیے منتخب کیے گئے۔ 

چونکہ رمضان المبارک سے دو روز پہلے مسجد کا افتتاح ہوا تھا۔ابتدائی دنوں سے ہی یہاں نمازیوں کی تعداد زیادہ رہی۔ وجہ یہ تھی کہ اس علاقے میں اہل سنت و جماعت کی مسجد نہ ہونے کی وجہ سے جو لوگ فاتحہ درود، صلاۃ و سلام کے قائلین تھے سب بکھرے ہوئے تھے، جب یہ مسجد قائم ہوگئی تو بکھرے موتی ایک لڑی میں جمع ہوگئے۔بعدفجرپڑھی جانے والی صلاۃ و سلام کی آواز کسی کے روح کو سرور بخشتی کسی کو رنجور کردیتی۔رمضان المبارک میں افطار میں کھانے کا اہتمام پہلے رمضان سے ہی شروع ہوا،اب توکھانے کے وقت فنکشن ہال کا سماں رہتاہے،ہرمسجد سے زیادہ یہاں بھیڑ ہوتی ہے۔

رمضان میں یا اس کے بعد بھی کئی مہینوں تک ہم دونوں کی عادت رہی کہ بعد نماز فجر ٹہلتے ہوئے اسٹیشن چلے جاتے،اسٹال سے نیوز پیپر لے کرچلتے ہوئے آتے۔ کبھی چائے نوشی ہوجاتی کبھی یونہی واپسی ہوجاتی۔ کبھی جناب احمد پٹیل اور جعفر بابابھی ساتھ ہوجاتے۔

میرا کھانا میس سے آتاتھا۔ کبھی نہیں آیا تو سید صاحب اپنے گھر سے لے آتے ساتھ بیٹھ کر کھا نا کھاتے۔ 

سید صاحب علماء کے قدرداں تھے، دوسروں کو بھی عالم،مولانا اور امام کی عزت کرنے کو کہاکرتے۔ 

حق گوئی ان کی سرشت میں تھی،غلط بیانی کرنے والوں کو ٹوکنے میں ہچکاہٹ نہیں ہوتی جو کہنا ہوتا کہہ دیتے،سامنے والا برا مانے یا اچھا،اس سے مطلب نہیں۔ کمیٹی کے بعض افراد کو بر سر موقع جو کہنا ہوتاکہہ دیتے،حق گو جو ٹھہرے۔

سید صاحب کی آواز میں سوز تھا،سلام پڑھتے تو دل مچل جاتا،مدینے کی گلیاں آنکھوں میں رقصاں ہوجاتی جب صلاۃ و سلام پڑھتے ایسا لگتا بس پڑھتے جائیں ہم جھومتے جائیں۔ وہ دنیا سے چلے گئے تحریر لکھ رہاہوں ان کی مدھر آواز کانوں میں گونج رہی ہے،ان کو کئی سلام یاد تھا،ہر روز الگ الگ پڑھا کرتے بطور خاص درج ذیل سلام پڑھتے تو وجد کی کیفیت ان پررہتی:

مدینے کے آقاسلام علیک۔دوعالم کے شاہا سلام علیک 

ہے دل میں تمنا مدینے کو آؤں۔تمہاری غلامی میں عمر بتاؤں 

بلالیجئے نہ سلام علیک۔دوعالم کے شاہا سلام علیک

مسجد کا ماہانہ چندہ کرنے نکلتے تو اتنا وصول کر لاتے کہ امام و موذن کی تنخواہ کو کفایت کرجاتی۔صدر مسجد نے ایک اچھا فیصلہ یہ لیا تھا کہ ہر ممبر ماہانہ پانچ پانچ سو روپے اور صدر ہزار روپے دینے کا پابند رہے گا۔ یہ رقم بھی اچھی خاصی ہوجاتی۔مسجد کے اخراجات کو کافی ہوجاتی۔

چار سال پہلے سید صاحب کو ایک صاحب خیر نے عمرہ پر بھیجنا چاہا تو برسوں کی تمنا پوری ہوتی ہوئی نظر آئی فوراً پاسپورٹ بنوایااور لوگوں سے معافی تلافی کے بعد عازم سفر ہوگئے۔ عمرہ سے واپسی پر وہیں کی باتیں کرتے رہتے۔مدینے کی گلیاں جسے دیکھنے کا شوق زمانے سے رہا دیکھ کر آئے تو اسی کی یاد وں میں گم رہنے لگے۔

راقم اس مسجد میں تقریباً ساڑھے دس ماہ ہی رہ سکا۔میرا مسجد چھوڑنا سید صاحب پر سخت گراں گزرا۔یوں کہہ لیں جن احباب کو میرے نکلنے پر تکلیف ہوئی ہوگی ان میں سید صاحب سرفہرست تھے۔سیاسی قیادت سے محروم لوگ اب مساجد و مدارس کی صدارت و قیادت کے ذریعہ ہی اپنی انا کو تسکین بہم پہنچانے میں اپنی معراج سمجھتے ہیں۔ظاہر ہے کوئی اما م کتنے دنوں ٹک سکتاہے؟سید صاحب بھی اس کے بعد چھ ماہ کے اندر ہی مستعفی ہوگئے کہ اب مجھ سے ذمہ داری نہیں سنبھالی جاتی۔لیکن مسجد کے صدر صاحب نے کبھی ان کو دور نہیں رہنے دیا۔ صلاۃ و سلام کے وقت انہیں کو آگے کرتے۔ موذن چھٹی پر ہوتا تو ان کو ہی اذان کا کہتے۔ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے تھے مسجد سے ان کی دل بستگی تاحیات باقی رہی۔

مسجد محمد عیسیٰ سے سبکدوشی کے بعد راقم جب کبھی رحمت نگر جاتاتو سید صاحب سے ضرور ملتا۔جیسے ہی ان کو معلوم ہوتا کہ مولانا افروز آئے ہیں فوراً گھر سے باہر آجاتے۔ ان کے بیٹے سید فیاض کی دکان روڈ پر تھی،وہیں پر ملاقات ہوتی،گھر سے چائے  بسکٹ،کھارا آتا کھاتے اور باتیں کرتے جاتے۔وہ بھی کبھی ٹیپو چوک کی طرف آتے تو ملاقات ضرور ہوتی تھی۔

2/جولائی بروز ہفتہ کو شب میں فالج کا اثر ہوا۔گھر والوں نے دواخانے میں لے کر آئے جہاں ایڈمٹ کرلیا گیا۔مجھے منگل کے روزان کے صاحبزادے سید ریاض الدین نے فون پر والد کی علالت کی خبر دی شام میں جیمس ہاسپٹل میں دیکھنے پہنچا اس وقت وینٹی لیٹر پر تھے،دنیا سے بے نیاز آنکھیں بند کیے ہوئے تھے۔بیٹوں نے ہر طرح کی کوشش کی لیکن تقدیر کا فیصلہ اٹل ہے۔جمعہ کی شب بنگلور سے ڈاکٹرمحمد عارف نے پہلے فون کرکے ان کے انتقال کی خبر دی۔ فوراً سید ریاض الدین کو فون لگایا اور تعزیت پیش کی۔بعد جمعہ مسجدمحمد عیسیٰ کے باہر نماز جنازہ پڑھی گئی،کورٹ کے عقب میں مسجد قلندر کی قبرستان میں ابدی نیندسلادیے گئے۔میری دعا ہے مولائے قدیر اپنی شان کریمی کے مطابق سید خواجہ معین الدین کے ساتھ معاملہ فرمائے،ان کی خطاؤں کو معاف فرمائے،پسماندگان کو صبر جمیل و اجر جزیل عطا فرمائے،بچوں کو دینی کاموں میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین  



ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی