مسلمان تعلیمی معاملے میں کتنے سنجیدہ ہیں؟

 مسلمان تعلیمی معاملے میں کتنے سنجیدہ ہیں؟ 

مسلم معاشرہ کے تعلیمی پسماندگی کے اسباب کو بیان کرتی ایک فکر انگیز تحریر

از قلم:محمد افروز رضا مصباحی

کل ایک امام صاحب سے ملاقات ہوئی اثنائے گفتگوکہنے لگے جمعہ کو میری مسجد میں ایک دینی ادارہ کے ذمہ داران چندہ کے لئے پہنچے تھے، انہیں اجازت دے دی۔دوران تقریر دینی تعلیم وتعلم اور مدارس کے طلباء پر خرچ کیے جانے کی فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں بیان کی۔بعد نماز ایک مسجد کے تعاون کی بھی اپیل کی۔جب نتیجہ جاننے کی کوشش کی تو حیرت میں پڑگیا۔مسجد کو تین گنا چندہ ملا تھا جبکہ مدرسہ کو ہزار بھی نہیں پہنچ سکا تھا۔

پوچھا آپ کو حیرت کیوں ہوئی؟کہنے لگے مسجد اللہ کا گھر ہے یہ سبھی کو سمجھ میں آتا ہے، اہمیت و افادیت بھی پیش نظر ہے۔مسجد کی تعمیر شروع ہوتی ہے تو بہت کم وقتوں میں تعمیراتی کام مکمل ہوجاتا ہے۔ مسجد میں خرچ کرنے سے ثواب زیادہ ہے،یہ اچھی طرح ذہن نشین ہے۔ غالباً مدرسہ کے تئیں صرف اتنا گمان رکھتے ہیں کہ غریب یتیم بچے پڑھتے ہیں، شاید وہاں اتنا دینے پر اتنا ثواب نہیں جتنا مسجد میں دینے سے ثواب ملتا ہے .حیرت اس بات پر بھی ہے کہ ثواب کا تخمینہ لگا لیتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ مساجد کو امام و خطیب اسی مدرسے سے ملتے ہیں۔مساجد میں قرآن پاک کے بکس بکثرت رکھے ہوئے ہیں باوجود اس کے متوفی کے گھر والے برائے ایصال ثواب قرآن کا بکس دینے میں ثواب سمجھتے ہیں لیکن مدارس میں دینی کتابیں دینے میں ثواب سمجھ میں نہیں آتا۔ لاک ڈاؤن نے مدارس کے مالی حالت کو کمزور تر کردیا لیکن قوم کے سوچ کی وہی بے ڈھنگی چال جو کل تھی وہ اب بھی ہے۔

قارئین ایک واقعہ اور سنیے اور قوم کی اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے کیا سوچ ہے ملاحظہ کریں۔ایک مولانا کہنے لگے:ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں اردو پی ایچ ڈی کے لئے اپلائی کیا، کامیاب ہوگئے، لیکن فیس کا مسئلہ تھا کیونکہ پرائیویٹ یونیورسٹی معقول فیس لے کر ہی ایڈمیشن لیتی ہے۔چند جاننے والوں سے بتایا تو مبارکباد پیش کی لیکن جب یہ بتایا کہ فیس کی ادائیگی میرے لئے دشوار ہے کچھ کرسکتے ہیں تو کریں۔یہ سننے کے بعد جو رد عمل سامنے آیا وہ یہ تھا کہ آپ پی ایچ ڈی کرکے کیا کریں گے؟ مسجد مدرسہ میں ڈیوٹی کرتے رہتے ضروریات پوری ہوجاتی کہاں اس چکر میں پڑ گئے، اردو پی ایچ ڈی کا کیا فائدہ؟ ڈگری لے کر کیا کرلیں گے؟ مولانا کے مطابق مجھے محسوس ہوا پی ایچ ڈی میں ایڈمیشن لے کر ضرور قومی و ملی گناہ کیا ہے جس کے باعث اتنے سارے سوالات کھڑے ہوگئے۔ نصیحت کاروں سے نصیحت تو مل گئی لیکن امداد کی تو قع ایک سراب ہی رہی۔

بلاتفریق دینی و دنیوی تعلیم، مسلمانوں کو من حیث القوم تعلیمی دنیا میں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ہندوستان کی سرزمین آزمائش کی آماجگاہ بنتی جارہی ہے۔تعلیمی معاملے میں مسلمان بچوں کی پسماندگی جگ ظاہر ہے۔مسلم بچے دسویں بارہویں کلاس سے آگے تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے بعض کی نادانی ہوتی ہے تو بعض ہونہار طالب علم کی معاشی کمزوری آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے۔جب گھر چلانا مشکل ہو تو والدین کسی دوکان پر یومیہ اجرت پر بھیج دیتے ہیں۔ قوم کے آسودہ حال لوگ اپنی زندگی، گھر اور کنبہ پر خرچ کرنے میں ہی دین و دنیا کی بھلائی نظر آتی ہے، باقی قوم کے بچوں کی تعلیمی، معاشی اور ترقی کی راہیں ہموار کرنے میں صرف اتنی دلچسپی ہوتی ہے کہ نصیحت کرنا، چار باتیں سنانا اور بس۔

ملک کے حالت ناگفتہ بہ ہیں باوجود اس کے قوم افطار پارٹی میں مشغول ہے ان کو مارنے کاٹنے، گھروں کو مسمار کرنے کا شاید ذرہ برابر خیال نہیں کہ زمین و آسمان ہمارا دشمن بن چکا ہے، ہماری بربادیوں کے شور فلک پر سنے جارہے ہیں لیکن ان کے اندر بدلاؤ کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔تعلیمی میدان میں بہتری، اپنے تعلیمی ادارے کھولنے کا کوئی جذبہ نہیں جاگ رہا ہے۔ قوم کی باحجاب بچیاں آج بھی تعلیمی اداروں میں حجاب کی اجازت نہ ملنے پر واک ہورہی ہیں یا اگزام ہال سے روکی جارہی ہیں۔بے قصور نوجوانوں کی گرفتاری بھی سوہان روح بنا ہوا ہے، اس کے لیے کسی فنڈ، اچھے وکیلوں کے پینل، قانونی لڑائی لڑنے والوں کی پشت پناہی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے

تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں 

رمضان المبارک کا مہینہ جاری ہے۔مسلمان اپنے مالوں کی زکوٰۃ ایک فریضہ سمجھ کر اداکرتے ہیں۔بہت سی تنظیمیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور رفاہی کاموں کے لئے قائم ہیں۔ان کے منصوبوں کی فہرست دراز تر ہوتی ہے۔اس ماہ میں زکوٰۃ وصول کر ملی کاموں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کا دعویٰ ہوتا ہے لیکن ذرا توجہ سے دیکھیں تو ان کا دعوی سیاسی پارٹیوں کی طرح ہی ثابت ہوتے ہیں قوم کے سارے مسائل جوں کے توں ہیں، چند لوگوں کے ضرور مسائل حل ہوئے، آسودگی میں جی رہے ہیں۔

مساجد اللہ کا گھر اور لوگوں کے عبادت کی جگہ ہے۔اس کی آبادی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے یہاں کے ضروریات کی تکمیل عموماً عوامی چندوں سے ہوتی ہے۔اللہ کا گھر ایسے ہی آباد رہتا ہے، امام ومؤذن مسجد کی خدمت میں پانچ وقت حاضر رہتے ہیں۔ان کے مشاہرہ کی تکمیل بھی عوامی تعاون سے ہی ہوتی ہے۔

قوم کے جو بچے ہونہار اور لائق ہیں ان کا تعاون و امداد ہر متمول شخص کو آگے بڑھ کر کرنا چاہیے،ہمت و حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی تعلیمی اخراجات کو برداشت کرتے ہوئے ان کے مستقبل کو روشن کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔سماج میں کتنے غریب و نادار ہوشیار زیرک بچے ہیں جو آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن ڈونیشن کا انتظام نہ ہونے سے دلی خواہش کو مار کر یومیہ اجرت پر لگ جاتے ہیں۔

دو سالوں سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی مدارس مقروض ہوگئے۔اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہوگئے۔مدارس کے ذمہ داران ماہ رمضان میں ہی پورے سال کامالی انتظام کرتے ہیں۔اس کے علاوہ کوئی ذریعہ آمدنی بھی نہیں ہوتی۔مدارس ہیں تو اللہ کا گھر آباد ہے۔ مسلمان انہیں مدارس کی وجہ سے مسلمان کہلارہے ہیں جہاں کے پڑھنے والے بچے قوم کی دینی و ملی رہنمائی کرتے ہیں۔علماء کا وجود ہی زمین کے برقراری کا سبب ہے ورنہ مدارس بند ہوجائیں دینی تعلیم پر پابندی لگادی جائے، قرآن و احادیث کی تعلیم معطل کردیا جائے تو روئے زمین بانجھ ہوجائے گی۔جو علماء مخلصانہ طور پر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کا وجود غنیمت ہے یہ بات ان کو اچھی طرح سمجھ میں آئے گی جن کے کانوں نے بعد پیدائش کسی عالم کی زبان سے اذان سنی ہو۔



ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی