رمضان،زکوۃ اور سفرائے مدارس

 رمضان،زکوۃ اور سفرائے مدارس

از قلم: محمد افروز رضا مصباحی۔7795184574

ماہ رمضان المبارک کی بہاریں ہر طرف دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اللہ سے ڈرنے والے یوم حساب کا خوف رکھنے والے اس ماہ مبارک کے روزے پابندی سے رکھ رہے ہیں۔عزت و احترام کے ساتھ ماہ صیام کے حقوق کی ادائیگی پر کاربند ہیں۔پہلا عشرہ ختم ہوچکا ہے دوسرا  عشرہ مغفرت کا جاری ہے۔ جو باقی ایام ہیں وہ بھی گزر جائیں گے۔

ماہ صیام کے روزے ہر اس شخص پر فرض ہیں جو اس ماہ کو پائے۔روزہ وہ عظیم فریضہ ہے جس کو رب ذوالجلال نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ قیامت کے دن روزہ کے اجر وجزا کے بارے میں حدیث قدسی ہے ”روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دینے والا ہوں۔خداوند کریم نے اپنے بندوں کے لئے عبادات کے جتنے بھی طریقے بتائے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہے۔ نماز خدا سے راز و نیاز کی باتیں کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس میں بندہ اپنے معبودِ حقیقی سے گفتگو کرتا ہے۔ یونہی روزہ بھی خدا تعالیٰ سے لَو لگانے کا ایک حسین ذریعہ ہے۔

ماہ صیام میں اسلام کے چوتھے رکن زکوٰۃ کی ادائیگی بھی اکثر مسلمان کرتے ہیں۔

زکوۃ کی فرضیت کے لیے رمضان شرط نہیں۔ مال پر جب حولان حول یعنی سال گزر جائے تو مال پر زکوۃ کی ادائیگی واجب ہوجاتی ہے۔ لیکن عام طور پر مسلمان رمضان المبارک میں زکوۃ نکالتے ہیں۔زکوۃ کے لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہیں اس پر نظر ڈالتے ہیں۔

زکوٰۃ“ لغت میں پاک ہونے اور بڑھنے کو کہتے ہیں۔اصطلاح شرع میں زکوٰۃ کے معنی ”صاحب نصاب شخص کا شرائط پوری کرلینے کے بعد اپنے مخصوص مال کا کسی مخصوص شخص کو مالک بنا دینا ہے“۔ صاحبِ نصاب اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس اپنے اور اپنے ماتحت افراد پر ان کی ضروریات پرخرچ کرنے اور اگر اس پر ذاتی طورپر کسی کا قرضہ ہو تو اسے شمار کرلینے کے بعد ضرورت سے زائد اتنی رقم مکمل طور پر اس کی ملکیت (اس کے قبضے میں ہو جسے وہ جس طرح چاہے استعمال کر سکتا ہو) میں سال کے شروع میں اور اس کے اختتام پر ہو کہ اس رقم سے ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس سے زائد خریدی جاسکتی ہو۔ مثلاً کسی مسلمان کے پاس زندگی میں پہلی مرتبہ اتنی رقم کسی سال کے یکم رمضان میں (رمضان کا مہینہ ضروری نہیں کسی بھی مہینے کی کسی بھی تاریخ میں) جمع ہوجائے جو نہ فوری طور پر کسی ضرورت کی ہو اور نہ ہی اس پر کسی کا قرضہ ہو، پھر ایک سال مکمل ہونے کے بعد پھر اگلے سال کے یکم رمضان کو اسی طرح کی بچت اس مقدار یا اس سے زائد کی ہو تو ایسا شخص شریعت مطہرہ میں صاحبِ نصاب کہلاتا ہے۔مصارف زکوۃ کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم نے فرمایا:

”زکوۃ انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے ہوئیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھڑانے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو یہ ٹھہرایاہوا ہے اللہ کا، اور اللہ علم و حکمت والاہے“(التوبہ۔ ۰۶)

شریعت نے زکوٰۃ کو مال کا میل قرار دیا ہے اور خود نبی اکرم ﷺ اوران کی آل کو اس سے دور رکھا ہے۔ صاف اور واضح الفاظ میں یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ غیر مستحق زکوٰۃ لے گا تو زکوٰۃ کا مال اصل مال کو بھی تباہ کردے گا۔ اگر کسی کے پاس سونا، چاندی، مالِ تجارت، نقد رقوم ہوں اور ان تمام کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس سے زائد کی مالیت تک پہنچ جاتی ہے تو اس شخص کے لیے زکوٰۃکا لینا ناجائز ہے۔ لہٰذاجنہیں بھی مال زکوۃ دینا ہو اس سے پہلے تصدیق کرلے کہ وہ حاجت مند اور زکوۃ کا حقدار ہے یا نہیں۔ 

زکوۃ کی وصولیابی اور سفرا ئے مدارس:

مدارس اسلامیہ زکوٰۃ و صدقات اور عطیات پر ہی چلتے ہیں۔یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ قدیم منہج ہے۔بزرگوں نے مدارس کو حکومت کے زیر نگرانی دینے کے بجائے عوامی چندے اور تعاون سے چلانے کو ترجیح دی کہ حکومت کا بھروسہ نہیں کہ کب کیسا فرمان جاری کرکے مدارس کی آزادی پر روک لگادے، نصابی کتابوں میں تبدیلی کے احکام جاری کردے۔یہی وجہ ہے کہ مدارس قدیم خطوط پر چلتے ہوئے دینی خدمات انجام دیجارہی ہے آنے والی نسلوں کی دینی علمی اور فکری آبیاری کی جارہی ہے۔ بزرگوں کا طریق کار نہایت دور بینی اور حکمت پر مبنی تھا جس کی وجہ سے حکومت وقت کو دخل اندازی کا حق نہ رہا۔اسلاف کے فیصلے اور دوراندیشی کو موجودہ دور میں بہتر طریقے سے سمجھا جاسکتا ہے کہ فاشسٹ حکومت قائم ہونے پر الحاقی مدارس پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔

غیر سرکاری دینی مدارس عام طور پر رمضان المبارک میں قوم سے زکوٰۃ و صدقات اور عطیات کے رقوم وصول کرکے پورے سال کے اخراجات پورا کرنے کی سعی کرتے ہیں۔قربانی میں چرم قربانی سے اچھی آمدنی ہوتی تھی لیکن چند سالوں سے ایک سازش کے تحت اس کی قیمت بالکل کم کردی گئی جس سے مدارس اسلامیہ کو کافی خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔

رمضان المبارک میں مدارس کے سفیر اپنے شہر اور بیرون شہر جاکر گھر گھر دستک دے کر زکوٰۃ و صدقات جمع کرکے ادارے میں جمع کرتے ہیں۔ ان سفراء میں عام آدمی ہی نہیں بلکہ درسگاہ کے شیخ الحدیث، شیخ القرآن، بڑے عالم و فاضل، حافظ قرآن و قاری قرآن ہوتے ہیں بعض ہمدرد جو دینی خدمات کا جذبہ رکھتے ہیں، اپنے مدارس کے اخرجات کی تکمیل کے لئے باہر نکلتے ہیں۔جو شخص اپنی ضرورت کے لئے کسی سے ایک لفظ نہیں کہتے قوم کے بچے بچیوں کی دین تعلیم و تعلم اور دینی علوم کی نشر و اشاعت کے لئے دوسروں کے سامنے منہ کھولتے ہیں۔ مولوی طبقہ یوں بھی بڑا خوددار ہوتا ہے لیکن جب قوم کی تعلیمی بہتری کا معاملہ ہو تو شرم و غیرت سے اوپر اٹھ کر صاحب ثروت، مالدار طبقہ اور زکوٰۃ و صدقات ادا کرنے والوں کے سامنے اپنے مدارس کے احوال بیان کر دیتے ہیں۔

زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی کا طریقہ تو یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق مال کی زکوٰۃ نکال کر مستحقین تک پہنچائیں۔فی زمانہ ایسا نہیں ہوتا، زکوٰۃ نکال کر انتظار میں ہوتے ہیں مانگنے والا آئے تو دیں گے اگر کوئی نہیں آیا تو جسے سمجھ میں آیا دیدیا بغیر یہ جانے کہ وہ مستحق ہے بھی یا نہیں۔موجودہ دور میں لوگوں کے درمیان سے جائز و ناجائز، حرام و حلال کی تمیز ختم ہو گئی ہے بس روپے چاہیے جیسا بھی ہو روپیہ ہونا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقوم غیر مستحق کے ہاتھ لگنے پر مستحقین محروم رہ جاتے ہیں۔

زکوۃ و صدقات کے اصل حقدار تک پہنچانے کے لیے جو بھی آگے بڑھے یا کسی طریقے سے مستحقین تک پہنچانے کا ذریعہ بنے اسے دیاجاسکتاہے۔قوم کی فلاح و بہبود کے لیے جو بھی تنظیم و تحریک اور بیت المال کام کرے اس کا ساتھ دینا چاہیے۔

اس میدان میں کچھ ناخدا ترس لوگ مدارس کے نام پر چندہ کرکے اپنی ضروریات میں صرف کرلیتے ہیں جن کا وبال ان کے سر ہے۔ رب کی بارگاہ میں جواب دہ ہوں گے۔لیکن اسی کو ایشو بناکر آزاد خیال،دین بیزار لوگوں نے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ مدارس میں تعلیم نہیں ہوتی یا جب تک دنیوی تعلیم نہ ہو دینی تعلیم سود مند نہیں لہذا زکوٰۃ کی رقوم سے ایسے ادارے قائم کیے جائیں جس سے قوم کے بچوں کو باہنر بنایا جائے، مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کرائی جائے،عصری تعلیم کا انتظام کیا جائے، بیت المال قائم کیے جائیں، یتیموں، بیواؤں کی کفالت کی جائے وغیرہ وغیرہ۔

ایسی پست سوچ و فکر کا نتیجہ ہے کہ ایک شہر میں کئی کئی بیت المال،فاونڈیشن اور تنظیم قائم ہوگئے ہر ایک کے منصوبے طول طویل اور پرکشش ہوتے ہیں کہ بندہ دیکھ کر ہی فدا ہوجائے، زکوٰۃ و صدقات کی ساری رقوم ان کے قدموں میں نثار کردے۔حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی بعض غیر معروف سیاسی پارٹیاں بھی زکوٰۃ و صدقات جمع کرنے کے لئے ایک ونگ بنا رکھا ہے جس میں قوم و ملت کی فلاح وبہبود کی لمبی چوڑی  فہرست ہوتی ہے۔جس پر عمل کرنے سے پلک جھپکتے ہی سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔لیکن عام طور سے دیکھا گیا کہ یہ بھی فرضی مدارس، گلی محلے میں ایک روم میں قائم ہونے والے مدارس کی طرح ہی رقم وصول کر کسی پرائمری اسکول میں پہنچ کر چند بچوں کو کاپی قلم پنسل دے کر فوٹوگرافی کروا کر واپس خوشی خوشی لوٹ آئے کہ ہم نے بڑا کام کیا۔زکوۃ کی رقوم وصولنے والی بعض تنظیم و تحریک پبلیسٹی،لوگوں میں پرچار اور بڑے لوگوں میں اپنے وجود کو قوم کی خوشحالی کے لیے سب سے بہتر ثابت کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ موجودہ حالات مدارس اسلامیہ کے لئے نہایت خستہ ہے اس کے وجود پر فرقہ پرستوں کی نظر ہے۔علماء ان کی نظروں میں مثل خار ہیں جس کی وجہ سے انہیں بھی  نشانہ بناتے ہیں۔اپنے سمجھتے ہیں یہ لوگ صرف زکوٰۃ و صدقات وصول کر ڈکار جاتے ہیں،مدارس موجودہ تقاضوں کی تکمیل میں قاصر ہیں۔

غیر یہ سمجھتے ہیں کہ یہی کوکرتا ٹوپی والے اصل رکاوٹ ہیں پہلے ان کو ٹھکانے لگادیا جائے تو مسلم قوم بالکل اپاہج ہو جائے گی پھر شکنجہ کسنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔

مدارس دینیہ ہندوستان میں چار فیصد بچوں کی مفت تعلیم وتعلم کا انتظام  وانصرام کرنے میں مشغول ہے، اردو کی تعلیم وتعلم کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔نادار و مفلوک الحال بچوں کی کفالت کا لفظی طور پر نہیں عملی طور پر کاربند ہے۔یہاں کی خاک سے بنے ہوئے انسان سماج و معاشرہ میں قدر وعزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ مدارس اسلامیہ کے دم قدم سے ہی ملک میں دینی بہاریں اور رعنائیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں اگر یہ ختم ہوجائے توملک کو دینی اعتبار سے بنجر بننے میں وقت نہیں لگے گا اسی خطوط پر فرقہ پرست طاقتیں کام کر رہی ہیں ہمارے نادان دوست بعض مرتبہ آلہ کار بن جاتے ہیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی