فقیہ اسلام الحاج الشاہ مفتی عبد الحلیم رضوی اشرفی کا آخری سفر

 


فقیہ اسلام الحاج الشاہ مفتی عبد الحلیم رضوی اشرفی کا آخری سفر

مرض و رحلت سے لے کر تدفین تک کے حالات کا احاطہ کرتی ایک دل گداز تحریر

ازقلم۔۔۔محمد افروز رضا مصباحی ،گلبرگہ7795184574 

چل دیے تم آنکھ میں اشکوں کا دریا چھوڑ کر 

رنج فرقت کا ہر اک سینہ میں شعلہ چھوڑ کر 

عالم کی موت عالَم کی موت ہے ۔بساط ہستی سے بڑی بڑی ہستیاں اٹھتی جارہی ہے۔زمین اہل علم و وارثین انبیاء سے خالی ہوتی جارہی ہے ۔کرونا کی وبا جب سے چلی ہے کوئی دن ہفتہ مہینہ نہیں گزرتا جب کسی علم کے کوہ ہمالہ کے دنیا سے منہ موڑنے کی خبر نہ ملتی ہو۔سوشل میڈیا کی آسان خبر رسانی نے یہ آسانی پیدا کردی کہ خبریں لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہیں ۔ کرونا مہاماری کے اس دور پُر آشوب میں خبروں کے جنگل میں اموات کی خبریںسب سے زیادہ ہوتی ہیں ۔واٹس اپ فیس بک جب کھولیے استرجاع اور ذائقہ موت چکھنے والوں کی خبریں آنکھوں کے سامنے ہوتی ہیں ۔دنیا سے تو ہر ذی جان کو جانا ہے لیکن اہل علم کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا ستم ڈھاتا ہے۔جن بزرگوں کی دعائے سحر گاہی قوم وملت کو آکسیجن فراہم کرتی تھی وہ یکے بعد دیگرے رخصت پذیر ہیں۔اندازہ نہیں ہوتا کہ کب کس کے وصال کی خبر سننے کو ملے گی۔

فقیہ اسلام یادگار سلف ونمونہ خلف تھے:

فقیہ اسلام علامہ مفتی عبد الحلیم رضوی اشرفی یادگار سلف تھے، ان کی موجودگی ہم اصاغر کو ہر موقع پر ڈھارس بندھاتی تھی، وہ جس اسٹیج پر آگئے خلق خدا صرف صورت زیبا دیکھنے کو امنڈ پڑتی تھی، اختلاف و انتشار کے اس دور میں جب کوئی کسی کو اپنا مرجع ماننے کو تیار نہیں لیکن آپ کا نام آجائے تو ہر دو مخالف ان کے فیصلے پر آمنا اور صدقنا کہنے کو تیار ۔ الٰہی تیرے پُر اسرار بندے اٹھتے جاتے ہیں، زمین اپنے پشت کو ہلکا کرنے کے لئے گنجہائے گراں مایہ کو اپنے اندر سمو رہی ہے ۔

سفر در سفر:

حضور فقیہ اسلام اپنی زندگی میں سفر پر زیادہ رہے ۔ایک سفر کے بعد دوسرے سفرکے لیے تیار ،رخت سفر ہمیشہ تیار نہ معلوم کب کہاں سے بلاوا آجائے اور فوراًنکلناپڑ جائے ۔زندگی سفر میں گزری ،سفرسے زندگی اور زندگی کو سفر سے جدا کردیاجائے تو پھر ان کی زندگی میں زیادہ کچھ نہیں بچتا ۔کثرت سفر نے ان کو ہمیشہ مسافر بنائے رکھا ۔تقریباً پانچ ماہ قبل ناگپور کے گھر سے سامان سفر لے کر اپنے مرید خاص سلیم بھائی وجے واڑہ والے کے ساتھ نکلے وجے واڑہ، مچھلی پٹنم، نندی گاما، ددری ،ممبئی میں دعوت اسلامی کے مدرسے میں ختم بخاری کے لیے ،راگھوپور ، نندربارکے بعد محض چند دنوں کے لیے ناگپور آئے۔ پھر رخصت ہوگئے سفر ہی سفر سے آخرت کے سفر پر ہمیشہ کے لیے روانہ ہو گئے۔

مچھلی پٹنم سے تعلق:

حضور فقیہ اسلام کاآندھرا کے مچھلی پٹنم شہر سے بہت پراناتعلق ہے ۔ یہ شہر سمندر کے کنارے آباد ہے۔یہاں کے لوگوں کی معیشت کا انحصار زیادہ تر مچھلی کی برآمدپر ہے۔یہاں کے لوگوں سے بھی آپ کا تعلق دینی و تبلیغی سفر کی بنیاد پر استوار ہوا۔ جناب ثنا ء اللہ بیگ سے آپ کی شناسائی سب سے پہلے ہوئی ۔ ان کی دعوت پر اس شہر میں وارد ہوئے۔ اسی شہر کے شکوری بھائی کے گھرسے بڑی قربت رہی۔ ان کا مکان ہی ’’حلیمی منزل ‘‘ ہے جہاں آپ آتے تو قیام پذیر ہوا کرتے تھے۔

موسم سرماگزرانے کے لیے وجے واڑہ میں:

حضور فقیہ اسلام ادھر چھ سات سالوں سے موسم سرما آندھرا پردیش میں اپنے مریدوں کے شہر وجے واڑہ میں گزارا کرتے تھے۔وجہ یہ تھی کہ ٹھنڈی کے دنوں میں ناگپور سخت سردی کے چپیٹ میں رہتا، حضور فقیہ اسلام کو نہ زیادہ سردی برداشت ہوتی تھی نہ گرمی میں آرام ملتا،پیروں میں سوجن آجا تا جس سے چلنے پھر نے میں تکلیف ہوتی ۔ آپ کے اند ر جب تک چلنے پھرنے کی قوت و استطاعت رہی اور جسم میں توانائی باقی رہی ہر موسم میں ملک میں دین متین کی خدمت اور قوم کی اصلاح فکر و اعتقاد کے لئے محو سفر رہے جہاں سے بلاوا آیا رخت سفر باندھا اور عازم سفر ہوگئے ۔لیکن ادھر چند سالوں سے قویٰ مضمحل ہونے کی وجہ سے سردی کی شدت برداشت سے باہر ہوجاتی تھی ۔موسم سرما میں مچھلی پٹنم اور وجے واڑہ شہر آپ کے قیام کے لیے مناسب اور موزوںتھا۔  

وجئے واڑہ تیلگوریاست آندھرا پردیش کے ضلع کرشنا کا سب سے بڑا گنجان آبادی والاشہر ہے جو دریائے کرشنا کے کنارے واقع ہے۔ سطح سمندر سے ۲۳؍ میٹر بلند ہے ۔یہ ایک صنعتی شہر سمجھا جاتا ہے۔ ندی اور پہاڑوں والے اس شہر میں دسمبر اور جنوری کے مہینے میں بھی تاپمان 29/30/ ڈگری رہتا ہے جو شمالی ہند کے رہنے والوں کے لئے موسم گرما جیسا ہی ہوتا ہے ۔حضور فقیہ اسلام کو یہ شہر بڑا پسند تھا یہاں کے سادہ مزاج لوگوں میں رہ کر برسوں دین و سنیت کا کام انجام دیے۔ اس شہر اور قرب وجوار میں تقریباً 40/ سالوں سےآپ کا آناجانا تھا ۔یہاں چاہنے والوں کی کمی نہیں ۔آپ نے سب کو اپنا جانا ،محبت کا وہ طریقہ پیش کیا جس سے اجنبی بھی اپنا ئیت محسوس کرنے لگ جائے۔لہذا چاہنے والوں نے والہانہ چاہت کا ثبوت دیا۔یہ چاہت کی ہی شدت تھی کہ چند سالوں سے موسم سرما گزارنے کے لیے یہاں تشریف لے آتے۔

حضور فقیہ اسلام کو ان لوگوں کی محبت خلوص اور قربانی بار بار کھینچ لاتی ۔سلیم بھائی ناظم اعلی دارالعلوم حلیمیہ حضرت کے بڑے عزیز اور چہیتےمریدہیں۔ اس کی دو وجہ رہی ۔ایک تو حضرت کے مرید تھے، دوسرے دعوت اسلامی کے آندھرا کے نگران بھی تھے۔دعوت اسلامی کے حضور فقیہ اسلام سرپرست تھے ۔نگران کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ سرپرست دعوت اسلامی جب ان کے حلقے میں دورہ پر ہوں تو نگراں ہی ان کی ہر طرح سے معاونت کریں گے ۔دعوت اسلامی کے پروگرام کے لئے وجے واڑہ، گنٹور، نلور، راج منڈری، مچھلی پٹنم، وشاکھا پٹنم وغیرہ کے دورہ پر جب ہوتے تو سلیم بھائی ضرور ساتھ ہوتے ۔اپنے گھر پر ٹھہراتے، خدمت کرتے ۔یہ انسیت اتنی بڑھی کہ بیٹوں جیسی چاہت ہوگئی ۔پورا گھرانہ حضرت کا دیوانہ ہوگیا ۔یہ گھر اپنے گھرجیسا ہوگیا۔آپ جب بھی یہاں ٹھہرتے تمام افراد خانہ حضور مفتی صاحب قبلہ کی خدمت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ۔

سلیم بھائی کی گزارش پر ان کے گھرمیں قیام :

سلیم بھائی کی پیش کش پر ٹھنڈی کے ایام وجے واڑہ میں گزارنے لگے ۔اہلیہ محترمہ بھی ساتھ میں ہوتی ۔دو مہینہ رہنے کے بعد پھر ناگپور آجاتے یا پھر دوسرے علاقے کی جانب دورے پر نکل جاتے ۔موسم سرما وجے واڑہ میں گزارنے سے مریدین کو سہولت یہ ہوئی کہ گھر کا جو پروگرام مثلاً گھروں،دکانوں کی اوپننگ ،بچے بچیوں کی شادی بیاہ،یا کسی اور طرح کا فنکشن رکھنا ہوتو پیر صاحب کی آمد کے بعد ہی رکھتے ۔پھر ان مہینوں میں قرب و جوار کے علاقے میں جہاں کہیں دینی پروگرام ہوتا حضور مفتی صاحب قبلہ مدعو کیے جاتے۔ ان کے یہاں رہنے سے اہل عقیدت اور مریدین میں احساس تفاخر بھی رہتا کہ ہمارے پیر صاحب ہمارے درمیان ہیں ۔

گزشہ نومبر 2020 میں راقم کوخبر ملی کہ اس سال حضور مفتی صاحب قبلہ کا وجے واڑہ جانے کا ارادہ نہیں ہے۔لیکن مرید صادق سلیم بھائی اپنی اہلیہ کے ساتھ ناگپور پیر صاحب کے قدموں میں جاکر بیٹھ گئے کہ جو سہولت یہاں ملے گی اس سے بڑھ کر وجے واڑہ میں سہولت پہنچانے کی کوشش کی جائے گی ۔پورا گھرانہ سراپا انتظار ہے، اہلیان شہربھی پلکیں بچھائے فرش راہ ہیں ۔چلیں وہیں آرام کریں۔گھر والے سلیم بھائی اور ان کی اہلیہ کی التجااورگزارش پربڑی مشکلوں سے رضا مند ہوئے ۔حضورفقیہ اسلام اپنی اہلیہ کے ساتھ وجے واڑہ تشریف لے آئے ۔

۴؍جنوری :

حضور مفتی صاحب قبلہ جب سے وجے واڑہ میں سردی کا موسم گزارنے لگے تھے ۔وہاں کے مریدین و معتقدین ۴؍ جنوری کو آپ کے یوم ولادت کے موقع پر نعت و منقبت کی محفل منعقد کی جاتی ۔مخصوص لوگوں کے دعوت طعام کا بھی انتظا کیا جاتا۔ اس سال ۲۰۲۱ ء میں یوم ولادت ایک فنکشن ہال میں بڑے پیمانے پر اس پروگرام کو منایاگیا ۔پھولوں کی برسات کی گئی ،مریدین نے تحائف پیش کیےاور آپ کے سر پر چاندی کا بنا ہوا تاج سجایاگیا۔وہ تاج ابھی جامعہ ضیائیہ فیض الرضا کی آفس میں بطور یادگار رکھاہوا ہے۔

ایک دور ہ بہار کا:

جنوری میں ایک دورہ غالباً سہرسہ بہار کا ہوا تھا ۔ مارچ کی 18/ تاریخ کو دوسرا دورہ بہار کا ہوا ۔وجہ یہ بنی کہ دوسرے نمبر کی بہو کے بھائی کی طرف سے راگھوپور ضلع مظفر پور  ۲۱ ؍ مارچ کو ایک دینی پروگرام کا انعقاد عمل میں لایاگیاتھا۔پروگرام کی سرپرستی میں آپ کا نام دیا گیا تھا ۔ بہار کے دونوں سفر میں اپنے آبائی گاؤں’’ ددری‘‘ آئے تھےجہاں آپ کا قائم کردہ ادارہ جامعہ ضیائیہ فیض الرضا اپنی پر شکوہ عمارت اور عمدہ تعلیم وتدریس کی وجہ سے پورے شمالی بہار میں جانا جاتا ہے ۔۱۹ ؍ مارچ ۲۰۲۱ ء کو حضور مفتی صاحب قبلہ کا جیتے جی ددری کا آخری سفر تھا ۔

نندی گامامیں ’’رضامسجد ‘‘ کا افتتاح:

بہار کے سفر سے لوٹے تو وجے واڑہ سے ۸۰؍ کلومیٹر کے فاصلے پرتعلقہ نندی گاما کی ایک نئی تعمیر شدہ " رضا مسجد" کے افتتاح کے لئے آگئے ۔رات کا پروگرام تھا،صبح کو وجے واڑہ لوٹ آئے۔اس بھاگ دوڑ میں مرض کا حملہ بھی ہوا ۔علاج چلتا رہا خود بھی چلتے رہے ،سفر کرتے رہے۔

پاؤں میں انفکشن:

5/ اپریل کو واٹس اپ گروپ " آل انڈیا حلیمی فاؤنڈیشن " میں شہزادہ فقیہ اسلام مفتی یحییٰ رضامصباحی کا وائس ایس ایم ایس ملا کہ حضور فقیہ اسلام پاؤں میں انفیکشن کی وجہ سے زیر علاج ہیں، احباب دعا فرمائیں ۔ 

مریدین و معتقدین اور تما م عقیدت مندوں نے رب ذوالجلال کی بارگاہ میں انفرادی و اجتماعی دعائے صحت کی ۔حضور مفتی صاحب قبلہ کی طبیعت میں افاقہ ہوا۔ ڈاکٹروں کی نگہبانی میں صحیح علاج و معالجہ کے بعد صحت یاب ہوکر مرید کے گھر لوٹے۔اس بیماری کی وجہ سے تین روز ہاسپٹل میں ایڈمٹ رہے ۔ اس کے بعد طبیعت بحال رہی ۔روٹین کی دوائیاں لیتے رہے ۔

بخار کا حملہ:

20/ اپریل بروز منگل کو بخار آیا تھا۔معمول کی دوا کھلادی گئی تو رات تک بخار اتر گیا۔طبیعت میں بشاشت لوٹ آئی تھی، روزانہ ملنے ملاقات کو آنے والوں کے ساتھ نشستیں بھی رہیں ۔وقت پر پابندی کے ساتھ نمازو  اوراد و وظائف بھی پڑھتے رہے ۔

22/ اپریل بروز جمعرات کو پھر طبیعت بگڑ گئی ۔بخار بھی لگا ۔ہاسپٹل نہ لے جا کر گھر میں ہی سلیم بھائی نے اپنے فیملی ڈاکٹر کے مشورے سے سلائن وغیرہ کا انتظام کیاگیا۔سلائن لگانے سے شام تک کچھ افاقہ ہوا ۔

سلیم بھائی سے ایک گزارش:

بعد نماز مغرب اہل خانہ سلیم بھائی سے فرمایا : سلیم! دس منٹ کا ٹائم ہے تمہارے پاس تو میرے پاس بیٹھو۔بقول سلیم بھائی: میں بیٹھ گیا اور کہا کیا بات ہے ابا؟

حضور مفتی صاحب قبلہ : اب میرا دل دنیا سے اُچاٹ ہوگیا ہے، اب یہاں رہنے کو جی نہیں چاہتا،میرا آخروقت آچکاہے۔ 

سلیم بھائی :میں رونے لگا۔

ابا نے کہا کیوں روتے ہو؟  جو ہونا تھا ہوچکا میرے پاس وقت نہیں ہے دو روز ہے ۔ان کی باتیں سن کر مجھے اور رونا آیا ۔

ابا نے پھرکہا : تم نے مجھ پر بہت احسان کیا ہے ایک احسان اور کردو، مجھے کسی طرح ددری بھیج دو میں وہیں رہنا چاہتا ہوں ۔

سلیم بھائی :ابا کی بات سن کر میری عجیب کیفیت ہوگئی ۔کوئی جواب فوراً نہ دے سکا۔

ابا سے گفتگو ہوگئی ۔مجھے اس وقت کہیں جانا تھا چلا گیا ۔لیکن فون کرکےمفتی یحییٰ رضا اور مصطفیٰ بھائی کو بتادیا ابا ایسا ایسا کہہ رہے ہیں‘‘۔

جمعہ کادن:

جمعہ کے روز بھی ڈاکٹرنے سلائن لگا دیا۔آپ بیڈ پر آرام کرتے رہے۔تکلیف تھی ،ددری جانے کی چاہت بھی سر ابھار رہی تھی ۔ زندگی سے رشتہ منقطع ہونے کا احساس بھی تھا ۔اس سب کے باوجود ایک وقت کی نماز قضاء نہیں کی۔ہر نماز وقت پر ہی ادا کرتے رہے ۔اہلیہ محترمہ خدمت کے لیے ساتھ میں تھی لیکن موسم کی تبدیلی کی وجہ سے وہ بھی بیمار ہوگئی تھی ۔

افراد خاندان کی آمد:

سلیم بھائی سے بات کرنے کے بعد مفتی یحییٰ رضا مصباحی ممبئی سے بائی فلائٹ سنیچر کو دوپہر دو بجے وجے واڑہ پہنچ گئے ۔ ناگپور سے مصطفیٰ بھائی، دوسرے اورچوتھے نمبر کی بہو، یونس رضا کے چھوٹے لڑکے انس رضا یہ چاروں بھی سنیچر کی صبح پانچ بجےوجے واڑہ پہنچ گئے ۔ حضور مفتی صاحب کو ان لوگوں کے آنے کی اطلاع نہیں دی گئی تھی ۔جب پہنچے اور سامنا ہوا تو سلیم بھائی سے کہا : کیا بات ہے مجھ سے پوچھے بغیر ان لوگوں کو کیوں بلا لیا؟

سنیچر کا دن: 

سنیچر کا دن معمول کے مطابق رہا ظہر و عصر کی نماز بھی ادا کی ۔ دوسرے نمبر کی بہو کے مطابق:دوپہرساڑھے تین بجے کھاناکھایا،بہو نے پوچھا آپ کی پسندیدہ کونسی چیز بنادوں؟ آپ نے سموسہ کھانے کی خواہش ظاہر کی ۔ساڑھے چار بجے تک کھانے پینے سے فارغ ہوئے ۔بعد نماز عصر وہاں موجود اپنے تمام گھر والوں کو سامنے بیٹھا کر نصیحتیں کی ۔سلیم بھائی کے گھر والوں کو بھی سامنے بیٹھا کر نصیحت آموز باتیں کی۔اپنے گھروالوں کو وصیت کی :

’’اسلام سنیت اور مسلک اعلی حضرت پر قائم رہنا‘‘ ۔ اس جملہ کو بعد عصر سے تاوصال کئی مرتبہ دوہرایا۔

اپنی اہلیہ محترمہ سے کہا : یہاں رہنے کی ضرورت نہیں، ناگپور چلی جانا ۔

چھوٹے صاحبزادے مصطفیٰ رضا آپ کے سارے کاموں کی دیکھ بھال کرنے والے ہیں، ان سے فرمایا:تم چھوٹے ہو تم سے توقع ہے کہ خاندان میں سب کو جوڑے رکھنا ،آپسی تعلقات کو باقی رکھنا یہ تمہارے ذمہ ہے۔ مصطفیٰ رضا کے مطابق :روز وصال جب وجے واڑہ پہنچاتو جو میرے رابطے میں ہیں سبھی کے کال آنے شروع ہوگئے ۔بطور خاص ناگپور کے جتنے بھی اباکے قریبی ہیں ،سبھی کے فون کال ایک کے بعد دوسرے کے آتے رہے،ابا حضور کو سب کے بارے میں بتاتا رہا،اباحضور نے بھی کئی لوگوں کے احوال دریافت کیے۔ایک بات یہ رہی کہ آخری وقت تک جامعہ ضیائیہ فیض الرضا کے لیے فکر مند رہے ،اس فکر مندی کا اظہار بھی کیا۔(دو سال سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ادارہ کے امداد و تعاون پر پڑنے والے اثرات نے آپ کو تھوڑا ملول خاطر کردیا تھا)  

اسی درمیان مفتی یحییٰ رضامصباحی سے رضاعت کے ایک مسئلہ کے بارے میں دریافت بھی فرمایا۔ پھر اپنی عادت کے مطابق تمام موجود افراد سے معافی کے طلب گار ہوئے۔اپنے پوتے انس رضا کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا : اب تک ہم دونوں مل کر گھر چلاتے رہے ،اب تم اکیلے ہوجاؤگے لیکن خیال رکھنا کسی مہمان کو گھر سےبھوکے جانے نہیں دینا۔

اس کے بعد اپنے گھر والوں کی جانب رخ کرکے کہا:تم لوگ سلیم بھائی کا شکریہ ادا کروکہ اس نے اور اس کے گھر والوں نے بڑی خدمت کی ہے۔آخر میںسب سے کہا:

’’ جتنا دیکھنا ہے دیکھ لو دیکھ لو‘‘

گھر والوں نے کہا: ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ۔آپ اچھے ہوجائیں گے ہم لوگ ناگپورساتھ میں چلیں گے ۔لیکن آپ یہی کہتے رہے 

’’جتنا دیکھنا ہے دیکھ لودیکھ لو‘‘

ان کی آنکھیں جو دیکھ رہی تھی ،گھروالے اس سے ناآشناتھے ، وہ تومعمول کا مرض سمجھ رہے تھے کہ ہمیشہ بیمار ہوتے ہیں ،ایسی کیفیت ہوتی ہے لیکن پھر اچھے بھلے ہوجاتے ہیں اور اپنے کام میں لگ جاتے ہیں ۔لیکن آج کا معاملہ کچھ اور تھا،ان کی نگاہیں بہت دور دیکھ رہی تھی۔

بعد نمازمغرب سے زباں کلمہ خواں رہی 

مغرب کی اذان ہوئی خدمت گاروں نے سہارا دے کر اٹھایا آپ نے تیمم کی اورنماز ادا کی ۔بعدنماز مغرب ڈاکٹر کئی روز سے چیک اپ کے لئے آرہا تھا، آج ذرا تاخیر ہوئی تو آپ نے پوچھا:ڈاکٹرصاحب اب تک نہیں آئے؟ جب ڈاکٹر آئے تو چیک اپ کرانے میں ڈاکٹرکاپوری طرح سپورٹ کیا ۔چیک اپ کے بعد ڈاکٹر رخصت ہوگئے۔ مغرب کی نماز کے بے چینی بڑھ گئی تو افراد خاند ان میں سے کسی کے کہنے پر مفتی یحییٰ رضا مصباحی نے سورہ رحمٰن کی تلاوت شروع کی ۔ تلاوت جیسے ہی شروع ہوئی آپ بڑی خاموشی سے بغیر کوئی آواز نکالے تلاوت سنتے رہے۔مفتی یحییٰ رضا کو محسوس ہوا کہ تلاوت قرآن کے آداب کی وجہ سے کرب و بے چینی برداشت کررہے ہیں لہذا سورہ رحمٰن کی تلاوت کے بعد سورہ رعد سورہ یٰسین کی تلاوت آہستہ آواز میں کی تاکہ ’’مسافر عدم راہی ‘‘ کو خود پر جبر نہ کرنا پڑے۔آپ اس کے بعد اپنی عادت کے مطابق اللہ اللہ کاورد کرتے رہے۔ کلمہ طیب بار بار دہراتے رہے،پانچوں کلمے ، ایمان مجمل ،ایمان مفصل ،استغفار ملائکہ، سفر کی دعائیں ،یا حی یا قیوم ورد زباں رہااور غوث اعظم بمن بے سروساماں مدد دے، پڑھتے رہے۔عقل و خردنےاخیر وقت تک ساتھ نہیں چھوڑا، بے چینی ہے لیکن چرچراپن سے پاک ہے،کلمہ و درودپڑھ رہے ہیں ،زبان اللہ اللہ کہنے میں مشغول ہےیہ جاری رہنے والی ہے جب تک سانس کی آس باقی ہے۔

چراغ سحر بجھنے کو ہے:

۰۰:۹بجے کے قریب اور بھی لوگ عیادت کو آئے ان سب کو باہر ہی بیٹھا دیا گیا۔مفتی صاحب قبلہ نے بات کرنا بند کر دیا ۔جو بھی کہنا ہوتا اشارے سے کہتے ۔آپ لیٹے رہے آنکھیں بند تھیں ۔ہونٹ ہل رہے تھے ۔گردن قبلہ کی طرف پھیر لیا۔ گھروالوں نے چار پانچ مرتبہ گردن سیدھی کردی لیکن پھر آپ قبلہ کی جانب چہر ہ کرلیتے ۔ اخیر میں مفتی یحییٰ رضا صاحب کے کہنے پر قبلہ رو چہرہ رہنے دیاگیا۔ وقت اخیر چیت لیٹ گئے پاؤں سیدھا کرلیا ۔ساڑھے نو بج چکے تھے اچانک موسلا دھار بارش گرج چمک کے ساتھ شرو ع ہوگئی ۔ایسی بارش جس کا اس موسم میں تصورنہیں تھا ۔باہر بارش کے قطروں کی بوچھار تھی ۔گھر کے اند ر ایک بیمار کا دل ’’سفر آخرت ‘‘ کے لیے مچل رہاہے۔آنکھیں  دیدارسرکار ابدقرارﷺ میںکبھی کھلتی ہیں کبھی بند ہوتی ہیں ۔سلیم بھائی کا گھرہے۔وہی کمرہ ہے جس میں آپ آرام فرمایاکرتے تھے، مرد درویش کلمہ طیب کے ورد میں مشغول ہے۔جاں کنی کا عالم ہے ،روح کا رشتہ جسم سے ٹوٹنے کو ہے ۔کوئی دم ہے سانس اکھڑ جائے اور ۸۶؍ سال پہلے جڑے روح اور جسم ایک دوسرے سےجدا ہوجائے۔ سامنے گھر کے افراد ، دوسرے مریدین و معتقدین کھڑے ہیں۔جن کے کھڑے ہونے پر ہمیشہ بیٹھ جانے کی دعوت دیا کرتے تھے ۔ آج لوگ کھڑے ہیں لیکن مرد درویش آنکھیں بند کیے سب سے بیگانہ بستر پر بے نیاز لیٹا ہے ۔ماحول سوگوار ہے،مردو خواتین میں سے ہرایک کی آنکھیں استعجابی ہیں لیکن زبان سب کی خاموش ہیں ۔یہ وقت کچھ کہنے کا نہیں احساس کرنے کا ہوتاہے ،احساس سبھی کو تھا لیکن کیا کہے بس دیکھتے جائیے۔

 موت کی گھڑی شاید قریب آگئی تھی۔ بے ثبات دنیاسے رخصت کی گھڑی قریب سے قریب تر ہوتی جارہی تھی ملکوت الموت نفس مطمٗنہ کولینے فرشتوں کی جماعت لے کرآچکے تھےاور پیغام حق سنا رہے تھے :

یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیہ 

رب کی طرف سے بلاوا آگیاتھا۔فرشتوں کی جماعت پاک روح کو لینے حاضر ہوگئی تھی۔آپ سیدھے لیٹے ہوئے تھے ،چہرہ قبلہ رو تھا۔ ۲۴؍ اپریل ہے دوہزار اکیس ہے۔رمضان المبارک کی گیارہ تاریخ دن سنیچر گزر چکاہے بارہویں رمضان کی شب ہے، رات کانو بج کر ۴۰ ؍منٹ ہوچکاہے۔ بستر پر لیٹے مرد درویش کے منہ سے اچانک ایک آہ نکلی اور روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔نہ بے چینی، نہ کرب کے آثار، نہایت خاموشی اور اطمینان کے ساتھ نفس مطمئنہ اپنے رب کے حضور لوٹ گئی ۔انا للہ وإنا إلیہ راجعون 

روح نے آسمان کی جانب پرواز کی عرش پر شادیانے کے ترانے گائے جانے لگے کہ زمین کی گود سے مومن صالح آیاہے۔لیکن فرش کی حالت غیر تھی یہاںکہرام بپاہوگیا حاضر و موجود دھاریں مار مارکررونے لگے۔باہر آسمان اب تک اشک بار ،گرج اور چمک کے ساتھ زمین کی صفائی کر رہاتھا۔روح پرواز کی اور بارش تھم گئی جیسے بارش ہوئی ہی نہ ہو۔

چل دیے تم آنکھ میں اشکوں کا دریا چھوڑ کر 

رنج فرقت کا ہر اک سینہ میں شعلہ چھوڑ کر 

انتقال پُر ملال کی خبر ہر سوپھیل گئی :

گھر اور باہر جیسے ہی موت کی خبر ہوئی صف ماتم بچھ گئی ۔وجے واڑہ شہر میں جیسے ہی خبر عام ہوئی کہ پیر صاحب نہیں رہے تو ہر گھر سوگوار اور غمزدہ ہوگیا لوگ دھاریں مار کر رونے لگے۔

سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ۔واٹس اپ ،اور فیس بک کے ذریعہ مفتی صاحب قبلہ کے وصال پُر ملال کی خبر منٹوں میں ملک کی سرحد سے نکل کردنیا کے دور دراز حصوں تک اپنوں اور بیگانوں تک پہنچ ہو گئی۔مفتی یحییٰ رضا مصباحی کوآڈیو ،ویڈیو ،اور تحریری تعزیتی پیغام آنے لگے۔جسے معلوم ہوا تصدیق کے لیے اپنے جانکاروں سے رابطہ کرنے لگا۔تصدیق ہوجانے پر دل کی دنیا ویران سی ہونے لگی۔ 

راقم وجے واڑہ سے پانچ سو کلو میٹر کی دوری پرگلبرگہ کرناٹک میں نماز عشاکے ساتھ تراویح سنا کر گھر پہنچا دسترخوان پر بیٹھا ہی تھا کہ مولانا سبحانی نظامی کا کال آیا سلام کیا جواب آواز بھرائی ہوئی تھی، پوچھا خیریت ہے؟ روتی ہوئی آواز میں کہا:

پیر صاحب نہیں رہے۔سن کر کانوں پر بھروسہ نہیں آیا۔ پوچھا: کیا کہہ رہے ہیں؟ کہا: مفتی عبد الحلیم صاحب قبلہ ناگپوری اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔

وصال کی خبر تھی یا بادل کو پڑنے والی کوڑے کی آواز!طبیعت اچاٹ ہوگئی،سامنے رکھے کھانے کی چاہت ختم ہوگئی ۔فوراً مفتی صاحب قبلہ  کے چھوٹے صاحبزادے مصطفیٰ رضا کو کال لگایا۔وہ پہلے سے ہی اشکبار تھے میری آواز سن کر اشک کے بند ٹوٹ گئے صرف اتنا کہہ سکے:

' ’’ہاں خبر صحیح ہے ابو  اب اس دنیا میں نہیں رہے‘‘

اب تک اشک کے در بند تھے ان کی آواز سن کر اشک بیتاب سے لبریز پیمانے چھلک پڑے دل کی کیفیت بدل گئی۔مفتی صاحب قبلہ کا سراپا نظروں میں گھوم گیا، وہ ہنستا مسکراتا چہرہ، کشادہ پیشانی، بھرے بھرے گال، چہرے پر خوبصورت سفید داڑھی، نورانی چہرہ، بزرگانہ وقار، سر پر دو پلی ٹوپی یا عمامہ یا برکاتی ٹوپی والا سراپا نظروں میں گھوم گیا ۔یقین کرنا مشکل تھا ۔دل خود ہی سائل تھا کیا واقعی ہم مفتی صاحب کے سایہ کرم سے محروم ہوگئے؟  پھر رب کا فرمان کانوں میں گونجنے لگا: 

اذا جاء اجلھم فلا یستاخرون ساعۃ و لایستقدمون 

دنیا سے رشتہ توڑ نے والے کے بارے میں سب سے پہلے ان کے تجہیز و تکفین اورتدفین کی فکر کی جاتی ہے کیونکہ دنیا روح و جسم کے مجموعہ کے رہنے کی جگہ ہے ۔جب دونوں جدا ہوجائیں تو قبر کی آغوش میں دے کر اوپر سے منوں مٹی ڈال کر ہاتھ جھاڑ لیا جاتاہے۔ 

تدفین کے تعلق سے ایک وصیت:

تدفین کے تعلق سے مفتی صاحب قبلہ بہت پہلے وصیت لکھ چکے تھے کہ:

 تمنا ہے دیار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں مروں اور وہیں کی خاک میں دفن ہوجاؤ ں اگر میری قسمت ایسی نہیں تو پھر ددری میں فیض الرضا کے احاطے میں دفن کیا جاؤں ۔

وصیت کے مطابق دوسرے آپشن پر عمل کرنا تھا کہ جسد خاکی کو ددری پہنچانا تھا ۔رمضان کا مہینہ،بارہواں روزے کی سحری کا وقت، کرونا جیسے موذی مرض کا ہر طرف تانڈواور وجے واڑہ آندھرا پردیش اور ددری ضلع سیتا مڑھی کے درمیان تقریباً دو ہزار کلو میٹر کا فاصلہ ۔

وجے واڑہ سے ددری کا سفر:

نعش مبارک ددری تک لے جانے کے دو راستے تھے ایک وجے واڑہ ایر پورٹ تک بذریعہ ایمبولینس،ایر پورٹ سے  وایاحیدرآباد یا دہلی سے پٹنہ بائی پلین، پٹنہ سے ددری تک ایمبولینس کا سفر۔ دوسرا آپشن تھا ڈائریکٹ یہاں سے ایمبولینس کے ذریعہ آخری منزل تک کا سفر۔پہلے آپشن میں رکاوٹیں آسکتی تھیں ۔کرونا ٹیسٹنگ اور دیگر چیکنگ کے مسائل۔اس لئے دوسرے آپشن پر عمل کرنے پر اتفاق ہوا اور رات ڈھائی بجے ایک ایمبولینس جس میں نعش مبارک کے علاوہ شہر کے پانچ چھ نوجوان بیٹھے، ایک کار جس میں مفتی صاحب کے افراد خانہ سوار ہوئے ۔ ڈاکٹر سے نارمل ڈیتھ سرٹیفیکٹ حاصل کرلی گئی اور یہ قافلہ لوگوں کے اشکوں اور نعرہ تکبیر و رسالت کے جلو میں رات ڈھائی بجے روانہ ہوا ۔قافلہ بہت بڑا ہوتا ،جانے والے لوگوں کی قطاریں ہوتیں اگر رمضان المبارک اور کرونا کی مہا ماری نہ ہوتی ۔نہ جانے والے دل مسوس کر رہ گئے کہ نمازِجنازہ میں شریک نہیں ہوسکیں گے ۔لیکن تین کاریں اور بھی قافلہ میں شامل ہوئیں ۔سلیم بھائی اور جو لوگ مفتی صاحب قبلہ کی خدمت میں رہتے تھے ڈاکٹرنے سفر کرنے سے ان سب کو منع کردیا ۔یہ لوگ شریک سفر نہ ہوئے۔

راستے میں عقیدت مندوں کا ہجوم:

یہ قافلہ وجے واڑہ سے نکل کر وشاکھا پٹنم، وزیا نگرم کے ذریعے اڑیسہ میں داخل ہوا ۔اتفاق یہ کہ یہ پورا علاقہ آپ کے چاہنے والے مریدین ومعتقدین کا ہے ۔قافلہ جہاں سے گزرا وہاں کے لوگ ہائی وے پر آکر ایمبولینس کے سامنے گاڑی کھڑی کر دیتے ۔غمزدہ لوگ، اشک بار آنکھوں کا ہر جگہ زیارت کا مطالبہ تھا پورے سفر میں نہ چاہتے ہوئے بھی تین جگہ زیارت کے لئے نعش مبارک کو فریزر سے باہر کیا گیا ۔بعد میں ڈرائیور نے کہا کہ اگر بار بار فریزر کھولا گیا تو کولنگ کم ہوجائے گی جس سے نقصان کا اندیشہ ہے۔لہذا اس کے بعد معتقدین سے ہر جگہ معذرت چاہ لی گئی کہ ہمیں نہ روکیں، سفر دراز ہے گرمی کا موسم پھر رمضان کا مہینہ ہے، ددری میں لوگ انتظار میں ہیں کہ کب پہنچتے ہیں ۔

حضور مفتی صاحب قبلہ کی اہلیہ محترمہ بھی خالق حقیقی سے جاملی

حضور مفتی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کا’’سفرآخرت ‘‘قسطوں میں لکھ رہاتھا۔آج جمعہ کا دن ۳۰ ؍ اپریل ۲۰۲۱   مطابق ۱۷ ؍ رمضان المبارک شام کا وقت ہے ۔مغرب کی نماز پڑھ کر کمرے میں داخل ہوا ۔فون کی گھنٹی بجنے لگی مولانا محبوب سبحانی نظامی کا وجے واڑہ سے کال ہے۔ انہوں نے کہا:حضور مفتی صاحب قبلہ کی رفیق حیات حجن نسیمہ خاتون بھی دنیا کو الوداع کہہ کر خالق حقیقی سے جاملی ۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔چھوٹے صاحبزادے مصطفی رضا دو روز پہلے ہی والدہ کو ناگپور لانے کے لیے پہنچ گئے تھے۔ جیتے جی آنا مقدر نہیں تھا۔لہذا جنازہ بذریعہ ایمبولینس ناگپور لایاگیا۔حضور مفتی صاحب قبلہ کی رفیق حیات مومن پورہ کے قبرستان میں سپردخاک کردی گئیں۔اہل خانہ پر ایک کے بعد دوسرے غم کا پہاڑ ٹوٹاہے۔ایک جنازہ سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ دوسرا جنازہ تیار تھا۔مولائے قدیر حجن نسیمہ خاتون کی مغفرت فرمائے ۔ان کے درجات بلند فرمائے۔کروٹ کروٹ جنت کی بہاریں عطا فرمائے۔ آمین

جنازہ پڑھنے کے لیے لوگ صف بستہ ہوگئے:

ایک جگہ لوگ صف بستہ ہونے لگے کہ جنازہ پڑھ کو ایمبولینس کو آگے جانے دیں گے ۔عقیدت مند اس بات پر اصرار کرنے لگے کہ ہمیں جنازہ پڑھنے دیا جائے ۔بڑی مشکلوں سے سمجھایا گیا کہ ابھی غسل نہیں ہوا ہے ۔ہمیں تاخیر ہورہی ہے ۔آپ لوگ جو ایصال ثواب کرنا چاہیں کرلیں ۔لوگ بڑی مشکلوں سے جنازہ پڑھنے سے باز آئے۔عقیدت مندوں نے اپنی طرف سے پھولوں کی تھیلیاں پیش کی کہ مزار شریف پر رکھدیا دیا جا ئے ۔یہ قافلہ طویل مسافت طے کر کے پیر کے روز شام پانچ بجے تقریباً چالیس گھنٹے بعدددری کے قریب پہنچا ۔

ددری میں قافلے کی آمد:

تھکادینے والے طویل مسافت طے کرکے جب یہ قافلہ ددری جامعہ ضیائیہ فیض الرضا کے احاطے میں داخل ہونے والا تھا تولوگوں کی ایک بڑی جماعت یہاںپہلے سے موجود تھی۔تمام لوگوں نے استقبال کے لئے دو رویہ قطار بنا لیا ۔ایمبولینس درمیان سے گزر کرجامعہ کے  احاطے میں داخل ہوا۔

حضور مفتی صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ زندگی کے آخری لمحے میں بھی ددری کو ہی یاد کرتے رہے۔ددری پہنچانے کی بات کرتے تھے کہ آخر ی سانس لوں تو ددری میںیا پھر مدفن وہیںبنے ۔لیکن ایسا نہ ہوسکا لیکن ان کی آخری خواہش(مدفن ددری میں بنے) کا احترام کیا گیا۔وصیت پر عمل کیا گیاایک طویل راہ طے کرکے ددری پہنچائے گئے ۔مجھے محسوس ہوا کہ جب تک ادارہ کے احاطے میں ایمبولینس داخل نہیں ہواتھا حضور مفتی صاحب کی روح بے چین تھی،جیسے ہی فلک بوس عمارت کے داخلی دروازے سےاندر آئے بے چین روح کو سکون اور شادابی مل گئی ۔ اپنے لگائے چمن کے احاطے میں پہنچتے ہی زندگی کی آخر ی تمناپوری ہوگئی۔ نعش مبارک اتار کر اسی روم کے اسی تخت پر رکھا گیا جہاں جیتے جی آرام کیا کرتے تھے۔ آہ! 

 زندگی کیا ہے! ظہور عناصر کی ترتیب

موت کیا ہے!  انہیں اجزا کا بکھر جانا

وصال پُر ملال کی خبر سے ددری میں غم کا ماحول:

ہفتہ کی رات پونے دس بجے ہی مفتی صاحب قبلہ کے وصال پُرملال کی خبر ددری میں پہنچ گئی جس سے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی تھی ۔رشتہ داروں کو جوں جوں معلوم ہوتا گیا ددری کے لیے روانہ ہوتے گئے ۔ دور دراز کے رشتہ دار بھی نعش مبارک پہنچنے سے پہلے ددری پہنچ گئے۔ممبئی ،ناگپور ،ڈونڈائچہ ،نندربار ، ناسک ، بھدوہی ،اور دیگر جگہوں سے لوگ نجی گاڑیوں اور بائی پلین سفر کرکے جنازہ میں شرکت کرنے کے لیے ددری پہنچ گئے۔سب کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کےانتظام میںسابق ناظم اعلی حاجی محمد تسلیم رضوی کے دونوں صاحبزادے قاری محمد رضا اوراحمد رضا عرف گڈو بابو اپنے ساتھیوں کے ساتھ جٹ گئے۔ 

غسل جنازہ کا انتظام :

  ناظم اعلیٰ مولانا شہاب الدین رضوی اتوار کی صبح میں مدرسہ پہنچ کر تجہیز وتکفین کے کاموں میں لگ گئے تھے۔قبر کی کھدائی کا کام مکمل کرلیا گیا تھا۔نعش مبارک کے آتے ہی غسل کا انتظام کیا گیا۔بیری کا پتہ ڈال کر پانی گرم کیا گیا۔غسل کی جگہ پردے کا اہتمام کیا گیا۔آخر ی غسل دینے کے لیے حضور مفتی صاحب قبلہ نے محمود بھائی گوپی گنج والے کووصیت کی تھی۔غسل دینے والوں میں محمود بھائی عارف علی ، سید رمیزتھے ،معاونین میں مفتی مشرف رضا مصباحی، مصطفیٰ رضا،عباس بھائی نندربارتھے ۔غسل دے کر کفن پہنادیے گئے ۔ایک رنگین چادر اوپر سے ایک چادر ڈال دی گئی ۔(رنگین چادر جنازہ پر ڈالنے کی تفصیل آگے آئے گی)

آخری دیدار:

کفن پہنانے کے بعد موجود لوگوں کو آخری دیدار کرایا گیا۔ بعدنماز مغرب جنازہ گھر لے جایا گیا، جہاں گھر کی خواتین کے علاوہ عزیز ورشتہ دار اور قرب و جوار کے کئی گاؤں کی عورتیں آخری دیدار کی حسرت اور اشکوںکی سوغات لیے سراپا انتظار تھیں ۔تقریباً آدھا گھنٹہ زیارت کے بعد جنازہ جامعہ کے احاطہ میںواپس لایا گیا۔اس وقت جنازہ پڑھنے کی تڑپ رکھنے والے علماء، حفاظ اورعوام وخواص کی کثرت سے پورا احاطہ بھر چکا تھا ۔

مولاناشہاب الدین رضوی کی عوام و خواص سے اپیل :

مولانا شہاب الدین رضوی ناظم اعلی جامعہ ہذا نے پہلے ہی مدرسہ کے لیٹر پیڈ پر اعلان جاری کردیا تھا کہ جنازے میں شرکت کے لئے عوام الناس جامعہ نہ آئیں، بھیڑ اور ازدحام سے بچیں ،حکومت کی جانب سے جاری کردہ کرونا گائیڈ لائن پر عمل کریں ۔اپنے گھروں میں رہ کر ایصال ثواب کریں ۔ لیکن پھر بھی قرب و جوار کے لوگ جنازے میں شرکت کے لئے آگئے تھے ۔

جنازہ کی نماز:

۵۰:۸؍بجے کے قریب لوگوںکوجنازہ پڑھنے کے لیے صف بستہ ہونے کو کہا گیا ۔پورا احاطہ جنازہ پڑھنے والوں سے بھر گیاکچھ لوگ احاطہ سے باہر ہی کھڑے رہ گئےبہت سے لوگ جامعہ کی چھتوں پر چڑھے ہوئے تھے اور جنازہ کا نظارہ کرنے میں لگے ہوئے تھے ۔ جانشین حضور فقیہ اسلام مفتی یحییٰ رضا مصباحی نے اپنے والد بزرگوار کی نماز جنازہ پڑھائی ۔

قبر کی تیاری:

اتوار کی صبح ہی جے سی بی کے ذریعہ قبر کی کھدائی برادر اصغر الحاج محمد تسلیم رضوی عرف چھوٹے بابو مرحوم کے پہلو میں کروادی گئی تھی ، (حضور مفتی صاحب قبلہ کے مریدین نے آپ کے آخری آرام گاہ کے لیےآپ کی خواہش پر ۱۴۰۰؍ اسکوائر فٹ زمین کی خرید کی تھی ۔جامعہ کی باؤنڈری دینے سے وہ جگہ مدرسہ کے احاطے میں آگئی ہے)۔اندرونِ قبر پہلے پکی اینٹ کی دیوار دی گئی پھر کچی اینٹوں کو جوڑا گیا ۔اس علاقے میں قبر کی کھدائی میں جسم کی لمبائی چوڑائی کا خیال کرتے ہوئے بیٹھنے کے برابرگڑھا رکھا جاتا ہے اور پھراوپر سے اس کی چوڑائی بڑھا دی جاتی ہے جس کے سہارے تختہ یا بانس کو آپس میں پیوستہ کرکے لگا دیا جاتا ہے پھر اس پر کھجور کی چٹائی بچھا دی جاتی ہے تاکہ مٹی نیچے نہ گر سکے ۔رات  ۰۰:۹ بجے کے بعد قبر میں نعش مبارک اتارنے کے لئے حضورمفتی صاحب کے اکلوتے داماد حاجی محمد نور دھمتری چھتیس گڑھ، مرید خاص محمد شکوری مچھلی پٹنم اور حضرت کے پوتے انس رضا اترے ۔اس وقت جمیل قادری کا مشہور زمانہ سلام:

اے شہنشاہ مدینہ الصلوۃ والسلام زینت عرش معلی الصلوۃ والسلام 

 جب فرشتے قبر میں جلوہ دکھائے آپ کا ہوزباں پر پیارے آقا الصلوۃ والسلام

پڑھاجانے لگا،زبان پر سلام ہے، آواز وں میں ہچکیاں ہیں ،آنکھوں سے اشک رواں ہے،میرکارواں کولحدکی گود میں لٹانے کاوقت ہوچکاہے۔نعش مبارک کو قبرمیں اتارنے کے لیے کئی اہل علم و فضل نے مدد دی۔قبر کی لمبائی میں پہلے ایک قدآور بانس کوسپورٹ کے لیے رکھا گیا پھر چوڑائی میں اوپر سے بیری کے پیڑ کا تختہ دیا گیااور پھر اوپر سے کھجور کی چٹائی بچھا دی گئی تاکہ نیچے مٹی نہ گر سکے ۔خاک کی امانت

 کوخاک پر لٹانے کے بعد:

 منہا خلقناکم وفیہا نعیدکم و منہا نخرجکم تارۃ اخری کی گونج میں علم و فضل کے کوہ گرانمایاں کی قبر پر مٹی ڈالی جانے لگی ۔سب سے پہلے آل رسول سید رمیز مدنی زیدمجدہ سے مٹی ڈلوائی گئی پھر دیگر حاضرین نے قبر پر مٹی ڈالی ۔بعد میں مٹی برابر کرکے تعویذ کی شکل بنا دی گئی ۔

دل کی کیفیت کیا تھی، کس کا دل کیا کہہ رہا تھا، کون کس دل سے قبر پر ڈال رہا تھا ہر دل والا خود ہی اپنی کیفیت کو لفظوں میں بیان کرسے قاصر تھا ۔مرنا تو سبھی کو ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں ۔ایک مدت گزار کر دنیا سے رخصتی ہر ذی جان کا مقدر ہے لیکن نہ معلوم کیوں مسلمات کے ہوتے ہوئے بھی ہم بعض کے جانے پر خود کو آہ و فغاں سے نہیں روک پاتے ۔ حزن و غم اشک کی صورت میں اُتر ہی جاتا ہے ۔دل بیقرار ہوتا ہے نظر فریاد کرتی ہے ،جانے والے کی سفید پوشاک اور منوں مٹی میں دبنے والے فانی جسم کو دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔

ہم سب اپنے رب کے حکم پر سرخمیدہ ہیں ۔جس کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے مولا اسے اپنی بارگاہ میں طلب کرلیتا ہے ۔پھر کسی اہل علم و فضل ،منبع رشد و ہدایت سے دل لگا تے ہیں کبھی وہ چلے جاتے ہیں کبھی ہمارا وقت رخصت آجاتا ہے ۔ہاں سنیوں کے میر کارواں ستاروں سے آگے چلے گئے ،اب انہیں چراغ رخ زیبالے کر ڈھونڈو تو نہ ملیں گے۔جامعہ ضیائیہ فیض الرضا کو چمن زار بنانے والے ،علم و فضل کا گہوارہ بنانے والے اسی کے احاطے میں روپوش ہوگئے۔اب ظاہری آنکھوں سے دیکھنے کو کبھی نہیں ملیں گے،ہاں مل سکتے ہیں نشان منزل مقصود کی صورت میں،یادوں میںباتوں،اور اپنے چھوڑے ہوئے کاموں کی صورت میں جسے ملنا ہو ان کے کام کو جاری رکھے۔وہیں ان سے ملاقات ہوگی۔

قبل وفات اپنے وصال کی خبر خود دی:

آپ کی اہلیہ محترمہ نے آپ کے وصال سے قبل سلیم بھائی سے یہ واقعہ بیان کی :

۲۰۱۰  ءمیں بھی اباکی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی ،اس وقت بھی مایوسی اور جدائی کے بادل چھاتے نظر آئے ،ابا آئی سی یو میں تھے ۔ وہاں سے نکلے تو میں بہت روئی ۔ابا نے کہا : روتی کیوں ہے ! میں ابھی نہیں مروں گا میری موت جب ہوگی تورمضان المبارک میں بارہویں شب میں ہوگی ۔

اللہ والے اپنی موت کے وقت سے واقف ہوجاتے ہیں اللہ انہیں وہ وقت دکھا دیتاہے جو اس کاوقت رخصت ہوتاہے۔

دوسرا واقعہ:

  سلیم بھائی وجے واڑہ والے نے بتایاکہ:

’’ وفات سے دو روز قبل بعد نماز مغرب مجھ سے کہامیرے پاس وقت نہیں ہے ۔ صرف دو  روز بچے ہیں کسی طرح مجھے ددری پہنچادو‘‘ 

یہ چادر میری قبر میں رکھ دینا:

حضور مفتی صاحب قبلہ کئی سال قبل بغداد شریف کے دورہ پر تھے ۔بارگاہ غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں حاضری کا وقت ہوا ۔دیگر زائرین کے ساتھ آپ نے بھی اندر داخل ہونے کی کوشش کی لیکن کثرت ازدحام کی وجہ سے اندر داخل نہ ہوسکے ۔بلکہ اند ر جانے کی کوشش میں کسی شخص سے دھکا لگنے سے آپ دیوار سے ٹکراگئےجس سے آپ کو تھوڑی چوٹ بھی آئی ۔بارگاہ غوث اعظم رضی اللہ عنہ میں حاضری نہ ہو سکی تو ایک طرف بیٹھ گئے ۔ حاضری کی محرومی آنسو بن کر آنکھوں سے بہہ نکلے اوروہیں بیٹھے بیٹھے نیند آگئی قسمت نے انگڑائی لی ،غوث پاک کے در سے کوئی خالی کیسے جائے ؟ خواب میں ایک بزرگ تشریف لائے جنہوں نے آپ کوایک رنگین چادر ،موم بتی اور ایک جائے نماز آپ کے ہاتھ پر رکھ دے کر ایک طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔آپ کی جب آنکھ کھلی تو وہ تینوں چیز آپ کے ہاتھ میں تھی ۔بارگاہ غوثیت مآب سے تحفہ کا ملنا خصوصی نظر عنایت کا حصہ تھا۔آپ اس نعمت غیر مترقبہ کو لے ہندوستان تشریف لائے ۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد اسے میری قبر میں رکھ دینا ،اسی وصیت پر عمل کرتے ہوئے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب سے ملے ہوئے تحفے رنگین چادرکو آپ کے جنازہ پر ،بعد ہ قبر میں رکھ دی گئی۔  

راقم کی آخری ملاقات:

حضور مفتی صاحب قبلہ سے میری بالمشافہ آخری ملاقات ۲۰۲۰ کے ستمبر مہینے میں ناگپور میں ہوئی تھی ۔جب گلبرگہ کے لیے فیملی کے ساتھ واپس آنے لگاتو آخری ملاقات کے لیے بعدنماز مغرب حاضر ہوا ۔رخصتی کی اجازت چاہی تو فرمانے لگے : جو غلطی ہوئی ہوگی معاف کرنا ۔میں حیران رہ گیا یہ کیا کہہ گئے ؟ میں خاموش رہا۔پھر فرمایا کہو میں نے معاف کیا ۔

یہ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ ایسا کہہ رہے ہوں ورنہ جب بھی رخصت ہونے کی اجازت مانگی ہاتھ اٹھا کر دعادیتے ہوئے رخصت کیا ۔میں کچھ نہ

 سمجھا تھا کہ یہ میری آخر ی ملاقات ہوگی ۔یہ اجازت آخری اجازت ہوگی ۔اب جب حاضری ہوگی تو قبر پر ہوگی جہاں وہ دنیا کے الجھنوں سے نجات پاکر رب ذوالجلال کے جوار رحمت میں آرام فرمارہے ہوں گے۔

راقم کو نصیحت:

جامعہ حضرت نظام الدین اولیا ء دہلی سے تخصص فی الادب والدعوی کی تکمیل کے بعد ذریعہ معاش کی تلاش میں تھا ۔آپ نے عمر کوٹ اڑیسہ جانے کو ارشاد فرمایا۔دوگھنٹے تک نصیحت کا جام پلاتے رہےزندگی کے اُتار چڑھاؤ کو سمجھاتے رہے۔ آخر میں فرمایا:

دنیا کام کی جگہ ہے کچھ کرجاؤ،دین وسنیت کا کام جو ہوسکے کرو،سونے کے لیے قبر میں بڑی لمبی مدت ملے گی۔حافظ ملت کا قول یاد رکھو:زمین کے اوپر کام زمین کے نیچے آرام 

سوچتاہوں یہ بھی زندگی بھر مصروف رہے ،ایک سفر سے دوسرے سفر کے لیے تیار رہے۔سونے کا موقع نہ ملتاتھا،ایک سفر میں راقم ساتھ میں تھایہ سفر دس روز کا تھا۔۹ ؍ روز ٹرین میں جو نیند پوری کرلیتے بس وہی آرام کا وقت ہوتا باقی دن و رات جاگتے ہوئے وقت گزرتا۔آج جامعہ کے گراؤنڈ میں بڑی آسودگی کے ساتھ محوخواب ہیں ۔اب انہیں کوئی نہ جگائے بڑی گہری نیند لگی ہے۔   

جانے والوں کے لئے رونا کیوں؟  زندوں کا بھی حق ہے ۔وہ اپنا کام کرگئے اب ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے ۔ فیض الرضا جو ان کایادگار علمی چمن ہے اسے رواں دواں رکھنا ہے، مسجد برکات رضا کی تکمیل باقی ہے ۔فیض الرضا کے تحت جو منصوبے بنائے گئے تھے اسے عملی شکل دینا ہے ۔جانشین حضور فقیہ اسلام مفتی یحییٰ رضا مصباحی کا دست و بازو مضبوط کرتے ہوئے چمن حلیمی کو ثریا کی بلندی عطا کرناہے۔

حرف آخر:

حضور مفتی صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کا سانحہ ارتحال ان کے مریدین معتقدین اور افراد خانہ کے لیے غم کی گھڑی ہے ۔ اس رنج و تکلیف اور پیرو مرشد اور مشفق رہنما کے دنیا چھوڑ جانے پر ان سب کے حق میں دعا گو ہیں ،ساتھ ہی تمام غمزدوں کوتعزیت پیش کرتے ہیں ۔ مولا تعالیٰ سبھی کو صبر و شکیب عطا فرمائے ،پسماندگان کو صبر جمیل و اجر جزیل عطا فرمائے۔

نشان منزل مقصود ہے میری تربت

نشاں یہ چھوڑتا ہوں اہل کارواں کے لئے

۰۰۰


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی