مایوسی سے امید کی طرف

 


بندوں سے امید کی وابستگی مایوس کرتی ہے جبکہ خدا سے امید رکھنے پر نئے جہاں کی راہیں وا ہوتی ہیں
از قلم : محمد افروز رضا مصباحی
انسان سماجی حیوان ہے ۔سماجی زندگی میں ہی زندہ رہ سکتا ہے ۔جب ایک جگہ رہے تو آپسی تال میل فطری ہے ۔ہر طرح کے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے ۔جس سے بھی میل جول ہو دل میں انسیت پیدا ہوجاتی ہے ۔دل تو رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہے جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔میل جول کا نام ہی محبت دیا جاتا ہے جو وقت گزرتے دلوں میں محبت کا درد شدید ہوتا جاتا ہے ۔ بعض سے محبت صرف لفظی ہوتی ہے، بعض سے قلبی لگاؤ ہوتا ہے، بعض کی محبت دل میں گھر کرجاتا ہے جسے عاشق و معشوق کا نام دیا جاتا ہے ۔جوانی میں یہ محبت دیوانی بناتی ہے، لیلیٰ مجنوں کی مثالیں، شیریں فرہاد کے قصے اسی عمر میں بنتے ہیں ۔لیکن دنیا اسے آگے کی چیز ہے ۔ محبت زندگی بھی ہے اور وقت گزاری بھی، محبت عام لفظ ہے جہاں چاہو وہاں ڈھال دو ۔لیکن ایک بات یاد رہے لوگوں کی محبت کو اپنا غم مت بناؤ۔ لوگوں کے دلوں کا کیا ہے، دل تو الٹتے پلٹتے رهتے ہیں ۔
لوگ کبھی بھی وہ نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں ۔ایک چہرے کے پس منظر میں کئی چہرے ہوتے ہر انسان کے اندر اور بہت سے انسان بسے ہوتے ہیں ۔ جو موقع کی تلاش میں رهتے ہیں ۔اور موقع ملتے ہی باہر نکل آتے ہیں ۔ کوئی سفاک ،کوئی مہربان ،کوئی ملنسار
کوئی دھوکے باز ،کوئی بہروپیہ، کوئی دوغلا ،کوئی ہنس مکھ، کوئی خاموش مزاج تو کوئی تلخی سے بھرا ہوا ۔
ایک لمحہ آپ کے ساتھ تو دوسرے ہی لمحے آپ کے خلاف ہوجانے بھی آپ کو پتا بھی نہیں چلتا ۔ کون کہاں بدل جاے، کہاں راستہ موڑ لے،رُخ بدل لے،اپنا پرایا ہوجائےاور برسوں کے تعلقات منٹوں میں ختم ہو جاتے ہیں ۔آپ جتنی مرضی کوشش کر لیں آپ لوگوں کی طبیعت کے بارے میں نہیں جان سکتے ۔ آپ کسی کو جاننے کا دعوا بھی نہیں کر سکتے ۔برسوں ساتھ رہیے لیکن اس کے باوجود آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں پوری طرح جانتا ہوں ۔انسانی افکار کی گہرائی، انسانی خیالات کی جولانی کو ناپنے کا کوئی آلہ نہیں ہے جو یہ طے کرسکے کہ کون کتنی گہرائی رکھتا ہے ۔آپ یہ کبھی نہیں جان سکتے کہ بند دروازوں کے پیچھے کوئی کس حال سے گزر رہا ہے ۔ حالات اس کے موافق ہے یا مخالف ۔زندگی کس لمحے گزر رہا ہے ۔
ہو سکتا ہے کوئی کتنا خوش نظر آے ، کسی کی ہنسی کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو ، وہ کسی ایسے غم اور تکلیف کا سامنا کر رہا ہو جو نا قابل بیان ہو۔کسی کاہنستا چہرہ دیکھ کر یہ رائے قائم نہیں کیا جاسکتا کہ اندر کس حال سے دوچار ہے ۔مسرت و کلفت کی کونسی ڈور اسے اپنے ہالے میں لیے ہوئی ہے ۔
ہمارے اسلام نے اسی لیے خیر خواہی کا درس دیا، دوسروں کے کام آنے، رنج و تکلیف میں ساتھ دینے، کسی کو خوش دیکھ کر خوش ہونے کو کہا ۔اگر سامنے والا درد کو چھپائے بھی ہنس رہا ہو تو تمہاری دلجوئی اس کے درد کا مداوا ہوجائے گی ۔تکلیف و درد کا مارا ہو تو تمہارے اچھے الفاظ ڈھارس بندھائے گی ۔
آپ لوگوں سے نرمی برتیں ۔ خواہ آپ کو جواب میں تلخی ہی کیوں نا ملے کیونکہ اس کی تلخی کی وجہ تم نہیں جانتے، کس نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا ۔درگزر کرنا سیکھیں ۔ یہ بہترین عمل ہے اور خود بھی منفی خیالات سے محفوظ ہوں گے۔ درگزر کئی اذیتوں سے نجات دے کر خوشی کی بہاروں سے ملاتا ہے۔بندوں سے امید اور توقع اکثر مایوس کرتی ہے ۔مایوسی سے بچنے کا بہترین علاج یہ ہے کہ اپنی امیدوں کو صرف اور صرف اللّٰہ پاک سے وابستہ کر لیں ۔ ہزاروں الجھنوں اور منفی خیالات سے نجات ملے گی ۔بندے سے امید کی وابستگی ناامید کرتی ہے جبکہ اللہ پاک سے امید کو وابستہ کرنا اندھرے میں روشنی کا احساس جگاتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :
لا تقنطعوا من رحمۃ اللہ ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی