تریپورہ تشدد ختم ہوا کیا مظلوم مسلمانوں کو انصاف ملے گا؟

تریپورہ کے مظلوم مسلمانوں کوانصاف ملے گایا دیگر فساد زدگان کی طرح صرف دلاسے اور تسلی ملے گی؟

از قلم: افروز رضا مصباحی

  تریپورہ شمالی بھارت کی ایک ریاست ہے۔ اس ریاست کی طویل سرحد بنگلہ دیش کے سرحد سے ملتی ہے۔ یہاں دفتری زبان بنگلہ اور کوکبوروک ہے۔رقبہ کے اعتبار سے ملک کا 26 / ویں درجے کی رہاست ہے۔ ابھی دو ہفتوں سے ملکی و غیر ملکی میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔ اس کی وجہ اکتوبر کے تیسرے عشرے میں مسلمانوں کے خلاف برپا ہونے والے انتہائی خطرناک فساد اور تشدد ہے۔ ملک و بیرون ملک میں اس خونی فساد کی آواز سنی گئی ہر جگہ سے اس کے خلاف انسانیت کا درد رکھنے والوں نے حکومت کو فساد روکنے اور مظلومین کو انصاف دینے کی اپیل کی۔مین اسٹریم سے دہائی لگائی گئی لیکن جب تک جان و مال،عزت و آبرو کی لٹی رہی،گھروں دکانوں اور عبادت گاہوں کو نذر آتش کیا جاتا رہا۔حکومت سوتی رہی،پولیس محکمہ خاموش رہی بلکہ مظلومین سے ہی امن برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا جاتارہا۔

ادھر جب سے ایک مخصوص نظریہ کو ماننے والی پارٹی اقتدار میں آئی ہے تب سے فرقہ پرست عناصر اور ان کی تنظیموں کو ایک طرح سے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ فساد برپا کرنے کی سازشیں توپہلے سے ہوتی رہی ہیں لیکن پچھلے دنوں بنگلہ دیش میں ہوئے واقعات کو بہانہ بناکر بعض فرقہ پرست تنظیموں نے تری پورہ میں جو حیوانیت اور بربریت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ یہ بتاتا ہے کہ فرقہ واریت کا زہر کس طرح لوگوں کے دلوں میں اندر تک سرایت کرگیا ہے۔ایک درجن سے زائد مسجدوں پر حملے ہوئے، جلوس کے دوران کی گئی آتشزنی سے مذہبی عبادت گاہوں اور مسلمانوں کی دوکانوں و دیگر املاک کو زبردست نقصان پہنچا یاگیا۔

بنگلہ دیش میں اقلیتی طبقہ کے خلاف ہونے والے واقعہ کو بہانہ بناکر آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد و دیگر شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں تقریبا ساڑھے تین ہزار ہندو جمع ہوئے اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرہ بازی کی گئی۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے جئے شری رام کے نعروں کے ساتھ یہ ریلی خونی بھیڑ کی شکل اختیار کرگئی۔۔۔۔۔۔ جلوس کے دوران شرپسندوں کی بھیڑ مسلم اکثریتی علاقوں سے انتہائی دلآزار نعرہ لگاتی ہوئی مسجدوں اور دوکانوں کو جلاتی ہوئی گزری اور پولس اور انتظامیہ کے ذمہ داران خاموش تماشائی بنے رہے، یہ کتنے شرم اور افسوس کی بات ہے۔ایک ایسے جمہوری ملک میں جہاں کی آئین نے ملک کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیئے گئے ہوں۔ وہاں ایک منتخب شدہ حکومت کے ہوتے ہوئے کسی ریاست میں اگر اس طرح کے افسوسناک واقعات رونما ہوں اور مرکز و ریاست دونوں حکومتیں کچھ نہ کریں تو اس سے آئین و قانون کے بالادستی کے ساتھ ساتھ انصاف کے نظام پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

دی وائر کی رپورٹ کے مطابق:

ہندوتوادی سنگھی بھیڑ نے پہلے تو ایک مسجد اور چند مسلم گھروں اور دکانوں پہ حملہ کیا، پتھربازی ہوئی، مسلم گھروں اور دوکانوں میں گھُس کر لوٹ مار توڑ پھوڑ کی گئی، مسلم خواتین کو ذلیل کیا گیا، بزرگوں بچوں کو مارا پیٹا گیا اور کئی مساجد کو نظرآتش کیا گیا۔۔۔۔۔ اور اس دوران تریپورا کے مختلف علاقوں میں اسی بربرتا کے ساتھ گھروں اور دوکانوں کو لوٹا جارہا تھا، وہاں موجود قیمتی اشیاء کو توڑ پھوڑ کر جلایا گیا مسجدوں کے اندر داخل ہوکر قرآن و دیگر مذہبی کتابوں کو پھاڑ کر ان کی بیحرمتی کی گئی، وہی مقدس کتابیں جن پہ مسلمان غلاف چڑھا کر رکھتے ہیں، آنکھوں سے لگاکر چوما کرتے ہیں، اُنہیں آنکھوں کے آگے ان پاک مقدس کتابوں کو جلاکر راکھ کیا گیا انہیں ناپاک پیروں تلے روندھا گیا۔۔۔

مساجد کے نذر آتش کرنے والی جو ویڈیو کلپ سوشل میڈیا میں آئی اسے دیکھ کر ہر درد مند انسان تڑپ اٹھا۔ مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جانافطری ہے۔ ان کے عبادت گاہوں کو جلایاگیا۔مذہبی کتابوں کو پیروں تلے روندھا گیا،نبی رحمت ﷺ کی شان میں نازیبا کلمات کہے گئے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو تکلیف پہنچی جس کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج و مظاہر ہ کیا گیا،یہ سلسلہ جاری ہے۔فساد کے دوران فساد کی اصل صورت حال سامنے نہ آسکی کیونکہ میڈیا نے ایک بارپھر اپنا دوہرا چہرہ دکھادیا، بنگلہ دیش کے پرتشدد واقعات کو تو اس نے خوب نمک مرچ لگا کر پیش کیا لیکن جب تریپورہ میں حیوانیت کا کھیل ہوا تو اس کی کوئی خبر نہیں دکھائی گئی۔

ایک ہفتہ تک چلنے والے فساد بند ہوچکے ہیں۔اس دوران پولیس کی جانب سے بھی خاموشی رہی بلکہ سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر اور ویڈیو کا انکار کیا۔پولیس کی جانب سے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ خبر دی گئی تھی کہ پانیساگر میں کوئی بھی مسجد کو نقصان نہیں ہوا ہے جبکہ پانیساگر میں دو مسجدوں کو نشانہ بنایاگیاہے جس میں ایک مسجد سی آر ایف کے ذریعہ بنائی گئی تھی۔تریپورہ پولیس ایک ہفتہ تک چلے مسلمانوں پر ایک طرفہ حملوں پر خاموش رہی ایک طرح سے حملہ آوروں کو شہہ دیتی رہی۔ ایک ویڈیو میں پولیس کے چند جوانوں کو جے شری رام کا نعرہ لگاتے بھی دیکھا گیاہے۔


تریپورہ میں تشدد کے بعد گزرے ایک ہفتہ کے دوران ملک بھر سے انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں،مسلم تنظیمیں، صحافیوں اور وکیلوں کی ٹیمیں تریپورہ پہنچی ہیں اور وہاں سے فساد کی اصل کہانی سامنے آنے لگی ہے۔مین اسٹریم میڈیا،جس کی وجہ سے دہلی اور ملک بھر میں ان کی تصویروں کو لے کر ہلچل مچی ہوئی اور بی جے پی کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔ تریپورہ پولیس جو فساد کے دوران خاموش تھی اب اچانک حرکت میں آگئی اور تشدد کے اصل ملزمین پر کار روائی کرنے بجائے تشدد کی اصل تصاویر ملک اور دنیا کے سامنے لانے والے صحافیوں،وکیلوں اور مختلف تنظیموں کے نمائندوں کے ممبران کو پوچھ گچھ کر کے نشانہ بنارہی ہے۔تریپورہ پولیس نے بد ھ کو سوشل میڈیا پر فرضی اور اشتعال انگیز پوسٹس کرنے کے الزام میں 71 /لوگوں کے خلاف 5 /مقدمات درج کیے ہیں۔ گراونڈ سے آرہی تصاویر،ویڈیوز نے تریپورہ پولیس کے جھوٹ کو بھی اجاگر کردیا ہے۔

مسلم مخالف تشدد کے معاملے میں دہلی سے وکلاء کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے تریپورہ کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے میڈیا کو رپورٹ جاری کیا جس کے بعد تریپورہ پولیس نے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو یو اے پی اے کے تحت نوٹس بھیجا ہے۔ نوٹس میں وکلاء کے ذریعہ تریپورہ تشدد سے متعلق مواد، بیانات اور ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کو بنیاد بنایاگیاہے۔ نوٹس میں کہاگیاہے کہ آپ کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا مواد مختلف مذہبی جماعتوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دینے والا،لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے والا اور امن میں خلل ڈالنے والاہے۔ ان مواد کو سوشل میڈیا سے ڈلیٹ کریں اور10نومبر کو مغربی اگرتلہ پولیس اسٹیشن میں حاضر ہونے کو کہاگیاہے۔ وکلاء نے انڈیا ٹومارو کے ذریعہ جواب دیاکہ ہم نے انہی رپورٹ،ویڈیوز یا مواد کو پبلک کیا یا سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے جو ہمیں گراؤنڈ سے ملی ہے، سچ ہے:

اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف 

ہمیں یقین تھا ہمارا قصور نکلے گا

تریپورہ ایک نمونہ ہے۔ ابھی کن ریاستوں میں کیا ہونے والا ہے یہ وقت بتائے گا۔حالات نازک ہیں۔ اگلے پانچ چھ مہینوں میں یوپی الیکشن ہے۔یہ بی جے پی کے لیے ناک کا مسئلہ بنا ہواہے۔ لوک سبھا الیکشن گرچہ 2024  میں  ہے لیکن دہلی کی کرسی تک پہنچے کایوپی الیکشن ذریعہ بنتاہے۔ یوگی حکومت اپنے ساڑھے چار سالہ دور میں سوائے نام بدلنے کے کچھ نہ کرسکی لیکن یوپی کی سیٹ پر جیت ہر حال میں چاہتی ہے۔ جہاں ترقی اور خوشحالی دکھانے کے لیے کچھ نہ ہو تو بی جے پی مذہبی کارڈ کھیلتی ہے۔لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکا کر ہندو مسلم کرنے کا کھیل کھیلتی ہے۔ یہ کھیل تریپورہ سے شروع ہوچکاہے۔

حکومت سے یہ امید رکھنا کہ ملزمین کے خلاف کار روائی کرے گی، دنگائیوں،فسادیوں پر لگام کسے گی،شاید ہی ایسا ہو۔سیکولر پارٹیوں کا تریپورہ فساد پر خاموشی ان کی سیکولر ازم پر سوال ہے۔مسلمانوں کا ووٹ ہر پارٹی کو چاہیے لیکن مصیبت کی گھڑی میں ساتھ کھڑے ہونا پسند نہیں۔ہر فساد میں جیساکہ دیکھنے میں آتاہے پولیس تماشائی رہتی ہے،فسادیوں کو شہہ دیتی ہے وہی منظر تریپورہ میں بھی دیکھنے کو ملا جیساکہ ویڈیوز اور مشاہدات سے باتیں کھل کر سامنے آئی ہے۔ملزمین پر کار روائی کے بجائے کچھ مظلوموں کو ہی گرفتار کرکے اپنا پیٹھ تھپتھپائے گی،اس سے زیادہ کرنا شاید ان کے بس میں نہیں۔ حکومت میں بیٹھے لوگ اس سے زیادہ کی اجازت بھی نہیں دیں گے۔یہ سوچنا مسلم کمیونٹی،مسلم تنظیمیں اوراقلیتوں کے ووٹ پر نظرجمائے سیکولر پارٹیوں کو ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے فساد اوربغیر کسی گناہ کے گرفتاری کے وقت کیا رول ادا کرنا چاہیے۔ جن لوگوں کا جانی و مالی نقصان ہوا اس کی بھرپائی کیسے ہوگی۔ان کے دلوں سے خوف ودہشت کو کیسے ختم کیا جائے۔ فرقہ پرست عناصر سے محفوظ رکھنے کی کونسی ترکیب اپنائی جائے جس سے اقلیتی طبقہ محفوظ رہے اور ملک کی سا  لمیت بھی باقی رہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی