شادی اور شوق

 

مسلمانوں میں رائج غیر شرعی رسومات اور سماج کے منافقانہ روش کو اجاگر کرتی تحریر

از قلم:محمد افروز رضا مصباحی  

  لفظ شوق کے بارے میں کہا جاتاہے اس کی انتہا نہیں۔ جس کی انتہاہو وہ شوق نہیں۔ شوق عام لفظ ہے۔ہماری عام بول چال میں کئی معنوں میں بولاجاتاہے۔ لغوی اعتبار سے خواہش پیداکرنا، دریافت کرنے کی خواہش، نفس کی آرزو مندی، کوئی چیز کھلانے پلانے پر کہتے ہیں ’شوق کیجیے، ہوس نفسانی۔متراردفات میں اشتیاق، ارمان، آرزو،جوش، تمنا، ترنگ، امنگ، چسکا، چاہت، رغبت،شفقت،سرگری،میلان اور محبت وغیرہ کے آتے ہیں۔میرتقی میر کا ایک شعر ہے:

ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میرؔ

پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا

اسلام رسم و رواج کانام نہیں بلکہ دستور اور قانون والادین ہے۔اس دین کی تعلیمات میں سادگی کو مقدم رکھا گیا۔ فرائض و واجبات اور سنن کی تفصیلات ذکرکرنے کے بعد بعض چیزوں کو مباح اور مندوب کے درجے میں رکھاگیاتاکہ زمانہ اور وقت کے لحاظ سے اس زمانے کے علماء اگر مسلمانوں میں رائج رسوم و روا ج کوشریعت سے متصادم نہ پائیں تو حلت کا حکم دے سکیں۔اس کے باوجود مباح میں بھی ایک حد متعین ہے اگر حد سے تجاوز کرے تو اسراف و تبذیر میں شامل ہونے کی وجہ سے وعیدیں بھی سنادی گئی۔یہاں مجھے صرف مروجہ شادی پر کچھ باتیں پیش کرنی ہے۔

 نکاح عبادت ہے اور سنت رسول بھی۔ شادی کے باب میں سادگی کو ترجیح دی گئی تاکہ بسہولت و آسانی دلہادلہن کے درمیان ایجاب و قبول کا مرحلہ طے پاسکے،دلہا دلہن کے گھر والے بغیر کسی بار اور بوجھ کے اپنی اولاد کی شادی کے فرائض سے سبکدوش ہوسکے۔معاشرے سے زنا کو ختم کرنے کے لیے دین اسلام نے نکاح کو آسان کرنے کی ترغیب دی۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر امت کو بتایا۔

آج امت مسلمہ فرائض و واجبات سے غافل رسم و رواج میں کھو گئی۔سادگی محض بولنے اور تقریر میں ندرت پیداکرنے کے لیے استعمال ہوتاہے۔ جس شادی ہال میں لاکھوں کا ڈیکوریشن ہو،مہنگا ئی کے سمندر میں ڈوبا ہوا رومانی اسٹیج ہو،برانڈیڈ ملبوسات ہو،مدعو حضرات دعوت کا خصوصی جوڑا زیب تن کرکے شامل ہو،مہمان نوازی کے لیے طعام کی مہنگی ترین ڈشیس ہو،ہر لمحہ کی تصویر کشی کے ساتھ کیمرے کی آنکھ چلتی پھرتی دنیا کو قید کررہی ہو۔اسی کیمرے پر سادگی کا درس،حدیث رسول کا حوالہ،حضرت فاطمہ زہرا اور علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی شادی کو بطور مثال پیش کرنا گویا اپنے اسلاف کی تعلیمات کامذاق اڑاناہے۔

دلہے میاں برسوں سے اپنے دل میں خواہش پالے ہوتے ہیں،٭ان کا شوق ہوتاہے فلمی انداز کا سوٹ بوٹ، سر پر پگڑی،ہاتھ میں گلدستہ یا مرصع چھری،گھوڑ سواری، بینڈ باجہ اور بارات۔٭لڑکی کی خواہش ہوتی ہے فلمی شادی جوڑا جو ہزاروں کی سرحد سے نکل کر لاکھ تک بھی پہنچ جائے تو کوئی بات نہیں، مہنگاترین میک اپ،پیشانی،ناک،کان،گلااور ہاتھ میں جیولری۔٭لڑکے والوں کا شوق ہوتاہے مہنگا شاد ی ہال، بہترین کھانے، انواع و اقسام کے طعام،اچھی مہمان نوازی۔٭دلہن والوں کی خواہش ہوتی ہے جتنا اچھا ہوسکے اس اچھے سے اچھے انداز میں بیٹی کو رخصت کریں گے،شادی بھی کوئی روز روز ہوتی ہے؟اگر آپ صاحب ذوق ہیں تو درج بالا میرتقی میر کا شعر پڑھ لیجیے:

نکاح نام تھا ایجاب و قبول کالیکن رسوم و رواج نے اسے ”شوق اور خواہش کا دفتر“ بنادیا۔اب یوں کہہ لیں مسلمانوں کے یہاں شادی میں ”سادگی“کے علاوہ سب کچھ ہے۔سناہے بیجاپور کی ایک شادی میں دلہے میاں ہاتھی پر سوار ہوکر شادی ہال پہنچے تھے۔


کل ایک شادی کی دعوت میں جانے کا اتفاق ہوا۔شادی ہال خود مہنگا اور سجاسجایا ہوا ہے، اس کے باوجود الگ سے سفید قنات سے داخلی دروازے سے مہمانوں کے بیٹھنے تک ڈیکوریٹ کیا گیاتھا۔جہاں ڈیکوریشن ختم ہوتا ہے وہی گول دائرہ میں منی اسٹیج بنایا گیا آنے والا جیسے ہی آگے بڑھتا اچانک سلام کی آواز آتی۔ایک بونے کو سوٹ بوٹ، کالے چشمے اور سر پر بڑی پگڑی جمائے ہر آنے والے کے استقبال میں تھوڑا جھک کر سلام کرتا، بچے کھڑے اس بونے کو دیکھ کر یا یو مذاق کر رہے تھے یا حیرت سے دیکھ رہے تھے۔اسٹیج کو انتظامیہ نے کرایہ کے اعتبار سے اچھا بنایا ہے، باوجود اس کے سرخ گلاب کے پھول اور دیگر پھولوں سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔رنگ برنگے فوکس کے ذریعہ اسٹیج کو رومانی رنگ دیا گیا تھا۔طبلہ کی تھاپ اور سارنگی کے سُر نے ماحول کو مدھر بنادیاتھا۔آج کی شادی کتنی ”سادگی“ کے ساتھ ہوتی ہے وہ دعوت میں جانے کے بعد معلوم ہوتاہے۔استقبالیہ کے لیے نئے نئے انداز اپنائے جاتے ہیں۔ بچوں کے کھیل کود کا انتظام ہوتاہے۔ اندھرا کی ایک شادی میں شرکت کا موقع ملا۔بال اور شیو کے لیے نائی، جوتا پالش کے لیے موچی،خواتین کے میک اپ کے لیے بیوٹی پارلر گرلز کا انتظام۔ دلہا دلہن کا گھرانہ اگر دنیا دار ہے تو آرکیسٹر ا، ادب نواز ہے تو مشاعرہ، مذہبی رجحان ہے تودور دراز سے نعت خوانوں اورمقررین کو بلاکر اس جگہ نعت خوانی اور تقریر کروائی جاتی ہے جہاں شریعت کے سارے احکام کوپس پشت ڈال کر رسم و رواج کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دولت کی نمائش ہوتی ہے۔ یک رنگی لباس اور ایک جیسی پگڑی میں دلہا دلہن کے گھر والے پورے ہال میں گھومتے پھرتے اپنی پہچان اور شناخت کو اجاگر کررہے ہوتے ہیں۔ یہ سب کیاہے؟؟؟؟ شوق!

علماء نے کہا مسجد میں نکاح کرلیا کرو سادگی کے ساتھ۔ قوم کے جیالوں نے دل سے قبول کیا۔مسجد میں سادگی کے ساتھ نکاح ہوا۔باقی سارے کام جو کرنے والے تھے مثلاً دلہے کی گاڑی کے آگے دس بیس بائیک سوار سٹیاں بجاتے،ہڑ بونگ مچاتے،شادی ہال کے دروازے پر ہزاروں لاکھوں کے پٹاخے اور بم اڑانا بالکل نہیں بھولے۔رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔(شوق کو زنگ نہ لگ جائے)

آج کس کو مورد الزام ٹھہرایاجائے۔تقریب نکاح منعقد کرنے والوں کو جو اپنا ”شوق“ پورا کرنے کے لیے اسی دن کے انتظار میں تھے۔ نکاح خواں کا کہ جہاں خلاف شرع کام ہورہے ہوں نکاح نہ پڑھایاجائے۔جبکہ دوسرا ہر حال میں تیار ہے۔ مذہبی رہنماؤں کاجن پر اصلاح کی سب بڑی ذمہ داری ہے؟جنہیں کہاگیا کہ جہاں خلاف شرع کام ہوتا ہو ایسی تقریبات میں شرکت نہ کریں؟ ان میں سے ہر ایک کی اپنی مجبوریاں ہیں۔مساجد مدارس تنظیم و تحریک اور دیگر مواقع پر انہیں دولت مندوں کے دست تعاون سے کام ہوتاہے۔ کیا وہ بلائیں یہ نہ جائیں؟

ہمارے ایک منہ لگے دوست نے کہا ایسی صورت میں علانیہ کہہ دینا چاہیے کہ ہم سب اپنے سماج و معاشرے کے منافق ہیں۔ ہمارے گفتارو کردار میں تضاد ہے۔اصلاح کی کوشش ایک عمل ہے جو کرتے رہیں گے کیونکہ یہ ہمارا پیشہ ہے۔ اسراف کے بریج تلے منعقد نکاح و ولیمہ میں بھی شرکت کریں گے کیونکہ یہ سماجی تقاضااور دلبستگی کا ذریعہ ہے۔ 

ہمارے دین اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکر اعتدال اور نظریہئ توازن پیش کیاہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔اسلام نے نکاح کو انسانی بقا وتحفظ کے لئے ضروری بتایا ہے۔اسلام نے نکاح کو احساس بندگی اور شعور زندگی کے لئے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو نصف ایمان بھی قرار دیا ہے۔ جو کوئی نکاح کرتا ہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتا ہے اور باقی آدھے دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔(معجم الاوسط،شعب الایمان)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے، ”النکاح من سنتی“ نکاح کرنا میری سنت ہے۔(بخاری)

اسلام نے نہ صرف نکاح کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ اسے آسان سے آسان بنانے کا بھی حکم دیا ہے اور ان تمام باتوں سے رُکنے کا بھی حکم دیا ہے جس سے نکاح میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کی رہنمائی فرمائی کہ شادیاں، ہلکی پھلکی اور کم خرچ کی کیا کریں اور ساتھ ہی خوش خبری سنائی کہ اگر ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شادیوں میں اور ان کے نتائج میں بڑی برکتیں ہوں گی۔ آج مسلمان جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور خاص کر خانگی زندگی میں جو الجھنیں ہیں ان کا بہت بڑا سبب یہی ہے کہ نکاح اور شادی کے بارے میں پیکر رشد و ہدایت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہدایات سے انحراف کرکے ہم آسمانی برکات اور خداوندی عنایات سے محروم ہوگئے ہیں، حالانکہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی تھی کہ”وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بار کم سے کم پڑے۔(مسند احمد)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی