یوم عاشوراء :اہمیت و فضیلت


      

از قلم :محمد افروز رضا مصباحی

----------------------

محرم الحرام کی دس تاریخ اپنے دامن میں بے شمار واقعات کو چھپائے ہوئی ہے ۔یہ تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے اب تک بہت سے واقعات کی گواہ ہے ۔اسی لئے اس تاریخ کی اپنی اہمیت و فضیلت ہے ۔واقعہ کربلا کے بعد محرم کی دس تاریخ رنج و غم، حزن و ملال، ماتمی جلوس کا استعارہ بن گئی لیکن واقعہ کربلا سے پہلے بھی یہ تاریخ اپنی اہمیت رکھتی تھی ۔جیسا کہ بخاری کی ایک حدیث میں ہے :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔  ( دوسرے سال )  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن  ( فرعون )  سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر موسیٰ علیہ السلام کے  ( شریک مسرت ہونے میں )  ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔ (بخاری) 

عاشورا ء کا روزہ رمضان کے روزے کی فرضیت سے قبل فرض تھا لیکن جب رمضان کے روزے فرض کردیے گئے فرضیت منسوخ ہوگئی تاہم استحبابی حکم باقی رہا:

 عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے حکم سے پہلے رکھا جاتا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔ بخاری) 

عاشورا ء کے روزے نہ صرف یہ کہ مدینہ کے یہودی رکھا کرتے تھے بلکہ مکہ میں قبیلہ قریش کے لوگ بھی روزہ رکھتے :

 عاشوراء کے دن قریش زمانہ جاہلیت میں روزے رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کے رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کے روزہ  ( کی فرضیت )  باقی نہیں رہی۔ اب جس کا جی چاہے اس دن بھی روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔ بخاری) 

عاشورا ء کے روزے کی فضیلت یہ ہے کہ اس سے ایک سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں :

 سیدنا ابو قتادہ  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے فرمایا:  عرفہ کے دن کا روزہ گزشتہ اور آئندہ دو سالوں کا کفارہ ہے اور عاشوراء کا روزہ گزشتہ ایک سال کا کفارہ ہے۔ 

مسند احمد) 

محرم کے دس تاریخ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا تو کیا یہ یہودیوں کی عبادت کے اتباع میں تھی؟ اس کا جواب درج ذیل حدیث سے ہمیں مل جاتی ہے:

 ۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اور یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے تھے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: تم کس مناسبت سے اس دن کا روزہ رکھتے ہو؟ انھوں نے کہا: یہ بڑا اچھا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دن بنو اسرائیل کو ان کے دشمنوں سے نجات دلائی تھی، اس مناسبت سے موسی علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہاری بہ نسبت موسی علیہ السلام کا زیادہ حقدار ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

میں تمہاری بہ نسبت موسی علیہ السلام کا زیادہ حقدار ہوں۔ یعنی موسی علیہ السلام کی موافقت کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ حکم دیا: {فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہْ} …پس تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔ اس سے پتہ چلا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مطلوب موسی علیہ السلام کی موافقت تھی، نہ کہ یہودیوں کی۔ 

اس سے یہ اشکال ختم ہو جاتا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہودیوں کی مخالفت پسند کرتے تھے، نہ کہ موافقت، شروع شروع میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی تالیفِ قلبی کے لیے ان کی موافقت پسند کرتے تھے، لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھایہ اہل کتاب تو کفر پر مصرّ ہیں اور تالیف قلبی سے متأثر نہیں ہو رہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی موافقت چھوڑ دی اور ان کی مخالفت کی طرف مائل ہو گئے، اسی لیے آخر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نو محرم کا روزہ رکھنے کا عزم کیا تھا۔ (مسند احمد) 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراکا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن تو یہود ونصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا‘‘ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔‘‘(رواہ مسلم مشکوٰۃ صفحہ۹۷۱)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایایعنی جس شخص نے عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پرخرچ میں فراخی کی تو اللہ تعالیٰ تمام سال اس کے رزق میں فراخی فرمادے گا۔‘‘

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا یوم عاشوراء اپنے گھر والوں پر کشادہ دلی سے خرچ کرنے پر بھی مولائے کریم برکتیں نازل فرماتا ہے ۔

ان تمام ارشادات نبویہ سے معلوم ہوا کہ دسویں محرم کا تعلق اسلامی تعلیمات سے بہت گہرا ہے اور یہ دن ہر مسلمان کے لیے ارشادات نبویہ کے مطابق قابل احترام ہے ۔

خلاصہ یہ کہ اس دن مسلمانوں کے لیے دو کام مستحب (۱) عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنا اور اس کے ساتھ ایک روزہ نو یا گیارہ محرم کا شامل کرلینا۔(۲) گھر میں ہر روز کے مقابلہ میں کھانے کے اندر اپنی حیثیت کے مطابق کشادگی اور فراخی کرنا۔ اور اس سلسلہ میں مذکورہ حدیث ضرور پیش نظرر ہے۔اللہ رب العالمین ہم سب کو یوم عاشوراء کی برکتیں عطا فرمائے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی