5/ستمبر "یوم اساتذہ "

 تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

5/ ستمبرکو یوم اساتذہ کے موقع پر خصوصی تحریر

از قلم۔۔۔محمد افروز رضا مصباحی، گلبرگہ 

  ہندوستان میں ملکی سطح پر ہر سال 5 / ستمبر کو ”یوم اساتذہ“ منایاجاتاہے۔یہ تاریخ دراصل ملک کے ایک کامیاب سیاست داں،ماہر و باکمال فلسفی اور آزاد ہند کے دوسرے نائب صدر جمہوریہ شری سروپلی رادھا کرشنن کی پیدائش کا دن ہے۔شری رادھا کرشنن تعلیمی میدان کے ماہر شہ سوار اور اہل قلم و قرطاس تھے۔انہیں ہندوستان کی آزادی کے بعد تحقیق و جستجو کے نتیجے میں بھارت رتن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔انہوں نے اپنی زندگی کے چالیس سال تعلیم و تعلم میں صرف کیے۔کلکتہ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں استاد کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی۔وہ تعلیمی میدان کے شناور اور ماہر نباض تھے۔

  ممکن ہے قارئین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ شری رادھا کرشنن کے یوم پیدائش پر ”ٹیچر ڈے“ کیوں منایاجاتاہے۔ تو اس کی دو وجہ ہے۔ (1) ہندوستان کے نائب صدر اور ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ ہونے کے باوجود خود کو ایک”استاد“کہلواناپسند کیا۔(2) اپنے تدریسی زمانے میں یہ محسوس کیا کہ اساتذہ اندرونی وبیرونی مسائل سے دوچار رہتے ہوئے بھی صبر و تحمل اور محنت وجانفشانی کے ساتھ طلبہ کی شخصیات کو نکھارنے اور ان کے اندر ہنر پیداکرنے میں ہمیشہ مستعد رہتے ہیں۔یہی وجہ رہی کہ صدر جمہوریہ رہتے ہوئے ان کے شاگردوں نے ان کی یوم پیدائش منانے کی اجازت مانگی تو انہوں نے ”یوم اساتذہ“ مناکر استادوں کی تعظیم و تکریم اور عزت و احترام بجالانے کا مشورہ دیا۔ان کی خواہش تھی کہ اساتذہ کا مقام و مرتبہ ظاہر ہو اور ان کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو۔

اس کے بعد سے ہمارے یہاں ”یوم اساتذہ“منایاجانے لگا۔ اس موقع پر جلسے، مذاکرے اور اس نوعیت کے مختلف رنگا رنگ پروگرامز منعقد کرکے پیشہ ئ  تدریس سے وابستہ حضرات کو خراج تحسین پیش کیا جاتاہے۔

  استاد قوم کا معمار اور شخصیت ساز فرد ماناجاتاہے۔ ایک استاد ہی شاگردوں میں علم و ہنر کی جوت جگا کر ایک قابل انسان اور قوم و ملک کے لیے قابل فخر بناتاہے۔ تعلیم و تعلم کا پیشہ ہمیشہ سے مقدس اور محترم ماناگیا۔جو اس پیشہ سے وابستہ رہے وقت کے شاہوں نے ان کے سامنے سر جھکادیا۔معمار قوم کی خدمت قابل طالب علموں نے جی جان سے کیا۔ان کی خدمت کو اپنے سے سعادت مندی اور نیک بختی تصور کیا۔استاد کے آگے نگاہیں جھکادیتے،بدلے میں استاد نے بھی اپنے شاگردوں کو محبت و پیار اور شفقت بھرے ہاتھ ان کے سروں پر رکھا۔علم و ہنر سکھانے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ شاگردوں کے ذہنی خلجان کو دور کرنا اپنا فریضہ سمجھا،تعلیم کے ساتھ اخلاق و کردار پر خاص توجہ دی،ملک و قوم کے حق میں بہتر بنانے پر خاص زور دیا۔جس کی وجہ سے اپنے اپنے میدان میں کامیاب افراد دستیاب ہوئے،قوم کے معماروں کو طلبہ و اولیائے طلبہ نے معاشرے سب سے زیادہ عزت و احترام سے نواز ا۔ 

اب زمانہ بدل چکا،حالات کروٹیں چکاہے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان وہ چاہت و خلوص کہیں کھوگیاہے جوہم نے کتابوں میں پڑھاتھا۔ آج تعلیم ایک پیشہ ہے۔ تدریس ذریعہ معاش اور روزی روٹی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اخلاص،مروت اور احساس ذمہ داری کہیں پیچھے رہ گئی۔ استاد کے بدلتے رویے اور اپنی ذمہ داریوں سے انصاف نہ کرنے کی وجہ سے شاگردوں کے دلوں سے محبت و احترام کو کم ہوچکا ہے۔استاد وشاگرد کے درمیان رشتے کی اہمیت بنیادی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ دور جدید میں اس پر سوالیہ نشان لگ چکاہے۔ نظام تعلیم میں کسی اصلاح سے پہلے یہ دیکھنا بھی از حدضروری ہے کہ استاد و شاگرد کے رشتے میں خرابی کیسے پیداہوئی؟الجھاؤ کہاں ہے؟ ماضی میں قدیم طریقہ تعلیم میں استاد و شاگرد کے درمیان کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔لیکن اب مسئلہ ہی نہیں المیہ بھی ہے کہ پہلے جو محبت اور تعظیم کا رشتہ تھا وہ کاروباری سطح پر آگیا۔جب سارا ماحول مادیت زدہ ہوگیا تو طالب علموں کا متاثر ہونا لازمی تھا۔کیوں کہ ایک طالب علم یہ سوچتاہے کہ اسکول یاکالج میں داخلہ لیا توفیس ادا کرتاہوں۔کلاس میں رہ کر لکچر سنو ں اور بس۔ اساتذہ کا رہین منت اور احسان مند نہیں ہوں۔وہ ہمیں پڑھاتے ہیں تو موٹی موٹی تنخواہیں لیتے ہیں،وہ اپنی ڈیوٹی پوری کرتے ہیں اورہم لکچرسنتے ہیں۔


دوسری طرف اساتذہ بھی اسی مادیت کی پیداوار ہیں۔فی زمانہ علم محض اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ ذریعہ معاش بناسکیں۔علم کی جو طلب اور چاہت تھی وہ باقی نہیں رہی۔نتیجہ میں جو پڑھاتاہے خود اسے دسترس حاصل نہیں ہوتا۔ اپنی خامیاں اور کمزوریاں چھپانے کے لیے طلباء سے فاصلہ رکھتاہے۔ شاگردوں کی طرف سے کیے گئے سوالات پر بجائے جواب دینے کے اس کا مذاق اڑانا، استہزا کرنا،اس کی خامی پر انگلی رکھ کر کلاس میں بچوں میں شرمندہ کرنا ہوتاہے تو ظاہرہے ایسے اساتذہ کی پیدار کس قماش کے شاگرد اور اہل علم ہوں گے؟استاد بھی ایسے لوگ بن رہے ہیں جنہیں خود تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے،ان کے اخلاق قابل اصلاح ہوتے ہیں۔پڑھنے پڑھانے کا رنگ ڈھنگ بالکل بھی استادوں والا نہیں ہوتا۔ بے محنت کی تعلیم اور جعلی ڈگریوں نے ایسوں کو بھی اساتذہ کی صف میں کھڑاہونے کا موقع فراہم کیا جس سے تعلیم اور کتابیں خود پناہ مانگتی ہیں۔

تعلیم وتعلم کے طریقہ کار میں سدھار کے ساتھ اساتذہ اور طلبہ کو اپنا اپنا رول ادا کرناچاہئے۔ طلبہ کو چاہیے کہ وہ جن اساتذہ سے علم حاصل کررہے ہیں ان کا ادب واحترام بجالائیں، اساتذہ ان کے مستقبل کو سنوارنے والے ہیں۔ ان کی تربیت میں ان کا وقت گزرتاہے۔ علم اسی وقت حاصل ہوتاہے جب استاد کا ادب و احترام کیا جائے۔ اساتذہ شفقت و محبت کا ماحول بنائیں۔ اپنے مضمون سے انصاف کرنے کی کوشش کریں۔ جو کمزور ہوں انہیں مزید کمزور کرنے کے بجائے طالب علموں کے عزم و حوصلہ کو پروان چڑھائیں،تعلیم کے ساتھ کردار سازی پر بھی توجہ دیں، اخلاق کو سنوارنے کی کوشش کریں۔ مادہ پرست نہیں بلکہ ایک قابل انسان بنانے پر توجہ دیں۔سماج و معاشرے میں انسانوں کی کمی نہیں اچھے اور قابل افراد کی ضرورت ہے۔مذہبی تعلیمات کو پیش نظر رکھیں۔سماج کا پسندیدہ اور قابل انسان بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دور جدید کی تعلیم نے انسانوں سے انسانیت چھین کر مفاد پرست، انا پرست،اخلاق باختہ، تربیت سے بیگانہ،انسانی درد و تکلیف سے بیگانہ افراد کی کھیپ تیار کی جارہی ہے جہاں روپے پیسے،مال و دولت کے حصول کے لیے ہر اخلاقی پہلو کو بالائے طاق رکھ کر صرف اپنی ضرورت پیش نظر رکھی جاتی ہے دنیا چاہے تباہ و برباد ہوجائے اپنا مفاد متاثر نہ ہو، یہ جدید تعلیم کی دین ہے جس کے ذمہ دار کاروباری تعلیم کے ساتھ اساتذہ کا پورا پورا یوگ دان ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی