جب ٹرین میں ایک سیٹ کے دو دعویدار ہوئے

 

سکندر آباد سے دانا پور سفر کے درمیان پیش آمدہ ایک دلچسپ واقعہ کی روداد
از قلم ۔۔محمد افروز رضا مصباحی
ہمسفر سوپر فاسٹ ٹرین  سکندر آباد سے دانا پور کے لئے صبح 6:15/ بجے کھلنے والی تھی ۔میری دو سیٹ ریزرویشن بوگی نمبر 3میں 17۔20/ دو سیٹ ویٹنگ سے کنفرم ہوئی تھی ۔ اس ٹرین کی خاصیت یہ ہے کہ سکینڈ کلاس کی چار یا پانچ بوگیاں لگتی ہے جبکہ ٹری ٹائر کی تقریبا 10/ بوگیاں لگتی ہے ۔گاڑی کُھلنے کی تاریخ سے محض 10 / روز پہلے ٹکٹ کی بکنگ شروع ہوتی ہے ۔پہلے یہ گاڑی ایک نمبر پر لگنے والی تھی ۔لیکن 25/ منٹ پہلے دو نمبر پلیٹ فارم کا اناؤنس منٹ ہوا ۔بھاگم بھاگ مطلوبہ بوگی تک پہنچے ۔ کسی طرح اپنی سیٹ تک رسائی حاصل کی اور سامان سیٹوں کے نیچے جگہ بناکر رکھ ہی رہا تھا کہ ایک معمر شخص جس کی یہی کوئی 65/ رہی ہوگی، ایک بیگ اٹھائے اسی بوگی میں داخل ہوا ۔ہمارے کمپارٹمنٹ میں پہنچ کر کہا: یہ بوگی نمبر تین ہے؟  کسی نے کہا: ہاں۔اس نے کہا، سیٹ نمبر 20/ یہیں پہ ہے؟  کسی نے کہا: ہاں۔نمبر 20 / سن میرے کان کھڑے ہوگئے، میرے علاوہ کمپارٹمنٹ کے تقریبا سبھی مسافرین اسے دیکھنے لگے، کہ میں پہلے سے 20/ نمبر سیٹ کا مسافر تھا اب یہ کیسے اسی سیٹ کے مسافر ہوسکتے ہیں؟
معمر شخص کا ٹکٹ لے کر دیکھا اس کی بات درست تھی بوگی نمبر 3،سیٹ نمبر 20/ ۔لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔اتنی دیر میں گاڑی کھل چکی تھی ۔گاڑی پلیٹ فارم سے باہر آگئی اور رفتار پکڑنے والی تھی ۔میرے علاوہ دوسرے مسافروں نے بھی ٹکٹ دیکھے کہ بوڑھے میاں سچ کہہ رہے ہیں یا بھٹک کر یہاں آگئے ۔
لیکن ٹکٹ دیکھ کر ہر کوئی یہی کہنے لگا بوگی نمبر اور سیٹ نمبر بالکل درست ہے ۔مجھے بڑا تعجب ہوا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ الیکٹرانک مشین اتنی بڑی غلطی کردے؟  اس کا ٹکٹ کاؤنٹر سے لیا ہوا تھا جبکہ میں نے آن لائن نکلوایا تھا ۔کل ہی ویٹنگ سے کنفرم ہونے کا ایس ایم ایس آیا تھا ۔لیکن بوڑھے میاں کے ٹکٹ کو دیکھ کر چکرا گیا کہ ایک ہی سیٹ دو مسافر کو کیسے الاٹ کیا گیا۔باری باری وہاں موجود تمام مسافر دیکھ کر کبھی مجھے کبھی بوڑھے میاں کو دیکھتے ۔میں کشمکش میں ہوں ۔بوڑھے میاں پر ان کی عمر کا لحاظ کرتے رحم کھاتے ھوئے سیٹ سے دست بردار ہو جاؤں؟ لیکن پھر میرا کیا ہوگا۔ٹکٹ پر میرے بھی 20/ نمبر کا ہندسہ میری سیٹ کنفرم ہونے کا اعلان کررہی ہے ۔سفر طویل ہے فیملی ساتھ میں ہے ۔ کسی نے کہا ٹی سی سے بات کرو، اسی سے ملو وہی بتا سکتا ہے ایک ہی سیٹ دو مسافر کو کیسے دیا گیا؟ 
گاڑی رفتار پکڑ چکی تھی،  کسی چھوٹے اسٹیشن سے گزر رہی تھی ۔کمپارٹمنٹ کے دوسرے مسافر اسی ٹاپک پر گفتگو کر رہے تھے کہ ایک سیٹ دو دعوے دار؟  دونوں کے پاس کنفرم ٹکٹ ہے ۔ایسا ہوتا نہیں ہے لیکن ہوا کیسے؟  یہ ٹی سی ہی بتا سکتا ہے ۔بوڑھے میاں سیٹ پر بیٹھ چکے تھے کیونکہ ان کے مطابق وہ اپنی سیٹ پر تھے ۔
ایک مرتبہ پھر بوڑھے میاں سے ٹکٹ لیا۔ اب جو ٹکٹ دیکھا تو معلوم ہوا بوڑھے میاں واقعی بھٹک گئے ہیں ۔اور دیگر مسافروں کو بتایا تو سبھی دوبارہ لے کر دیکھنے لگے ۔
دراصل سکندر آباد سے داناپور کے لئے ہی 9:35 کو سکندر آباد دانا پور ایکسپریس یہیں سے بنتی ہے، اسی ٹرین سے بوڑھے میاں کاٹکٹ تھا ،بوگی نمبر 3/ سیٹ نمبر 20/ بالکل درست تھا ۔جس چیز کو درست ہونا تھا یعنی گاڑی، وہ غیر درست تھا۔موصوف وقت سے پہلے آکر سوا چھ کی سوپر فاسٹ گاڑی میں اپنی سیٹ تلاش کر کے مجھے اور دیگر مسافروں کو مخصمے میں ڈال دیا تھا ۔
اب وہاں جتنی زبانیں اتنے ہی مشورے، جس سیٹ کو اپنا سمجھ کر بیٹھے تھے وہ سیٹ اجنبی ہوگئی ۔اب کیا کرے ۔غلط نمبر کی گاڑی پر بیٹھنے سے خود حاصل شدہ سیٹ سے محروم ہوگئے ۔اپنی مطلوبہ گاڑی پکڑنے کے لئے اگلے اسٹیشن پر اُتر کر 4/ گھنٹہ انتظار کرے یا پھر اسی گاڑی میں پنالٹی دے کر ویٹنگ ٹکٹ والوں کی طرح سفر کرے ۔ایک نے مشورہ دیا اسی گاڑی سے چلو ٹی سی سے مل کر کچھ پیسے دیدنا ۔ٹی سی آیا نہیں ۔اس نے سیٹ یا اِس گاڑی کا ٹکٹ بنایا نہیں لیکن 20 / نمبر سیٹ پر ہی بیٹھ کر مغل سرائے تک پہنچے ۔ کیوں؟
کیونکہ بوگی نمبر 3/ سیٹ نمبر 20/ اس کے ٹکٹ پر بھی لکھا ہوا تھا۔ صرف گاڑی بدل گئی تھی ۔یہ اس کے مطلوبہ اسٹیشن پر بھی جارہی تھی۔سفر کرنا تھا کرلیا ۔منزل پر پہنچ گئے ،میری منزل آگے تھی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی