کرونا کال میں بھی ماب لنچنگ : ایک لمحہ فکریہ


از قلم ۔۔۔۔ محمد افروز رضا مصباحی 

پورےملک میں کرونا جیسے مہلک وبا کی مہا ماری ہے ۔ہر طرف موت رقصاں ہے، اموات اتنی کثرت سے ہورہی ہے کہ قبرستان اور شمشان میں جگہ باقی نہیں ۔لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں لیے لائن لگائے کھڑے ہیں کب ان کے میت کا نمبر آتا ہے تاکہ آخری رسومات ادا کرسکے۔موت کی اس قدر کثرت ہے کہ حکومت کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے ہیں، اپنی کوتاہی چھپانے کے لئے راجا صاحب کو مگر مچھ کے آنسو بہانے پڑ رہے ہیں ۔ہر صوبے میں ریاستی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے الگ الگ طریقہ کار سے پبلک گھر میں بیٹھے بیٹھے عاجز آچکے ۔باہر نکلے تو کرونا گائیڈ کا پالن نہ کرنے پر پولیس کے ہاتھوں پیٹے جارہے ہیں، گھر میں بند رہیں تو افراد خانہ بھوکے آہیں بھرے۔فارسی کا مقولہ" نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن" پورے طور پر صادق آرہا ہے ۔زندگی کی ڈور کب کس کی کس وقت ٹوٹ جائے کہنا مشکل ہے۔یہ وبا کسی خاص مذہب کے لوگوں کو نہیں اُچک رہی ہے بلکہ انسانوں کو اپنا لقمہ بنا رہی ہے جس میں ہر مذہب کے لوگ قبرستان، شمشان آباد کر رہے ہیں ۔ قبرستان تنگ دامنی کی شاکی ہے، شمشان گھاٹ جگہ کی قلت ظاہر کر رہی ہے ۔

اسی مہا ماری اور عام وبا کی وجہ سے ہر شخص دوسرے کی خیر خواہی میں لگا ہوا ہے ۔یہ دیکھے بغیر کہ کون کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے ۔کھانے کی پیکٹس،  ضروریات زندگی کے سامان فراہم کیے جارہے جس سے جو بن پڑتا ہے کرنے میں لگے ہیں ۔بعض لوگ جھگیوں میں رہنے والے، سڑک کنارے بریج کے نیچے سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں تک اپنی خدمات کا دائرہ وسیع کیے ہوئے ہیں ۔ان کام، ان کے ٹیم ورک سبھی قابل رشک ہیں ۔

اس مہاماری میں موت کا لقمہ بننے والوں میں اکثریتی فرقہ کی کے لوگ زیادہ ہیں ۔موت کے خوف اور بیماری کے لگ جانے کے ڈر سے باپ، ماں یا رشتہ دار کی ارتھی کو کاندھا دینے کو تیار نہیں، دہشت کا عالم یہ ہے کہ رشتہ داروں کو معلوم بھی ہوجائے کہ فلاں رشتے دار کی موت ہوگئی ہے لیکن ہر رشتہ موت کی چبھن کی وجہ سے پھیکا پڑ چکا ہے۔سامنے آنے کو تیار نہیں ۔یہ مسلمان نوجوان ہی ہے جو ہر شہر میں غیر مسلموں کو شمشان پہنچانے، کاندھا دینے، انتم سنسکار کرنے یہاں تک کے جلانے کا بھی کام کر رہے ہیں ۔مسلمانوں کی فراخ دلی دیکھو کہ مسجد جو محض اللہ کی عبادت، پنج وقتہ نماز کے لیے بنی ہے ،اسے آئی سولیشن کے لئے دیدیا ۔ملک بھر میں کرونا کال کے اس پریڈ میں جتنا کھانے پینے کا سامان تقسیم کیا اور کر رہے ہیں، دوسرے لوگ اس کا تصور نہیں کرسکتے۔ہر موڑ ہر گام پر مسلمانوں کی قربانیاں نیک نامیاں، فراخ دلانیاں اور ہمدردیاں جُگ ظاہر ہے جس سے کوئی آنکھ والا انکار جرآت نہیں کرسکتا ۔ملک سے محبت اس کی خمیر میں ہے ۔یہ ساری خوبیاں ایک طرف اور دشمن عناصر کی بدمعاشیاں ایک طرف ۔

ادھر چند دنوں میں ملک کےبعض حصے میں ایسے واقعات پیش آئے جس نے مسلمانوں کو ہِلا کر رکھ دیا ۔بی جے پی حکومت جب سے بنی ہے مخالفین کو مارنے کا ایک نیا انداز اپنا لیا گیا ہے ۔کسی ایک شخص کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے چند لوگ ہجوم کی شکل میں پیٹنا شروع کردیتے ہیں اس وقت تک مارتے ہیں جب تک کوئی بچانے کو نہ آجائے یا پھر اس کی موت واقع نہیں ہوجاتی ۔اس ہجومی قتل کو ماب لنچنگ کا نام دیا گیا ۔ماب لنچنگ کرنے والے پہلے کسی کو ٹارگٹ کرتے ہیں ۔جرم انجام دینے کے بعد مختلف الزامات لگا کر مارکھانے والے / مرنے والے پر مختلف قسم کے سنگین الزامات لگا کر اسے ہی پولیس کے حوالے کرکے سماج میں ہیرو بن کر اُبھر تے ہیں ۔ماب لنچنگ کرنے والے کو فرقہ پرست عناصر اپنی پارٹی میں شامل کرکے لیڈر بنا دیتے ہیں ۔پولیس کا رویہ بھی عام طور پر مرنے والے کے ساتھ معاندانہ ہوتا ہے۔مار کھانے والے کو پیٹتی ہے، جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتی ہے ۔مختلف دفعات لگا کر اس کی زندگی کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ۔یہ جانے بغیر کے جس جرم کا اس پر الزام ہے اس نے انجام دیا بھی یا نہیں ۔

یوپی کے اناؤ شہر میں فیصل نام کے سبزی فروش کو پولیس نے اس قدر زدو کوب کیا کہ اس کی موت واقع ہوگئی ۔ہریانہ کے گرو گرام جمخانہ چلانے والے آصف کو گاؤں کے انتہا پسند ہندوؤں نے گھیراؤ کرکے اس قدر مارا کہ اس کی موت ہوگئی ۔جبل پور میں بجرن دل کے غنڈوں شیخ محمد نامی شخص کو بے لباس کرکے مارا پیٹا اور ساتھ ہی ویڈیو گرافی بھی کی ۔

مراد آباد میں شاکر نامی شخص کو خود ساختہ گئو رکھشکو نے گوشت رکھنے الزام میں زد و کوب کیا ۔شاکر کے بھائی کی شکایت پر پولیس نے معاملہ درج کرلیا تو دوسری طرف مخالفین نے شاکر کے خلاف کیس درج کروا دیا۔گرچہ اس کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے پولیس کے مطابق اس پر لگے الزامات قابل ضمانت ہیں، اس کا گھر پر ہی علاج چل رہا ہے ۔

یہ چاروں واقعات بی جے پی کے حکمرانی والے صوبوں میں پیش آئے ۔

پہلے کے دو واقعہ میں دونوں متاثر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا، تیسرے واقعہ میں اس شیخ محمد کی موت واقع نہیں ہوئی تو پولیس نے اسی کے خلاف کیس درج کر لیا ۔چوتھے ماب لنچنگ واقعہ میں بھی گئو رکھشکوں کے کہنے پر معاملہ درج ہوا ۔

آخر ماب لنچنگ کا واقعہ رُکتا کیوں نہیں؟  پیش آنے والے واقعات کو دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے ہجوم میں شامل افراد ایک خاص فرقے سے تعلق رکھتا ہے ۔کوئی الزام پہلے گڑھ لیتا ہے پھر ٹارگٹ ماب لنچنگ کی جاتی ہے پولیس کے آنے پراُلٹے متاثرہ شخص کے خلاف ہی معاملہ درج کرکے گنہگار ثابت کرنے کی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر جیل کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے ۔ان معاملات میں پولیس کا رویہ اور طریقہ کار بالکل جانبدارانہ ہوتا ہے ۔متاثرہ شخص کو انصاف دینے کے بجائے اسی پر کئی طرح کے دفعات لگا کر مجرم بنادیا جاتا ہے ۔ماب لنچنگ کے واقعات نہ رُکنے کی وجہ یہی ہے کہ ہجوم میں شامل قاتلوں اور ظالموں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی یا پھر خانہ پوری ہوتی ہے۔معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کے لئے لیپا پوتی کی جاتی ہے ۔جس سے مجرموں کو شہہ ملتی ہے اور اگلے واردات انجام دینے کے لئے تازہ دم ہوجاتے ہیں ۔

ملک کے مسلمان جو برادان وطن کے لئے فلاحی رفاہی اور سماجی کام انجام دیتے ہیں، اس کام سے یہ نہ سمجھیں کہ فرقہ پرست عناصر، ملک دشمن آپ کے فلاحی کاموں کی وجہ سے رحم کھائیں گے، ان کے دل نرم ہوں گے ماب لنچنگ، گئو ہتھیا کے الزامات سے بری کردیں گے، یہ ایسی بھول ہے جس کا خمیازہ نقصان کی صورت میں ہی دیکھنے کو ملے گا۔جن لوگوں کی خمیر میں مسلم دشمنی، سماج میں نفرت کو ہوا دینا ہے وہ لوگ کبھی تمہارے فلاحی کاموں سے خوش نہیں ہوں گے۔

اس لئے کام کرتے ہوئے صرف اتنا ذہن میں رکھیں کہ ہمیں کسی لالچ کے بغیر سماج و ملک کی بہبودی کے لئے کام کر رہے ہیں، اس سے زیادہ کی امید اور سوچ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے انسانیت کے دشمن کبھی تمہارے کاموں سے اپنے برے کرتوت سے باز نہیں آئیں گے ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی