کروں ‏تیرے ‏نام ‏پہ ‏جاں ‏فدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کروں تیرے نام پہ جان فدا۔۔۔۔۔
ناموس رسالت ﷺ کا تحفظ ہر مسلمان کا فریضہ ہے اس میں کوتاہی دین و ایمان کے ضعف کی علامت ہے
از قلم۔۔ محمد افرو ز رضا مصباحی 

      یہ ایک جان کیاہے اگر ہوں کروڑوں
تیرے نام پر سب کو وارا کروں میں
کہتے ہیں امریکہ جب آزاد ہوا تو ایک شخص دونوں ہاتھ پھیلائے سڑک پر مستی میں جارہاتھا،سامنے سے آنے والے ایک شخص سے اس کے ہاتھ کی انگلی ٹکراگئی۔اس نے کہا یہ کونسا طریقہ تمہارے چلنے کا؟آزادی کے جشن میں مخمور شخص نے جواب دیا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ امریکہ آزاد ملک بن چکا ہے ہم سب آزاد ہیں،آزادی ہمارا حق ہے۔ دوسرے شخص نے کہا ہاں آزاد ی ملی ہے لیکن تمہاری آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔کہنے کو یہ ایک تمثیل ہے کہ گرچہ ہر شخص کو آزادی حاصل ہے اور آزادی سے رہنے سہنے بود وباش اختیار کرنے کا حق ہے لیکن کیا ہر شخص کو یہ آزادی دی جاسکتی ہے کہ وہ جو چاہے کرے؟جس کو گالیاں دینا چاہے دے؟جس کی پگڑی اچھالنا چاہے اچھالے اس سے کوئی باز پرس نہ ہوگی؟ اگر ایساہے تو ہر ملک نے اپنے اپنے دستور کیوں بنارکھے ہیں۔ چور وں کو سزا کیوں دی جاتی ہے، جیل کا قیام کیوں عمل میں لایاجاتاہے؟ پولیس،نیشنل گارڈ، فوج اور کورٹ کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟
جمہوریت کے اس دور میں ہر ملک کے قوانین مرتب ہیں جس کی رو سے وہاں کے نظم و نسق کو برقرار رکھاجاتاہے۔ قانونی اعتبار سے وہاں کے حالات کو قابو میں رکھےجاتے ہیں۔ آزادی کی ایک حد ہے،حد سے تجاوز کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ جو حدسے تجاوز کرے ملکی قانون کی رو سے اسے سزا دی جائے گی، جیل میں ڈالا جائے گا،کورٹ میں مقدمہ دائر ہوگا جہاں اس کی سزا اور چھٹکارے کا فیصلہ سنایاجائے گا۔ اگر ہر کسی کو ہر طرح کی آزادی دے دی جائے تو ہر طرف انارکی پھیل جائے گی اورملک بدنظمی کا شکار ہوجائے گا،ترقی کی راہیں مسدود ہوجائے گی۔آزادی ئ اظہار رائے جمہوریت کی دین ہے لیکن کیا کوئی ملک اس بات کی اجازت دے گا کہ قومی ہیرواورملک کی بڑی کرسیوں پر بیٹھے افراد کے خلاف ہتک آمیز تبصرہ کیا جائے اور ملک کی سیکوریٹی اس کو برداشت کرلے؟
دو روز قبل دہلی کی پریس کلب آف انڈیا جیسے معتبر ادارے میں پریس کانفرنس کرکے ایک دریدہ دہن شخص نے مسلمانوں کے پیغمبر کے خلاف جس کی غلاظت منہ نکالی ہے۔اس نے ہر کلمہ گو مسلمان کو اذیت میں مبتلاکردیااور جسم و روح کو زخمی کردیا۔ یہ پریس کانفرنس نرسنگھا نند سرسوتی کی قیادت میں منعقد ہوئی۔جس میں سرسوتی کے علاوہ ”اکھل بھارت ہندو مہاسبھا‘ کے ادھکیش،ہندو فورس کے ادھکیش اور ریٹارڈ کرنل تیاگی، کارگل جنگ میں موجود رہے ”بابا پروند ر رارے،خصو صی طور پر مدعو تھے، کئی میڈیا چینل والے بھی موجود تھے،پریس کانفرنس میں موجود ہر ایک نے اپنے اپنے خیالات رکھے اور میڈیا کے کئی سوالات کے جوابات بھی دیے۔ 
پریس کانفرس میں مذکورہ افراد نے اپنے وِچار رکھے۔ہر ایک کے وچار مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے والے تھے۔ ان لوگوں نے جہاد کی آڑ لے کر اسلام اور مسلمانوں کو خوب نشانہ بنایا،مسلمانوں کو جہادی، قاتل لٹیرا اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سی گالیاں دی۔ نرسنگھا سرسوتی نے بطورخاص ساری دنیا کے مرکز عقیدت،پیغمبر امن وامان صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسے الفا ظ استعمال کیے جسے ایک مسلمان نہ سن سکتاہے نہ نقل کرسکتاہے۔
مذہبی معاملہ حساس ہوتاہے پھر جس شخصیت سے کروڑوں افراد کے جذبات کا وابستہ ہوں، جن پر زندگی نثار کرنا زندگی کی معراج تصور کی جاتی ہو، جن کے قدموں کی دھول آنکھوں سے لگانے کو دنیا کی عظیم ترین شے سمجھی جاتی ہو،ان کے بارے میں گستاخانہ کلمات ادا کرنا آخر کانسٹی ٹیوشن کے کس پیج پر،کس دفعہ کے تحت لکھا ہواہے؟ دنیا کا ایسا کون سا ملک ہے جو اس بات کی اجازت دیتاہے کہ اس کے قومی ہیرو کو بر ا بھلا کہاجائے؟کیا دنیا میں پائے جانے والے کسی مذہب نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اس کے یا کسی دوسرے مذہبی مہاپُرشوں کے خلاف، جسے لوگ دیوی، دیوتا، بھگوان، یابڑی اہم شخصیات مانتے ہیں،ان کے بارے میں کسی طرح کی توہین آمیز کلمات ادا کیے جائیں؟اگر نہیں تو پھر مسلمانوں کے پیغمبر کے خلاف اس طرح کی دریدہ دہنی کرنے کی کیسے اجازت دی جاسکتی ہے؟مسلمان کسی بھی مذہب کے پیشواؤں کے خلاف کوئی بھی غلط بیانی نہیں کرتا،نہ کسی کے جذبات سے کھیلتاہے،نہ کسی کے مذہبی جذبات بھڑکاتاہے کیونکہ اس کے اسلام نے ایسے کام سے روکا ہے جس سے پلٹ کر سامنے والا نادانی میں مسلمانوں کے پیغمبریااللہ پاک کو برا بھلاکہے۔

امن کا قیام ایک دوسرے کو دکھ تکلیف دے کر نہیں بلکہ ایک دوسرے کے احترام اور جذبات کا خیال رکھ کر ہی قائم ہوسکتاہے۔پریس کلب میں سر عام مذہب اسلام، مسلمان اور نبی آخر الزماں ﷺکے خلاف بیان بازی کرنے سے دنیا میں امن قائم ہوسکتاہے؟کیا اس طرح کی دریدہ دہنی کو آزادیئ اظہار رائے کہا جاسکتاہے؟ دراصل یہ لوگ امن کے دشمن، ملک کے دشمن اور انسانیت کے دشمن ہیں۔ یہ لوگ مذہبی لبادے میں سماج دشمن عناصر ہیں جو مذہب کی آڑ لے کر دوسروں کے دلوں کو مجروح کررہے ہیں۔ 
یہاں پر یہ بھی سوال پوچھا جاسکتاہے کہ پریس کلب کو کسی مذہبی پیشوا کے خلاف ہتک آمیز گفتگو، کسی مذہب کو ٹارگیٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے؟اگر نہیں تو پھر اس کی اجازت کیوں دی گئی؟ ملک کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کر نے پر ان کے لوگوں کے خلاف قانونی کار روئی کیوں نہیں کی گئی؟
مسلمانوں کی غیرت اور حمیت کو بار بار للکاراجاتاہے، جذبات مجروح کیے جاتے ہیں۔، پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا کلمات کہے جاتے ہیں۔ ان کی شان اقدس میں بیہودہ کلمات بکے جاتے ہیں جسے ایک مسلمان کسی طرح بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ایسے توہین آمیز کلمات  سے ہر مسلمان تڑپ اٹھتاہے اس کا بس نہیں چلتا کہ کیا کرگزرے۔اس ملعون شخص کے خلاف ملک کے کئی مقامات پر ایف آئی آر درج کرائی گئی لیکن جیسا کہ ملک کا جو ماحول ہے اور موجودہ حکمران نے بنادیا ہے اس سے معلوم ہوتاہے اس کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہوگی، اس کی گرفتاری عمل میں نہیں آئے گی، جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں ڈھکیلاجائے گا۔لیکن حکومت کو سمجھ لینا چاہئے کہ قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوگی تو کوئی سرپھر ا اس کا کام کرگزرے گاکیونکہ جہاں جان ایمان،پیغمبر اسلام کا معاملہ ہو تو پھر وہاں دماغ کام نہیں کرتا۔غیرت ایمانی اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ کوئی میرے نبی کو برا بھلا کہے اور میں زندہ رہوں حکومت اپنا کام کرے اور خردماغ،مہنت کے لبادے میں ملبوس بھیڑیے کے خلاف کار روائی کرے اور مسلمانوں کو یقین دلائے کہ ایسا آئندہ نہیں ہوگا،قانون اپنا کام کرے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی