کیا ‏کرونا ‏سے ‏بچنے ‏کی ‏آخری ‏تدبیر ‏لاک ‏ڈاؤن ‏ہی ‏ہے ‏؟

کیا کرونا سے بچنے کی آخری تدبیر لاک ڈاؤن ہی ہے؟
از قلم۔۔محمد افروز رضا مصباحی،گلبرگہ

پورے ملک میں کرونا کا دوسرا سیزن پورے کرو و فر کے ساتھ قہر ڈھارہاہے۔ پازیٹو مریضوں کی تعداد روزانہ کے اپ ڈیٹ کے اعتبار سے لاکھ کے آنکڑے کو کراس کرچکاہے۔مرنے والوں کی تعداد سیکڑوں میں بتائی جارہی ہے۔ جس سے ہر طرف ہاہاکار مچاہواہے۔ لوگوں میں سراسیمگی کی کیفیت ہے۔ بھوک اور موت دونوں کاخوف لوگوں میں پایاجارہاہے۔حکومت بچاوے کی جو بھی کوششیں کررہی ہے اس سے کرونا قابو میں آتا نظر نہیں آرہاہے۔ ہندوستان میں دی جانے والی ویکسین کوئی خاص بچاوے کا کام نہیں دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ویکسین لے چکے ہیں وہ پازیٹو پائے گئے۔یا بعض کی حالت ناز ک ہوگئی اور دنیا سے چل بسے۔ایسی حالت میں ویکسین خود مشکوک ہوگئی ہے۔ شری موہن بھاگوت جی ویکسین لینے کے باوجود پازیٹو ہوگئے ابھی ہاسپٹل میں زیر علاج ہیں۔
پورے ملک میں کرونا کا خوف طاری ہے۔ مہاراشٹر ا سب سے زیادہ متاثرہ ریاست ہے جہاں پورے ملک کے مقابلے نصف مریض اسی ریاست میں نکل رہے ہیں۔یہاں ویکسین کا اسٹاک بھی نہایت کم ہوچکاہے۔ مرکزی حکومت سے مطالبے کے باوجود اتنی ڈوز فراہم نہیں کی جارہی ہے جتنی اس ریاست کو ضرورت ہے۔ ریاستی حکومت الزام لگارہی ہے کہ غیر بی جے پی ریاست کے ساتھ مرکزی حکومت بھید بھاؤ کررہی ہے۔ جہاں بی جے پی حکومت ہے وہاں ویکسین کی کمی نہیں لیکن جہاں غیر بی جے پی حکومت ہے وہاں ویکسین کی قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے کئی سینٹر بند کرنے پر گئے۔ 
ملک کے پردھان منتر ی نے ریاستی وزارئے اعلی کے ساتھ کرونا کے بڑھتے حالات کو قابو میں کرنے کے لیے مشاورت کی جس میں مختلف تجاویز سامنے آئے۔ ملک کی کئی ریاست میں نائٹ کرفیو جاری ہے جہاں نہیں ہے وہاں کی اسٹیٹ حکومت نے نائٹ کرفیو کا سرکیولر جاری کردیا۔ بعض علاقے جو زیادہ متاثر ہیں وہاں چوبیس گھنٹے کا لاک ڈاؤن لگایاجاچکاہے۔ حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لاک ڈاؤن سے ایک مرتبہ پھر لوگوں کی زندگی دشواریوں کے گرداب میں پھنستی نظر آرہی ہے۔فیکٹری، سنیماہال، سیومنگ پول، ہوٹلز بند ہونے سے پریشانیاں دوچند ہوگئی ہیں۔ایک بار پھر اپنے اپنے گاؤں کے سفر پر نکل گئے ہیں جس کی وجہ سے اسٹیشنوں پر کافی بھیڑ دیکھی جارہاہے۔ لوگ کسی طرح اپنے گاؤں پہنچناچاہتے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سب سے پہلے عبادت گاہوں پر بندشیں لگائی جاتی ہیں جس سے عبادت گزاروں کو بڑی تکالیف اور دلی صدموں سے گزرناپڑتاہے۔ آخر لاک ڈاؤن کا سب سے بُرا اثر عباد ت گاہوں پر ہی کیوں پڑتاہے؟ حکومت سب سے پہلے اسے ہی کیوں نشانے پر لیتی ہے؟ملک کے کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات چل رہے ہیں، لوگوں کی بھیڑ جمع ہورہی ہے، بڑے بڑے لیڈران یہاں تک کے ملک کے پرائم منسٹر اور ہوم منسٹر بھی روڈ شو کررہے ہیں، ریلیاں کررہے ہیں لیکن وہاں نہ تو کرونا کے گائیڈ لائن کا اَتا پَتاہے، نہیں لوگ ماسک اور سیناٹائز کا استعمال کرتے ہیں۔ہر طرح سے کرونا گائیڈلائن کی خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن وہاں کروناتباہی نہیں مچاتا۔لوگوں کا الزام ہے کہ یہ وبائی مرض کے بجائے سیاسی مرض ہے۔جہاں الیکشن ہوتاہے وہاں کرونا داخل نہیں ہوتا،سیاسی لوگوں سے اس کے سانٹھ گانٹھ ہیں تبھی تو کسی کو کوئی مرض لاحق نہیں ہوتا۔بعض کا الزام ہے بیماری تو ہے لیکن اسے ہوّا بنادیاگیاہے۔ بعض کا کہنا ہے حکمراں جماعت کے پاس لاک ڈاؤن ایک حربہ ہے جسے جب مرضی آئے اپنی ضرورت کے تحت استعمال کیا جاسکتاہے۔ آخر اتراکھنڈ میں کمبھ کا میلالگاہواہے جہاں اندازے کے مطابق ایک کروڑ لوگ پہنچیں گے۔ کیا یہ ممکن ہے وہاں کرونا گائیڈ لائن پر عمل کیاجاسکے؟ لیکن وہاں کوئی خطرہ،نقصان اور وبائی مرض نہیں ہے۔

کرونا انفکشن سے بچنے کے لیے کیا لاک ڈاؤن آخر ی تدبیر ہے؟ اس کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی چارہئ کار نہیں ہے؟لاک ڈاؤن سے ہی کروناپر قابو پایاجاسکتاہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں؟ کرونا کو روکنے کی تدابیر انتہائی ضروری ہے لیکن لاک ڈاؤن سے ہونے والے نقصانات سے اس میں اضافہ ہی ہوگا۔لاک ڈاؤن کی تباہ کاریاں ہم لوگ دیکھ چکے ہیں۔پچھلی بار لاک ڈاؤن کار آمد ثابت نہیں ہوا تھا۔مزدور طبقہ پہلے پریشان ہوا اب بھی دوبارہ پریشانی میں مبتلاہوگیا۔ حکومت عوام کی سوالات کے گھیرے میں ہے لیکن عوام کو کوئی جواب نہیں مل رہاہے۔ پچھلے کرونا پریڈ میں لوگ اَدھ مرے ہوگئے، معیشت تباہ ہوگئی، آمدنی کے ذرائع بند ہوگئے جس سے اموات کی شرح بھی بڑھ گئی جسے کرونا میں شامل کرکے بیماری کی خطرناکی اور خوفناکی کو پبلک کے سامنے پیش کیا گیا۔ حکومت نے پچھلے لاک ڈاؤن سے کوئی سبق نہیں سیکھا،گزشتہ لاک ڈاؤن بھی اچانک لگایاگیا پھر چودہ روز، دس روز، ایک مہینہ کے اعتبار سے بڑھاتے رہے، تالی اور تھالی پٹواتے رہے لیکن علاج کی راہ نہیں نکالی گئی،نہ کوئی دوسرا متبادل طریقہ کار پر غور کیا گیا۔ ابھی کئی ریاستیں لاک ڈاؤن لاگو کرنے پر غور کررہی ہے لیکن عوام کاکیا ہوگا،ذرائع آمدنی بند ہوگئی تو کیسے زندہ رہیں گے؟اس پر توجہ نہیں ہے۔ گزشتہ لاک ڈاؤن میں جن لوگوں کے پاس روپے پیسے تھے،انسانی ہمدردی کے تحت بہت زیادہ امداد و تعاون کیا،گھر گھر کِٹ پہنچاکر انسان دوستی کا ثبوت دیا۔مگر ابھی وہ صورت حال نہیں ہے۔ معیشت کی گاڑی ہر ایک کی پٹری سے اتری ہوئی ہے۔ ممکن ہے اگر لاک ڈاؤن لگایاگیا یاجہاں لگایاجاچکاہے زیادہ دنوں تک چلا تو لوگ کرونا سے کم بھوک سے زیادہ مریں گے۔حکومت لاک ڈاؤن لگانے کے ساتھ غریبوں،مزدوروں اور ضرورت مندوں کے بارے میں بھی سوچے۔کہیں ایسا نہ ہو لاک ڈاؤن سیکڑوں لوگوں کی روزی چھین کر موت کے منہ میں پہنچادے۔
رمضان المبارک مسلمانوں کا ایک مہینہ ہے،اس ماہ میں لوگ عبادت گاہ سے جاتے ہیں، رات میں تراویح ہوتی ہے۔ اگر عبادت گاہیں بند کردی جائیں گی تو یہی سمجھاجائے گا کہ حکومت ایک خاص کمیونیٹی کو ٹارگیٹ کررہی ہے۔ پچھلے کرونا پریڈ سے یہ کھیل شروع ہوا کہ جب مسلمانوں کا تہوار آتاہے کسی بہانے اسے خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مساجد کوبند کرنا کوئی حل نہیں ہے۔سچ یہ ہے کہ کرونا کے احتیاطی تدابیر میں سب سے زیادہ تعاون عبادت گاہوں نے ہی دیا۔شاپنگ مال،کلب اور بیئر بار وغیرہ ان سب کی بے احتیاطی نے حکومت کے احتیاطی طریقہ کار سے کھلواڑ ہی کیا۔جس طرح دوسری جگہوں پر فاصلے کے ساتھ کام کرنے کی آزادی ہوتی ہے اسی طرح مساجد میں بھی پانچ لوگوں کے بجائے فاصلے کے ساتھ جتنے لوگ آسکتے ہیں اُتنے لوگوں کو آنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ورنہ یہی پیغام جائے گا کہ ایک جمہوری ملک میں مسلمانوں کے ساتھ تفریق برتی جارہی ہے جبکہ کمبھ میلے میں کوئی رُکاوٹ نہیں، اسمبلی انتخابات میں کوئی گائیڈ لائن نہیں،سیاسی لیڈران کے ریلیوں میں کوئی وبا نہیں لیکن عبادت گاہوں میں وبا آدھمکتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی